نیا سال، نیا خواب

فیصل کمال

محفلین
آؤ اے میرے ھم وطنوں
ھم سب ملکر ایک خواب دیکھیں
خواب اک ایسے وطن کا
کی جس کے دن واقعی ھی سنھرے ھوں
جسکی رات بھی ھو صبحِ ازل سی روشن
جس کی زمیں واقعی اُگلے سونا
اور یہ سونا ھو کہ ھو جس
حق ھر اک کا برابر
جس میں بہتے ھوں سلسبیل سے چشمے
اور ان چشموں سے سیراب ھو کر
ھر طرف لہلہاتا ھو سبزہ
خواب ایسے وطن کا کہ جس میں
ارزاں نہ خون میرے ھم وطنوں کا
جس میں جنت کے نام پر موت نہ بکتی ھو
جس میں مسیحا نہ ھوں موت کے تاجر
جس میں ملتی ھو ھر درد کی دوا
جس میں ملتا ھوھر زھر کا تریاق
جس میں ھر زخم مرھم میسر آئے
خواب ایسے وطن کا کہ جس میں
انصاف پہنچے ھر عامی تک
زنجیرِ عدل ھلانے سے پہلے
جس میں برابر ھو قد
خادم و مخدوم کا
حاکم و محکوم کا
ظالم و مظلوم کا
آؤ خواب دیکھیں اک ایسے وطن کا
جس میں نا پید ھو
رشتہِ حاکم و محکوم
جس میں مظلوم ھو اس قدر جری
کہ ھر ظالم کے کا ھاتھ پکڑلے
مقتول ایسا ھو کی قاتل سے اپنے
ناحق بہے خون کا بہاء مانگے
جس میں مفلس امیرِ شہر کا گریباں پکڑ کر
اپنے خون کا اپنے پسینے کا
حساب مانگے
آؤ خواب دیکھیں
کہ آنکھوں میں اگر خواب
اپنی سچائی کے ساتھ اگر زندہ ھوں
تو تعبیر ضرور پاتے ھیں
آؤ اے میرے ھم وطنوں خواب دیکھں
اک ایسے وطن کا
 

مغزل

محفلین
فیصل کمال صاحب اچھی کاوش ہے اللہ تبارک وتعالی بہتری اور ترقی عطا فرمائے ۔ سلامت رہیں
 
Top