نادیدہ ہمدرد (صحفہ 62 تا 75)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

بلال

محفلین
"تو پھر تم نے کیا بتایا۔۔۔۔؟
"ابھی تک تو کچھ بھہ نہیں بتایا۔!" جولیا نے ناخوش گوار لہجے میں کہا۔
"ارے۔۔۔۔ تو بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اپنی عقل کا آپریشن کرانا چاہتی تھیں۔" وہ غصیلے انداز میں سر کو جھٹک کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور عمران نے قیدی کو آنکھ مار کر مسکراتے ہوئے کہا۔ "ایسی نکچڑی بیوی خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔!"
قیدی کچھ نہ بولا۔ اس کے نقوش کا تیکھا پن ڈھیلا پڑ چکا تھا اور آنکھوں میں سراسیمگی کے آثار پائے جاتے تھے۔
"خیر۔۔۔۔!" وہ تھوڑی دیر بعد ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "اب تم اپنی زبان کھولو۔۔۔۔!"
"مم۔۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتا۔!" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"کیا نہیں جانتے؟ بیوی نہیں جانتے کہ شوہر نہیں جانتے۔!"
وہ صرف تھوک نگل کر رہ گیا۔
"ہمیشہ یاد رکھو کہ سفید فام بیویاں ہم کالوں کے لئے درد سر بن جاتی ہیں۔!" عمران نے مربیانہ انداز میں کہا۔
قیدی حیرت سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
"تمہاری شادی ہو گئی ہے یا نہیں۔۔۔۔؟" عمران نے بڑے پیار سے پوچھا۔
"یہ تم نے کیا بکواس شروع کر دی ہے۔!" پشت سے جولیا کی غصیلی آواز آئی۔
"اچھا تو پھر تم ہی کوئی موضوع گفتگو تجویز کر دو۔۔۔۔!" عمران نے بھی جھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
"تم بتاؤ۔۔۔۔ تمہیں کس نے بھیجا تھا۔۔۔۔؟" جولیا نے قیدی سے پوچھا۔
"اس کے فرشتے بھی نہ بتا سکیں گے۔!" عمران بول پڑا۔
قیدی سختی سے ہونٹ بھنچے بیٹھا رہا۔
"تم کیوں بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔؟"
"دیکھا تم نے۔ ایسی ہوتی ہیں سفید فام بیویاں۔۔۔۔ میں بکواس کر رہا ہوں۔ اگر یہ میری طرح کالی ہوتی تو میں اس کی زبان گدی سے کھینچ لیتا۔!ً"
"بتاؤ تمہیں کس نے بھیجا تھا۔!" جولیا پیر ٹپخ کر دہاؑی۔
"اگر یہ بتا سکا تو میں وہ ساڑھے ستائیس روپے بھی تمہارے خوالے کر دوں گا جو اپنے کفن دفن کے لئے بچارکھے ہیں۔!"
"یقین کیجئے محترمہ۔۔۔۔! مسٹر روشنڈیل سچ کہہ رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔!"
قیدی بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر کام لے رہا ہو گا۔!" عمران نے خوش ہو کر کہا۔
"آپ تو سب کچھ جانتے ہیں مسٹر روشنڈیل۔!"
"اس لئے اب تم چلتے پھرتے نظر آؤ۔۔۔۔ اس پستول کا لائسنس تو ہو گا تمہارے پاس۔!"
"یقییناً ہے مسٹر روشنڈیل۔۔۔۔ میں سردار گڈھ کا ایک کھاتا پیتا ہوا آدمی ہوں۔!"
"شکل ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈھائی سیر سے کم نہ کھاتے ہو گے۔!" عمران نے کہا اور اس کے پستول سے میگزین نکال کر خالی پستول بغلی ہولٹر میں رکھ دیا۔ پھر اس نے اس کے ہاتھ بھی کھول دیئے تھے۔
"اب تم جا سکتے ہو اُسے مطلع کر دینا کہ وہ سفید فام عورت ایک دن پہلے ہی ہوٹل چھوڑ گئی ہے۔!"
"بہت بہت شکریہ مسٹر رعشنڈیل خدا کرے آپکا تعلق سرکاری محکمہ سراغ رسانی سے ہو۔!"
"چلتے پھرتے نظر آؤ۔۔۔۔ ہم بھی اسی طرح اپنے پیٹ پال رہے ہیں۔!"
اس کے بعد وہ اسے کمرے سے نکال کر پھر پلٹ آیا تھا۔ جولیا دانت پیس کر بولی۔ "بعض اوقات سچ مچ پاگل معلوم ہونے لگتے ہو۔!"
"بعض اوقات نہیں بلکہ ہمیشہ! اسی لئے تو ابھی تک میری شادی نہیں ہو سکی۔ خواہ مخواہ مسٹر روشنڈیل بنا پھرتا ہوں۔ بہر حال اب تم بھی چلتی پھرتی نظر آؤ۔!"
"کیا مطلب۔۔۔۔؟"
"تمہارے لئے بھی ایکس ٹو سے بندرہ دن کی چھٹی منظور کرا لایا ہوں۔!"
"میں نہیں سمجھی تم کیا کہنا چاہتے ہو۔!"
"ان لوگوں کی نظروں میں آگئی ہو۔ لٰہذا اب تمہارا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔!"
"تم نے بڑے یقین کے ساتھ اسے جانے دیا ہے۔!"
"ہاں۔۔۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ اصل مجرم کی شخصیت سے واقف نہیں۔۔۔۔ خیر اب مجھے وہ لسٹ چاہئے جو تمہیں ڈاکٹر سجاد سے ملی تھی۔!"
"لسٹ نہیں۔۔۔۔ اخبار کے تراشے ہیں۔۔۔۔ اس نے وہی میرے حوالے کئے تھے۔ آخری آدمی سمیت نو افراد تھے جن کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں اسے غلط دینی پڑی تھیں۔ ان تراشوں میں ان کے نام اور پتے بھی موجود ہیں۔!"
 

