وحدت الوجود فلسفے کا مقصد اور اسلام سے کیا تعلق ہے ؟

گوہر

محفلین
وحدت الوجود صوفیاء کے مابین ایک متنازعہ مسلہ رہا ہے۔ اور اس نظریہ کو بہت ہی فلسفیانہ انداز میں پیش کیا جا تا ہے جب کہ قرآن سنت کی روشنی میں اس بارے میں کوئی دلیل دیکھنے میں نہیں آئی -

* اگر یہ نظریہ اسلامی ہے تو قرآن و حدیث سے دلیل پیش کریں ؟
* اگر غیر اسلامی ہے تو اس کا اسلام سے کیا تعلق؟

برصغیر میں اسلام کی آمد کے بعد بہت سی بدعات نے اسلام جیسے صاف ستھرے مذہب میں فلسفیانہ رنگ بھر دیا اور مقامی تہذیب اور نظریات نے ایک Potential Barrier قائم کیا جو کہ ابھی تک قائم ہے ۔ شخصی کملات اور فلسفیانہ نظریات نے تصوف کے دروازے سے مذہب اسلام میں جو بدعات (Impurities)کا سلسلہ شروع کیا اس کے ثمرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ بلکہ یہاں تو تصوف کو پیش کرنے کے اسلوب بھی مختلف ہیں ۔ حالانکہ تصوف جس کی اساس تزکیہ ء نفس ہے اس کو بھی مقامی رنگ دے دیا گیا۔ حتکہ آج بھی اس خطہ میں Similarities between Hinduism & Islam کے مناظر ے کیے جا رہے ہیں حالانکہ جب مکہ فتح ہوا تھا اس وقت مشرکین مکہ اور مسلمانوں میں یہ مشترک Similarities باتوں کو تلاش کرنے کی بجائے بتوں کو پاش پاش کیا گیا ۔

قرآن مجید میں تو روحوں اور اللہ کے مابین مکالمہ موجود ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکالمہ دو (Two ) درمیان ہوتا ہے نہ کہ اپنے ساتھ یعنی خالق اور مخلوق کا فرق یہاں موجود ہے۔”اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا(یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں۔ یہ قرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ)کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی “۔ (سورہ الاعراف ۱۷۲)۔

* سوال یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کو ایک ثابت کرنے والے(نعوذ باللہ )اس فلسفے کا کیا مقصد ہے؟

خالق تو حیّ و قیوم ہے اور تمام مخلوق کی حاجتیں پوری کرنے والا ہے اور مخلوق محتاج اور فانی۔ البتہ ان انفاس (لوگوں ) کے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں جو اپنے نفس کی تربیت کر کے امارہ سے مطمئنہ تک چلے جاتے ہیں اور اپنے ربّ کو راضی کر کہ اس کے دوست بن جاتے ہیں اور ان کے درجات کا قرآن و حدیث میں تذکرہ ہے ۔مگر اللہ کے یہ بندے، بندگی کے اعلیٰ درجہ پر فائض ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سورة الکہف (آیت 60 تا 86) میں کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا تذکرہ کیا ہے جسے اللہ نے اپنا فضل اور علم بخشا ہے۔ (آیت 79 تا 86) دیکھیں کس طرح سے میں سے ہم اور ہم سے اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا گیا ہے (میں نے چاہا، ہم نے چاہا اور تیرے اللہ نے چاہا) حالانکہ اِس واقعہ میں جو بیان کیا گیا ہے سارے کے سارے واقعات ایک بندہ کے ہاتھ سے سرزد ہو رہے ہیں مگر اِن کی توجیہہ میں ”میں“ سے اللہ تک کی رسائی کا پتہ ملتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔ اِس واقعہ میں شریعت اور طریقت کا شاندار امتزاج بیان کیا گیا ہے اور ایک بندے کی ”میں“ کا اللہ سے تعلق اور درجہ بیان کیا گیا ہے۔ بندگی کے اس درجے پہ رہتے ہوئے بھی خالق اور مخلوق فرق قائم ہے۔جیسا کہ ”وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا“(الکھف۴۶)

