وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا امریکن پاکستان فاؤنڈیشن کےا فتتاحی عشائیہ سے خطاب

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

11 دسمبر 2009
کیپریانی 42nd اسٹریٹ،نیویارک سٹی، نیویارک

وزیر خارجہ کلنٹن: آپ کا بہت بہت شکریہ- میں معین قریشی کے انتہائی شفیق تعارف کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں، اور میرے خیال سے، میں آج کے بعد جہاں پر بھی جاؤں گی، میں ان سے ہی اپنا تعارف کروانے کی درخواست کروں گی- (قہقہہ-) مجھے خصوصی طور پر یہ اعزاز حاصل ہوا، کہ میرا تعارف ایک ایسی شخصیت نے کروایا ہے جس نے پاکستان کی بہت اچھی طرح خدمت کی ہے- حالاں کہ انھوں نے نگران وزیر اعظم کا عہدہ کچھہ مہینوں کے لیے سنبھالا، انھوں نے معیشت کو مستحکم کرنے، بدعنوانی سے نمٹنے اور پاکستان کو مستقبل کے لیے ایک بہترین راہ پر گامزن کرنے میں گراں قدر مدد کی ہے- اور ہمیں اعزاز بخشنے، اور مجھے اس نئی فاؤنڈیشن کا اعزازی چئیرمین بنانے کا شکریہ- (تالیاں-)

کسی بھی امریکی کے لیے یقیناً یہ اعزاز ہے کہ وہ ایک دوست اور پیش رو، جنرل کولن پاول کے ہمراہ ہو، جنھوں نے وقف کیا – (تالیاں) – انھوں نے اپنی زندگی کو اس فاؤنڈیشن کے ممالک کے درمیان تعاون و ترقی، فلاح اور امن و امان کے حصول پر مبنی مشن کے تحّفظ اور پیش قدمی کے لئے وقف کر دی ہے- جنرل پاول کا امریکن پاکستان فاؤنڈیشن کا اعزازی کو-چئیرمین بننے پر آمادگی سے مجھے بڑی خوش ہوئی ہے- (تالیاں-)

میں اپنی دوست نفیس صادق کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، جنھیں میں کئی سالوں سے جانتی ہوں اور اس سے بھی کہیں زیادہ عرصے سے سراہتی رہی ہوں- انھوں نے عالمی سطح پر کئی شعبوں میں کام کیا ہے، لیکن آج کل وہ بالخصوص ان کی HIV/AIDS کے خاتمے کی جنگ اور زچّہ و بچّہ کی صحت کی بہتری کے


لیے مشہور ہیں- ہم سب بہت شکر گزار ہیں کہ ان سخت طالب اور پر جوش ایّام میں وہ اس فاؤنڈیشن کی سربراہی کے لیے رضا مند ہوئیں ہیں- ڈاکٹر صادق، آپ کا بہت شکریہ- (تالیاں-)

میں رز خان کا میزبان بننے کا شکریہ ادا کرتی ہوں- میں ابھی تک مکھی والے لطیفے کے بارے میں سوچ رہی ہوں- (قہقہہ-) میں گھر جانے تک اسے یاد رکھنے کی کوشش کروں گی تاکہ میں اپنے شوہر کو سناسکوں
- (قہقہہ-) اور یقیناً ہمیں خاص طور پر اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے بیچ میں کئی سفراء موجود ہیں اور


بالخصوص سفیر حّقانی اور سفیر ہارون، آج شام ہمارے ساتھہ شمولیت کا بہت شکریہ- سفیر ہولبروک، سال کے آغاز پر صدر اوباما اور میری طرف سے درخواست پر کیے گئے مشن پر آپ کی غیر معمولی محنت کے کیے جانے کا شکریہ- (تالیاں-)

دو اراکین کانگریس جو پہلے ہی سے اس کے لیے جانے جاتے ہیں، کانگریس مین جیری نیڈلر جو نیویارک کے ایک حصّے کی نمائندگی کرتے ہیں اور کانگریس وومن شیلا جاکسن لی جو فرینڈز آف پاکستان کی
کو-چئیر رہ چکی ہیں اور میرے خیال میں وہ نا صرف یہ کہ ہوسٹن، بلکہ ٹیکساس اور اس کے کئی میل اطراف میں رہنے والے پاکستانی نژاد امریکیوں کو ذاتی طور پر جانتی ہیں- ہمیں بڑی خوشی ہے کہ شیلا یہاں ہیں-