بلال

محفلین
"ابھی تک یہی سب سے بڑا کام ہے اور اس کا سہرا تمہارے سر ہے۔!" عمران اسے تعریفی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
"یہاں کا موسم بڑا اچھا جا رہا ہے۔ میں کچھ دن اور ٹھہرنا چاہتی تھی۔!"
"لیکن میں نہیں چاہتا کہ تمہارے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بھی کچھ گھپلا ہو جائے۔!"
عمران مسمسی سی صورت بنا کر بولا۔
"ہاں۔۔۔۔ اب تو جانا ہی پڑے گا۔!" جولیا طویل سانس لے کر بولی۔
"آٹھ بجے والے جہاز سے۔!"
"اتنی جلدی۔۔۔۔!"
"فضول باتیں نہ کرو۔۔۔۔ میک اپ میں تمہیں یہاں سے لے چلوں گا اور میں بھی اپنا حلیہ تبدیل کروں گا۔ یہ ریڈی میڈ میک اپ تو اب ضائع ہو چکا ہے۔ اس گروہ کی ایک لڑکی بھی مجھے اس میک اپ میں پہچان لے گی۔!"
"اوہو۔۔۔۔ تو اس حد تک وہ تمہارے قریب رہی ہے۔ کون ہے وہ۔۔۔۔؟"
"بڑی عجیب چیز ہے جولیا۔۔۔۔ لیکن ابھی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔!"
"آخر تم کب تک میرے لئے درد سر بنے رہو گے۔!"
"کیا مطلب۔۔۔۔؟"
"کچھ نہیں۔۔۔۔!"
"میں سمجھ گیا۔۔۔۔!"
"تم میں کچھ سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔!"
"یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ نہ سمجھوں گا اور نہ مار کھاؤں گا۔ سمجھ دار لوگ عموماً مرغے بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔!"
"تم کتنی دیر یہاں ٹھہرو گے۔!" وہ بُرا سا منہ بنا کر بولی۔
"بس اب تمہیں ایئر پورٹ پہنچا کر ہی دم لوں گا۔!"

