نئے امکاں، تری کوشش سے نکل سکتے ہیں

ایک غزل پیش ہے۔ احباب کی توجّہ چاہونگا۔
**********--------------**********
نئے امکاں، تری کوشش سے نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل کو بدل سکتے ہیں

کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
پھر تعّلق کے نئے گام نکل سکتے ہیں

اب یہ ضد ہے، وہ منانے ہمیں ، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں

سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں

شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں

وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
رنگ بچپن کے حسیں ، اب بھی نکل سکتے ہیں

غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں

کہہ مکرنی کو تری مان گئے، جان گئے
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟

ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
آزمانے تجھے طوفاں بھی نکل سکتے ہیں !

شکریہ
**********--------------**********
 
Top