دو اور اراکین ہیں جو ہمارے ساتھہ تعارف کے بعد شامل ہوئے ہیں۔ کانگریس وومن ایویٹ کلارک –کانگریس وومن کلارک کہاں ہیں؟ اگر وہ – (تالیاں) – اگر وہ اپنی نشست پر کھڑی ہو جائیں – (تالیاں) – شکریہ- اور کانگریس مین انتھونی وینر، جن کا تعلق بھی نیو یارک سٹی سے ہے- کانگریس مین وینر اور کانگریس وومن کلارک نیویارک کے سب سے بڑے پاکستانی نژاد امریکیوں کے حلقہ انتخاب میں شراکت دار ہیں، اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ یہاں ہیں-

آج کی شام کو کامیاب بنانے میں بہت سے لوگوں نے کرداراداکیا اور یہ کئی مہینوں کی سخت محنت کی عکاسی کرتی ہے- اور میں ان لوگوں کو خوش آمدید کہنے میں شامل ہوں جو دور دراز علاقوں کیلیفورنیا، پاکستان، ابو ظہبی، لندن، کینیڈا اور ہر امریکی ریاست، یہاں سے لے کر مغربی ساحل تک سے سفر کر کے آئے ہیں-

میرے خیال میں آپ یہاں پر اس لیے آئے ہیں کیونکہ آپ یہ سمجھتے اور اس بات کے معترف ہیں کہ پاکستان ایک نازک صورت حال سے دوچار ہے، اور ہم یہاں پر پاکستانی عوام کے ساتھہ یکجہتی کے اظہار کے لیے آئے ہیں- چاہے ہمارا تعلق حکومت سے ہو یا نجی شعبے سے ہو یا علم و دانش سے ہو، ایک غیر منافع طلب شعبہ ہو، چاہے پاکستان میں ہمارے خاندانی تعلقات ہوں یا اس کے خواہش مند ہوں، ہم سب پاکستان کے مستقبل میں حصہ دار ہیں- اور میں یقین رکھتی ہوں کہ آپ شراکت کے نئے دور کی بنیاد رکھنے میں نا صرف ہمارے ممالک کے بلکہ ہمارے عوام کی بھی مدد کر رہے ہیں-

میں نوجوان پاکستانی نژاد امریکی رضا کاروں کی مشکور ہوں جو اس تقریب میں کام کر رہے ہیں- وہ جوش و خروش اور شہری دماغی میلان کی نمائندگی کرتے ہیں، جو دونوں اقوام کے نوجوانوں کو ایک مضبوط تر، محفوظ تر، اور زیادہ متوازن دنیا کی تعمیر کے لیے کام میں لاتی ہے- ان نوجوانوں کی طرح جو عالمی معاملات میں مصروف و مشغول ہیں، ہم اس مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں جو انہیں وراثت میں ملے گا-

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو میرے دل کے قریب ہے- ایک خاتون اوّل، سینیٹر، اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے میں پاکستان کا پانچ مرتبہ دورہ کر چکی ہوں- میرے قریبی عملے میں کئی ایسے ہیں جو کہ پاکستانی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں- مجھے اس عظیم ریاست کی سینیٹر بن کر امریکہ میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی سب سے بڑی کمیونیٹی کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل تھا- مجھے براہ راست معلوم ہوا کہ پاکستان کس قدر خاص ملک ہے- تاریخ اور ثقافت سے مالامال، قدرتی خوبصورتی سے بھرپور اور ناقابل فراموش جوش اور طاقت و ولولے والے لوگوں کا مسکن ہے- (تالیاں-)

اور میں نے یہ دیکھا کہ پاکستانی نژاد امریکیوں نے امریکہ کے لیے ہر شعبے میں علماء اور سائنس دانوں کی حیثیت سے، کار جو اور کاروباری رہنماؤں کی حیثیت سے، فنکاروں، سرکاری ملازمین اور عام شہری کی حیثیت سےکیا خدمات سر انجام دی ہیں-

میں پاکستانی امریکی کمیونیٹی کی پاکستان کی لیے قوّت اقرار سے تہہ دل سے متاثر ہوئی ہوں۔ چاہے وہ مقامی غیر سرکاری تنظیموں کی تشکیل ہو یاکہ انسانی بحران کا ردّعمل ہو یا پھر قدرتی آفات کے بعد امداد بھیجنا ہو، یا کانگریس اور سٹیٹ ڈیٹپارٹمنٹ کو مزید راغب کرنے کے لیے ہو آپ نے کتنی فراخ دلی اور تخلیق کا مظاہرہ کیا ہے-