اگر اس فلسفہ کے بغیر گزارہ نہیں تو بہتر ہے کے اس مثال کو سمجھا جائے ۔ اگر کرہ ارض پہ جب سورج نکلتا ہے تو تمام جزئیات ارض روشن ہو جاتے ہیں اور اپنے وجود کا احساس پاتے ہیں مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سورج یا اس کی روشنی ان جزئیات میں حلول کر گی ہے۔ بلکہ سورج کی روشنی میں اس تمام جزئیات ارض نے اپنے ہونے کا احساس پایا- ”ہر ذرہ ہے شہید کبریائی “

* تحقیق: محمد الطاف گوہر
 

شمشاد

لائبریرین
محترم گوہر صاحب اردو محفل میں خوش آمدید
اپنا تعارف تو دیں۔

ماشاء اللہ بہت اچھا لکھا ہے۔ ایک سوال کہ کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے؟
 

رضا

معطل
گوہر بھائی!وحدت الوجود کا جو مطلب عوام لیتے ہیں۔یا بعض جہلا(صوفی زندیق) وہ تو سراسر کفر ہے۔لیکن وحدت الوجود کا جو مطلب اولیاء اللہ کے نزدیک ہے وہ بالکل برحق ہے۔
 

رضا

معطل
رسالہ
اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفٰی والال والاصحاب(۱۲۹۸ھ)
(احباب کا اعتقاد جمیل (اﷲ تعالٰی) مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، آپ کی آل اور اصحاب کے بارے میں):
عقیدہ اُولٰی________________ذات و صفات باری تعالٰی

حضرت حق سبحانہ و تبارک و تعالٰی شانہ واحد ہے۔(اپنی ربوبیت والوہیت میں، کوئی اس کا شریک نہیں، وہ یکتا ہے اپنے افعال میں، مصنوعات کو تنہا اسی نے بنایا۔ وہ اکیلا ہے اپنی ذات میں کوئی اس کا قسیم نہیں۔ بیگانہ ہے اپنی صفات میں۔ کوئی اس کا شبیہ نہیں۔ ذات و صفات میں یکتا و واحد مگر ) (عہ۱) نہ عدد سے ( کہ شمار و گنتی میں آسکے اور کوئی اس کا ہم ثانی و جنس کہلاسکے تو اﷲ کے ساتھ، اس کی ذات و صفات میں،شریک کا وجود ، محض وہم انسانی کی ایک اختراع وایجاد ہے)

عہ: عرضِ مرتّب : امام اہلسنت امام احمد رضا خاں صاحب قادری برکاتی بریلوی قدس سرہ کے رسالہ مبارکہ اعتقادلاحباب کی زیارت و مطالعہ سے یہ فقیر جب پہلی بار حال ہی میں شرفیاب ہوا تو معاً خیال آیا کہ بتوفیقہ تعالٰی اسے نئی ترتیب اور اجمالی تفصیل کے ساتھ عامۃ الناس تک پہنچایا جائے تو ان شاء اﷲ تعالٰی اس سے عوام بھی فیض پائیں ۔ نصرت الہٰی کے بھروسا پر قدم اٹھایا اور بفیضانِ اساتذہ کرام نہایت قلیل مدت میں اپنی مصروفیات کے باوجود کامیابی سے سرفراز ہوا۔
میں اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوا، اس کا فیصلہ آپ کریں گے، اور میری کوتاہ فہمی و قصور علمی آپ کے خیال مبارک میں آئے تو اس سے اس ہمیچمداں کو مطلع فرمائیں گے۔
اور اس حقیقت کے اظہار میں یہ فقیر فخر محسوس کرتا ہے کہ اس رسالہ مبارکہ میں حاشیے بین السطور اور تشریح مطالب ( جو اصل عبارت سے جدا، قوسین میں محدود ہے، اور اصل عبارت خط کشیدہ) جو کچھ پائیں گے وہ اکثر و بیشتر مقامات پر اعلٰیحضرت قدس سرہ ہی کے کتب ورسائل اور حضرت استاذی و استاذ العلماء صدرالشریعۃ مولنٰا الشاہ امجد علی قادری برکاتی رضوی اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ کی مشہورِ زمانہ کتاب بہارِ شریعت سے ماخوذ ملتقط ہے۔
امید ہے کہ ناظرین کرام اس فقیر کو اپنی دعائے خیر میں یاد فرماتے رہیں گے کہ سفرِ آخرت درپیش ہے اور یہ فقیر خالی ہاتھ ، خالی دامن، بس ایک انہیں کا سہارا ہے اور ان شاء اﷲ تعالٰی وہی بگڑی بنائیں گے ورنہ ہم نے تو کمائی سب عیبوں میں گنوائی ہے۔ والسلام،
العبدمحمد خلیل خاں قادری البرکاتی المارہروی عفی عنہ۔

