نظم: ’’اہلِ فلسطین‘‘

احبابِ گرامی، سلام عرض ہے!
کئی روز سے کچھ کہنے کی جانب طبیعت مائل نہیں ہوئی. ایک دو روز قبل ذہن سے برجستہ چند خیالات بر آمد ہوئے جو پیشِ خدمت ہیں. ملاحظہ فرمائیے اور سب کے حق میں دعائے خیر کیجئے.

’’اہلِ فلسطین‘‘

کیا کہوں ، ارضِ فلسطیں ، دیکھ کر حالت تری
اہلِ دنیا کے دلوں میں آتے ہیں کیا کیا خیال
قہر ہے تجھ پر خدا ئے پاک کا یا ہے کرم
اک معمہ ہے کہ جس پر کچھ بھی کہنا ہے محال

اک طرف تو ڈھیر ہیں ملبے کے تا حدِّ نظر
اور ہیں بکھری ہوئی سڑکوں پہ لاشیں جا بجا
دوسری جانب عوامِ سر بسجدہ ہیں ترے
جو یہ کہتے ہیں کہ پھر بھی شکر ہے اللہ کا

ظلم جو تجھ پر ہوئے ان کا نہیں ثانی کہیں
آدمی کا ذکر کیا ہے ، آدمیّت مر گئی
اور تیرے صاحبانِ صبر بھی بے مثل ہیں
ان کے ایماں کی حرارت آنکھ کو نم کر گئی

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 
Top