آپ نے براہ راست امداد بھی فراہم کی ہے- اور جون میں جب سوات پر فوجی کارروائی کی وجہ سے بے شمار لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تو آپ میں سے بہت سوں نے ان کی امداد کے لیے لبّیک کہا تھا- حتٰی کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستانی نژاد امریکی لیڈی ڈاکٹروں کے ایک گروہ سے سنا، جن میں سے کچھہ آج شام یہاں پر موجود ہیں، جنھیں معلوم تھا کہ خاندانوں کو طبّی نگہداشت کی ضرورت ہوگی اور اسے حاصل کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہوگا- اور ہم نے بخوشی ان لیڈی ڈاکٹروں کی سوات جانے میں مدد کی تاکہ وہ اس بحران میں عوام تک ضروری امداد پہنچا سکیں- اور میں سب کے سامنے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں-

اس کمیونیٹی کی طرف سے کی جانے والی دوسری معاونت کا بے شک اندازہ نہیں لگایا جاسکتا مگر ان کی حیثیت بھی کم نہیں ہے ۔ پہلے بطور ایک سینیٹر، اور اب ایک وزیر خارجہ کے طور پر مجھے پاکستانی نژاد امریکیوں کے مشوروں اوربصیرت سے اپنے کام میں کہ امریکہ شدد پسندوں سے لڑائی سے لے کر علاقائی استحکام تک متعدد مسائل کے حل کے لیے کس طرح بہتر کام کر سکتا ہےبہت فائدہ ملا ہے- تاکہ پاکستانی عوام کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ اور مجھے علم ہے کہ واشنگٹن اور اوباما انتظامیہ میں دوسرے بھی یہی سوچتے رکھتے ہیں۔

مگر یہ فاؤنڈیشن اس کمیونیٹی کے اثر میں اضافہ کرنے کے لیے ایک نئی قابلیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ آپ اپنی توانائی کو بروئے کار لا کر اور اپنی جد وجہد کو باہم ملا کر اور زیادہ لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ ، یہاں سے ایک واضح پیغام پاکستان بھیجا جا سکتا ہے کہ اس میں ہم ساتھہ ساتھہ ہیں۔ یہ صرف امریکی حکومت کی پالیسیاں اور حکمت عملی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی نژاد امریکیوں اور دیگر امریکیوں کے دل ہیں جن کو ہمارے مشترکہ مشن کی تکمیل کے لیے کام پر لگایا جائے گا۔

اب یہ فاؤنڈیشن امریکہ میں آباد دوسری کمیونٹیوں کی روایات کی پیروی کرتی ہے جو کہ اپنی مشترکہ ثقافت کے گرد متحد ہو گئیں ہیں تاکہ اپنے آبائی ملک اور خاندان ، تاریخ ، نسب اور اپنے نئے وطن کے درمیان مضبوط روابط قائم کرسکیں۔ ایک دوسری کمیونیٹی ، آئرش امریکی کمیونیٹی ، جس سے میں بہت اچھی طرح واقف ہوں ، نے اسی نظریے کے پیش نظر بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ جب صدر کینیڈی اور آئرلینڈ کے صدر ایمون ڈی ولیرا نے 1963 میں آئرش امریکی فاؤنڈیشن بنیاد رکھی، تو انھوں نے آئرش امریکی اور ان کے آبائی وطن کے درمیان قریبی روابط کو مضبوط کرنے کی امید کی تھی ۔ مگر سالہا سال گزرنے کے ساتھہ ساتھہ فاؤنڈیشن کی ممبرشپ اور مشن وسیح ہوتے گئے۔ اور آج آئرلینڈ فنڈ کے ساتھہ ادغام کے بعد یہ قوم اور دنیا کی سب سے بڑی نجی تنظیم ہے جو معاشی اور سماجی ترقی کی اعانت کر رہی ہے۔

