مولاناعبدالحفیظ مکی صاحب دامت برکاتہم

12اپریل 2007 کو بمقام کوہات
فتح الجواد فی معارف آیات الجہاد کی تقریب رونمائی کے موقع پر
شیخ الحدیث حضرت مولانا
عبدالحفیظ مکی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا
خصوصی خطاب


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمدللہ رب العالمین والصلٰوۃُ والسلام علیٰ اشرف المرسلین و خاتم النبین سیدنا و حبیبنا وقرۃ اعیننا ونبینا و شفیعنا و مولانا محمد النبی الامی الکریم وعلیٰ الہ واصحابہ وازواجہ و اتباعہ اجمعین اما بعد۔
گرامی قدر مکرمین و محترمین حضرات علمائے کرام مشائخ عظام برادران اسلام، مجاہدین اسلام، میرے محترم بزرگو، بھائیو اور دوستو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے اس مبارک اجتماع کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرمائے


ہم سب پہ اللہ اپنی رحمتیں برکتیں نازل فرمائے یہ مبارک اجتماع جوکہ فتح الجواد فی معارف آیات الجہاد جوکہ امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر مدظلہ العالی نے تفسیر لکھی ہے اس کی پہلی جلد جو چھپ کر آئی ہے اس کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں ہے آپ حضرات میں سے کتنے حضرات ہیں جو کتنی مشقتیں اٹھا کر اس مبارک تقریب میں شریک ہوئے ہیں کل میں مکہ معظمہ میں تھا تو وہاں ہمارے ایک بہت ہی عزیز دوست بھائی رفیق صاحب جوکہ ہمارے مخدوم محترم حضرت اقدس حضرت حافظ صغیر صاحب مدظلہ العالی جوکہ ہمارے حضرت شیخ سرہ کے خلیفہ مجاز ہیں ان کے صاحبزادے کا فون آیا مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ تم کب آرہے ہو میں نے اپنا نظام سفر بتایا تو انہوں نے مجھے یہ بھی خوشخبری سنائی کہ حضرت والد صاحب یعنی حضرت اقدس حافظ صغیر صاحب مدظلہ العالی بھی ارادہ کررہے ہیں وہاں جانا ہے اگر تمہارا آنا پکا ہو تو وہ بھی آنا چاہتے ہیں ۔حقیقی بات ہے کہ مجھے بڑا تعجب ہوا خوشی بھی ہوئی کہ حضرت اقدس حضرت حافظ صاحب عموماً اسفار سے بہت دور رہتے ہیں بہت کم اسفار کرتے ہیں خود ہمارے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی معمول تھا کہ اسفار سے بہت گھبراتے تھے یہ اللہ نے مختلف مزاج بنائے ہوئے ہیں حضرت حافظ صاحب کا سن کر مجھے بھی بہت خوشی ہوئی اور مزید تقویت ہوئی کہ یہ اتنا مبارک اجتماع اور اتنا اہم اجتماع ہے کہ جب حضرت حافظ صاحب بھی تشریف لے جارہے ہیں تو انشاء اللہ میرے لئے بھی باعث خیر و برکت ہوگا حضرت حافظ صاحب ماشاء اللہ اس بڑھاپے میں لاہور سے چلے اور سیدھا کوہاٹ پہنچے یہاں کتنا تھکے ہوں گے اور اب پھر واپسی بھی ہے سفر بھی ہے اور کتنے حضرات اور کتنے مشائخ میں نے دیکھے بوڑھے بوڑھے جن سے چلا بھی نہیں جاتا اللہ سب کو جزائے خیر دے یہ تقریب معمولی چیز نہیں ہے میرا عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ایسی مبارک تقریبات شروع سے چلی آرہی ہیں اور اصل میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ جس چیز کی انسان کے دل میں اہمیت ہوتی ہے جب وہ چیز حاصل ہوتی ہے تو اس کی خوشی کے اظہار کے لئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں امیر المومنین حضرت سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے