پرانے زخم - ایاز امیر

نبیل

تکنیکی معاون
2002ء کے صدارتی ریفرینڈم، اس کے بعد ہونے والے پارلیمانی اور لوکل باڈیز کے انتخابات میں اپنے مطلب کے نتائج برآمد کروانے کے بعد اب جنوری 2008 میں قوم کے ساتھ جو مذاق کیا جانے والا ہے، اس پر ڈیلی ایکسپریس میں تبصرہ نگار ایاز امیر نے ایک کالم لکھا ہے۔

حوالہ : پرانے زخم - ایاز امیر

چوہدری پرویز الہی پیپلز پارٹی کے خلاف ہجو گوئی کے باوجود بھی پریشان ہیں۔ 26 نومبر کو تلہ گنگ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے آئے، ان کو ملنے والا پروٹوک دیدنی تھا۔ قدیم دور کے منصب دار کی طرح سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔ موٹر وے سے تلہ گنگ تک پولیس چوکس کھڑی تھی اور مکمل پروٹوکول دے رہی تھی۔
مشرف کا اقدام ان کو بہت دکھی کر گیا ہے۔ ان کی طاقتور یونیفارم کسی اور کے جسم پر سج چکی ہے۔ طاقت کے عروج کے دور میں دو قسم کے سویلین ان کے قصیدے لکھنے اور ان کی کامیابیوں کے گیت سنانے ہر وقت ان کے گرد رہتے، ان میں ایک ضلعی ناظم تھے اور ایک ق لیگ کے بھانڈ۔ آج مالی وسائل اور مقامی سطح پر اختیارات کے ساتھ وہ ق لیگ کے مایوس امیدوار کی کامیابی کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ کاغذات نامزدگی سے لے کر انتخابی نتائج کے اعلان تک تمام انتخابی عمل ماتحت عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ خود مختار عدلیہ کے بغیر شفاف انتخابات کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ پی سی او کے ہتھوڑے سے جس طرح عدلیہ کا قبلہ درست کیا گیا اس کے بعد سب جانتے ہیں آج عدلیہ کس حالت میں ہے۔ جن حالات میں مشرف کے صدارتی انتخاب کا راستہ ہموار کیا گیا، اپوزیشن نے وقتی سمجھوتہ کرتے ہوئے اگلے انتخابات میں شرکت کا بادل نخواستہ فیصلہ کیا ہے۔

ایوان صدر صرف اندھوں کی جائے پناہ کیوں ہے؟ اس اعلی ایوان کے مکین کیوں حقائق سے خوفزدہ رہتے ہیں؟ کیا ایسے بدنما انتخابات پاکستان کی ضرورت ہیں یا پھر آج ان کی حکمرانوں کو ضرورت کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے؟ شاید ایوان صدر کی اپنی ہی کوئی دنیا ہے۔ اس کے مکین پر نہ تو کوئی ریاستی ذمہ داری ہے اور تاریخ کا اسے کوئی خوف ہے۔ اپنے اقتدار کی بقاء ہی اس کی منزل ہے اور اس ایوان کو کسی دوسری فکر سے آشنا ہی نہیں ہونے دیا گیا ہے۔

چوہدری شجاعت اور خصوصاً چوہدری پرویز الہی صرف ضلعی سطح کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر نظریں مشرف کی اشیرباد سے انہوں نے وزارت عظمی پر گاڑ رکھی ہیں۔ شوکت عزیز بھی اسی قبیل کے سیاست دان تھے۔ اس ملک کے ساتھ اور کتنا بڑا مذاق مشرف کرنا چاہتے ہیں۔ کاش مشرف قوم کے ساتھ اس مذاق سے کم از کم گریز کریں۔
 
Top