اور 30 سالوں کے دوران کی پریشان کن اور ہولناک ہلاکتوں کے نتائج اور اس کے بعد کی رکاوٹوں کو رفع کرنے کے لیے اس فاؤنڈیشن کو پرجوش آئرش امریکیوں کی طرف سے امداد ملتی ہے، جو کہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک بہتر دن ممکن ہے اور یہ تنظیم اکثر ایک واحد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے جو کہ دونوں کمیونیٹیوں کے مابین گفت و شنید کا ایک ایسا موجب بن سکتی ہے اور جو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آبادیوں میں جا کر لوگوں سے مل سکتی اور ان کے خیالات کے بارے میں جان سکتی ہے اور اس نے ایک ایسی بنیاد فراہم کی ہے جس کی وجہ سے بالآخر امن قائم ہو گیا۔

وقت کے ساتھہ ، میں امید کرتی ہوں کہ یہ فاؤنڈیشن ایک موثر ، دور اثر ، خیراتی کاموں کے لیے مثال کے طور پر سامنے آئے گی جو کہ حکومت کے کام کو بہتر کرے گی اور سراہے گی۔ کیونکہ آپ کو بہتر طور پر علم ہے کہ امن اور خوشحالی کا حصول واشنگٹن اور اسلام آباد کے سنگ مرمر کے ہال میں نہیں، بلکہ بورڈ روم اور کلاس روم ، مسجد ، گرجا اور کنیسہ ، چوراہے اورعام گھروں اور اسی طرح کی شاموں میں ممکن ہے۔

جب ہم اس کمرے میں نظر دوڑاتے اور غیر معمولی شراکت دیکھتے ہیں تو میں آپ کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ امریکہ میں کچھ ذہین ترین اور کامیاب لوگوں کا نیٹ ورک ہے۔ ہمیں نہ صرف آپ کی فیاضانہ امداد چاہیے بلکہ آپ کے افکار بھی چاہییں کہ ہم کیا بہتر کر سکتے ہیں۔

میرے دورۂ اکتوبرکے دوران میں نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کے ان شکوک و شبہات کے بارے میں آگاہی حاصل کی جو وہ امریکی مقاصد اور وعدوں کے بارے میں محسوس کرتے ہیں۔ ہم مل کر جتنا کام کر سکتے ہیں اور جتنا ہمیں کرنا چاہیے، اعتماد کی یہ کمی ہمیں کرنے سے روکتی ہے۔ آپ میں سے ہر ایک، اور اب یہ تنظیم ایک منفرد مقام پر ہیں، جہاں سے آپ ہمارے اقوام کے درمیان فاصلے ختم کرنے کے لیے قریبی ہم آہنگی کو بڑھائیں گے اور پاکستان کے استحکام ، سماجی اور معاشی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرکے اپنا حصے کا کردار ادا کریں گے۔

صدر اوباما اور ہماری انتظامیہ نے پاکستان میں مقاصد کے موجودہ نظریات کو بدلنے کے لیے لفظاً اورعملاً سخت محنت کی ہے۔ میرے دورے کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ میں پاکستانیوں کی ایک وسیح کمیونیٹی سے ملوں تاکہ ان کی ضروریات ، امیدیں اور تحفظات سنوں اوراس بات کو یقینی بناؤں کہ امریکہ مضبوط تر شراکت داری بنانے کی اپنی جدوجہد میں صحیح راہ پرگامزن ہے۔ یہ اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد ہے اور یہ صدر اوباما اور میری ذاتی ترجیح ہے۔

آج رات میں صدر اوباما کی کالج روم میٹ سے ملی جنھوں نے صدر اوباما کو کئی سال پہلے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ جب وہ اس دورے، اپنی دوستیوں اور ان گھروں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنھوں نے ان کا استقبال کیا تو ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ لہٰذا ہم اس عمل کو فرد تا فرد بنانا چاہتے ہیں۔

ہم اپنی ترجیحات پاکستان پرنافذ نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی حکومت کے فیصلوں کو معطل کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی خواہشات کو پس پشت ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم لوگ باہمی احترام و مشترکہ ذمّہ داری کا رشتہ چاہتے ہیں۔

گذشتہ کچھہ ماہ میں امریکہ نے پاکستان کی مدد کے لیے کچھ بڑے اقدامات اٹھائے ہیں جیسے جیسے جمہوری اداروں کو مضبوط کیا جائے گا، معاشی ترقی کو پروان چڑھایا جا سکے، مواقعوں کو وسعت دی جا سکے اور شدت پسند گروہوں کو شکست دی جا سکے جن سے پاکستان اور امریکہ دونوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ لہذٰا جب لوگ ہمارے وعدے پر سوال اٹھاتے ہیں تو میں ان کاموں کی نشاندہی کرتی ہوں جو ہم نے کیے اور جن کے کرنے کی ہم تیاّری کررہے ہیں-