خالق ہے۔ ( ہر شے کا، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں) نہ علت سے ( اس کے افعال نہ علت و سبب کے محتاج ، نہ اس کے فعل کے لیے کوئی غرض ، کہ غرض اس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے اور نہ اس کے افعال کے لیے غایت ، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے۔ فعال ہے( ہمیشہ جو چاہے کرلینے والا) نہ جوارح ( وآلات) سے ( جب کہ انسان اپنے ہر کام میں اپنے جوارح یعنی اعضائے بدن کا محتاج ہے۔ مثلاً علم کے لیے دل و دماغ کا۔ دیکھنے اور سننے کے لیے آنکھ ، کان کا، لیکن خداوند قدوس کہ ہر پست سے پست آواز کو سنتا اور ہر باریک سے باریک کو کہ خوردبین سے محسوس نہ ہو دیکھتا ہے، مگر کان آنکھ سے اس کا سننا دیکھنا اور زبان سے کلام کرنا نہیں کہ یہ سب اجسام ہیں۔ اور جسم و جسمانیت سے وہ پاک) قریب ہے۔( اپنے کمالِ قدرت و علم ورحمت سے) نہ (کہ) مسافت سے( کہ اس کا قرب ماپ و پیمائش میں سما سکے) ملک ( وسلطان و شہنشاہ زمین و آسمان ) ہے مگر بے وزیر ( جیسا کہ سلاطین دنیا کے وزیر باتدبیر ہوتے ہیں کہ اس کے امورِ سلطنت میں اس کا بوجھ اٹھاتے اور ہاتھ بٹاتے ہیں۔) والی ( ہے۔ مالک و حاکم علی الاطلاق ہے۔ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے مگر) بے مشیر ( نہ کوئی اس کو مشورہ دینے والا۔ نہ وہ کسی کے مشورہ کا محتاج، نہ کوئی اس کے ارادے سے اسے باز رکھنے والا۔ ولایت، ملکیت ، مالکیت ، حاکمیت، کے سارے اختیارات اسی کو حاصل، کسی کو کسی حیثیت سے بھی اس ذات پاک پر دسترس نہیں، ملک و حکومت کا حقیقی مالک کہ تمام موجودات اس کے تحتِ ملک و حکومت ہیں، اور اس کی مالکیت و سلطنت دائمی ہے جسے زوال نہیں) حیات و کلام و سمع و بصر و ارادہ و قدرت و علم ( کہ اس کے صفات ذاتیہ ہیں اور ان کے علاوہ تکوین و تخلیق و رزاقیت یعنی مارنا، جِلانا، صحت دنیا، بیمار کرنا، غنی کرنا، فقیر کرنا، ساری کائنات کی ترتیب فرمانا اور ہر چیز کو بتدریج اس کی فطرت کے مطابق کمالِ مقدار تک پہنچانا، انہیں ان کے مناسبِ احوال روزی رزق مہیا کرنا) وغیرہا( صفات جن کا تعلق مخلوق سے ہے اور جنہیں صفاتِ اضافیہ اور صفاتِ فعلیہ بھی کہتے ہیں اور جنہیں صفات تخلیق و تکوین کی تفصیل سمجھنا چاہیے ، اور صفاتِ سلبیہ یعنی وہ صفات جن سے اللہ تعالٰی کی ذات منزہ اور مبرّا ہے، مثلاً وہ جاہل نہیں عاجز نہیں، بے اختیار و بے بس نہیں، کسی کے ساتھ متحد نہیں جیسا کہ برف پانی میں گھل کر ایک ہوجاتا ہے، غرض وہ اپنی صفاتِ ذاتیہ ، صفاتِ اضافیہ اور صفات سلبیہ) تمام صفات کمال سے ازلاً ابداً موصوف ( ہے، اور جس طرح اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے اس کی تمام صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں، اور ذات و صفات باری تعالٰی کے سوا سب چیزیں حادث و نوپید، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں، صفات الہٰی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے گمراہ بے دین ہے۔ اس کی ذات و صفات) تمام شیون ( تمام نقائص تمام کوتاہیوں سے) وشین و عیب ( ہر قسم کے نقص ونقصان) سے اوّلاً و آخراً بری( کہ جب وہ مجتمع ہے تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر کمال و خوبی کا، تو کسی عیب کسی نقص، کسی کوتاہی کا اس میں ہونا محال، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو نہ نقصان وہ بھی اس کے لیے محال)

