میں ایک لیڈر ہوں۔۔۔۔۔۔۔ بالحق۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل

بے وقوف قوم۔۔۔دنیا پہ بلا شرکت غیرے حکومت کرتا امریکہ جیسا ملک ہو، شکاگو جیسی ریاست ہو کہ جہاں ہر گلی، ہر سڑک شیشے کی طرح چمک رہی ہو اور جس کے کنارے پر آنکھوں کو ٹھنڈا کرتی سبزے کی چادر اور یا پھر تہذیب سے آراستہ قدموں پر فخر کرتی فٹ پاتھ، جہاں کوڑے کرکٹ کا نام نشان نہ ہو، گھروں سے نکلتا پانی ہو یا کہ آسمان سے برستا ابر رحمت، دونوں ہی ان سڑکوں فٹ پاتھوں کے نیچے بچھے کئی کئی فٹ چوڑے پائپوں کے راستے ، بغیر کوئی کیچڑ پیدا کئے، بغیر کسی کو پھسلائے، کسی کی ٹانگ پائوں کو موچ دئے ، شہر کے میئر کی جانب سے منتخب کردہ منزل تک پہنچ جائے۔جہاں رات، بغیر کسی بحران کے اس وقت تک جگمگاتی رہے کہ جب تک قدرت کی جانب سے روشنی کا منبع افق پر نہ آپہنچے اور جس میں مچھروں اور پسینے سے بلکتے بچوں کی دل آزار چلاہٹیں ، دن بھرکے تھکے ماندے، دو وقت کی روٹی کے لئے جتن کرتے والدین کی نیندوں کو حرام نہ کر پائیں۔ جہاں بجلی کے ٹرانسفارمراور نکاسی کی نالیاں قانون ساز اداروں کے ارکان کی فیتہ کٹائی کی محتاج نہ ہوں ۔جہاں دن کو کوئی مکینک، لوڈشیڈنگ کی بدولت، کئی کئی گاہکوں سے معذرت نہ کرتا ہو اور نہ ہی کسی فیکٹری کی چمنیوں کابند ہوتادھواں، اس لوڈشیڈنگ کی بدولت ملک کی معیشت کو دھواں دھواں کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔جہاں گیس کے کنکشن کے لئے کسی ایم این اے ایم پی اے کے دستخطوں کی ضرورت نہ ہو۔جہاں ہر دکان، ہر سٹور اور ہر مارکیٹ میں نرخ نامے آویزاں ہوں اور کسی بیچنے والے کے ہاتھوں ان نرخ ناموں سے بڑھ کر دام وصولنے کی بدولت کوئی خریدار لٹتا نہ ہو۔جہاں آجر کسی مذدور کی لاچارگی کو بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرتا ہو، جہاںاجیر اپنے کام میں ڈنڈی مارنے کی سوچ کو گناہ سمجھتا ہو۔ جہاں سکولوں کے طالبعلم، استاد کی صورت کو ترستے نہ ہوں۔ جہاں ڈگریاں بکتی نہ ہوں، جہاں ڈگریاں پھاڑی نہ جاتی ہوں۔جہاں امیر کے کند ذہن بچے اعلیٰ تعلیم کے قابل اور غریب کے فطین بچے مدرسہ چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں ۔ جہاں ہسپتالوں کے ڈاکٹر، پرائیویٹ ہسپتالوں کلینکوں سے بڑھ کر مریضوں کی صحت کے لئے فکر مند ہوں۔جہاں تھانوں کا عملہ بغیر کسی سیاسی عمل دخل کے صرف قانون کا تابع ہو اور جو مجھ جیسے لیڈروں کی چمچہ گیری کے بجائے، عوام کا محافظ اور قانون کا رکھوالا ہو۔جہاں جائدادوں کے کاغذوں پر پٹواری کی شاہی نہ ہو جہاں وڈیروں کو کسی جائداد پر قبضے کی عادت نہ ہو۔۔ایسے ملک ، ایسی ریاست کی گلیشیا میلون کو آخر کیا پڑی کہ وہ زچگی جیسے شدید درد کے باوجود، ہسپتال جاتے ہوئے ووٹ ڈالنے چل پڑی؟؟ ہے نہ بے وقوف قوم؟ اوباما تخت سے چمٹا رہے یا رونی تاج سجا بیٹھے،شکاگو ، امریکہ کے ایسے ماحول میں آخر گلیشیا اور کیا چاہتی تھی؟۔ مجھے ایسے ماحول کا خوب علم ، خوب تجربہ ہے۔ گو میں اس ملک کا باسی نہیں ہوں کہ جہاںیہ ماحول پایا جاتا ہے، بلکہ میں تو اس ملک میں پایا جاتا ہوں کہ جہاں اس قسم کے ماحول کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور دکھائے جاتے ہیں۔لیکن میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، اس نے ان تمام سہولیات سے محروم ملک، محروم شہر میں بھی مجھے یہ سب کچھ فراہم کیا۔ میں پیدا ہوا تو سونے کا چمچہ میرے منہ میں اور حکمرانی کی لوری میرا مقدر ٹھہرا۔ پائوں پائوں چلا تو میرے اجداد کے بغیر تنخواہ کے غلام، میرے جننے والوں سے بڑھ کر میرے پیر اپنے ہاتھوں پر جھیلنے کو تیار رہتے۔کچھ بڑا ہوا تو میری تعلیم کی فکر نے میرے والدین کو ملک بھر کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کی کیڈلاگ کھنگالنے پر مجبور کر دیا۔ میری شان کے مطابق جو(پرائیویٹ) ادارہ پایا گیا تو اس کے اساتذہ تو دور کی بات، مالکان خود مجھے کندھے پر اٹھانے آ موجود ہوئے۔ مگر میرے گھر کی پورچ میں موجود ہال نما سرکاری و ذاتی کئی گاڑیاں اس سعادت کے لئے موجود تھیں۔میرے گھر کے ماربل کے فرش اور کئی کنالوں پر محیط سبزہ زار کے درمیان وہی ماحول تھا کہ جو شکاگو کی گلیوں کا خاصہ ہے۔ اس پارکنگ سے اپنی چمچماتی گاڑی میں بیٹھ کر میں گیٹ سے نکلتا تو میری عمر کے کئی بچے باہر ٹوٹی ہوئی سڑک کے درمیان کھڑے ہوئے گندے پانی سے بچنے کے لئے شلوار کے پائینچے گھٹنوں تک اٹھائے، عجیب رنگ کے کپڑے اور پھٹے پرانے بستے کمر سے چمٹائے نظر آتے، میرا ڈرائیور ان بچوں کے قریب سے گاڑی کو گزارتا تو ان بچوں کو ٹائروں سے نکلتے پانی سے بھیگتا دیکھ کر بڑا مزہ آتا۔سکول میں میرے ہم جماعت دو طرح کے تھے، ایک وہ جو یا تو گھر سے مجھ سے دوستی بڑھانے کا درس لے کر آتے اور یا پھر وہ جو میرے کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی دبک دبک جاتے۔ یہی حال استاد کا ہوتا۔امتحانات آتے تو پرچہ میں گھر پر ہی لے آتا جہاں میرا ٹیوٹر اسے میرے باپ یا بھائی کی نگرانی میں خود ہی حل کرتا ۔ایک بار میں نے اپنے گھر کے باہر والی مخلوق کے بارے میں بھائی سے پوچھا۔ اس نے اپنی لمبی مونچھوں کو تائو دے کر ایک جملہ کہا جو مجھے اس وقت سمجھ نہیں آیا۔۔۔''یہ لوگ نہیں خان، یہ ووٹ ہیں ووٹ''۔۔۔مجھے یاد ہے کہ میٹرک کے امتحانات میں نے ان'' ووٹوں'' کے درمیان بیٹھ کر نہیں، بلکہ امتحانی عملہ کی ''سخت نگرانی'' اور تمام تر خلوص بھری معاونت کے ساتھ ''کامیابی'' سے دئے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کونسا پرچہ میں نے کتنا لکھا، لکھا بھی سہی یاممتحن کو خود کرنے کا کہا۔لیکن نتیجہ بابا جان پر چھوڑا جو ہر قسم کے نتائج اپنے حق میں کرنے کے ماہر تھے۔ اس سے آگے پڑھنا میری شکار کی عادت، دوستوں کی محفل اور سیاست کی تربیت کے لئے موزوں نہ تھا لیکن بابا جان نے میرا داخلہ ایک بڑے شہر کے بڑے کالج میں کروادیا۔ چند دن اس کالج میں گزارنے کے بعد واپس آگیا اور اپنے شہر میں اپنی مخصوص مصروفیات میں کھو گیا۔ سال گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا اور بابا جان نے امتحان کے لئے دوبارہ کالج جانے پر مجبور کر دیا۔ پھر اس کے بعد ہر سال یہی ہوتا رہا اور ممتحن حضرات کی خلوص بھری نگرانیاں کام آتی رہیں۔اس دوران بابا جان اور بھائی جان کے ساتھ کبھی کبھار ملاقات ہوتی تو وہ کبھی مجھے چھوٹا ایم پی اے تو کبھی چھوٹا ایم این اے کے نام سے پکارتے۔ مگر میں منسٹر بننے کا سوچ رہا تھا۔اسی طرح دن ، مہینے اور سال گزر گئے اور ماحول بدل گیا۔ گھر کے سبزہ زار میں درجنوں چارپائیاں اور کرسیاں بچھا دی گئیں۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ الیکشن کے دن قریب ہیں تو لوگ آئیں گے۔۔میں نے پوچھا لوگ یا ووٹ؟؟ تو بھائی جان نے ہنس کر کہا ''میرے چھوٹے منسٹر کے ووٹ''۔۔بحرحال، وہی ہوا، صبح سے لے کر شام تک چارپائیاں بھری رہتیں۔بجلی کے بل، گیس کے کنکشن، ٹرانسفارمر، گلیوں اور نالیوں کی درخواستیںگویا ایک دم سے برس پڑیں اور بابا جان نے بھی اپنی تمام پٹاریاں کھول دیں، ادھر فون ، اُدھر فون۔۔۔