میری کتاب کی پروف ریڈینگ کرنے کا کام جویریہ نے قبول کرلیا ہے

تفسیر

محفلین
میری کتاب " پختون کی بیٹی" کی پروف ریڈینگ کرنے کا کام جویریہ صاحبہ نے قبول کر لیا ہے۔

یہ کتاب صوبہ سرحد کے اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی اصولوں کاجائزہ لیتی ہے اور ان سے متعلق کچھ نئےخیالات کا اظہار کرتی ہے ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس محفل میں نہ صرف جویریہ موجود ہیں بلکہ وہ لائبریری کی ٹیم کی ممبر بھی ہیں۔اردو اور پشتو زبان کے ساتھ ساتھ ان کواردو اور پشتواد ب پر بھی مہارت حاصل ہے۔ میرے لئے اُن کی عِلمیت کے علاوہ اُن کا ' پختون کی بیٹی ' ہونا بھی باعث فخر ہے۔

انہوں نے باب اوّل گُل و بُلبُل کے چار حصوں [ گل ، سکینہ ، خان ، حدود ارڈینینس ] کی پروف ریڈینگ مکمل کرلی ہے۔ وہ صرف پروف ریڈر ہی نہیں ہیں بلکہ خود کو اس کتاب کی اڈیٹر بھی بنالیا ہے ۔ اب تک انہوں نےاپنی علمیت اور ریسریچ کی بنا پر میری کئ تاریخی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُنہیں میری کتاب کو ریڈ لائن کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ جب وہ پروف ریڈ کئے ہوئے صفحات واپس بھیجتی ہیں تو مجھے ہرطرف لال ھی لال رنگ نظر آتا ھے۔ شاید لال ان کا پسندیدہ رنگ ھوگا۔

میراخیال ہے کہ پروف ریڈینگ کی تکمیل کے بعد اس کتاب کے مصنف کا نام سید تفسیر احمد کے بجائے مصنفہ جویریہ معسود ہوناچاہیے۔

ہنسی مذاق علیحدہ ، میں اُن کا بہت احسان مند اور شکرگزار ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
واہ۔ یہ بہت عمدہ کام ہو گیا ہے تفسیر بھیا۔ بہت بہت مبارکباد اور بہت بہت شکریہ جیہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

تفسیر صاحب یہ تو بہت اچھی خبر سنائی ہے آپ نے۔ اور جویریہ کی کیا بات ہے جویریہ تو بس کام ہی ایسے کرتی ہیں اچھے اچھے کہ الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔

تفسیر صاحب، لال رنگ کی بات آپ نے خوب کہی ، دلچسپ
 

جیہ

لائبریرین
السلام علیکم
تفسیر صاحب نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا۔ معلومات کو علمیت نہیں کہتے۔ بہر حال شکریہ تفسیر صاحب۔
جہاں تک آپ کی یہ بات کہ میں ایڈیٹر بن گئ ہوں تو میری کیا مجال کہ میں یہ جسارت کروں۔ ہاں یہ ہے بعض چیزوں میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اب دیکھیں نا جو لڑکی (روزا) 1913 میں پیدا ہوئ ہوں وہ 1900 میں کیسے تحریک چلاسکتی ہے۔ یا آپ یوسفزیوں کو سوات سے نکال کر خیبر میں بسایئں گے تو بحیثیت ایک یوسف زئ پختون میرا فرض ہے کہ میں اصلاح کردوں۔ آپ کے 3 سطروں کے لیے(جن میں مختلف علاقوں اور قبائل کا ذکر ہے) مجھے 3 دن میں 6 کتابوں کو دیکھنا پڑا۔ تب جاکر اصلاح کرسکی۔ اور پتہ چلا کہ آپ نے اورمڑ کو عرمر اور طوری کو توریس لکھا ہے۔۔۔۔
جہاں تک لال رنگ کی بات ہے تو وہ میرا نہیں MS Word والوں کا پسندیدہ رنگ ہے۔ کیوں کہ reviewing میں جس لفظ میں تبدیلی کی جائے وہ لال ہو جاتا ہے۔ اور جس لفظ کو مٹایا جائے وہ بھی لال ہوجاتا ہے مگر سٹرائک آوٹ کے ساتھ۔