///////////////////

بریگیڈیئر سہراب نے پچھلی جنگ عظیم میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے ان کے صلے میں اس کو متعدد تمغوں سے بھی نوازا گیا تھا اور زرعی زمینیں بھی انعام میں ملی تھیں جن میں اس نے جدید طرز کے فارم بنائے تھے۔
سردار گڈھ سے بیس میل کے فاصلے پر یہ سرسبز و شاداب فارم واقع تھے اور وہیں سہراب نے رہائش کے لئے ایک بڑی خوبصورت عمارت بھی بنوائی تھی جہاں اپنے پندرہ سولہ ملازمین کے ساتھ مقیم تھا اور وہ سب وہاں ایک بڑے خاندان کے افراد کے سے انداز میں رہتے تھے۔ ملازمین کا خیال تھا کہ اس زمانے میں ایسا مالک ملنا مشکل ہے جس کے برتاؤ میں باپ کی سی شفقت پائی جاتی ہے۔ اس نے انتہائی غصے میں بھی کبھی اُن سے اونچی آواز میں گفتگو نہیں کی تھی۔ کبھی کسی بڑے سے بڑے نقصان پر بھی وہ برا فروختہ نہیں ہوتا تھا۔ کسی سے کوئی نقصا ہو جاتا تو اس طرح اسے سمجھانے کی کوشش کرتا جیسے ناسمجھ بچوں کو سمجھاتے ہیں۔ بہر حال فارم میں کام کرنے والے ملازمین کا خیال تھا کہ ان کا مالک فوج میں کسی دعاگو بریگیڈیئر کا سرابراہ رہا ہوگا۔ لڑنے بھڑنے والی فوج کا آفیسر تو ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہر وقت بے حد مغموم نظر آتا اور کچھی کچھی وہ یہ بھی محسوس کرتے جیسے بریگیڈیئر بہت زیادہ خاتف ہو۔ ان میں سے کئی اس سے اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کر کے تھک ہارے تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے استفسار پر ہنس کر کہہ دیتا۔
"میری شکل ہی ایسی ہے۔ تم لوگ خواہ مخواہ میرے لئے پریشان رہتے ہو۔!"
اس وقت بھی وہ بہت زیادہ خاتف نظر آنے لگا۔ جب ایک ملازم نے اُسے کسی اجنبی کی آمد کی اطلاع دی تھی۔
"کک۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔؟" وہ ہکلایا تھا۔
"پتہ نہیں صاحب۔۔۔۔ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔!" ملازم نے جواب دیا۔
"کک۔۔۔۔ کیسا لگتا ہے۔!"
"صورت سے بالکل بیوقوف معلوم ہوتا ہے۔!" ملازم ہنس کر بولا۔
"کیوں آیا ہے۔۔۔۔؟"
"یہ تو نہیں بتایا صاحب۔۔۔۔ بس آپ سے ملنا چاہتا ہے۔!"
"اچھا۔۔۔۔ بٹھاؑ۔۔۔۔ اُسے۔!"
وہ سٹنگ روم میں آیا تھا۔ یہاں اُسے جو شخص نظر آیا وہ شائد اس سے بھی زیادہ بوکھلاہٹ میں مبتلا تھا۔ اُسے دیکھ کر کرسی سے اٹھا تھا پھر بیٹھ گیا تھا اور پھر اٹھ کر مصافحے کے لئے آگے بڑھا تھا۔
"آپ کون ہیں۔۔۔۔ مجھے سے کیا کام ہے۔۔۔۔؟" سہراب نے خوف زدہ سے لہجے میں پوچھا۔
"میں علی عمران ہوں۔۔۔۔ آپ کی لڑکی نے بھیجا ہے۔!"
"لل۔۔۔۔ لڑکی۔۔۔۔!"
 

