نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر310
اسلام کے عدل و انصاف سے متمتع ہونے کے لئے کیا تھا ، انہوں نے اپنے ان اشعار میں جن میں انہوں نے خود امت عربیہ کو مخاطب کیا ہے ، بڑے دلآویز طریقہ پر عربوں کے اس تعمیری اور انقلابی کارنامہ کو بیان کیا ہے ، اور بتایا ہے کہ یہ کس ایمان و عقیدہ اور کس کی دعوت و پیغام کا فیض تھا ، یہ ان کے فارسی کلام کے حسین ترین حصوں میں ہے ،
ازدم سیراب آں می لقب
لالہ رست از ریگ صحرائے عرب
حریت پروردہ آغوش اوست
یعنی امروزامم از دوش اوست
اودلے در پیکر آدم نہا
اونقاب از طلعت آدم کشاد
ہر خداوند کہن را او شکست
ہر کہن شاخ از نم او غنچہ بست
گرمی ہنگامہ بدرو حنین
حیدر و صدیق و حسین
سطوت بانگ صلاۃ اندر نبرد
قرات الصافات اندر نبرد
تیغ ایوبی نگاہ بایزید !
گنجہائے ہر دو عالم را کلید
عقل و دل را مستی از یک جام ہے
اختلاط ذکر و فکر روم روے
علم و حکمت شرع وویں نظم امور
اندرون سینہ دلہانا صبور
حسن عالم سوز الحمر و تاج
آنکہ از قدو سیاں گیرد خراج
ایں ہمہ یک لحظہ از اوقات اوست
یک تجلی از تجلیات اوست
ظاہرش ایں جلوہ ہائے دلفروز
باطنش از عارفاں پنہاں ہنوز
حمد بے حد مررسول پاک را
آں کہ ایماں و اومشت خاک را
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 311
ترجمہ:-
1- اس امی لقب نبیًً کی خوشی انفاسی کے فیض سے صحرائے عرب کے رایگزاروں میں گل و لالہ کی بہار آگئی ۔
2۔ آزادی کا جذبہ آپ ہی کی آغوش مبارک کا پروردہ ہے ، اور اس طرح گویا اقوام عالم کی حالیہ ترقیاں آپ کے عظیم ماضی کا نتیجہ ہیں ۔
3۔ انسان کے پیکر خاکی میں آپ نے دھڑکتا ہوا دل رکھ دیا اور صحیح معنوں میں انسان کی صلاحتیوں سے پردہ اٹھایا اور اس کے جوہر ذاتی کی چہری کشائی کی ۔
4۔ آپ نے تمام ہی خدایان کہن کو شکست فاش دی اور آپ کے فیض سے مرجھائی ہوئی شاخوں پر برگ و بار آنے لگے ۔
5۔ بدر و حنین کی گرمی ہنگامہ آپ ہی کے جوش و خروش کے دم سے تھی ، اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ ، حیدر رضی اللہ عنہ کرار اور شہید عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی انقلابی شخصیتیں آپ ہی کی ہمی صفت ذات کی تجلیاں تھیں ۔
6۔ حالت جنگ میں بلند ہونے والی اذان کی سطوت و ہیبت اور تلاوت الصافات کی لذت و علاوت آپ ہی کی دی ہوئی ہے ۔
7۔ صلاح الدین ایوبی کی شمشیر آبدار ، اور بایزید بسطامی کی حقیقت میں نگاہ دو عالم کے خزانوں کی کلید ثابت ہوئیں۔
8۔ ساقی مدینہ کے ایک جام سے عقل و دل دونوں ہی مست و سرشار ہو گئے ، اور آپ کی تربیت گاہ میں رومی کا ذکر اور رازی کی فکر فلک پیماہم آہنگ ہوئی۔
9۔ علم و حکمت ، دین و شریعت اور انتطام سلطنت اور دنیا کے اندر پھیلی ہوئی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 312
روحانی طلب و تلاش اور سینوں میں دلوں کی بے قراری ۔
10۔ الحمرا اور تاج محل کا وہ حس عالم سوز و دل افروز جو فرشتوں سے بھی خراج عقیدت لے لیتا ہے ۔
11۔ یہ سب کارنامے آپ کے اوقات عزیز و گرانمایہ کے ایک مختصر لمحہ اور آپ کی تجلیات باطنی کی طرف ایک تجلی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
12۔ آپ کے فیض ظاہری کے اثرات ان جلوہ ہائے دلفروز کی شکل میں تو ظاہر ہو گئے ، لیکن آپ کے وجود مبارک کا باطنی پہلو عارفان کامل کی نگاہ سے بھی پوشیدہ ہے ۔
13۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ہستی بے حد تعریفوں کی مستحق ہے ، جس نے مشت خاک کو ایمان دے کر جوہر قابل بنا دیا ۔
دنیا کے عجائبات میں سے تاریخ کا یہ کلیہ بھی ہے جن لوگوں نے عظیم سلطنتوں کی بنیاد رکھی ، اور جن کی بدولت خستہ حال اور پامال قوموں کو عروج و ترقی ، عظمت و شوکت اور اقبال و کامرانی کے دن دیکھنے نصیب ہوئے ، وہ ہمیشہ جفاکش ، سخت کوش ، سخت جان ، ہر قسم کی راحت و تنعم سے بے نیاز اور نہایت سادہ پر مشقت اور خشک زندگی گزارنے کے عادی تھے ، اور اسی مہم جوئی ، بلند حوصلگی ، اور سخت کوشی کی وجہ سے وہ سخت نامساعد حالات میں ان سلطنتوں کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے ، جو صدیوں تک ہلائے نہ ہل سکی ، لیکن دولت و وسایل کی فراوانی ، فاسد ماحول ، خود غرض مصاحبین اور خوشامدی درباریوں نے ان کے اخلاف و جانشینوں پر رفتہ رفتہ اثر ڈالا ، ان کے قوائے عمل مضحمل ہونے لگے ، وہ عیش و عشرت کے خوگر، تن آسانی ، راحت طلبی ، اور تنعم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 313
کے اس طرح شکار ہوئے کہ ان کو ہل کر پانی پینا دشوار ہوگیا ، وہ رزم کے بجائے بزم کے مرد میدان بن گئے ، شراب و شاہد، چنگ و رباب ، اور مطرب و مغنی ان کے دمساز و ہمراز تھے ، جن کے بغیر ان کو چین نہیں آتا تھا ، سلطنت کی حفاظت و توسیع اور نئی نئی فتوحات کے بجائے ان کی ساری ذہانت لباسوں کی تراش خراش ، کھانوں کی نئی نئی قسمیں ایجاد کرنے ، اور عیش و عشرت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں صرف ہونے لگی ، اور اس میں وہ ان حدود اور اس سے انتہا تک پہنچ گئے جہاں آسانی کے ساتھ ایک متوسط آدمی کے تخیل اور قیاس کا پہنچنا بھی مشکل ہے ، یہ تاریخ عالم کا ایک ایسا کلیہ ہے ، جس میں مشکل سے استثنا ملے گا ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک قانون قدرت ہے ، اور مال و دولت ، سلطنت و حکومت اور ہر طرح کے وسائل کی فراہمی و فراوانی کا ایک منطقی نتیجہ ہے ، قرآن مجید نے اپنے مسلم ایجاز و اعجاز کے ساتھ اس حقیقت کو ان بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
کلا ان الانسانَ لیطعی۔ ان راہُ استغنی ۔ ( سورہ العلق )
مگر انسان سرکش ہوجاتا ہے جب اپنے تئیں غنی دیکھتا ہے ۔
ایک ایک قوم اور ایک یک سلطنت کی تاریخ پڑھئیے آپ کو آغاز و انجام میں یہی تفاوت اور بانیاں سلطنت کے اخلاق ، طرز زندگی ، معیار و اقداراور ان کئ نا اہل وارثوں کے اخلاق و اطوار اور اقدار و معیار میں یہی تضاد نظر آئے گا ۔
ہم یہاں پر صرف دو مثالوں پر اکتفا کریں گے ، جن کا تعلق اس ملت سے ہے ، جو دنیا میں اخلاقی تعلیمات کی سب سے بڑی علمبردار اور اس پیغمبر کی نام لیوا ہے ، جس نے پیٹ پر پتھر باندھے ، جس نے فقر کو اپنا فخر قرار دیا اور جس ملت کی بنیاد زہد و قناعت
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 314
احتساب نفس ، اور خدمت خلق پرپڑی ، ایران و روما ، مصر و یونان اور دنیا کے دوسرے ممالک کی سلطنتوں اور تہذیبوں کی تاریخ میں اس کی صد ہا مثالیں ملیں گی۔
