ٹشو پیپر اور رومال

زرقا مفتی

محفلین
ٹشو پیپر اور رومال
یوں تو آج ہم اپنا ۶۰واں یومِ آزادی پورے جوش و خروش سے منا رہے ہیں مگر مجھے نہ جانے کیوں یہ جشن مصنوعی لگ رہا ہے۔جانے کیوں بار بار دل سے یہ آواز نکلتی ہے ہم آزاد نہیں ہیں غلام ہیں۔ اپنی تقدیر بدلنا تو کُجا معمولی فیصلوں میں بھی ہم آزاد نہیں ہیں۔ اور لوگوں کی طرح یہ بہت آسان ہے کہ میں بھی اپنی قوم کی زبوں حالی کا دوش حکمرانوں کے سر ڈال کر خود بری الزمہ ہو جاؤں۔ مگر اس قوم کی اس ملک کی مجرم میں بھی ہوںاور میرے ساتھ اس ملک کی ساری عوام بھی مجرم ہے۔
ہماری تقدیر کے فیصلے پوشیدہ آہنی ہاتھ کرتے ہیں جنہیں ہم دیکھنے سے قاصر ہیں۔ مگر اپنی تقدیر ان ہاتھوں میں کس نے سونپ رکھی ہے۔ایک قوم کی حیثیت سے ساٹھ سال کی عمر کیا بالغ النظر ہونے کے لئے کافی نہیں۔ پھر ہم ایسے حکمران کیوں چُن لیتے ہیں جوآہنی ہاتھوں میںٹشو پیپر یا رومال کا کام دیتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان وہ رنگ برنگے رومال ہیں جو امریکی صدر کی جیب میں سجنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ اب یہ امریکی صدر کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس رومال کو اپنے کوٹ کی جیب میں جگہ دے۔ یا کتنی مدت بعد کسی رومال کی قسمت جاگے۔
ہمارے آمر ایسے نرم و نازک ٹشو پیپر ہیں جن کو امریکی قیادت کسی بھی viral diseaseمیں مبتلا ہونے پر استعمال کرتی ہے ۔ ہمارے یہ آمرانہ ٹشو پیپر افغانستان میں روسیvirusاور پھر اسامہ نامی virus کے پھیلنے پر امریکی قیادت کے خوب کام آئے۔امریکی قیادت جو عالمگیری سیاست کی شطرنج پر سب کو شہ مات دے چکی ہے دنیا سے ایسے تمام viruses کا خاتمہ چاہتی ہے جو اس کی ناک میں کھجلی پیدا کریں یا پھر کسی چھینک کا موجب بنیں۔تو پھر استعمال شدہ ٹشو پیپر ز کیوں سنبھال کر رکھے کہیں ان میں دوبارہ virus کی نشو ونما شروع ہو گئی تو.......
اسی لئے تو ایک گلابی رومال کی قسمت جاگنے والی ہے
اور قوم کی قسمت کا کیا ہو گا......
غلاموں کی قسمت کا کیا ہوتا ہے
غلام تو تو حشرات الارض کی طرح ہوتے ہیں
ایک اسپرے میں ختم.........
یہ اور بات ہے ہم جیسے غلاموں کے لئے اسپرے کی بجائے بم کارآمد ہیں
آخر اسلحے کا کاروبار ٹھپ تو نہیں کرنا
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کب اپنے ملک کی سیاست اور حکومت کو رومالوں اور ٹشو پیپروں سے پاک کر تے ہیں
دل سے تو ایک ہی دُعا نکلتی ہے
پاکستان زندہ باد
زرقاؔمفتی
 

Attachments

  • tissue paper.jpg
    tissue paper.jpg
    94.3 KB · مناظر: 3
Top