بلال

محفلین
"ہاں۔۔۔۔ جو بیک وقت لڑکی بھی ہے اور لڑکا بھی۔۔۔۔!"
"یہ کیسی بیوقوفی کی بات کہی آپ نے۔۔۔۔ معاف کیجئے گا۔!"
"معاف کیا۔۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا اور ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکھنے لگا۔
"شہرزاد نے کیوں بھیجا ہے آپ کو۔۔۔۔؟"
"مجھے ایک ٹن پیلی سرسوں چاہئے۔!"
"میرے یہاں سرسوں کی کاشت نہیں ہوتی۔!"
"یہ تو محترمہ شہرزاد نے بھی بتایا تھا لیکن ان کا خیال ہے کہ آپ اس سلسلے میں میری راہنمائی کر سکیں گے۔!"
"وہ بیوقوف ہے۔۔۔۔ ایک ٹن سرسوں آپ کسی بھی آڑھتی سے خرید سکتے ہیں۔!"
"چلئے سرسوں کو ماریئے گولی۔۔۔۔ میں ویسے بھی آپ سے ملنا چاہتا تھا۔!"
"کیوں۔۔۔۔؟"
"مجھے ایک بلیک میلر کی تلاش ہے۔۔۔۔!"
"کک۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔!" سہراب بوکھلا کر کھڑا ہو گیا اور خوف زدہ انداز میں دروازے کی طرف دیکھ کر عمران کی طرف مڑا۔
"چلے جائیے۔۔۔۔ یہاں سے چلے جائیے۔!"
"بڑی عجیب بات ہے بلیک میلر کے تذگے ہی پر بد اخلاقی پر اتر آئے۔!"
"اوہ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ میں کسی سے بھی نہیں ملتا۔ میں آپ کو نہیں جانتا۔ آپ جھوٹے ہیں۔
شہرزاد نے آپ کو نہ بھیجا ہو گا۔!"
"میں جھوٹا نہیں ہوں۔۔۔۔ آپ میری توہین کر رہے ہیں۔!" عمران چیخ کر بولا اور بریگیڈیئے اس طرح سمہم گیا جیسے عمران اس پر حملہ کرنے والا ہو۔
"آہستہ بولئے۔۔۔۔ آہستہ پلیز۔۔۔۔ اگر آپ کو کسی بلیک میلر کی تلاش ہے تو آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں۔!"
"اس لئے کہ وہی آپ کو بھی بلیک میل کر رہا ہے۔!"
"شہرزاد نے ایسی کوئی بات ہر گز نہ کہی ہو گی۔ ہر گز نہیں۔۔۔۔!"
"مجھے یقین ہے کہ آپ اعتراف نہ کریں گے۔ اسی حد تک اس سے خائف ہیں۔!"
"خدا کے لئے چلے جائیے۔!" بریگیڈیئر چاروں طرف دیکھ کر خوف زدہ لہجے میں بولا۔
"اچھی بات ہے۔۔۔۔ بریگیڈیئر۔۔۔۔ لیکن آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں تو گفتگو کر ہی سکیں گے جو بہت عرصہ تک آپ کے ساتھ رہ چکا ہے۔!"
"کک۔۔۔۔ کون۔۔۔۔؟"
"کرنل جبار غزنوی۔۔۔۔ عرف پروفیسر ایکس۔۔۔۔!"
"چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔!" بریگیڈیئر حلق پھاڑ کر چیخا۔
شاید اس کی آواز ہی سن کر چار آدمی سٹنگ روم کی طرف دوڑ آئے تھے۔
"اس آدمی کو فوراً یہاں سے نکال باہر کرو۔!" بریگیڈیئر نے عمران کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔
وہ چاروں آہستہ آہستہ عمران کی طرف بڑھنے لگے اور عمران کسی لڑاکا عورت کی طرح ہاتھ نچا کر بولا۔ "ارے بس تکلیف نہ کرو تم لوگ۔۔۔۔ میں خود ہی جا رہا ہوں۔ ایسے چڑچڑے اور نکچڑے آدمی کے ساتھ کون اپنا وقت برباد کرنا پسند کرے گا۔۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔!"
ملازموں نے حیرت سے بریگیڈیئر کی طرف دیکھا اور جہاں تھے وہیں تھم گئے۔ عمران اور نہ جانے کیا کیا بڑبڑاتا ہوا وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔
فارم تک سفر کرنے کے لئے کیپٹن فیاض نے اس کے لئے ایک پولیس کار فراہم کی تھی جسے وہ خود ہی ڈرائیو کر کے یہاں پہنچا تھا۔ کار میں بیٹھتے وقت اس نے مڑ کر دیکھا تھا چاروں ملازم اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو۔ "اپنے صاحب سے کہہ دینا۔" عمران کھڑکی سے ہاتھ نکال کر بولا۔ "اُن سے زیادہ بد اخلاق آدمی آج تک میری نظر سے نہیں گذرا۔!"
پھر گاڑی تیزی سے سڑک کی طرف بڑھ گئی تھی۔ اب وہ پھر سردار گڈھ واپس جا رہا تھا اور اس کے چہرے پر ایسے ہی تاثرات پائے جاتے تھے جیسے اپنے مقصد میں ناکام نہ رہا ہو۔
گاڑی سردار گڈھ کی طرف بڑھتی رہی۔ دن کے تین بجے تھے۔ سرسبز وادی سے اٹھنے والی بھانت بھانت کی خوشبوؤں سے فضا رچی بسی ہوئی تھی۔ سفید چمکیلے بادلوں میں کہیں کہیں نیلگوں دراڑین سی نظر آئیں۔ بس اسی حد تک آسمان دکھائی دیتا۔ ہوا میں خنکی تھی۔ گاڑی تیز رفتاری سے مسافت طے کر رہی تھی۔ اچانک ریڈیو ٹیلی فون کا بزر چیخ پڑا۔
عمران نے ڈیش بورڈ کے خانے سے ریسیور نکال لیا۔
"ہیلو۔۔۔۔!" اس نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
"کار نمبر زیرو نائن ٹین؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔۔؟" عمران بولا۔
"ایک ہمدرد۔۔۔۔!"
"اُوہو۔۔۔۔ میں نے نام پوچھا تھا۔!" عمران پیشانی پر شکنیں ڈال کر بولا۔
"تمہاری گاڑی میں ایک ٹائم بم موجود ہے۔!"
"کہاں۔۔۔۔ کس جگہ۔۔۔۔؟"
 