حالیہ چند ماہ میں امریکہ نے جنوبی وزیرستان اور شمال مغربی صوبۂ سرحد سے نقل مکانی کیے ہوئے خاندانوں کے لیے عالمی امداد کا سب سے بڑا حصہ مہیا کیا ہے- ہم نے مالاکنڈ میں ابتدائی بحالی کی کوششوں کے طور پر اضافی خوراک اور امداد بھیجی ہے- اور میں جارج رپ اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی شراکت پر شکریہ ادا کرتی ہوں، جنھوں نے امداد کا وہاں تک پہنچنا ممکن بنایا جہاں لوگ اس کو استعمال کر سکتے ہیں- (تالیاں-) اور ہم نے اس مسئلے کے حل کے لیے کام کیا ہے جو میں نے بارہا پاکستانیوں سے سنا ہے: توانائی کی کمی جس کی بدولت ملک بھر میں شہر اور دیہی علاقے تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں، خاندان کئی دنوں تک اندھیرے میں رہتے ہیں، کارخانوں اور کاروباروں کو بند کرنے پر مجبور کردیتی ہے، اور بے روزگاری اور جرائم میں اضافے کا سبب بنتی ہے- لہذٰا پاکستان میں، میں نے مثالی توانائی پروگرام کے پہلے مرحلے کا اعلان کیا ہے، جس کے ذریعے امریکہ کلیدی پاور اسٹیشنز اور زرعی ٹیوب ویلوں کی مرمت، اور انھیں جدید بنانے، مقامی فراہم کنندگان کی بہتری، اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینے میں مدد کرے گا- اور ہمیں آپ جیسے بہت ساتھیوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم پاکستان کے لوگوں کے ساتھہ کیے گئے وعدوں کو اچھی طرح نبھا سکیں-

جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، امریکہ منصوبہ بندی کر رہا ہے کہ اپنی توجہ نا صرف یہ کہ توانائی کے مثالی منصوبوں کی معاونت پر مزید مرکوز رکھے بلکہ، ذرائع نقل و حمل، زراعت، پانی اور تعلیم پر بھی توجہ دے- اپنی شراکت داری کو نمایاں کرنے کے لیے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ، پاکستان کے لوگوں پر سرمایہ کاری کر رہا ہے- ہم مزید اور زیادہ بچوں کو اسکولوں میں دیکھنا چاہتے ہیں- ہم چاہتے ہیں کہ اور زیادہ ماؤں کو صحت کی سہولیات دی جائیں، جو انھیں صحت مند بچّوں کی پیدائش و پرورش کرنے کے لیے درکار ہیں- ہم اور زیادہ نوجوانوں کو پرامن، مستحکم اور خوشحال مستقبل کے حصول کے لیے کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں-

جب میں پاکستان میں تھی، تو میں نے امریکہ کے پاکستانی ٹیلی کوم کمپنیوں اور حکومت کے ساتھہ پاکستان کے پہلے ٹیکسٹ پیغامات پر مبنی مربوط سماجی نظام کے شروع کرنے کی شراکت داری کے ایک معاہدے کا اعلان کیا تھا، جو "ہماری آواز" کہلاتا ہے- اور اس پروگرام کے تحت – (تالیاں) – ہزاروں پاکستانی اپنے ہموطنوں کے ساتھہ تیزی سے منسلک ہوکر کرکٹ اسکور سے لے کر ایک اور بھیانک دہشت گردانہ حملے کی اطلاعات کا فوری تبادلہ کرسکتے ہیں- اس کے شروع ہونے کے چھہ ہفتوں میں اب تک کراچی سے لے کر پشاور، ملتان سے لے کر کوئٹہ تک یومیہ تین ہزار لوگوں نے اس میں شمولیت اختیار کی ہے- ہم نے اس پروگرام کے پہلے سال کے لیے دو کروڑ چالیس لاکھہ پیغامات کا اندازہ لگایا تھا، جس کے معاہدے کے لیے امریکہ نے آمادگی ظاہر کی تھی- مگر مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ دو کروڑ چالیس لاکھواں پیغام آج ہی بھیجا گیا ہے- (تالیاں-) صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے پاس کہنے کو بہت کچھہ ہے- اور اب شریک کار کمپنیاں اور سفیر ہولبروک کی ٹیم کے افراد اس پروگرام کو رواں رکھنے کے لیے نہایت تندہی سے کام کر رہے ہیں، جس سے کہ یہ پروگرام پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک خود سہاری متحرک وسیلہ بن سکے-