سب جانتے ہیں کہ عرب اسلام کا پیغام پہنچانے اور دنیا کو "خدا کی حکومت" میں شامل کرنے کے لئے جب جزیرہ العرب نکلے تھے تو ان کا کیا حال تھا ، وہ کس قرد جفاکش ، سخت کوش ، تمدن کے لوازمات اور تکلفات سے کس قدر نا آشنا اور بیگانہ تھے ، ان کی زندگی کس قدر فقیرانہ اور زہدانہ بلکہ سپاہیانہ تھی ، انہوں نے اسلام کے پیغام کی قوت تسخیر اور اپنی اس زندگی کی خصوصیات کے زور سے جس سے اس وقت کی دنیا کی قومیں یکسر محروم ہو گئی تھیں ، عظیم سلطنتیں قائم کیں ، ان میں سے ایک سلطنت عباسیہ تھی ، جس کا پایہ تخت بغدادتھا ، اور جس نے خلافت کے نام سے تقریباََ پانچ سو500 برس بڑے کروفر سے حکومت کی اور تقریباََ اس وقت کی متمدن دنیا کے آدھے حصہ کو زیر نگیں کر لیا ، اس کے بانی اور ابتدائی حکمرانی ہاروں و مامون تک ( ان شاہانہ الوالغزمیوں اور خوش باشیوں کے ساتھ جو مشہور خاص و عام ہیں) جفاکش ، سخت کوش ، سپاہیانہ زندگی کے عادی اور میدان جنگ کے شہسوار بھی تھے ، لیکن رفتہ رفتہ اس سلطنت کو بھی عیش و عشرت کا گھن لگ گیا، اس کے تخت نشین جو خلافت اسلامی کی نسبت گرامی کے بھی حامل تھی ، عیش و عشرت کے دلدادہ اور دولت و سائل کی بہتات کی پیدا کی ہوئی بیماریوں کے بری طرح شکار ہو گئے ، دار الخلافہ بغداد میں عیش و عشرت اور خود فراموشی و غفلت کا ایک سیلاب آیا ، جس سے بڑے بڑے عقلا و فضلا، سنجیدہ و پروقار لوگوں کے دامین بھی آلودہ تر ہو گئے ، سارے بغداد میں اور
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 315
اس کے اثر سے قرب و جوار میں زندگی سے تمتع اور لطف اندوزی کی فضا چھا گئی ، اور عیش و نشاط کا دور دورہ ہوا ، اس غفلت و سرمستی کا نتیجہ آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی خلافت میں تاتاریوں کے اس وحشیانہ حملہ کی شکل میں ظاہر ہوا ، جس سے علم و تہذئب کا یہ گہوارہ ایک وحشتناک مقتل میں تبدیل ہو گیا ، جس کی تفصیل لکھنے سے مسلمان مورخین کا قلم بھی بار بار رکتا ہے ۔
ایک مورخ نے بغداد کے اس عہد کی تصویر بڑی خوبی سے کھنچی ہے ، دسویں صدی کے ایک مشہور عالم و مورخ مفتی قطب الدین بہر والی مکی مستعصم کے عہد میں اہل بغداد کا حال بیان کرتے ہیں ہوئے لکھتے ہیں :-
"نرم و گرم سبزوں میں آسودہ بغداد کے کنارے ، چین کی بانسری بجانے والے، آپ رواں اور صحن گلشن کے عادی ، روست احباب کی محفلیں گرم ، اور دستر خوان میووں اور مشروبات سے پُر ، انہوں نے نہ کبھی حرب و ضرب سے واسطہ رکھا ، نہ جنگ کی تلخٰ سے ان کا کام و دہن آشنا ہوئے ۔ "
دوسری مثال ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کی ہے ، جس کا بانی ظہیر الدین بابر تیموری (1482۔1530) تھا ، اس سلطنت کی حقیقی بنیاد ، توبہ دانا بت کی کیفیت زندگی کی تبدیلی کے عزم ، سخت کوشی اور جانبازی اور عزم صادق سے پڑی ، بابر نے جب یہ دیکھا کہ رانا سانگا کے ایک لاکھ سپاہیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 316
پاس صرف بیس ہزار سپاہی ہیں ، جو بیگانہہ ملک میں ہونے کی وجہ سے ہر قسم اور رسد سے محروم ہیں ، تو اس نے فتح کا یک دوسرا راستہ اختیار کیا ، مشہور مورخ ابوالقاسم فرشتہ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :-
" فردوس مکانی نے تھوڑے غور و تامل کے بعد کہا کہ میری اس بزدلی پر دنیاکے اسلامی فرمانروز ! مجھے کیا کہیں گے ، ظاہر ہے کہ سبھوں کا یہ خیال ہو گا کہ محض اپنی جان کی خیر مانگ کر اتنے بڑے وسیع ملک کو اس طرح ہاتھ ست کھو بیٹھا ، میرے نزدیک یہی بہتر ہے کہ شہادت کی سعادت کو مدنظر رکھوں اور مردانگی کے ساتھ معرکہ کار زار میں دل و جان سے کوشش کروں گا ۔
