میرے ہمسفر ۔ از سلمان حمید

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میری کل کی لکھی آزاد نظم کا دوسرا حصہ جو کہ سلمان حمید لالہ نے لکھا ہاہاہاہاہا پڑھ پڑھ کے لوٹ پوٹ ہو گئی میں :)
آپ بھی پڑھیے :)
(پارٹ 2)
مرے ہمسفر
او مرے جگر
تو کہاں گیا،
چل اب آ ادھر
مری روح کو
تُو قرار دے
مجھے کچھ ہزارادھار دے
میں تجھے اگر
نہ لوٹا سکا
مجھے مار دے، مجھے مار دے
مری ذات تجھ میں مقید ہے
مری ذات کو تُو فرار دے
مری الجھی زلف سنوار دے
مری ساری جوئیں نکال دے
مرا دل صبح سے عجیب ہے
یہ تو بے قرار سی چیز ہے
اسے ٹھیک کر دے وگرنہ اب
مجھے کوئی بھی تُو اوزار دے
میں کہ در بدر کا فقیر ہوں
میں ترے ہی در پہ ہوں آ گرا
جو تو مرغ روٹی کھلا سکے
ترا شکریہ ترا شکریہ
نہ کھلا سکے تو بھی ٹھیک ہے
مجھے سوکھی روٹی اچار دے
مری عادتوں کو بگاڑ دے
میں کہ مدتوں سے اداس ہوں
مری روح میں ہیں رچی بسی
یہ اداسیاں یہ کفن دفن
میں جو رو پڑوں
مجھےچپ کرا
میں جو ہنس پڑوں
تو مرے صنم
مجھے اک طمانچہ تُو مار دے
میں کہ ترے در کا فقیر ہوں
میں کہ اس جگہ کا اسیر ہوں
مجھے بھیجنا ہو تو سن لے تُو
میں یونہی نہیں کہیں جاؤں گا
مجھے بھیجنا ہے تو جانِ جاں
مجھے اپنے ابو کی کار دے
میں نہیں پلٹ کے پھر آؤں گا
نہ کبھی تجھے یاد آؤں گا
میں یہ پیار سارا بھلا کے اب
تجھے بس ابھی بھول جاؤں گا۔
 

سلمان حمید

محفلین
سلمانے یار تو مزاحیہ شاعری بھی کرتا ہے۔۔۔ ۔ یہ کب سے۔۔۔ ۔ :p
یہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے جج صاحب، یہ تو میں نے فی البدیع کچھ بھی لکھ کر بھیج دیا ناعمہ عزیز کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ اس طرح بھی سوچے کہ کتنے طریقوں سے لکھی جا سکتی ہے یہ نظم تو اس نے یہاں چھاپ دی :p
لیکن اگر میں مشہور ہو گیا تو یہ فیلڈ بھی بری نہیں ہے۔ ہاہاہا ناعمہ سنجیدہ لکھے گی، میں ہر غزل، نظم کا مزاحیہ پارٹ ٹو اور پھر ہماری کتاب رمضان میں بہت بکے گی :rollingonthefloor:
 
Top