ہمیں یقین ہے کہ یہ نئی ٹیکنالوجی حکومت کرنے میں بہتری اور لوگوں کو دہشت گردی کے خوف کے خلاف کھڑے ہونے، جرائم اور بدعنوانی، نامعلوم خبروں، اور پیشگی ہوشیار ہونے میں مدد دے سکتی ہے- اور حکومت کے اس طرح کے کیے جانے والے کاموں میں اضافی معلومات کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے-

ہمیں اپنی اب تک کی شراکت داری سے حاصل شدہ نتائج کو دیکھہ کر خوشی ہورہی ہے، مگر ایک ایسی طویل المعیاد ترقیّ کے لیے جو پاکستان کو مطلوب ہے اور جس کا وہ حقدار ہے، ہمیں دو شعبوں میں لازماً آگے بڑھنا ہوگا: پاکستان کے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا، اور ان شدّت پسند گروہوں کو شکست دے کر امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنا جو پاکستان کے خلاف تشدّد کی ایک مہم چلا رہے ہیں- اور جنوب ایشیا اور اس سے پرے استحکام کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں-

مضبوط تر جمہوری ادارے پاکستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کے لیے مزید فعّال و موّثر ہونے میں مدد دیں گے، حکومت کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے وسیع تر حمایت فراہم کریں گے، اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کے تمام لوگوں کی ضروریات کو اس بات سے قطع نظر کہ وہ کہاں رہتے اور ان کے کیا حالات ہیں، مدّنظر رکھا جائے- مضبوط جمہوریت کی طرف اس ترّقی کو مدد و فروغ دینے کے لیے امریکہ نے پاکستان کی غیر فوجی امداد میں نماياں اضافہ کردیا ہے- ہم پاکستان میں اپنے یو ایس ایڈ (USAID) مشن کے حجم میں بھی اضافہ کر رہے ہیں، اور میں نے پاکستان کے لیے ہماری غير فوجی امداد کی پہلی رابطۂ کار سفیر روبن رافیل کا تقرّر کیا ہے- آپ میں سے بہت سے سفیر رافیل کو ان کی 30 سالہ طویل اور امتیازی خدمات اور پاکستان کے ساتھہ ان کے قریبی تعلقات کے لیے جانتے ہیں- وہ حکومت پاکستان کی قریبی مشاورت کے ساتھہ بنائی جانے والی ہماری غیر فوجی تزویراتی حکمت عملی کے لیے نگران کار ہوں گی-

اس اثنا میں بے گناہ مردوں، عورتوں، اور بچّوں کی شدّت پسندوں کے حملوں سے ہونے والی بلا جواز ہلاکتیں عروج پر ہیں- اس ہفتے کے اوائل میں، لاہور کی ایک مارکیٹ میں دو بم اس وقت پھٹے جب خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں کپڑوں کی خریداری میں مصروف تھی- اگلے دن، ملتان میں سرکاری حسّاس ادارے کے دفاتر پر ایک بم دھماکہ ہوا- اور راولپنڈی کی مسجد میں ہونے والے ہولناک اور ارتیابی حملے کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں- افسردہ کردینے والی یہ خبریں ایک معمول بن چکی ہیں، اور میں یہ جانتی ہوں کہ آپ میں سے وہ سب جن کے خاندان پاکستان میں ہیں ان خبروں کو نہایت تشویش سے سنتے ہیں-

پاکستانی فوج پاکستانی طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، اور امریکہ نے اپنی امدادی کوششوں میں اضافہ کردیا ہے- لیکن بعض دہشت گرد گروہوں نے پاکستان میں کیمپ قائم کر رکھے ہیں، جہاں وہ دنیا بھر میں حملوں اور افغانستان میں موجود بین الاقوامی حفاظتی امدادی طاقتوں کی 42 اقوام پر مشتمل افواج کے خلاف جنگ چھیڑنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں- ان عالمی کوششوں میں مدد فراہم کرنے کے لیے پاکستان کا ایک کلیدی کردار، اور ایک مستقل مفاد ہے- ہم پاکستانی حکومت کے پاکستان اور دنیا میں اس قدر مصائب پیدا کرنے والی القاعدہ، دوسرے دہشت گرد گروہوں کو توڑنے، ختم کرنے، اور شکست دینے کے مقصد کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے۔ (تالیاں-)