بلال

محفلین
"یہ میں نہیں جانتا!" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "لیکن وہ صرف تین منٹ بعد پھٹ جائیگا۔!"
"کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔!"
"اگر تم مرنا ہی چاہتے ہو تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔!" دوسری طرف سے کہا گیا اور سلسلہ منقطع ہو گیا۔
عمران نے گھڑی دیکھی! گاڑی روک کر انجن بند کیا اور دروازہ کھول کر داہنی جانب چھلانگ لگا دی۔ اب وہ بے تحاشہ دوڑا جا رہا تھا۔
زمین ناہموار اور چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ سڑک سے کتنی دور نکل آیا ہے۔ اچانک اس کا ایک پیر کسی قدر زیادہ نشیب میں چلا گیا اور وہ توازن برقرار نہ رکھ سکنے کی بناء پر نامعلوم گہرائیوں میں لڑھکتا چلا گیا۔ پھر ایسا لگا جیسے کسی جھولتی ہوئی جگہ پر ٹک گیا ہو۔ اس کے گرد اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
پھر اس نے ہلکے سے دھماکے کی آواز سنی تھی اور ایسا معلوم ہوا تھا جیسے زمین جھنجھلا اٹھی ہو۔
"اوہ۔۔۔۔!" اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ "تو یہ بات ہے۔!"
وہ کسی جال میں پھنس گیا تھا۔ ایسا جال جو کسی گہرے گڑھے میں لگایا گیا تھا اور اسکے دہانے پر درختوں کی ٹہنیاں پھیلا دی گئی تھیں اس نے جال کو مٹھیوں میں جکڑ کر اسکی مضبوطی کا اندازہ لگایا اور پھر اوپر پہنچنے کی تدبیر کرنے ہی والا تھا کہ آواز آئی۔ "پھنس گیا" پھر ایک بے ہنگم سا قہقہہ سنائی دیا۔
عمران جال کو چھوڑ کر اپنا سر سہلانے لگا اور تب اسے معلوم ہوا کہ سر کی چوٹ خشک نہیں تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی گیلی واقع ہوئی تھی اور گیلا پن شاید پورے چہرے پر پھیل گیا تھا۔
جال میں جنبش ہوئی۔ اور اوپر کھینچا جا رہا تھا۔ عمران نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا تا کہ سیدھا کھڑا ہو سکے اور پھر جب اوپر پہنچا تو بیک وقت کئی زبانوں سے "ارے" نکلا اور سب اس کے طرف جھپٹے۔ تین مرد تھے اور ایک لڑکی۔
"تت۔۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔۔؟" لڑکی ہکلائی۔
"اب تو پھنس ہی چکا ہوں۔ اس لئے جو نام چاہو رکھ دو۔۔۔۔!" عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔
"ارے۔۔۔۔ انہیں جال سے نکالو۔۔۔۔ اوہو۔۔۔۔ چوٹ بھی آئی ہے۔ ہمیں افسوس ہے جناب۔۔۔۔!" لڑکی بولی۔
"پھنسنے والے جناب نہیں کہلاتے۔!"
"ہم شرمندہ ہیں۔۔۔۔ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی آدمی پھنسے گا۔!"
عمران کو جال سے نکالا گیا اور آدمی کہنے لگا۔ "ہم نے اس لکڑ بگڑ کو پھانسنے کے لئے جال لگایا تھا جو ہماری مرغیاں چٹ کر جاتا ہے۔!"
"اتفاق سے میرا نام بھی لکڑ بگڑ ہی ہے۔ کچھ لوگ پیار سے باگڑ بلا بھی کہتے ہیں۔!"
"آپ بہت خوش مزاج معلوم ہوتے ہیں جناب۔۔۔۔!" لڑکی بولی۔ "میں تو سمجھی تھی کہ آپ اس غلطی پر ہمیں ہرگز معاف نہ کریں گے۔ آپ کے سر میں خاصی چوٹ آئی ہے۔ ہمارے ساتھ چلئے ڈریسنگ کر دیں۔"
"وہ تو ہو ہی جائے گی۔ یہ بتائیے کیا ابھی آپ نے کوئی دھماکا سنا تھا۔۔۔۔؟"
"ہاں۔۔۔۔ تھا تو۔۔۔۔ کہیں قریب ہی ہوا تھا۔!"
"تب تو میں واقعی پھنس گیا۔!"
"کیا مطلب۔۔۔۔؟"
"کسی نے میری کار میں ٹائم بم رکھ دیا تھا اور جب اس کے پھٹنے میں صرف تین منٹ باقی رہ گئے تو کسی ہمدرد نے اطلاع دی۔!"
پوری بات سن کر وہ سب متحیر رہ گئے۔ پھر لڑکی رعمران کو ساتھ لے کر سڑک کی طرف چل پڑی۔ پہلے وہ اس جگہ پہنچی جہاں اپنی گاڑی کھڑی کی تھی۔ پھر ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔
"اب شائد ٹنکی پھٹی ہے۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔
"تو ہو پولیس کار تھی۔۔۔۔؟" لڑکی نے پوچھا۔
"جی ہاں۔۔۔۔ بڑی مشکل میں پڑ گیا ہوں۔۔۔۔ ایک آفیسر سے کار عاریتاً لی تھی۔ خود مرا پولیس سے کوئی تعلق نہیں۔!"
"کیا ہم اس جگہ چلیں جہاں حادثہ ہوا ہے۔!"
"میرا تو خیال ہے کہ میں اب اس پولیس آفیسر کو منہ نہ دکھا سکوں گا۔!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"فی الحال آپ کے زخم کی ڈریسنگ ضروری ہے۔ گاڑی میں بیٹھ جائیے۔!"
"اور بقیہ لوگ۔۔۔۔؟"
"وہ دوبارہ جال لگائیں گے۔۔۔۔ لکڑ بگڑ کو پکڑنا بے حد ضروری ہے۔ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کب آتا ہے اور مرغیاں جھپٹ لے جاتا ہے۔ صرف ایک بار دکھائی دیا تھا۔ لیکن رائفل کی زد پر بھی نہیں آیا۔!"
 