اور میں مصنفہ بھی نہیں بن سکتی میں تو خود سے ایک پیراگراف بھی نہیں لکھ سکتی۔

شگفتہ بہن آپ نے کچھ مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لیا؟؟
:lol:
 

تفسیر

محفلین
تفسیر صاحب نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا۔ معلومات کو علمیت نہیں کہتے۔ بہر حال شکریہ تفسیر صاحب۔ (جویریہ)


میں صرف ایک بات پر تبصرہ کروں باقی پر نہیں۔ :lol:

سچ کہتا ہوں کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔:cry: :

“ معلومات اور علمیت میں فرق “

حوالہ ۔صفحہ 53 - پختوں کی بیٹی- تحریر سید تفسیراحمد

---- شروع ----------

۔سعدیہ بیٹا تم تعلیم حاصل کررہی ہو“۔ اباجان نے کہا۔

سعدیہ نے کہا۔” جی جی“۔

” تم مجھے بتاو کہ تم مکمل تعلیم سے کیا مطلب سمجھتی ہو؟۔“

سعدیہ اس سوال کے لئے تیار نہیں تھی۔اس نے ہڑبڑا کر کہا۔ ” علم کو حاصل کرنا او ر کسی ہنر کو سیکھنا “۔

اباجان نے مجھ سے کہا۔ ”سعدیہ نے کہا۔ علم کو حاصل کرنا۔ تم اسکا کیا مطلب سمجھے؟“

” علم کو جاننا“۔ میں نے کہا۔

” علم کو جاننا اور سمجھنا دو مختلف درجہ ہیں۔ علم کو بغیر جانے ، سمجھا نہیں جاسکتا اور علم کوبغیرسمجھےاسکا استعمال مشکل ہے“۔ اباجان نے کہا

” تعلیم اور’ تعلیم کُلیت‘ میں امتیاز کرنا چاہیے ؟ ” سعدیہ نے کہا۔

” ہاں“۔ سعدیہ سمجھ گئ۔ اباجان نے مسکرا کر کہا۔

اباجان نے کہا ۔” سعدیہ کا جواب اچھا ہے۔ تعلیم یافتہ کہلانے کے لئے تین درجوں سےگزر نا پڑتاہے“

” وہ درجے کیا ہیں ابا جان؟“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میرے خیال میں سعدیہ کا پہلا جواب مکمل تھا۔

ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال“۔جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔

” ایک قسم تعلیم عامہ کہلاتی ہے اور دوسری قسم تعلیم خصوصہ“۔

تعلیم عامہ سے مراد ’ تعلیم کا حصول اوراس کوسمجھنا ‘ ہے۔ مثال کےطور پر پروفیسرتعلیم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم کا استعمال، صحیح معنی میں دولت کو کمانےمیں نہیں کرتے۔

تعلیم خصوصہ سے مراد ’ تعلیم کا استعمال‘ کسی مقصد کو حاصل کرنے میں۔ مثال ، صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔

اباجان نے کہا۔ ” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لئے منظم کیا جاتا ہے اوراس کارُخ مقررخاتمہ کی طرف کیا جائے۔ سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضر وری نہیں کے تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم خصوصہ کی بہتاب ہے تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے ۔ تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہرا س چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

-------- ختم -------------
 

ظفری

لائبریرین
میں نے جب پہلے پہل دھاگے کا عنوان دیکھا تو ایسا لگا کہ محترم تفسیر صاحب نے لکھا ہو کہ “ جویریہ نے اسلام قبول کر لیا ہے “ ۔۔۔( جویریہ سے معذرت کے ساتھ ) میں دھک سا رہ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تو الحمداللہ پہلے ہی سے مسلمان ہیں ۔ بعد میں غور کیا تو بات سمجھ آئی ۔ :lol:
 

جیہ

لائبریرین
تفسیر نے کہا:
تفسیر صاحب نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا۔ معلومات کو علمیت نہیں کہتے۔ بہر حال شکریہ تفسیر صاحب۔ (جویریہ)


