ووٹ بمقابلہ توپخانہ۔۔۔۔۔امر سندھو

liveill01-670.jpg

السٹریشن — خدا بخش ابڑو

کیا واقعی ان کو یقین ھو چلا ھے کہ اب ووٹ ان کے توپخانے پہ بھاری پڑ رھا ھے، کیا اب انکو اسکا بھی یقین آ چکا ھے ووٹ کی پرچی ان کے کسی ٹینک و میزائل سے زیادہ طاقتور ھے، کیا وردیوں میں اکڑے جسم بھی یہ بھید جان گئے ہیں کہ گر ووٹ کی پرچی کی حکمرانی ہو تو انکی وردی تو وردی کھال تک اتار سکتی ھے۔
چک شہزاد کا باندی کمانڈو اس دن کو کوس رھا ھوگا جب اسکی کمانڈو ٹریننگ بھی اس بظاھر گداگر مگر جادوگر عوام کو اس پرچی کے استعمال سے روک نہ پائی۔ اسکا زوال پاکستان میں لے آنے والے اس طیارے کی لینڈ سے شروع نہیں ھوا تھا۔​
حساب میں درستگی ھو کہ انکے زوال کی الٹی گنتی اس دن شروع جب ایک بہت بڑی قربانی کے بعد آگ و خون کا دریا پار کرکے یہ خلقِ خدا ووٹ کی پرچی پہ من پسند جگہ پہ ٹھپہ لگا کر اسے بیلٹ باکس کے حوالے کر آئی تھی۔​
آگ و خون پار کرنے کے حوصلے کے آگے کمانڈو کا سارا بارود خانہ بیکار گیا اور پس تم نے دیکھا کہ وردی کے ساتھ کھال بھی گنوائی۔ جس نے سولہ کروڑ پہ بلا کسی روک ٹوک حکمرانی کے مزے اڑائے اسکی گردن کی اکڑ البتہ باقی تھی۔ یہ ہینگ اوور بلاآخر چک شہزاد میں اختتام پذیر ھوا کہ کہا جا سکتا ھے کہ جہاں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جائے ایسی ھے تنھائی۔۔۔۔۔۔۔۔​
سدا ٹوپی کے اندر رھنے والے سر اور ایک ھی چھڑی سے ھانکنے والی مخلوق پہ پہلے دن سے یہ راز آشکار ھو چکا تھا کہ وہ چھڑی کے سہارے ساری قوم کو اس وقت تک ھانک سکتے ہیں جب تک جادوگر ایسی خلقِ خدا کی جان نہ لے کہ جادوگر کی طرح اسکی جان اس پرچی والے طوطے میں ھے۔ اور پھر آپ نے دیکھا کہ اس راز کو چھپانے کے لیئے کیا کیا حربے استعمال میں نہیں آئے۔​
پہلے فیلڈ مارشل لا نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے اس راز کو چھپانے کے لیئے، بنیادی جمہوریتوں کا نسخہ لے کر اس نے خلق کو بہلانے کے لیئے مداری سا تماشا رچایا مگر اللہ بھلا کرے اس محترمہ فاطمہ جناح کا کہ آڑے آگئیں۔ وہ جب میدان میں اتریں تو پھر پرچی کو روکنے کے لیئے پہلی دفعہ سڑک خون سے رنگین ہوئی۔​
وردی میں چھپے دوسرے رنگیلے بادشاہ سے بھی یہ غلطی سرزد ہو ہی گئی کہ وہ اپنی چھڑی سے پرچی کے تماشے میں خلل نہیں ڈال سکے یوں پھر بیلٹ باکس سے ملنے والی طاقت کو اسمبلی میں پہنچنے سے روکنے کے لئے جو تاریخ رقم کی گئی اس نے ڈھاکہ میں ھماری جنگی بربریت کا ایک دل سوز میوزیم بنا ڈالا جس کو دیکھنے والا ھر شخص طاقت کے ایسے استعمال پر لعنت ڈالنا فرضِ انسانی کی طرح انجام دیتا آگے بڑھتا ھے۔​
طاقت کے اس وحشیانہ استعمال کے بعد بھی رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا مگر پھر بھی باقی ماندہ حصے کو چھڑی کے سہارے چلانے کی رغبت نہ گئی۔ پانچ سال تعمیرِ نو کے نہیں اپنی عالمی رسوائی کو چھپانے کے لیئے درکار تھے سو دل پہ جبر کے ساتھ وہ ایک سویلین کو سلیوٹ کرنے پہ مجبور ھوئے۔​
پانچ سال کے بعد پھر جادوگر خلق کی باری تھی کہ پرچی کے طوطے تک پہنچے مگر پھر یوں ھوا کہ رنگیلے بادشاہ کی سی غلطی دھرانے سے پھلے اور جادوگر کی بلیٹ باکس میں ڈالی گئی طاقت تک رسائی سے پہلے ھی صرف ایک سڑک ھی نہیں پورا ملک خونِ انسانی سے رنگین کرنا طے پایا۔​