بلال

محفلین
"آپ مجھے کہاں لے چلیں گی۔!"
"اپنے بنگلے تک زیادہ سے زیادہ دو فرلانگ کے فاصلے پر ہوگا۔!"
"اب ایسا لگتا ہے جیسے پہلے بھی کہیں آپ کو دیکھا ہو۔!" عمران اسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
"اخبارات میں تصویر دیکھی ہو گی۔ میں پروفیسر ایکس کی اسسٹنٹ ریکھا چودھری ہوں۔!"
"اوہو۔۔۔۔ بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔۔۔ وہ دیکھا تھا اخبار میں رقص کا مقابلہ۔۔۔۔ ایک آدمی مرگیا تھا۔!"
"جی ہاں۔۔۔۔!" ریکھا آہستہ سے بولی۔ "وہ میرے لئے ڈراؤنا تجربہ تھا۔!"
"آپ بہت جاندار معلوم ہوتی ہیں۔!"
"قطعی نہیں جناب وہ پروفیسر کی قوت ارادی کا کرشمہ تھا۔ میں تو پانچ منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتی تیز موسیقی پر۔۔۔۔!"
"پروفیسر پُر اسرار قوتوں کے مالک ہیں۔ میں نے سنا ہے۔!" عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔
"صرف پختہ قوت ارادی کے مالک ہیں۔۔۔۔ اور ہاتھ کی صفائی کے ماہر جادو گر نہیں ہیں۔!"
ریکھا بولی۔
عمران کچھ نہ بولا۔ ریکھا خود ہی ڈرائیو کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک بنگلے کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی۔ پروفیسر سامنے ہی برآمدے میں کھڑا تھا۔ انہیں دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھلا تھا اور پھر بند ہو گیا تھا۔
"یہ کون ہے۔۔۔۔؟" اس نے آگے بڑھ کر ریکھا سے پوچھا۔
"میں لکڑ بگڑ ہوں جناب۔۔۔۔!" عمران مسمسی سی صورت بنا کر بولا اور ریکھا ہنس پڑی پھر بولی۔ "یہ بے چارے اس جال میں پھنس گئے تھے۔!"
"اوہو۔۔۔۔! چوٹ بھی آئی ہے۔ اندر لے چلو۔۔۔۔ ڈریسنگ کر دیں۔!" پروفیسر کے چہرے سے کرختگی کے آثار غائب ہو گئے۔ وہ ایک کمرے میں لایا گیا اور پروفیسر خود ہی اس کا زخم صاف کر کے پٹی باندھنے لگا۔
"اس سے پہلے انہیں ایک حادثہ بھی پیش آیا تھا۔!" ریکھا بولی اور عمران سے سنی ہوئی کہانی دہرا دی۔ پروفیسر کے چہرے کی نرمی یک بیک پھر تیکھے پن میں تبدیل ہو گئی۔ وہ عمران کو قہر آلود نظروں سے گھورے جا رہا تھا۔ دفعتاً بولا۔ "میں سب سمجھتا ہوں۔!"
"جی۔۔۔۔!" عمران نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
"پولیس کی چالیں۔۔۔۔ خوب سمجھتا ہوں لیکن وہ میرے خلاف کچھ بھی ثابت نہ کر سکے گی اور تم اب یہاں سے دفع ہو جاؤ۔!"
"کیا قصور ہو گیا جناب۔۔۔۔ ابھی تو آپ نے بڑی محبت سے ڈریسنگ کی تھی۔!"
"پس چلے جاؤ۔۔۔۔ خیریت اسی میں ہے۔!"
"نہیں۔۔۔۔ میں آپکے رویے میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ معلوم کئے بغیر ہر گز نہ جاؤں گا۔!"
"کئی دنوں سے میرا تعاقب ہو رہا ہے۔ اب مجھ تک پہنچنے کے لئے یہ چال چلی گئی ہے گویا میرے خلاف کیس بنایا جا رہا ہے۔ کہہ دو کہ تمہاری گاڑی میں وہ ٹائم بم میں نے ہی رکھوایا تھا۔!"
عمران نے قہقہہ لگایا اور بولا۔ "میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں یا پھر۔۔۔۔!"
"بکواس مت کرو چلے جاؤ یہاں سے۔!"
"ذرا دیکھئے تو سہی۔۔۔۔!" عمران ریکھا کی طرف دیکھ کر بولا۔ "میں نے تو لکڑ بگڑ والی بات پر یقین کر لیا لیکن میری بات پر یقین نہیں آرہا۔۔۔۔!"
"پروفیسر پلیز۔۔۔۔!" ریکھا بولی۔
"اچھا تو تم کیا چاہتی ہو۔۔۔۔؟" وہ غصیلے لہجے میں بولا۔
"کسی ثبوت کے بغیر الزام نہ لگائیے۔!"
"اسے اعتراف ہے کہ وہ پولیس کار تھی۔"
"یوں تو میں سنٹرل انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر کی اولاد ہوں۔!" عمران پروفیسر کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔
"میں کہتا ہوں بکواس مت کرو۔۔۔۔ چلے جاؤ یہاں سے۔!"
"میں انہیں اپنے ساتھ لائی ہوں۔ آپ براہ راست میری توہین کر رہے ہیں۔!" ریکھا جھنجھلا کر بولی۔
"تم بھی جہنم میں جاؤ۔۔۔۔!" پروفیسر پیر پٹخ کر بولا اور وہاں سے چلا گیا۔
ریکھا نرم لہجے میں بولی۔ "آپ بیٹھ جائیے۔۔۔۔ دراصل پولیس والوں نے ہم لوگوں کو بہت پریشان کیا ہے۔!'
"ضرور کیا ہو گا۔!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ "یہ اپنے باپ کے بھی نہیں ہوتے۔!"
"پروفیسر نے اسے زبردستی تو ناچنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔!"
"میرا بھی یہی خیال ہے۔!"
 

