نفس کے ساتھ جہاد

ہم اکثر اپنے نفس کی شرارتوں کو پہچانتے ہیں لیکن اس پر قابو نہیں پا سکتے ، اس کے شر سے خود کو بچا نہیں سکتے ، اُس کے سامنے خود کو کمزور پاتے ہیں ، اس کے خلاف کچھ مجاھدہ نہیں کر پاتے ، اور اگر کبھی کبھار اگر کچھ حرکت کر بھی لیتے ہیں تو وقتی طور پر کچھ معمولی سی جدو جہد ہمیں تھکا کر اس کے سامنے ہرا دیتی ہے اور ہم اس کی تابع فرمانی میں لگ جاتے ہیں ،
سوچنے کی بات ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، اس کی کتاب ، یوم آخرت اور حساب پر اِیمان رکھنے کے باوجود ہم اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے میں اس قدر کمزور کیوں ہیں ؟؟؟
اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم درج ذیل حقائق کو جان لیں :::
نفس کے خلاف جہاد ، جسے عام طور پر مجاھدہء نفس کہا جاتا ہے ، نفس کی خواھشات کی خلاف ورزی کا نام ہے ، ان خواھشات کا خاتمہ کرنا ہے ، اور ایسا کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ نفس ان چیزوں کی طرف مائل ہوتا ہے جن کے ذریعے جہنم کو چُھپایا گیا ہے ، یعنی لذات و شہوات ، ان لذات و شہوات میں سے کچھ تو حرام ہیں ، جن پر عمل کرنا ، جنہیں حاصل کرنا کسی طور حلال نہیں ، مثلاً نشہ کرنا ، نماز ترک کرنا ، غیر محرم کی طرف نظر کرنا ، حرام آوازیں سننا جن میں موسیقی گانے اور شرکیہ کلام شامل ہیں ، غیبت اور چغل خوری وغیرہ ،
لذات اور شہوات میں سے کچھ ایسی ہیں جو مکروہ ہیں ، جنہیں حاصل کرنے سے ، ان پر عمل کرنے سے گناہ تو نہیں ہوتا لیکن ان کی کثرت انسان کو حرام میں داخل کر دینے کاسبب ہو جاتی ہے ، مثلاً نماز با جماعت میں تاخیر کرنا، بلا ضرورت اور بلا حجاب غیر محرموں سے بات چیت کرنا ، وغیرہ ،
اور لذات اور شہوات میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جنہیں حاصل کرنا اور جن پر عمل کرنا حلال ہے ، لیکن ان لذات و شہوات کا مستقل اور مسلسل حصول اور ان پر مستقل عمل کرنا بسا اوقات انسان کو دیگر حلال کاموں سے دور کر دیتا ہے ، فرائض کی ادائیگی سے غافل کر دیتا ہے ، مکروھات میں داخل کر دیتا ہے اور پھر ان مکروھات کے ذریعے حرام تک لے جاتا ہے ، لہذا اِیمان والے کو حلال لذات و شہوات کے بارے میں بھی اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے رہنا چاہیے اور ان کو صرف اس حد تک استعمال کرنا چاہیے جہاں تک وہ اس کے لیے کسی طور کسی نقصان کا سبب نہ بن سکیں ،
پس اِیمان والے کو چاہیے کہ وہ حلال لذات و شہوات کے حصول کو بھی ضرورت تک ہی محدود رکھے ، اور اپنے ذہن و قلب کو اللہ کی اطاعت پر مضبوط کرے ، اگر وہ ایسا کرے گا تو نفس کے خلاف جہاد کرنے کی توفیق پائے گا ،اور اگر صدق و اخلاص سے اللہ کی طرف رجوع کرے گا اور اللہ کے سامنے عجز و انکساری کا قولی اور عملی اظہار کرے گا، اپنے رب سے مناجات رکھے گا رتو اس کا رب اسے اس کے نفس پر غلبہ پانے کی ہمت دے گا ،
کچھ لوگوں کو یہ وسوسہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے اور انسان کی فطرت میں ہے کہ دیگر انسانوں سے اور بالخصوص جنسء مخالف سے میل جول پسند کرتا ہے ، ایسی آوازیں سننا پسند کرتا ہے جو اس کو خوش کن محسوس ہوں ، ایسی چیزیں دیکھنا پسند کرتا ہے جو اسے لبھا سکیں ، تو ایسے تمام وسوسوں کا جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ انسانوں کی فطرت میں ہے تو انسان اور اِیمان والے میں یہ امتیازی فرق بھی ہے کہ وہ اپنے فطری تقاضوں کو بھی اپنے رب کے احکام کا پابند رکھتاہے، پس جو کوئی خود کو اِیمان والوں کی صف میں رکھنا چاہتا ہے وہ ایسے وسوسوں کا شکار نہیں ہوتا ،
وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ سے مناجات میں وہ لذت پاتا ہے جو دُنیا کی محافل میں نہیں پاتا، دن بھر میں پانچ دفعہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے اور وہ لذت پاتا ہے جو کسی سے بھی ملاقات میں نہیں پاتا ، اللہ عزّ و جلّ کے ذِکر میں وہ سکون پاتا ہے جو کسی کام میں نہیں پاتا ، اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت میں وہ راحت پاتا ہے جو کسی اور کلام کے سننے میں نہیں پاتا ، پس وہ اپنی دینی اور دن کی حدود کے مطابق اپنی معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ہی ساتھ ہر وقت ایسی خلوت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے کہ جس میں وہ یکسُو ہو کر اپنے رب سے مناجات کرے ، اُس کا ذِکر کرے ، اُس کا کلام پڑھے ، سُنے ،
پس اِیمان والے کے لیے خلوت اور فراغت سنہری مواقع ہوتے ہیں ، وہ ان کی تلاش میں رہتا ہے ، نہ کہ مذکورہ بالا وسواس کا شکار ہو کر دنیاوی محافل اور دین دنیا اور آخرت کے نقصان والے کاموں میں خود کو مشغول کرتا ہے ،
امام ابن معین رحمہُ سے اُن کے مرض الموت کے وقت میں پوچھا گیا کہ آپ کی کیا خواھش ہے ؟
تو انہوں نے جواب دِیا """ خالی گھر اور اس میں ٹھیک سے سہارا لے کر بیٹھنے کی جگہ """ تا کہ فراغت کے ساتھ اللہ کےذِکر میں مشغول رہا جا سکے ،
اب ہم میں سے اکثر کا یہ حال ہے کہ اگر انہیں اپنے ہی گھر میں کچھ تنہائی آن گھیرے تو انہیں گھٹن ہونے لگتی ہے ، کہیں کچھ فراغت مل جائے تو وہ اللہ کی اس نعمت سے بیزار ہونے لگتے ہیں ، لہذا وقت گذارنے اور دل بہلانے کے لیے کسی ایسے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں جودنیا اور آخرت کی کسی خیر والا نہیں ہوتا ، انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ فراغت اللہ کی ایک نعمت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ﴿ [ARABIC]نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ[/ARABIC]: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ ::: دو نعتیں ایسی ہیں جِن کے بارے لوگوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہے ، صحت اور فراغت ﴾صحیح البخاری /کتاب الرقاق کی پہلی حدیث ،
لہذا ہونا یہ چاہیے کہ اگر اللہ کی یہ نعمت یعنی فراغت میسر ہو جائے تو اسے اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے میں استعمال کیا جائے ، اللہ کی اس نعمت یعنی فراغت کو اللہ کے رضا کے حصول میں ہی استعمال کیا جائے ،
اپنے ہی بارے میں سوچیے کہ جب کبھی آپ کے پاس فراغت ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں !!!
کیا اپنی فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے کام کرتے ہیں جن سے آپ کا اِیمان مضبوط ہو ، آپ کو آخرت کے فوائد حاصل ہوں ، اگر نہیں تو آپ اپنے نفس کے مطیع ہیں ، اور اگر آپ کو ایسے کاموں کی نقصان کا اندازہ نہیں تو آپ اپنے نفس کی شرارت کو پہچان نہیں پائے ، آپ ان کاموں کو پہچان نہیں پائے جن کے ذریعے جہنم کو ڈھانپا گیا ہے اور نفس ان کاموں کو پسند کرتا ہے اور آپ کو ان میں مشغول کر دیتا ہے ،
فراغت کا غلط استعمال بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال ہے ، ہمارا نفس ہر لمحے کوئی نہ کوئی چال چلتا رہتا ہے ، اور ہم اس کا شکار ہوتے ہیں تو صرف اس لیے کہ ہم اپنے دِین کی تعلیمات سے دُور ہوتے ہیں ، یا دینی تعلیمات کے نام پر کچھ بھی قبول کیے جاتے ہیں ، تو کبھی تو دین سے لا علمی کے باعث دور ہوتے ہیں اور کبھی غلط معلومات کی بنا پر ، اور اپنے نفس کی چالوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں ،
پس نفس کے خلاف جہاد کرنے کے لیے سب سے پہلا اور بنیادی ہتھیار دین کا درست علم حاصل کرنا ہے ، وہ علم جو اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل تائید کا حامل ہو ۔
کہ ایسا عِلم ہی آپ کو آپ کے رب کی درست پہچان کروانے کا سبب ہے ، آپ کے اِیمان اور عمل کی درستگی کا ذریعہ ہے ، اللہ کی رضا تک پہنچانے اور اس سے آپ کا تعلق مضبوط بنانے کا سبب ہے ، اور اس تعلق میں جس قدر مضبوطی آتی جائے گی اسی قدر آپ اپنے نفس کے خلاف جہاد میں کامیاب ہوتے جائیں گے ۔
 
بہت خوب صورت اور نصیحت آموز تحریر ہے۔ بہت شکریہ
یا اللہ ہمیں نفس کے خلاف جہاد کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہوئے ہمیں اس پر غلبہ پانے کی توفیق عطا فرما۔ آمین ثم آمین
 
Top