مولانا اقبال سہیل " طبیعت دشت سے بھی مائلِ رَم ہوتی جاتی ہے "

طارق شاہ

محفلین
غزل
مولانا اقبال سہیل
طبیعت دشت سے بھی مائلِ رَم ہوتی جاتی ہے
مِری وحشت ترقّی پر ہے یا کم ہوتی جاتی ہے
تپِ غم سے سکّت ہی کیا رہی تھی دیدہ و دل میں
کہ وہ بھی صرفِ کاوش ہائے پیہَم ہوتی جاتی ہے
رگ وپے میں اُترتا جارہا ہے سوزِ غم، لیکن
وہ کہتے ہیں سِتم کی آنچ مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی حُسنِ ستمگر پھر نئی سج دھج سے آئے گا
کہا کِس نے، کہ بزمِ کہنہ برہم ہوتی جاتی ہے
عَقُوبت ہائے فردا سے ڈراتا کیا ہے، اے واعظ
یہی دنیا! رفتہ رفتہ خود جہنّم ہوتی جاتی ہے
دلِ مظلوم کا احساسِ غم کچھ بڑھ چلا شاید!
فُغانِ درد کی آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے
کچھ ایسا سِحْر ہے، اُن کی نگاہِ فِتنہ ساماں میں
جُنوں کی گردنِ خوددار بھی نم ہوتی جاتی ہے
سِتَمگر بھی سِتم کش کی طرح پہلو بدلتا ہے
نسیمِ صبْح کی ہر آہ شبنم ہوتی جاتی ہے
ہجومِ یاس نے مت پھیردی کچھ اِس طرح دل کی
کہ میری ہر نوا، افسانہٴ غم ہوتی جاتی ہے
جُنوں کے ہاتھ سے دھجّی اُڑی تھی جو گریباں کی
وہی اب جنگِ آزادی کا پرچم ہوتی جاتی ہے
ہمارے شوقِ زِنداں کو جُنوں سمجھا گیا، لیکن
وہی رسْم اب حرِیفوں میں مُسَلّم ہوتی جاتی ہے
سہیلِ خستہ، اِس ضبطِ غمِ پِنہاں سے کیا حاصل
فُغاں سنجی تِری رُسوائے عالم ہوتی جاتی ہے
مولانا اقبال سہیل
(١٩٣٩)​
 

سید زبیر

محفلین
سہیلِ خستہ، اِس ضبطِ غمِ پِنہاں سے کیا حاصل
فُغاں سنجی تِری رُسوائے عالم ہوتی جاتی ہے
طارق شاہ صاحب ۔ ۔ واہ ۔۔ بہت خوبصورت کلام محفل میں لائے ہیں ۔ ۔۔۔جزاک اللہ
 

طارق شاہ

محفلین
سہیلِ خستہ، اِس ضبطِ غمِ پِنہاں سے کیا حاصل
فُغاں سنجی تِری رُسوائے عالم ہوتی جاتی ہے
طارق شاہ صاحب ۔ ۔ واہ ۔۔ بہت خوبصورت کلام محفل میں لائے ہیں ۔ ۔۔۔ جزاک اللہ
مکرمی سید صاحب
انتخاب کی داد کے لئے سپاس گزار ہوں، مولانا سہیل اقبال بہت خوب لکھتے تھے
اور اُس دَور میں کئی فنِ ادب کی معروف اور بڑی ہستیاں معتقدِ شاعری رہی ہیں
اظہار خیال کے لئے تشکّر
 
Top