اہل مجلس نے بادشاہ کی یہی تقریر سنی اور ہر گوشہ سے بالا تفاق جہاد کا نعرہ بلند ہوا ، بادشاہ کی تقیر کا دل پر ایسا اثر ہوا کہ ہر شخص نے سر تسلیم خم کر کے بالا تفاق یہی کہا شہادت سے زیادہ اور کون سی سعادت محبوب ہو سکتی ہے ، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا قول ہے کہ مارا تو "غازی " اور مرے تو " شہید" ہم سب شرعی قسم کھاتے ہیں کہ کار زار سے منہ موڑنے کا خیال تک دل میں نہ لائیں گے امیروں نے مزید اطمینان کے لئے اپنے عہد و پیمان کو حلف سے اور زیادہ مضبوط کیا ، بادشاہ نے جس کا یہ حال تھا کہ کسی وقت بھی اسے بلا ساقی و شراب چین نہ تھا ، مصلحت وقت کے لحاظ سے بادہ نوشی بالکل ترک کر دی بلکہ تمام مکر وہات یہاں تک کہ ریش تراشی سے بھی توبہ کر لی"۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 317
جس سلطنت کی بنیادی اس عزم و حزم ، اس جانبازی و جاں سپاری اور خدا سے عہد و معاہدہ پر ہوئی تھی ، اور جس نے الو العزم بانی کے جانشینوں میں ہمایوں جیسا عالی ہمت ، اکبر جیسا الوالعزم ، اورنگ زیب جیسا مرد آہن پیدا ہوا ، رفتہ رفتہ وہ کس طرح سلطنتوں کے زوال اور شاہان قدیم کی عیش کوشی اور خود فراموشی کے راستہ پر پڑ گئی اس کا ایک نمونہ محمد شاہ (1719ء-1748ء) کی زندگی اور اس کے محل و دربار کا نقشہ ہے ، جو عوام کی زبان میں "رنگیلے" کے نام سے مشہور ہے ، اس کا تذکرہ ایک مورخ نے حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے ، جو تاریخ کی شہادتوں پر مبنی ہے :-
"(نادر شاہی حملہ کے وقت ) عیش و عشرت کا زور شور تھا ، محمد شاہ صاحب سر یرتھاتن آسانی کے سوا کسی کام سے کام نہ تھا ، ہر وقت ہاتھ میں جام اور بغل میں دلآرام تھا ، کس کو دماغ تھا کہ نادرشاہ کے نامہ کا جواب لکھتا ، مگر اصل حقیقت یہ تھہ کہ ہندوستان کی سپاہ میں سکت کہاں تھی کہ وہ افغانوں کو نکالتی اور روکتی "۔
"(محمدشاہ) نے تیس سال سلطنت کرکے خاندان تیموریہ کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ، اور عیش و عشرت کے وہ سامان جدید ایجاد کئے کہ جن کی پیروی سے آج تک امیروں کا ستیاناس ہوتا ہے "۔
سلطنتوں کے اس آغاز و انجام ، قوموں کے ماضی و حال کے اس عظیم تفاوت کو ان قوموں کی تاریخ کے آئینہ میں دیکھ کر جس کی یہاں صرف دو مثالیں پیش کی گئی ہیں ، آپ اقبال کے اس شعر کی صداقت کا اندازہ لگائیے ، جس میں انہوں نے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 318
دنیا کے ہزاروں سال کی تاریخ اور اقوام وملل کے عروج و زوال کا خلاصہ پیش کر دیا ہے ، وہ کہتے ہیں ،
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طاؤس و رباب آخر
لیکن یہ مضمون نامکمل رہ جائے گا ، اگر اس میں اتنا اضافہ نہ کیا جائے کہ جب طاؤس و رباب کا یہ دور آتا ہے ، اور قوموں اور سلطنتوں پر زندگی سے تمتع ، تفریح و تعیش کا ہسٹریائی دوہ پڑتا ہے ، اور اس سلسلہ میں وہ ہر اخلاقی حد کو پھلانگ جاتی اور ہر حقیقت کو نظر انداز کر دیتی ہیں ، تو خدا کی حکمت بالغہ اس موقع پر عمل جراحی کو ضروری سمجھتی ہے اور اس عمل جراحی کے لئے کسی چنگیز ، کسی تیمور اور کسی نادر شاہ افشار کا انتخاب کر لیتی ہے ، جو اس فاسد پھوڑے پر نشتر کا کام کرتا ہے ، اقبال ہی کا شعر ہے ،
کرتی ہے ملوکیت آثار جنوں پیدا
اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز
قدیم ملوکیت اور مطلق العنان سلطنتوں کی دور تقریباََ ختم ہو چکا ہے ، اب سلطانی جمہور کا دور آیا ہے ، اور دنیا کی ساری طاقت ، دولت ، اور قیادت مغرب میں ( جس میں یورپ اور امریکہ دونوں شامل ہیں ) مرکوز ہو گئی ہے ، دنیا کی یہ قیادت اپنے آخری نقطہ عروج کو پہنچنے اور مغربی تہذیب اپنی آخری صلاحیتوں کا اظہار کر دینے کے بعد اب جنون کے اس مرحلہ سے گزر رہی ہے ، جس سے دنیا کی قدیم ملوکیتیں اور گذشتہ تہذیبیں گزریں ، حائق سے چشم پوشی ، کمزور اور بے ضرر قوموں کے حقوق کی پامالی ، تفریح و تعیش اور نفس پرستی کی بحرانی ( ہسٹریائی ) کیفیت زندگی سے بیزاری اور
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 319
اکتاہٹ ، اخلاقی اور جنسی انحراف ، عجلت اور جدت کا عشق ، اجتماعیت کے خلاف شدید رد عمل اور انفرادیت کا غلبہ ، نتائج و عواقب سے مکمل چشم پوشی اور لذت و منفعت کے سوا ہر محرک کا مفقود ہو جانا بتاتا ہے کہ یہ قیادت اپنی سلاحت اور افادیت کھو چکی ہے ، اور یہ تہذیب عالم نز ع میں گرفتار ہے ۔
ایسے ہی موقع پر دنیا میں کوئی تازہ قیادت ابھرتی تھی ، اور کوئی نئی طاقت اس فاسد پھوڑے پر نشتر کا کام کر کے ، انسانیت کے جسم کو ہلاکت سے بچا لیتی اور اس کے عروق میں زندگی کا تازہ خون دوڑا دیتی تھی ، لیکن مغربی تہذیب نے دنیا میں کوئی دوسری قیادت و طاقت باقی نہیں رکھی ، اور اس وقت عالم کے کسی گوشہ سے کسی نئی قیادت کے ابھرنے اور کسی تازہ دم تہذیب کے میدان میں آنے کی کوئی امید نہیں ہے ، اس لئے کہ دنیا کی ساری قیادتیں مغرب کی قیادت کی حاشیہ برادر (CAMP FOLLOWER)اور دوسری تہذیبیں مغربی تہذیب کی حلقہ بگوش یا اس کے سامنے سپر انداز ہو چکی ہیں ، اس لئے اب ایسا نظر آتا ہے کہ اب اس عمل جراحی کے لئے باہر سے کوئی نشتر نہیں آئے گا ، اور نہ اس کی ضرورت ہے ، اس لئے بقول اقبال وہ اپنی خود لگائی ہوئی جراحتوں سے نیم جاں ہو رہی ہے ، ّع
کہ افرنگ از جراحت ہائے پنہاں بسمل افتاداست
وہ عرصہ سے جس خطرناک راستہ پر پڑ گئی ہے ، اور اس نے خدا ترس اور بے ضمیر انسانوں کو ہلاکت و تخریب کی جو غیر محدود طاقت و صلاحیت مہیا کر دی ہے ،
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 320
وہ قریت ہے کہ خود اس کا کام تمام کر دے ۔
وہ فکر گستاخ جس نےے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 81
میں ہوں نومید تیرے ساقیانِ مامری فن سے
کہ بزم خارواں میں لیکے آئے ساتگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جنکی آستیں خالی
وہ دوسری تہذیب و افکار کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہر قوم کے لئے عار کی بات ہے اور اس قوم کے لئے ناقابل معافی گناہ ہے جو قوموں کی قیادت اور عالمی انقلاب کے لئے پیدا کی گئی ہے ، کہتے ہیں :-
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اسکا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
وہ مشرق کی اسلامی اقوام کو ملامت کرتے ہیں جن کا منصب قیادت دامامت کا تھا ، لیکن وہ پست درجہ کی شاگردی اور ذلیل قسم کی نقالی کا کردار ادا کر رہی ہیں ، غالباََ ترکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
کہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