میں صرف ایک بات پر تبصرہ کروں باقی پر نہیں۔ :lol:

سچ کہتا ہوں کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔:cry: :

“ معلومات اور علمیت میں فرق “

حوالہ ۔صفحہ 53 - پختوں کی بیٹی- تحریر سید تفسیراحمد

---- شروع ----------

۔سعدیہ بیٹا تم تعلیم حاصل کررہی ہو“۔ اباجان نے کہا۔

سعدیہ نے کہا۔” جی جی“۔

” تم مجھے بتاو کہ تم مکمل تعلیم سے کیا مطلب سمجھتی ہو؟۔“

سعدیہ اس سوال کے لئے تیار نہیں تھی۔اس نے ہڑبڑا کر کہا۔ ” علم کو حاصل کرنا او ر کسی ہنر کو سیکھنا “۔

اباجان نے مجھ سے کہا۔ ”سعدیہ نے کہا۔ علم کو حاصل کرنا۔ تم اسکا کیا مطلب سمجھے؟“

” علم کو جاننا“۔ میں نے کہا۔

” علم کو جاننا اور سمجھنا دو مختلف درجہ ہیں۔ علم کو بغیر جانے ، سمجھا نہیں جاسکتا اور علم کوبغیرسمجھےاسکا استعمال مشکل ہے“۔ اباجان نے کہا

” تعلیم اور’ تعلیم کُلیت‘ میں امتیاز کرنا چاہیے ؟ ” سعدیہ نے کہا۔

” ہاں“۔ سعدیہ سمجھ گئ۔ اباجان نے مسکرا کر کہا۔

اباجان نے کہا ۔” سعدیہ کا جواب اچھا ہے۔ تعلیم یافتہ کہلانے کے لئے تین درجوں سےگزر نا پڑتاہے“

” وہ درجے کیا ہیں ابا جان؟“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میرے خیال میں سعدیہ کا پہلا جواب مکمل تھا۔

ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال“۔جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔

” ایک قسم تعلیم عامہ کہلاتی ہے اور دوسری قسم تعلیم خصوصہ“۔

تعلیم عامہ سے مراد ’ تعلیم کا حصول اوراس کوسمجھنا ‘ ہے۔ مثال کےطور پر پروفیسرتعلیم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم کا استعمال، صحیح معنی میں دولت کو کمانےمیں نہیں کرتے۔

تعلیم خصوصہ سے مراد ’ تعلیم کا استعمال‘ کسی مقصد کو حاصل کرنے میں۔ مثال ، صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔

اباجان نے کہا۔ ” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لئے منظم کیا جاتا ہے اوراس کارُخ مقررخاتمہ کی طرف کیا جائے۔ سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔

ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔

ضر وری نہیں کے تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم خصوصہ کی بہتاب ہے تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے ۔

تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہرا س چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

-------- ختم -------------

تفسیر صاحب نہایت احترام کے ساتھ غالب کو بیچ میں لا رہی ہوں۔۔۔

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

اب آپ غالب کا یہ شعر نہ لکھیں۔۔۔۔

یارب وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور :lol:
 

جیہ

لائبریرین
ظفری نے کہا:
میں نے جب پہلے پہل دھاگے کا عنوان دیکھا تو ایسا لگا کہ محترم تفسیر صاحب نے لکھا ہو کہ “ جویریہ نے اسلام قبول کر لیا ہے “ ۔۔۔( جویریہ سے معذرت کے ساتھ ) میں دھک سا رہ گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تو الحمداللہ پہلے ہی سے مسلمان ہیں ۔ بعد میں غور کیا تو بات سمجھ آئی ۔ :lol:

ظفری صاحب کاش میں اس آیت کے منشا کے مطابق پوری مسلمان ہوتی ۔۔۔۔ اُدخلو فی السلمِ کافّہ۔۔۔ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو۔۔۔

غالب نے خود کو آدھا مسلمان کہا تھا کہ شراب پیتا تھا سؤر نہیں کھاتا تھا۔۔۔ مگر میں تو آدھا مسلمان ہونے کا بھی دعوہ نہیں کرسکتی۔۔۔ :cry:
 