اس تعاون کے بڑے حصّے کو اب ہم سرکاری سطح پر ترتیب دے رہے ہیں، اور دونوں ممالک کے مابین اگلے موسم بہار میں دوبارہ شروع ہونے والی اس تزویراتی گفت و شنید کی، جس کی کہ میں ذاتی طور پر خود نگران ہوں، کو ہم مزید تقویّت دیں گے-

کابینہ کے میرے دوسرے رفقائے کار پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں- امریکی وزیر زراعت اور دیگر بہت جلد پاکستان کے دورے کریں گے- ہم شریک کار ہيں، سرپرست نہیں ہیں- اور ہم اس ایک مقدّم اصول سے رہنمائی چاہتے ہیں: پاکستان کی خود مختاری کا مکمّل احترام- (تالیاں-)

مگر جیسا کہ ہمارے اعزازی کو-چئیر، جناب معین قریشی صاحب نے فرمایا کہ پاکستان کے لیے ایک نہایت امید افزا مستقبل ہے – اپنی منزل کو ڈھالنے کا، جمہوریت کا ایک روشن مینار بننے کا، اور نا صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص ترّقی کا ایک عمدہ نمونہ بننے کا صحیح و بہترین موقع ہے-

لیکن ہمیں بڑی سخت محنت اور پاکستان میں اپنے دوستوں کی مدد کرنی ہوگی- اس بنیاد پر اس کوشش کے لیے آپ سب نہایت اہمیت کے حامل ہیں- آپس میں ہمیں پہلے سے منسلک کرنے والے عوامل کے بارے میں آپ ہر کسی سے بہتر جانتے ہیں- اور آپ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان غیر سرکاری سفراء کی حیثیت سے نئے تعلقات کو قائم کرنے کے بارے میں پر اعتماد ہیں- عطیہ دہندگان کے طور پر، آپ اس سخاوت اور احساس یکجہتی کو پہنچانے کا سبب ہیں جو امریکی عوام پاکستان کے بارے میں محسوس کرتے ہیں- ہمارے حامی ہونے کی حیثیت سے آپ امریکی حکومت کو پاکستانی عوام کی ضروریات کو نہایت عمدہ طریق پر حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے، اور ہماری کامیابی يا ناکامی کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں- غیر رسمی سفراء کی حیثیت سے آپ دونوں اقوام میں موجود غلط فہمیوں اور ہمارے تعّلقات میں دراڑیں ڈالنے والی گھسی پٹی باتوں کا ادراک کرنے، ہمارے اختلافات کی گہرائی کو جانچنے، اور اس بہت کچھہ میں جس کی ہم شراکت کرتے اور یکجا ہو کر حاصل کر سکتے ہیں، میں مدد فراہم کرسکتے ہیں- اس فاؤنڈیشن کی حمایت کر کے آپ نے اس تبدیلی کو قالب میں ڈھالنے کی جانب قدم بڑھایا ہے، ان لاکھوں افراد کی بہتری کے لیے جن سے آپ کبھی نہیں ملے، جو اس فاؤنڈیشن کے بارے شاید کبھی بھی نہ جان پائیں، لیکن ان کی زندگیاں آپ کے عطیات سے سنور و سدھر سکتی ہیں-

میں آپ سب کی نہایت مشکور و ممنون ہوں – (تالیاں) – اور اس فاؤنڈیشن کی کامیابی و ترّقی کی متمّنی ہوں- میں مستقبل میں جانفشانی سے کام کرنے اور اس مقام پر پہنچنے کی شائق ہوں جہاں سے ہم مڑ کر دیکھیں تو 11 دسمبر 2009 کو ایک فیصلہ کن تبدیلی کی تاریخ کے طور پر یاد کریں۔ ایک ایسا لمحۂ وقت جب ہم ایک اہم اور پائیدار تخلیق کے وقت موجود تھے، اور کچھہ ایسا جس نے پاکستان کے عوام کے مستقبل کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں ان کی مدد کی تھی-

آپ سب کا بہت بہت شکریہ- (تالیاں-)


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top