بلال

محفلین
"ظاہر ہے ایسی صورت میں وہ ہر اجنبی کو شبے کی نظر سے دیکھیں گے۔!"
"لیکن میں یہاں خود نہیں آیا۔ لکڑ بگڑ بنا کر لایا گیا ہوں۔!"
خیف سی مسکراہٹ ریکھا کے ہونٹوں پر نظر آئی جسے اس نے فوری طور پر دبا بھی دیا۔ پھر بولی۔ "پروفیسر پر دو اطراف سے یلغار ہے۔!"
"دو اطراف سے کیا مراد ہے۔!"
"ایک طرف پولیس ہے اور دوسری طرف کوئی بد معاش۔۔۔۔!"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔۔!"
"لیکن بد معاش والی بات پروفیسر کسی کو بھی بتانے پر تیار نہیں۔ اپنے طور پر اس کی تلاش میں ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ وہ اسے بھی پسند کریں گے یا نہیں کہ میں آپ کو بتا رہی ہوں۔!"
"ریکھا۔۔۔۔!" دفعتاً پروفیسر کی گونجیلی آواز سنائی دی اور وہ دونوں ہی چونک پڑے۔
"تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔ تم میری مرضی کے خلاف بکواس کر رہی ہو اور وہ بھی ایک اجنبی سے۔!"
"مم۔۔۔۔ میں معافی چاہتی ہوں پروفیسر۔۔۔۔!"
"اور تم اب تک یہاں سے گئے نہیں۔۔۔۔؟"
"چائے یا کاگی پئے بغیر۔۔۔۔؟" عمران سر ہلا کر بولا۔ "ارے اگر یہ کوئی فلمی سین بھی ہوتا تو اس میں چائے یا کافی ضرور چلتی۔ مجھے اپنے لکڑ بگڑ بننے پر سخت شرمندگی ہے اور پولیس اسٹیشن پر اس کی رپورٹ ضرور کراؤں گا۔!"
"شوق سے کراؤ۔۔۔۔ مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔!"
"میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ بد معاش کی کہانی کیا ہو گی۔!'
"کیا ہو گی۔۔۔۔؟" وہ عمران کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا غرایا۔
"یہی کہ اگر تم نے میرا فلاں کام نہ کیا تو فلاں آدمی کی طرح حیرت انگیز طور پر مر جاؤ گے اور آخری آدمی تمہارے قریب ہی مرا تھا۔!"
"اوہ۔۔۔۔!" پروفیسر کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔
"نہیں چلے گی۔!" عمران مضحکہ اڑانے والے انداز میں بولا۔ "میری قوت ارادی بھی اتنی کمزور نہیں ہے۔ کہ تم مجھ پر اثر انداز ہو سکو۔۔۔۔ اور شعبدہ گری میں تو میں تمہیں باقاعدہ طور پر چیلنج کرنے والا ہوں۔!"
"تم اُسی بد معاش کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔!"
"بھلا کس طرح مارو گے۔ بحیثیت لکر بگڑ مرنا تو ہر گز پسند نہ کروں گا۔!"
پروفیسر دروازے کی طرف مڑا اور کمرے سے چلا گیا۔
"چلے جائیے۔۔۔۔ خدارا جلدی سے چلے جائیے۔!" ریکھا اسے دوسرے دروازے کی طرف کھینچتی ہوئی بولی۔
"ارے واہ۔۔۔۔ بس بہت دیکھے ہیں۔ میں تو نہیں جاؤں گا۔!"
"سنو۔۔۔۔ اگر اس نے ملازمین کو بھی بلا لیا تو۔۔۔۔؟!
"دیکھا جائے گا۔!"
اتنے میں پروفیسر پلٹ آیا۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں اعشاریہ چار پانچ کا ریوالور تھا۔
"نہیں۔۔۔۔!" ریکھا چیخی۔