ذات پاک اس کی نِدّوضد ( نظیر و مقابل) شبیہ و مثل ( مشابہ و مماثل ) کیف و کم ( کیفیت و مقدار) شکل و جسم و جہت و مکان و امد (غایت وانتہا اور) زمان سے منزّہ ( جب عقیدہ یہ ہے کہ ذات باری تعالٰی قدیم ازلی ابدی ہے اور اس کی تمام صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ان تمام چیزوں سے جو حادث ہیں یا جن میں مکانیت ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری طرف نقل و حرکت ، یا ان میں کسی قسم کا تغیر پایا جانا، یا اس کے اوصاف کا متغیر ہونا، یا اس کے اوصاف کا مخلوق کے اوصاف کے مانند ہونا، یہ تمام امور اس کے لیے محال ہیں ، یا یوں کہئے کہ ذاتِ باری تعالٰی ان تمام حوادث وحوائج سے پاک ہے جو خاصہ بشریت ہیں) نہ والد ہے نہ مولود ( نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، کیونکہ کوئی اس کا مجالس وہم جنس نہیں، اور چونکہ وہ قدیم ہے اور پیدا ہونا حادث و مخلوق کی شان ) نہ کوئی شے اس کے جوڑ کی ( یعنی کوئی اس کا ہمتا کوئی اس کا عدیل نہیں۔ مثل و نظیر و شبیہ سے پاک ہے اور اپنی ربوبیت والوہیت میں صفاتِ عظمت و کمال کے ساتھ موصوف)

اور جس طرح ذات کریم اس کی، مناسبتِ ذوات سے مبّرا اسی طرح صفاتِ کمالیہ اس کی ، مشابہت صفات سے معرّا ( اس کا ہر کمال عظیم اور ہر صفت عالٰی، کوئی مخلوق کیسی ہی اشرف و اعلٰی ہو اس کی شریک کسی حیثیت سے ، کسی درجہ میں نہیں ہوسکتی)

مسلمان پرلا الہٰ الاّ اﷲماننا،اﷲ سبحانہ وتعالٰیکو احد، صمد، لاشریک لہ جاننا فرض اول و مدار ایمان ہے کہ اﷲ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں کہلا الٰہ الا اﷲ ( اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں) نہ صفات میں کہلیس کمثلہ شیئ ۔۱؂اس جیسا کوئی نہیں، نہ اسماء میں کہھل تعلم لہ سمیّا ۔۲؂کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو؟ نہ احکام میں کہولا یشرک فی حکمہ احدا ۔۳؂اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا، نہ افعال میں کہھل من خالق غیر اﷲ ۔۴؂کیا اﷲ کے سوا کوئی اور خالق ہے، نہ سلطنت میں کہولم یکن لہ شریک فی الملک ۔۵؂اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں، تو جس طرح اس کی ذات اور ذاتوں کے مشابہ نہیں یونہی اس کی صفات بھی صفاتِ مخلوق کے مماثل نہیں۔ ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱ )( ۲ ؎القرآن الکریم ۱۹/ ۶۵)( ۳ ؎القرآن الکریم ۱۸/ ۲۶ )( ۴ ؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۳)( ۵ ؎القرآن الکریم ۲۵/ ۲)

