نو آموز ہوں ۔۔۔۔ احباب سے حوصلہ افزائی کی درخواست ہے☺

ہم پر ہے انھیں شک کہ دغا ہم بھی کریں گے
بدنامئ ناموس وفا ہم بھی کریں گے

لازم تو نہیں تیری طرح سنگدل ہی بنیں ہم
ہاں دل کو مگر سخت ذرا ہم بھی کریں گے

شعلے سے لپٹ مرتا ہے پروانہ خوش بخت
اب تم سے مگر دور جلا ہم بھی کریں گے

تجھکو بھی کبھی عشق ہو خود جیسے کسی سے
اب حق میں تمھارے یہ دعا ہم بھی کریں گے

یادوں کو تری دل میں کبھی بسنے نہ دیں گے
جو تم نے ستم ہم پہ کیا ہم بھی کریں گے

اے واعظ و ناصح کچھ ہم سے نہ کہیو
اب ہجر کی راتوں میں پیا ہم بھی کریں گے

اے دشت نشیں تھوڑی جگہ ہم کو بھی دینا
اب تیری طرح صحرا میں رہا ہم بھی کریں گے

اچھا ہی ہوا دل پہ ہمیں چوٹ لگی ہے
اب دل سے ذرا یاد خدا ہم بھی کریں گے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوش آمدید۔
پہلے مبارکباد کہ ماشاء اللہ طبع موزوں پائی ہے۔ اصلاح اغلاط کی ہو جائے گی البتہ خیالات تو شاعر کو ہی سوچنے کی ضرورت ہے۔ وہ اچھے ہوں تو اچھا شعر بنتا ہے، ورنہ محض تک بندی رہ جاتی ہے۔ الحمد للہ اس کی بھی رمق محسوس ہوتی ہے

ہم پر ہے انھیں شک کہ دغا ہم بھی کریں گے
بدنامئ ناموس وفا ہم بھی کریں گے
۔۔۔ 'ہم بھی' پہلے مصرع میں سے مراد؟ یعنی دوسروں سے بھی انہیں یہی امید ہے؟ مجھے یہاں ردیف کا 'بھی' درست نہین لگ رہا۔ اسی طرح دوسرے مصرع میں بدنامی وفا کافی ہے، ناموس درست نہیں لگ رہا

لازم تو نہیں تیری طرح سنگدل ہی بنیں ہم
ہاں دل کو مگر سخت ذرا ہم بھی کریں گے
۔۔۔پہلا مصرع بحر سے خارج۔ ارکان زائد ہیں۔ ('تو' زائد) سنگ دل کا گاف بھی گرایا نہیں جا سکتا۔

شعلے سے لپٹ مرتا ہے پروانہ خوش بخت
اب تم سے مگر دور جلا ہم بھی کریں گے
۔۔۔درست

تجھکو بھی کبھی عشق ہو خود جیسے کسی سے
اب حق میں تمھارے یہ دعا ہم بھی کریں گے
۔۔۔۔درست

یادوں کو تری دل میں کبھی بسنے نہ دیں گے
جو تم نے ستم ہم پہ کیا ہم بھی کریں گے
۔۔۔ پہلے مصرع کا 'دیں گے' پر اختتام ردیف کی طرح ہونے کی وجہ سے پسندیدہ نہیں۔ مفہوم واضح نہیں۔ تم نے کیا یہ ظلم کیا ہے کہ یادوں کو بسنے نہیں دیا؟

اے واعظ و ناصح کچھ ہم سے نہ کہیو
اب ہجر کی راتوں میں پیا ہم بھی کریں گے
۔۔۔ پہلا مصرع بحر سے خارج۔ یوں ہو سکتا ہے
اے واعظو! اے ناصحو! کچھ ہم سے نہ کہیو

اے دشت نشیں تھوڑی جگہ ہم کو بھی دینا
اب تیری طرح صحرا میں رہا ہم بھی کریں گے
۔۔۔دوسرے مصرع میں 'اب' زائد ہے

اچھا ہی ہوا دل پہ ہمیں چوٹ لگی ہے
اب دل سے ذرا یاد خدا ہم بھی کریں گے
۔۔۔درست
 
الف عین
خوش آمدید۔
پہلے مبارکباد کہ ماشاء اللہ طبع موزوں پائی ہے۔ اصلاح اغلاط کی ہو جائے گی البتہ خیالات تو شاعر کو ہی سوچنے کی ضرورت ہے۔ وہ اچھے ہوں تو اچھا شعر بنتا ہے، ورنہ محض تک بندی رہ جاتی ہے۔ الحمد للہ اس کی بھی رمق محسوس ہوتی ہے

ہم پر ہے انھیں شک کہ دغا ہم بھی کریں گے
بدنامئ ناموس وفا ہم بھی کریں گے
۔۔۔ 'ہم بھی' پہلے مصرع میں سے مراد؟ یعنی دوسروں سے بھی انہیں یہی امید ہے؟ مجھے یہاں ردیف کا 'بھی' درست نہین لگ رہا۔ اسی طرح دوسرے مصرع میں بدنامی وفا کافی ہے، ناموس درست نہیں لگ رہا

لازم تو نہیں تیری طرح سنگدل ہی بنیں ہم
ہاں دل کو مگر سخت ذرا ہم بھی کریں گے
۔۔۔پہلا مصرع بحر سے خارج۔ ارکان زائد ہیں۔ ('تو' زائد) سنگ دل کا گاف بھی گرایا نہیں جا سکتا۔

شعلے سے لپٹ مرتا ہے پروانہ خوش بخت
اب تم سے مگر دور جلا ہم بھی کریں گے
۔۔۔درست

تجھکو بھی کبھی عشق ہو خود جیسے کسی سے
اب حق میں تمھارے یہ دعا ہم بھی کریں گے
۔۔۔۔درست

یادوں کو تری دل میں کبھی بسنے نہ دیں گے
جو تم نے ستم ہم پہ کیا ہم بھی کریں گے
۔۔۔ پہلے مصرع کا 'دیں گے' پر اختتام ردیف کی طرح ہونے کی وجہ سے پسندیدہ نہیں۔ مفہوم واضح نہیں۔ تم نے کیا یہ ظلم کیا ہے کہ یادوں کو بسنے نہیں دیا؟

اے واعظ و ناصح کچھ ہم سے نہ کہیو
اب ہجر کی راتوں میں پیا ہم بھی کریں گے
۔۔۔ پہلا مصرع بحر سے خارج۔ یوں ہو سکتا ہے
اے واعظو! اے ناصحو! کچھ ہم سے نہ کہیو

اے دشت نشیں تھوڑی جگہ ہم کو بھی دینا
اب تیری طرح صحرا میں رہا ہم بھی کریں گے
۔۔۔دوسرے مصرع میں 'اب' زائد ہے

اچھا ہی ہوا دل پہ ہمیں چوٹ لگی ہے
اب دل سے ذرا یاد خدا ہم بھی کریں گے
۔۔۔درست

الف عین بھائی آپکا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ناچیز پہ نگاہ ڈالی، تہہ دل سے ممنون ہوں
حوصلہ افزائی کے ساتھ حسین پیرائے میں اصلاح کرنے کیلئے بھی آپکا شاکر ہوں
انشاءاللہ ضرور ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا
خاکسار کو شاعری سے کافی شغف ہے۔آیندہ بھی اگر نظرِکرم ہوتی رہے تو عین نوازش ہوگی۔
جزاک اللہ خیراً
 
Top