"خاموش رہو۔۔۔۔!" پروفیسر دہاڑا تھا۔
عمران خاموش کھڑا ریوالور کو اس طرح گھورے جا رہا تھا جیسے پہلی بار نظر سے گذرا ہو۔
"اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔۔۔۔!" پروفیسر غرایا۔
"پہلے تم یہ بتاؤ کہ یہ بندوقیا کتنے میں آتی ہے۔ میں بھی خرویدوں گا۔۔۔۔؟" عمران نے پُر مسرت لہجے میں پوچھا۔
"میں کہتا ہوں ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔!"
"نہیں اٹھاتا۔۔۔۔!"
"اٹھا دو۔۔۔۔ اٹھا دو۔۔۔۔!" ریکھا رو ہانسی ہو کر بولی۔
"ہر گز نہیں۔۔۔۔ وہ میری بغلیں دیکھنا چاہتا ہے۔ مجھے شرم آتی ہے۔!"
"مت بکواس کرو۔۔۔۔!" پروفیسر جھینپے ہوئے انداز میں چیخا تھا۔
"یار تم کیسے آدمی ہو۔۔۔۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں سکا۔!"
پروفیسر چند لمحے اسے تولنے والی نظروں سے دیکھتا رہا پھر ریوالور جھکا لیا اور نرم لہجے میں بولا۔
"تم اس بد معاش کے طریق کار کے بارے میں کیا جانو۔۔۔۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ جان سے مار دینے کی دھمکی دیتا ہے۔!"
عمران نے قہقہہ لگایا اور انگلی نچا کر بولا۔ "ابھی سچ مچ بتا دوں گا تو یہ بُرا مان جائیں گی۔!"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔۔؟" ریکھا ہکلائی۔
"اس نے مجھے بھی دھمکی دی تھی۔!" عمران سنجیدگی اختیار کر کے بولا۔
"تمہیں۔۔۔۔؟" پروفیسر کے لہجے میں حیرت تھی۔
"ہاں۔۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ کسی طرح پروفیسر کی سیکریٹری کو پھانسنے کی کوشش کرو ورنہ ان نو آدمیوں کی طرح مار ڈالے جاؤ گے۔ میں نے پوچھا کن نو آدمیوں کی طرح؟ اس نے اخبارات کے حوالے سے ان کے نام اور پتے بتائے۔ یہ دیکھو۔۔۔۔! میں نے اخبارات تلاش کر کے تراشے جمع کئے ہیں۔!" عمران نے جیب سے جولیا کے دیئے ہوئے تراشے نکالے اور پروفیسر کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ "کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے اپنی گاڑی اسی جگہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جہاں سے قریب ہی تمہاری سیکریٹری لگڑ بگڑ کے لئے جال لگائے بیٹھی تھی۔!"
 

بلال

محفلین
"یہ سب کیا بکواس ہے۔!" ریکھا غصیلے لہجے میں بولی۔
"خاموش رہو۔۔۔۔!" پروفیسر غرایا۔ "اس کی آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ دفعتاً وہ چونک کر اسے گھورنے لگا پھر بولا۔ "تمہارا وہاں کیا کام۔۔۔۔؟"
"کہاں۔۔۔۔؟"
"جہاں لکڑ بگڑ کے لئے جال لگایا گیا تھا۔!"
"بس یونہی چلی گئی تھی تماشہ دیکھنے کے لئے۔!"
"آج ہی کیوں چلی گئی تھیں؟ جال تو کئی دنوں سے لگایا جا رہا ہے۔!"
"آیا میری نقل و حرکت پر پابندی لگی ہوئی ہے۔!" ریکھا بھی تیز ہو کر بولی۔ "تم ہوش میں ہو
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top