ظفری

لائبریرین
ارے ۔۔ ارے وہ کیوں ۔۔۔ آپ کیوں دعویٰ نہیں کر سکتیں ۔۔۔ کہیں آپ ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟‌ :shock:
(صرف مذاق ۔۔۔ برا نہیں ماننا ہاں ۔۔ ورنہ میں بُرا مان جاؤنگا ) :wink:
 

تفسیر

محفلین
جیہ نے کہا:
تفسیر نے کہا:
تفسیر صاحب نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا۔ معلومات کو علمیت نہیں کہتے۔ بہر حال شکریہ تفسیر صاحب۔ (جویریہ)


میں صرف ایک بات پر تبصرہ کروں باقی پر نہیں۔ :lol:

سچ کہتا ہوں کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔:cry: :

“ معلومات اور علمیت میں فرق “

حوالہ ۔صفحہ 53 - پختوں کی بیٹی- تحریر سید تفسیراحمد

---- شروع ----------

۔سعدیہ بیٹا تم تعلیم حاصل کررہی ہو“۔ اباجان نے کہا۔

سعدیہ نے کہا۔” جی جی“۔

” تم مجھے بتاو کہ تم مکمل تعلیم سے کیا مطلب سمجھتی ہو؟۔“

سعدیہ اس سوال کے لئے تیار نہیں تھی۔اس نے ہڑبڑا کر کہا۔ ” علم کو حاصل کرنا او ر کسی ہنر کو سیکھنا “۔

اباجان نے مجھ سے کہا۔ ”سعدیہ نے کہا۔ علم کو حاصل کرنا۔ تم اسکا کیا مطلب سمجھے؟“

” علم کو جاننا“۔ میں نے کہا۔

” علم کو جاننا اور سمجھنا دو مختلف درجہ ہیں۔ علم کو بغیر جانے ، سمجھا نہیں جاسکتا اور علم کوبغیرسمجھےاسکا استعمال مشکل ہے“۔ اباجان نے کہا

” تعلیم اور’ تعلیم کُلیت‘ میں امتیاز کرنا چاہیے ؟ ” سعدیہ نے کہا۔

” ہاں“۔ سعدیہ سمجھ گئ۔ اباجان نے مسکرا کر کہا۔

اباجان نے کہا ۔” سعدیہ کا جواب اچھا ہے۔ تعلیم یافتہ کہلانے کے لئے تین درجوں سےگزر نا پڑتاہے“

” وہ درجے کیا ہیں ابا جان؟“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میرے خیال میں سعدیہ کا پہلا جواب مکمل تھا۔

ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال“۔جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔

” ایک قسم تعلیم عامہ کہلاتی ہے اور دوسری قسم تعلیم خصوصہ“۔

تعلیم عامہ سے مراد ’ تعلیم کا حصول اوراس کوسمجھنا ‘ ہے۔ مثال کےطور پر پروفیسرتعلیم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم کا استعمال، صحیح معنی میں دولت کو کمانےمیں نہیں کرتے۔

تعلیم خصوصہ سے مراد ’ تعلیم کا استعمال‘ کسی مقصد کو حاصل کرنے میں۔ مثال ، صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔

اباجان نے کہا۔ ” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لئے منظم کیا جاتا ہے اوراس کارُخ مقررخاتمہ کی طرف کیا جائے۔ سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔

ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔

ضر وری نہیں کے تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم خصوصہ کی بہتاب ہے تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے ۔

تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہرا س چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

-------- ختم -------------

تفسیر صاحب نہایت احترام کے ساتھ غالب کو بیچ میں لا رہی ہوں۔۔۔

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

اب آپ غالب کا یہ شعر نہ لکھیں۔۔۔۔

یارب وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور :lol:


چلئے نہیں لکھتا۔۔۔۔ :eek:

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہء آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا​


:lol:
 

قیصرانی

لائبریرین
تصحیح کتابت بہتر رہے گا۔ میں نے اصلاح کتابت سوچا تھا، پر اصلاح سے بات کہیں اور چلی جائے گی
 
Top