جاوید نامہ میں سعید حلیم پاشا کی زبان سے ترکی میں کمالی اصلاح و انقلاب کی سطحیت اس کے کھوکھلے پن اور اس کے داعی و زعیم (کمال اتاترک) کی فکری کہنگی اور یورپ کی بے روح نقالی کی ندمت کھلے طریقہ پر کی ہے ۔
مصطفے کو از تجدید می سرود
گفت نقش کہنہ رابا یدزدود !
نو نگر و کعبہ رارخت حیات
گرزا فرنگ آمدش لات و منات
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 82
ترک را آہنگ نودر چنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست
سینہ ادرا دمے دیگر نبود
در ضمیرش عالمے دیگر نبود
لاجرم باعالم موجود ساخت
مثل موم از سوز عالم در گداخت
مغربی تعلیم اور اس کے اثرات
مغربی نظام تعلیم در حقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے قسم کی لیکن خاموش نسل کشی (GENOCIDE) کے مرادف تھا ، عقلا، مغرب نے ایک پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقہ کو چھوڑ کر اس کو اپنے سانچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لئے جا بجا مراکز قائم کئے جنکو تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا اکبر نے اس سنجیدہ تاریخی حقیقت کو اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں بڑی خوبی سے ادا کیا ہے ، ان کا مشہور شعر ہے :-
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ایک دوسرے شعر میں انھوں نے مشرقی اور مغربی حکمرانوں کا فرق اس طرح بیان کیا ہے :-
مشرقی تو سر دشمن کو کچل دیتے ہیں
مغربی اس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں
اس سے کئی برس بعد اقبال نے ( جنھوں نے اس نظام تعلیم کا خود زخم کھایا تھا )
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 83
اس حقیقت کو زیادہ سنجیدہ انداز میں اس طرح پیش کیا :-
مباش ایمن ازاں علمے کو خوانی
کہ ازوے روح قومے می تواں کشت
تعلیم جو تحلب ماہیت کرتی ہے ، اور جس طرح ایک سانچہ توڑ کر دوسرا سانچہ بنائی ہے اس کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :-
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہئے اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے ایک ڈھیر
وہ مغرب کے اس نظام تعلیم کو دین و مروت و اخلاق کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال ان معدودے چند چند خوش قسمت افرادمیں سے ہیں ، جو مغربی تعلیم کے سمندد میں غوطہ لگا آئے اور نہ صرف یہ کہ صحیح سلامت ساحٌ تک پہنچے بلکہ اپنے ساتھ بہت سے موتی ساحل سے نکال لائے اور ان کی خود اعتمادی ، اسلام کی ابدیت ، ورا سکے وسیع مضمرات پر ان کا یقین اور زیادہ مستحکم ہو گیا اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ انھوں نے مغربی تعلیم اور فلسفہ کا مطلق اثر نہیں کیا اور ان کا دینی فہم و کتاب و سنت اور سلف امت کے بالکل مطابق ہے ، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس آتش نمرود نے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 84
ان ہزاروں معاصرین کی طرح ان کی خوداری اور شخصیت کو جلا کر خاک نہیں کیا اور بڑی حد تک ان کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ :-
طلسم علم حاضررا شکستم
ربودم دانہ و دامش کسستم
خدا داندا کہ مانند ابراہیم
نبارِ اوچہ بے پردا نشستم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 85
اقبال اور عصری نظام تعلیم
مغربی نظام تعلیم کی تنقید