جس کا بھی کام کرواتے کہتے ''میرا خاص بندہ ہے''۔۔میں حیران ہوتا کہ یہ خاص بندہ پچھلے پانچ سال تو اس آہنی گیٹ کے کبھی قریب بھی نظر نہیں آیا کہ بابا جان کے ٹھہرائے ہوئے گارڈز کسی کو قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے تھے۔بابا جان کی ان ساری فیاضیوں میں البتہ ایک نقص تھا، کہ وہ جس کا بھی کام کرواتے، فون پر کام ہو چکنے کے باوجود مجھے اس بندے کے ساتھ متعقلہ محکمے کی جانب روانہ ضرور کر دیتے۔یہی نہیں، بلکہ اس بندے کے علاقے میں چھوٹے موٹے جلسے کا خرچہ دے کر تقریر کرنے پر بھی مجبور کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے تنگ آکر بابا جان سے شکایت کر دی، خوف تو تھا کہ بابا ڈانٹ دیں گے، لیکن وہ ہنسنے لگے۔۔''چھوٹے خان، یہی چند ماہ ہیں، ووٹروں کو خوش کرنے کے، پھر پانچ سال عیاشی ہی عیاشی''۔۔ایک دن میں اس ٹوٹی سڑک سے گزر رہا تھا کہ کچھ بچے شلوار گھٹنوں سے اٹھائے گندا پانی پار کر رہے تھے کہ اچانک ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف کھڑی کر دی۔۔میں حیران ہوا اور ڈرائیور کو ڈانٹنے لگا تو وہ بولا''خان جی ، بچوں پر چھینٹیں جاتیں''۔۔میں نے کہا یہ کوئی نئی بات ہے؟ بولا ''بڑے خان صاحب کا حکم ہے کہ ان دنوں خاص احتیاط کرنا''۔۔گھر پہنچے تو سبزہ زار میں ہجوم لگا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی زندہ باد کے نعرے لگنے لگے۔ بابا جان نے آنکھ کا اشارہ کیا تو میں درجنوں افراد سے گلے لگا۔پسینے کی بو سے سانس لینا مشکل تھا۔ابھی بیٹھا ہی تھا کہ درخوستوں کی برسات ہونے لگی۔ بابا جان کی دی ہوئی تربیت کے مطابق، میں ہر عرض گزار کی کہانی کے مطابق، چہرے پر کبھی دکھ اور کبھی غصے کے مصنوئی تاثرات لے آتا، مصنوئی اس لئے کہ جو دکھ وہ ''ووٹر'' مجھے رو دینے کے انداز میں بتا رہے ہوتے، ان کو محسوس کرنا میرے لئے خاصہ مشکل ہوتا۔ میں نے کبھی گلی کی نالی کے بند ہونے کی وجہ سے اپنے گھر کا تعفن ذدہ پانی نکالا تھا اور نہ ہی گلی میں کیچڑ نے مجھے پھسلنے پر مجبور کیا تھا۔نہ میں نے بجلی کے اضافی بل کا تجربہ کیا تھا اور نہ ہی بجلی کٹ جانے کی وجہ سے بچوں کی بلبلاہٹ سنی تھی۔میرا نہ تو کوئی بچہ بے روزگاری کی وجہ سے بھوکا سویا تھا اور نہ ہی میری ماں نے اپنی اولاد کا پیٹ پالنے کے لئے کسی کے برتن مانجھے تھے۔میرے بیٹے کو نا تو کبھی حوالات کی سلاخوں نے جکڑا تھا، اور نا ہی میری بیوی زچگی کے دوران ہسپتال میں ڈاکٹر کا انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیاری ہوئی تھی۔نا تو میرے کچے مکان پر کسی ساہوکار نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی اور نا ہی میرے چھوٹے زمین کے ٹکڑے میں آتے پانی کو کسی بڑے زمیندار نے روک دیا تھا۔میں نہ تو کسی خیراتی کھانے کے پیچھے دوڑا تھا اور نا ہی میں نے رکشے کا کرایہ نا ہونے کے سبب سخت گرمی میں دھول اڑاتی سڑکوں پر پسینہ بہاتے سفر کیا تھا۔مگر بابا جان کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو ''ووٹر'' بنائے رکھنے کے لئے ان کا یہ حال لازمی ہے۔ ان کی حالت سنور گئی تو یہ ہمیں ووٹ کیوں دیں گے؟۔۔بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر پھر وہ شکاگو کی گلیشیا ووٹ ڈالنے آخر کیوں گئی تھی؟اس کے لیڈروں نے تو اپنی قوم کو ''ووٹر'' بنے رہنے پر مجبور نہیں کر رکھا۔۔(جاری ہے۔۔۔مضمون نہیں۔۔میری لیڈری)
تحریر:عنایت عادل
ربط
 
Top