اور یہ جو ایک ہی نام کا اطلاق اس پر اور اس کی کسی مخلوق پر دیکھا جاتا ہے جیسے علیم ، حکیم، کریم ، سمیع ، بصیر اور ان جیسے اور، تو یہ محض لفظی موافقت ہے نہ کہ معنوی شرکت، اس میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت نہیں ولہذا مثلاً) اوروں کے علم وقدرت کو اس کے علم وقدرت سے ( محض لفظی یعنی) فقط ع ، ل، م، ق، د، ر، ت میں مشابہت ہے۔(نہ کہ شرکت معنوی) اس (صوری و لفظی موافقت) سے آگے ( قدم بڑھے تو) اس کی تعالٰی وتکبّر (برتری و کبریائی ) کا سرا پردہ کسی کو بار نہیں دیتا۔( اور کوئی اس شاہی بارگاہ کے اردگرد بھی نہیں پہنچ سکتا۔

پرندہ وہاں پر نہیں مارسکتا کوئی اس میں دخل انداز نہیں) تمام عزتیں اس کے حضور پست (فرشتے ہوں یا جِن یا انسان یا اور کوئی مخلوق ، کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں، سب اس کے فضل کے محتاج ہیں، اور زبانِ حال وقال سے اپنی پستیوں ، اپنی احتیاجوں کے معترف اور اس کے حضور سائل ، اس کی بارگاہِ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ، اور ساری مخلوقات چاہے ، وہ زمینی ہوں یا آسمانی اپنی اپنی حاجتیں اور مرادیں اسی حق تعالٰی سے طلب کرتی ہیں) اور سب ہستیاں اس کے آگے نیست ( نہ کوئی ہستی ہستی ، نہ کوئی وجود وجود)
کل شیئ ھالک الاّوجھہ ۔۱؂ ( بقا صرف اس کی وجہ کریم کے لیے ہے باقی سب کے لیے فنا، باقی باقی، باقی فانی) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۸/ ۸۸)
وجود واحد ( اسی حّی وقیوم ازلی ابدی کا) موجود واحد ( وہی ایک حی و قیوم ازلی ابدی) باقی سب اعتبارات ہیں (اعتبار کیجئے تو موجود ورنہ محض معدوم) ذراتِ اکوان ( یعنی موجودات کے ذرہ ذرہ) کو اس کی ذات سے ایک نسبت مجہولۃ الکیف ہے۔(نامعلوم الکیفیت) جس کے لحاظ سے من و تو ( ماوشماو ایں وآں) کو موجود و کائن کہا جاتا ( اور ہست و بود سے تعبیر کیا جاتا) ہے۔ ( اگر اس نسبت کا قدم درمیان سے اٹھالیں۔ ہست، نیست اور بود، نابود ہوجائے، کسی ذرہ موجود کا وجود نہ رہے کہ اس پر ہستی کا اطلاق ) روا ہو۔ ) اور اس کے آفتاب وجود کا ایک پر تو ( ایک ظل، ایک عکس، ایک شعاع ہے کہ کائنات کا ہر ذرّہ نگاہِ ظاہر میں جلوہ آرائیاں کررہا ہے۔ ( اور اس تماشا گاہِ عالم کے ذرہ ذرہ سے اس کی قدرتِ کاملہ کے جلوے ہویدا ہیں) اگر اس نسبت و پرتو سے ( کہ ہر ذرہ کون و مکان کو اس آفتاب و جود حقیقی سے حاصل ہے) قطع نظر کی جائے ( اور ایک لحظہ کو اس سے نگاہ ہٹالی جائے ) تو عالم ایک خوابِ پریشان کا نام رہ جائے، ہو کا میدان عدمِ بحت کی طرح سنسان ( محض معدوم و یکسر و یران ، تو مرتبہ وجود میں صرف ایک ذاتِ حق ہے باقی سب اسی کے پر تو وجود سے موجود ہیں، مرتبہ کون میں نور ابدی آفتاب ہے، اور تمام عالم اس کے آئینے اس نسبتِ فیضان کا قدم، درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعۃً فنائے محض ہوجائے کہ اسی نور کے متعدد پرتووں نے بے شمار نام پائے ہیں، ذات باری تعالٰی واحد حقیقی ہے، تغیرو اختلاف کو اصلاً اس کے سرا پر دہ عزت کے گرد بار نہیں۔ پر مظاہر کے تعدد سے یہ مختلف صورتیں، بے شمار نام، بے حساب آثار پیداہیں، نورِاحدیت کی تابش غیر محدود ہے۔ اور چشم جسم و چشم عقل دونوں وہاں نابینا ہیں، اور اس سے زیادہ بیان سے باہر، عقل سے وراء ہے۔)