اقبال نے جب اپنی بصیرت سے جدید نظام کا جائزہ لیا تو انھیں چند بہت بڑی کمزرویاں اور خامیاں نظر آئیں ، جنھیں انھوں نے اپنی تنقید اور صاف گوئی کا نشانہ بنایا اور ماہرین تعلیم کو اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی وہ جہاں مدرسہ اور طالب علم کے جرم کا ذکر کرتے ہیں ، وہاں اس سے مراد مغربی مدارس اور اس کے طلبہ ہی ہوتے ہیں ، ان کے خیال میں اس نظام دانش نے نئی نسل کے حق میں سب سے بڑا جرم کیا ہے ، وہ مدرسہ و خانقاہ دونوں سے بیزار نظر آتےہیں ،جہاں نہ زندگی کی چہل پہل ہے نہ محبت کا جوش و خروش ، نہ حکمت و بصیرت ہے نہ فکر و نظر۔​
؎؎؎​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 86
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ !
وہ دانشکدوں کی کورنگاہی و بے ذوقی اور خانقاہوں کی کم طلبی و بے توفیقی دونوں سے نالاں اور دونوں سے گریزاں ہیں :۔
جلو تیانِ مدرسہ کورنگاہ مردہ ذوق
خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدو !

عصری دانشگاہوں کا ظلم عظیم
اقبال کی یہ سنجیدہ رائے ہے کہ تعلیم جدید نے نئی نسل کی صرف عقلی اور ظاہری تربیت سے اعتناء اور قلب و روح کی نشوونما ، روحانی ارتقاء ، اخلاق کی پاکیزگی اور تزکیہ نفس سے غفلت کرکے اس پر سب سے بڑا ظلم کیا ہے ، جس کے سبب اس کے قویٰ غیر متوازن ، اور اس کی اٹھان غیر متناسب ہوئی ہے ، اور اس کی زندگی ہم آہنگی کی بجائے بے اعتدالیوں کا نمونہ بن گئی ہے ، نئی نسل کے ظاہر و باطن ، عقل و روح ، علم و عقیدہ کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو گئی ہے ۔
اسکی عقل باریک مگر روح تاریک ہے اور اسکے ذہن ارتقا کے ساتھ اس کا روحانی زوال بھی اسی حساب سے ہو رہا ہے ، وہ نئی نسل کو بہت قریب سے جانتے تھے اس لئے جب بھی اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے یا کوئی بات کہتے ہیں تو وہ واقعہ کی تصویر ہوتی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ نئی نسل کا پیمانہ ، خالی ، اس کی روح پیاسی اور تاریک ہے ، مگر اس کا چہرہ بہت تازہ و بارونق اور اس کا ظاہر بہت چاق و چوبند ہے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 87
اس کی عقل روشن مگر بصیرت اندھی ہے ، نے یقینی اور یاس و قنوط ان کی زندگی کا حاصل اور محرومی ان کی قسمت ہے ، یہ نوجوان انسان نہیں انسانوں کی لاش ہیں ، وہ اپنی ذات کے منکر ہیں ، مگر دوسروں پر ایمان لاتے ہیں ، اغیار و اجانب ان کے اسلامی خمیر سے دیر و کلیسا کی تعمیر کر رہے ہیں ، اور ان کی صلاحیتیں "صرف در میکدہ " ہو رہی ہیں ، سخت کوشی اور جفاکشی کے بجائے نرمی اور تن آسانی ، لذت طلبی اور عیش کوشی ان کا مسلک بنتی جا رہی ہے ۔
ان کی پست ہمتی کا یہ حال ہے کہ امیدیں اور آرزوئیں پیدا ہی نہیں ہوتیں یا پیدا ہوتے ہی گھٹ کر مرجاتی ہیں ، نئی دانشگاہوں نے ان کے دینی جذبات کو پوری طرح سلا دیا اور انکے وجود کو ہم نفسِ عدم بنا دیا ہے ۔