اور پھر کسی وار روم میں ڈزائن کیئے گئے اس خاکے میں رنگ حقیقی بھرنے کے لیے ھمارے شھر خون سے رنگین ھوئے تب ٹرپل ون برگیڈ نے چنے ھوئے وزیرِاعظم کے گھر کی دیوار پھلانگی اور یوں بیلٹ باکس مین پڑی پرچی کی طاقت اور جادوگر کی جان چکلالہ کے ھیڈ کوارٹر میں مقید ھوئی اور پس آپ نے دیکھا کہ ان گیارہ سالوں میں اس خاک میں سعود کے پودوں اور لبیکِ جہاد کے لیئے سروں کی کون سی فصل تیار ھوئی۔ اس ایک آنکھ والے سپاھی کی بدولت صرف نماز کا قیام آسان نہیں ھوا بلکہ اسکی تیار فصل نے مسجدوں کو اڑانا بھی فضیلتِ ثواب قرار دیا۔​
اس فصل کی تیاری بھی اس وار روم کے دماغی سرگرمی کا نتیجہ کہ کسی طرح ووٹ کی پرچی پہ طاقت کا گماں زائل ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کیا اور یاد دلائیں تجھہ کو جاناں، کہ اس ایک ووٹ کی پرچی چرانے کے پیچھے پچھلے دس بیس سالوں میں کیا کیا ڈرامے نہیں ھوئے۔ کبھی آئی جے آئی، کبھی پی ٹی آئی۔ مگر پھر بھی اس جادوگر عوام کو چکمہ دینا اب اتنا آسان نہ رھا تھا، ہاں کرپٹ سہی مگر اس گندے سویلین نے ایک کام ضرور کیا کہ وہ مر مٹتا مگر ووٹ کی پرچی کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔ اور یوں دوسری خاتون لیڈر آڑے آئی تو اس کے سر کو بھی آساں نشانے کی طرح اڑایا گیا مگر اترتی کھال کے ساتھ اب پرچی کو روکنا مشکل تھا اس لیئے پانچ سال پھر گندے سویلین کو دینا ہی پڑے۔​
پرچی کی طاقت کی رہائی بارود خانی کی تباھی تھی اور اسکو روکنے کے لئے ایک طرف کافروں کا نشانہ لینے کی تربیت پانے والی فورس تھی کہ میدانوں چٹانوں تک اسکی تربیت گاہیں بنی ھوئی تھیں۔ ھر سوچنے والا سر ان کے نشانے پہ تھا تو دوسری جانب میڈیا کا استعمال بھی اب دو طرفہ تھا کہ ایک طرف اسپانسر برگیڈ تھی جس نے قومی غیرت و اسلامی وقار کا جھنڈا بلند کرتے ھر اس چیز کو اسلام کے دائرے سے خارج قرار دینا تھا جس میں دو رتی بھی عوام کے فائدے کی بات ھوتی۔ کیا جمہوریت، کیا الیکشن اس غیرت برگیڈ کے آگے تو پولیو کے قطرے پلانے والے ورکر بھی پولیو کی پچکاری میں کفر لیئے پھرتے سو ان کو مارنا بھی جائز ٹھرا۔​
اس میڈیا نے بدلتے وقت کو بھانپتے ھوئے ووٹ کی پرچی کی اھمیت بھی سمجھائی تو ساتھ میں پتلی تماشا جاری رکھا، رائی کو پہاڑ بنانے کا کام بھی اس میڈیا کی اسائمنٹ کا حصہ بنا مگر اب تو جادوگر بھی کچھ چالاک بنا تھا اور ووٹ کی پرچی کا مطالبہ تیز تر ھوا تو پرچی چرانے کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی آئی۔​
خدا بھلا کرے اصغر خان کا کہ انکے کورٹ میں فریاد ڈالنے سے آئی جے آئی والا فارمولا اب کام کرتا دکھائی نہ دیا تو پی ٹی آئی سے زیادہ امیدیں باندھنے کے بجائے وار روم میں ایک اور ڈیزائن کو آگے بڑھانا طے پایا۔​
نئے ڈیزائن میں پرچی چرانے کے اس ڈرامے میں بظاھر یہ لگتا ھے بگ وگ بھی چھڑی کے ساتھ ھو لی ھے۔ اس لیئے پرچی کے لیئے جوں جوں نعروں میں گرمی بڑھتی جا رھی ھے، سڑک پہ خون کی لالی نمایاں ھوتی جا رھی ھے۔ آگ و خون کے اس دریا کو پار کرنے سے ووٹ کی پرچی کی طاقت تک پہنچنا ممکن ھوگا۔۔۔۔۔۔​
خبردار، ہوشیار۔۔۔۔۔۔۔
آگ و خون کے کھیل میں آپکی پرچی چرانے والے پھر سے سرگرم ھوئے چاھتے ھیں ۔
خبردار، ھوشیار۔۔۔
کہ اس دفعہ پرچی کی چوری کے اس ڈیزائن میں کہیں وہ کھلاڑی بھی شریکِ کھیل تو نہیں جن کے سر پہ انصاف کی وگ کی آزادگی بھی آپ کے سڑک پہ بہتے خون کی بدولت ممکن ھوئی تھی۔​
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top