موجود واحد ہے نہ وہ واحد جو چند ( ابعاض واجزاء) سے مل کر مرکب ہوا ( اورشے واحد کا نام اس پر رواٹھہرا) نہ وہ واحد جو چند کی طرف تحلیل پائے ( جیسا کہ انسانِ واحد یا شَے واحد کہ گوشت پوست و خون واستخوان وغیرہا اجزاء وابعاض سے ترکیب پا کر مرکب ہوا اور ایک کہلایا اور اس کی تحلیل و تجزی اور تجزیہ، انہیں اعضاء واجزاء وابعاض کی طرف ہوگا جن سے اس نے ترکیب پائی اور مرکب کہلایا کہ یہی جسم کی شان ہے، اور ذاتِ باری تعالٰی عزشانہ جسم و جسمانیات سے پاک و منزہ ہے۔) نہ وہ واحد جو بہ تہمت حلول عینیّت ( کہ اس کی ذات قدسی صفات پر یہ تہمت لگائی جائے کہ وہ کسی چیز میں حلول کیے ہوئے یا اس میں سمائی ہوئی ہے یا کوئی چیز ا سکی ذاتِ احدیت میں حلول کیے ہوئے اور اس میں پیوست ہے اور یوں معاذ اﷲ وہ) اوجِ وحدت ( وحدانیت و یکتائی کی رفعتوں ) سے حضیض اثنینیت (دوئی اور اشتراک کی پستیوں) میں اتر آئے۔ھوولاموجود الا ھو آیۃ کریمہ سبحانہ وتعالٰی عمّا یشرکون ۔۱؂ ( پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے ) جس طرحشرک فی الالوہیتکو رَد کرتی ہے۔( اور بتاتی ہے کہ خداوند قدوس کی خدائی اور اس معبود برحق کی الوہیت وربوبیت میں کوئی شریک نہیں۔ھوالذی فی السماء الٰہ فی الارض الہ ۔۲؂وہی آسمان والوں کا خدا اور وہی زمین والوں کا خدا، تو نفسِ الوہیت وربوبیت میں کوئی اس کا شریک کیا ہوتا، اس کی صفاتِ کمال میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔لیس کمثلہ شیئ ۔۳؂اس جیسا کوئی نہیں) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۰/ ۴۰)( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۳/ ۸۴)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱)

یونہی ( یہ آیۃ کریمہ )اشتراک فی الوجودکی نفی فرماتی ہے( تو اس کی ذات بھی منزّہ اوراس کی تمام صفات کمال بھی مبرا ان تمام نالائق امور سے جو اہلِ شرک وجاہلیت اس کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ وجود اسی ذات برحق کے لیے ہے، باقی سب ظلال وپر تو ؎غیرتش غیر درجہاں نہ گزاشت لاجرم عین جملہ معنی شد (اور وحدت الوجود کے جتنے معنی اور جس قدر مفاہیم عقل میں آسکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ وجود واحد، موجود واحد، باقی سب اسی کے مظاہر اور آئینے کہ اپنی حدِ ذات میں اصلاً وجود و ہستی سے بہرہ نہیں رکھتے ، اور حاش ثم حاش یہ معنی ہر گز نہیں کہ من و تو، ماوشما ، این وآں ، ہر شَے خدا ہے، یہ اہلِ اتحاد کا قول ہے جو ایک فرقہ کافروں کا ہے۔ اور پہلی بات مذہب ہے اہلِ توحید کا، کہ اہلِ اسلام وہ صاحبِ ایمان حقیقی ہیں)

 
Top