اپنی ذات اور اپنی شخصیت سے ناواقفیت اور اپنی صلاحیتوں سے بے پروائی ان میں عام ہے ، مغربی تہذیب کے زیر اثر وہ اپنی روح کا سودا روٹی کے چند ٹکڑوں پر بھی کرتے اور ضمیر فروشی کر سکتے ہیں ، ان کے معلم بھی ان کی قیمت اور حیثیتِ عرفی سے ناآشنا ہیں ، اسلئے انھوں نے انکو شرف و عظمت کے راز سے آگاہ نہیں کیا، وہ مومین ہیں ، لیکن موت سے بے خبر اور توحید کی طاقت سے ناواقف وہ فرنگ سے تہذیب کے لات و منات کی درآمد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ، فرزند حرم ہو کر بھی ان کا دل "طواف کوئے ملامت " اور "سجدہ پائے صنم " سے متنفر نہیں ، فرنگ نے انھیں بغیر حرب و ضرب اور قتل و غارت کے مار ڈالا ہے ، ان کی عقلیں بے جھجک ، ان کے دل پتھر ، اور نگاہ بیباک ہے ، ان کے قلوب بڑے بڑے حوادث کی چوٹ سے بھی نہیں پگھلتے ان کے علم و فن ، دین و سیاست ، عقل و دل ، سب کا مرکز وہ ہے ، ان کے دلوں میں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 88
افکار تازہ کی کوئی نمود نہیں ، ان کے خیالات میں کوئی بلندی نہیں ، ان کی زندگی پر جمود و تعطل کی برف جمی ہوئی ہے :-
یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ نہ تراشِ آذرانہ
شکایت ہے مجھے یارب خدا او ناران مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا الا الہ الا اللہ
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے
خانقاہوں میں کہیں لذت اسراء بھی ہے ؟
مئے یقیں سے ضمیر حیات ہے پر سوز
نصیب رسہ یارب یہ آب آتشناک!
یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیر در نگہ بےباک
آہ مکتب کا جوان گرم خوں،
ساحر افرنگ کا صید زبوں
نوجواناں تشنہ لب خالی ایاغ
شتسدد تاریک جاں ، روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقین و نا اُمید
چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید
ناکساں منکرز خود سو من بغیر
خشت بنداز خاک شاں معمار دیر
اقبال نئی نسل کے نوجوانوں سے کیا توقعات اور ان کے متعلق کیسے بلند خیالات رکھتے ہیں ، اس کا اندازہ ان کے اشعار سے ہو سکتا ہے :-
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں یہ جو ڈالتے ہیں کمند
ایک قطعہ کہتے ہیں:-
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا میری آرزو یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے !
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 89
"خطاب بہ جوانانِ اسلام " اور دوسری نظموں میں ان کی امیدوں اور آرزوؤں کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے طلباء علی گڑھ کالج کے نام "عشق کے درد مند" نےاپنے پیغام میں صاف صاف کہا :-
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے
اور ان کی نظم" ایک نوجوان کے نام" میں ان کے احساسات بڑی وضاحت سے آگئے ہیں ۔
ترے صوفے ہیں فرنگی ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زدر حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو حاضر کی تجلی میں
کہ پائی میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانو میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفان ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانو میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
وہ جب مسلم نوجوانوں کو اسلام کے بجائے دوسرے فلسفیوں سے متاثر اور مرعوب دیکھتے ہیں تو فطری طور پر انھیں صدمہ ہوتا ہے ، اپنی نظم " ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام " میں کہتے ہیں
تو اپنی خودی اگر نا کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے نے صوت
ہیں ذوق عمل کے واسطے موت
دیں مسلک زندگی کی تقویم
دیں سزِِ محمدًً و براہیمًَ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top