جب سورۃ بقرہ حفظ کی پورا رقرآن مجید نہیں صرف سورہئ بقرہ حفظ مکمل کی تو ان کو اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے اس خوشی کے اظہار کے لئے ایک باقاعدہ دعوت کی اور پورا ایک اونٹ ذبح کیا اونٹ آپ جانتے ہیں سو آدمی کا کھانا ہوتا ہے صحابہ کرامؓ کے زمانے میں یہ دعوتوں کے تکلفات نہیں تھے عموماً الا ماشاء اللہ کبھی کوئی دعوت ہوتی تھی تو حضرت امیر المومنین سیدنا عمر ابن خطابؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے جب سورہئ بقرہ ختم کی تو اتنی انہیں خوشہ ہوئی کہ اس کے لئے انہوں نے تقریب منعقد کی ظاہر ہے سو آدمیوں کا جب اونٹ ذبح کیا تو سو آدمیوں کو دعوت بھی دی ہوگی، یہ تو نہیں کہ اور انتخاب بھی کیا ہوگا، سو آدمیوں کا اور کن کن کا کیا وہ علیحدہ مسئلہ ہے پس حضرت مولانا عصمت اللہ صاحب حضرت حافظ ابن حجرؒکا قصہ سنایا اور ہمارے شیخ المشائخ فخر العلماء حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہانپوریؒ کی جب بذل المجہود ختم ہوئی اس میں میں مزید اضافہ کروں گا کہ ہم نے حضرت شیخ سے خود سنا ہے کہ اس تقریب کی اتنی خوشی تھی سہانپوریؒ کو کہ اس کے لئے اس زمانے میں یعنی آج سے تقریباً 100 سال پہلے کی بات ہے، اس زمانے میں سو نہیں تو اسی سال ہوگئے ہوں گے۔ اس زمانے میں حضرت نے دعوت نامے کے لئے سنہری کارڈ چھپوائے، اس زمانے میں بہت خوبصورت، حضرت فرمایا کرتے تھے 'حضرت شیخ 'کہ بہت خوبصورت سنہری کارڈ حضرت سہارنپوری نے چھپوائے اور اعیان مدینہ منورہ اکابر علمائ، اکابر جہاد چونکہ سید احمد فیض آبادیؒ جو بانی دارالعلوم شریعہ تھے وہاں کے اور حضرت شیخ الالسلام حضرت مدنیؒ کے بڑے بھائی تھے کیونکہ حضرت گنگوہیؒ سے تعلق تھا اور حضرت شیخ سے بھی تعلق تھا لوگوں کے ذریعے حضرت سہارنپوریؒ سے بھی تعلق تھا اور ان کے پیر بھائی بھی تھے انہی کے ذریعے سے وجہائے مدینہ اعیانِ مدینہ اور بڑے بڑے کوئی عالم نہیں چھوڑے، باہر کے وہاں مقامی علماء جن کو دعوت نہ دی ہو اور کئی سو حضرات اس دعوت میں شریک ہوئے مزید اس کے خود ہمارے شیخؒ نے جب لاضع ورادی علیٰ صحیح البخاری ختم ہوئی تو حضرت نے بھی بہت بڑی دعوت کی اور ہندوستان کے تمام اکابر علمائ، میں اس سال دورہ کررہا تھا مظاہر العلوم میں تو میں بھی اس میں شریک تھا خدام میں تو حضرت مولانا ابو الحسن ندویؒ مولانا حضرت منظور نعمانیؒ، حضرت مولانا انعام الحسن صاحبؒ، مرکز نظام الدین کے اکابر دارالعلوم دیوبند کے ندوہ کے اور لکھنو کے حیدر آباد کے، جہاں جہاں ہندوستان کے اکابر علماء تھے سب کو اس میں مدعو کیا اور تین ہزار سے زیادہ آدمی اس تقریب میں شریک ہوئے تو یہ جیسے کہ مولانا عصمت اللہ صاحب نے فرمایا اصل میں یہ تقریبات جو ایسے موقع کی ہوتی ہیں یہ خوشی کا اظہار ہوتا ہے جن کے دل میں جس چیز کی اہمیت ہوتی ہے اسی کی خوشی کا وہ اظہار کرتا ہے اب جن لوگوں کو دنیا کے مال کی قدر ہوتی ہے وہ دوکان کا ہوتا ہے تو دوکان کا افتتاح کرتے ہیں اس میں مٹھائی تقسیم کرتے ہیں خاص خاص دوستوں کو بلاتے ہیں کچھ اور لوگ ہیں وہ اور چیزوں کا افتتاح کرتے ہیں یہ اللہ کا شکر ہے یہاں یہ کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے اور یہ کتاب تو واقعتاً ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مسعود ازہر صاحب کو بہت ہی جزائے خیر عطا فرمائے کہ یہ قرآن کی تفسیر ان آیات کے بارے میں ہے فی معارفِ آیات الجہاد، جہاد کی آیات کے بارے میں ہے اور جہاد کے مخالفت آج سے نہیں ہمیشہ سے کفر نے کی ہے، یہ ایک معرکہ برپا ہے جب سے حضورؐ مبِعوث ہوئے اسی وقت سے یہ معرکہ چل رہا ہے خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں یریدون لیطفؤ نور اللہ بافوا ہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔ یہ لوگ یہ کفار والکفرملۃ واحدۃ سارے ایک ہیں کفر کے لحاظ سے چاہے یہودی ہوں، عیسائی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں، قادیانی ہوں، کمیونسٹ ہوں، ملحد ہوں۔ سب کفار ایک ہیں کفر کے لحاظ سے سب اسلام کے دشمن ہیں اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو پھونکو سے بجھا دیں اللہ کے نور کو جس کو حضورؐ لے کر آئے ہیں چاہتے ہیں اس کو پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ فرماتے ہیں واللہ متم نورہ اور یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس نور کو پھیلانا ہے اس نور کو تام کرکے رہنا ہے ولوکرہ الکفرون چاہے کفار چاہیں چاہے نہ چاہیں، یا انہیں برا لگے۔ یہ معرکہ اسی زمانے سے برپا ہے اور آج تک چلا آرہا ہے اور کفار کو اس بات کا پتہ ہے کہ سب سے بڑی چیز جس سے یہ ہمارا مقابلہ کریں گے تاریخ ہماری ان کے سامنے ہے مسلمان کوئی ایک دم دنیا میں ظاہر نہیں ہوئے الحمد اللہ مسلمانوں کی ایک تاریخ ہے اور ساری دنیا اس تاریخ کو جانتی ہے پوری گیارہ صدیاں بلکہ اس سے بھی زیادہ تقریباً بارہ صدیاں تنہا مسلمانوں نے اس پوری دنیا پر حکمرانی کی ہے بغیر کسی شرکت غیر کے گیارہ تو پوری اور مزید پھر آہستہ آہستہ وہ لوگ جب آتے ہیں تو وہ لوگ متمدن دنیا کی طرف نہیں آتے کفار کی افریقہ کے جنگلوں کی طرف چلے گئے انڈونیشیا کی طرف چلے گئے، پھر ادھر آسٹریلیا کی طرف چلے گئے جاکر اپنی مضمرات قائم کیں کہیں فرانس جارہا ہے کہیں انگلینڈ جارہا ہے برطانیہ جارہا ہے کہیں ہالینڈ جارہا ہے مختلف ممالک میں پھیلتے چلے گئے ان کی ہمت نہیں ہوئی مسلمانوں سے لڑنے کی ہاں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے کہ انہیں کمزور بنایا جائے دین کی تعلیمات سے ان کو دور کیا جائے خلافت عثمانیہ جن کی سینکڑوں سال حکومت رہی ان کو کمزور کرنے کی فکر کرتے رہے اور دور دور سے جال بچھاتے رہے تاکہ وہاں اپنی حکومتیں قائم کریں پھر برصغیر کی طرف متوجہ ہوئے جیسے ابھی حضرت مولانا سواتی صاحب فرمارہے تھے کہ آئے تو تھے یہ تجارت کے بہانے تجارتی کمپنی کے طور پر آئے تھے برصغیر میں اور آہستہ آہستہ پھر حکمرانی شروع کردی۔ اور سو سال تک حکومت کی تقریباً 59 سے لے کر 90 سال تک تقریباً فل حکمرانی کی۔ بہرحال ہمارے تمام اکابر نے ان کے خلاف جہاد کیا اور یہ اسی وقت سے انہیں پتہ تھا کہ مسلمان اگر اپنے دین پر آگئے اور جہاد پر آگئے تو پھر ہم ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ انہیں خبر ہے ہم کوئی ایسے ہی جنگل سے نہیں آگئے انہیں مسلمانوں کی تاریخ کا پتہ ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ الحمدللہ معروف ہے معلوم ہے سب کو اس لئے وہ یہ ہمیشہ جیسے ابھی مولانا عصمت اللہ صاحب نے یا کسی بھائی نے فرمایا کہ ان کی کوشش یہی ہے کہ مسلمان دین سے ہٹ جائے دین کی تعلیمات سے دور ہوجائے ان کے مرد بھی اور ان کی عورتیں بھی۔ اور اس کا طریقہ کیا ہے کہ ان میں بے حیائی پھیلاؤ، فحاشی پھیلاؤ اور عیاشی پھیلاؤ، اس میں جب لگیں گے تو خود بخود دین سے ہٹ جائیں گے یہ باقاعدہ ایک سازش کے تحت سب کچھ ہورہا ہے پوری دنیا میں ہورہا ہے صرف پاکستان میں نہیں ہورہا پوری دنیا میں یہ کوششیں کی جارہی ہیں باقاعدہ انٹرنیشنل کانفرنسیں اس کے لئے کی جارہی ہیں کہ عورتوں کے حقوق کیا ہیں؟ عورتوں میں فحاشی کیسے آئے؟ عورتوں میں بے حیائی کیسے آئے، اختلاط مرد و زن کیسے ہو؟ دین سے کیسے مسلمانوں کو دور کیا جائے تمام ملکوں میں پاکستان میں انڈونیشیا میں، ملائیشیا میں بنگلہ دیش میں عرب ملکوں میں عجم ملکوں میں تمام ملکوں میں کوششیں ہورہی ہیں مستقل سازشیں ہورہی ہیں لیکن گھبرانا نہیں چاہئے ایک تو یہ کہ دین سے ہٹیں دوسرا یہ کہ جہاد سے دور ہوں اور جہاد کے لئے تو شروع سے ہی ان کے ذہن میں یہ ہے مرزا غلام قادیانی کو یہاں پیدا کیا گیا برصغیر میں اوربہار اللہ کو وہاں ایران میں پیدا کیا گیا اور علی جاہ محمد کو امریکہ میں پیدا کیا گیا تینوں متنبین ہیں تینوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تینوں میں ویسے تعلیمات مختلف ہیں، تینوں کے اصول بھی مختلف ہیں تعلیمات بھی مختلف ہیں لیکن یہ قدر مشترک ہے تینوں میں کہ تینوں جہاد اور قتال کے مخالف ہیں اللہ کی شان کہ پیدا ہی ان کو اس لئے کیا گیا بنیادی طور پر کہ یہ جہاد کے مخالف ہوں اور لوگوں میں یہ بات چلائیں گے اور آج کل یہ نئی روش چل رہی ہے کہ جہاد کو بدنام کیا جائے یہ جو ابھی پچھلے سال گستاخانہ خاکے شائع ہوئے ڈنمارک سے ناورے سے اور دنیا کے مختلف ملکوں سے حتیٰ کے عیسائیوں کے پوپ نے بھی اسی طرح کی باتیں کیں یہ سب کیا ہے سب جہاد کے خلاف سازش ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمان جہاد پر آگئے تو ہم ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے دین پر آجائیں جہاد پر آجائیں پھر کوئی کفر مسلمانوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا تمام کفار یہ بات جانتے ہیں اسی لئے سارے کفار اس وقت دنیا میں متحد ہیں۔ یہودی ہوں، ہندو ہوں، عیسائی ہوں، کمیونسٹ ملحد ہوں لیکن آپس میں متحد ہیں دین کی مخالفت میں یہ قدریں مشترک ہیں ان کی اسلام دشمنی کہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت بنی اس اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے پورا ایجنڈا تیار کیا پوری سازش تیار کی کہ عراق میں کیا تھا یہ ایک عجیب بات ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ کا صدر بش جس نے افغانستان میں دہشت گردی کی عراق میں دہشت گردی کررہا ہے، فلسطین میں دہشت گردی کررہا ہے اور ہر جگہ دہشت گردی کروا رہا ہے لیکن جنگ کا کیا نام ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسلمان بے چارے اتنے کمزور ہیں کہ وہ اس کی ان باتوں میں آرہے ہیں اللہ کرے انہیں عقل آئے ہدایت آئے وہ سمجھیں اس حقیقت کو کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد جس نے دنیا میں سب سے زیادہ اس آخری عشرے میں ظلم و فساد مچایا ہے یہ ہم نہیں کہتے مسلمانوں کے دل تو زخمی ہیں وہ تو کہتے ہی ہیں لیکن کفار بھی یہ بات کہہ رہے ہیں بش جب افریقہ گیا وہاں کا بابا آزادی نیلسن منڈیلا ملک سے باہر چلا گیا اور یہ اعلان کرکے گیا کہ میں اس ظالم کے ہوتے ہوئے۔ یہ یہاں آئے گا چونکہ مہمان ہے میں نکال نہیں سکتا لیکن جو میں اگر رہوں گا تو مجھے اس سے ہاتھ ملانا پڑے گا اور اس ظالم کے ہاتھ مظلوموں، معصوموں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں میں اپنا ہاتھ گندا نہیں کرنا چاہتا۔ یہ ہم نہیں کہتے وہ مسلمان نہیں ہے وہ نیلسن منڈیلا وہ کافر ہے عیسائی ہے اسی کی طرح لیکن وہ بھی یہی بات کہتا ہے وینزویلا کا صدر کیا کہہ رہا ہے کاسترو کیا کہہ رہا ہے ہر مہینہ کوئی مہینہ خالی نہیں جاتا یورپ اور امریکہ میں مظاہرے ہورہے ہیں اس کے خلاف کہ اس نے ظلم و فساد مچایا ہے بلکہ اب تو خود پارلیمنٹ میں ان کے سینٹ میں بش کے خلاف یہ باتیں آرہی ہیں کہ ملا محمد عمر بھی ویسے ہی ہیں اسامہ بھی ویسے ہی ہیں اور وہاں بھی عراق میں وہ کیمیائی اسلحہ نہیں نکلا تو کیا فائدہ اس سب جنگ کا، جو تم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈرامہ رچایا ہوا ہے سوائے اس کے کہ امریکہ ذلیل ہوا ہے یہ امریکی کہہ رہے ہیں ہم نہیں کہہ رہے۔ یہ امریکی سینیٹر کہہ رہے ہیں انہی کے سینیٹر! دنیا میں ظلم و فساد اس نام پر مچایا جارہا ہے دہشت گردی یعنی جہاد اسے ختم کرنا ہے اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مسعود ازہر صاحب کو جزائے خیر دے جب مفاہیم اور معنی اس میں اتنا اختلاف ہوجائے اور اتنا فساد آجائے کہ حق کو باطل اور باطل کو حق کہا جائے تو اس وقت قرآن مجید ہی ایسی ایک چیز ایسی ایک مقدس کتاب ہے جو ہر مسلمان اسے مانتا ہے اس وقت ضرورت تھی کہ علمی طور پر محقق طور پر مستند طور پر معتمد تفسیروں سے آیات جہاد کو نکھارا جائے اور ان کی تفسیریں لوگوں کے سامنے بیان کی جائیں خالص اسی پر تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں غیر اور اپنے باقاعدہ سازش اور پلاننگ کے تحت جہاد کے خلاف جو شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں ان سے دماغ صاف اور دل کو اطمینان ہوکہ یہ حق ہے اور جس کی سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی مشروعیت فرضیت اور جہاد کے مختلف احوال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مسعود ازہر صاحب کو بہت زیادہ جزائے خیر عطاء فرمائے یہ ایک نادر کام ہے اور وقت کی ضرورت ہے وقت کی ضرورت تھی تاکہ ایک علمی طور پہ مستند طور پر مستند معتمد تفاسیر سے وہ مواد چھانٹ کر منتخب کرکے اس میں جمع کیا جائے اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ''سچی بات ہے'' بہت بڑا کام کیا ہے اللہ تعالیٰ ہماری دعا ہے آپ سب بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ، الحمدللہ جیسے کے سنا ہے اور حضرت نے بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ انشاء اللہ تین جلدوں میں یہ کتاب اندازہ ہے کہ مکمل ہوجائے گی۔ جس میں پہلی جلد تو چھپ چکی ہے دوسری جلد کے بھی کئی مضمون وہ تیار فرما چکے ہیں اللہ کرے تیسری جلد بھی جلد ہی مکمل ہو اور یہ پوری کتاب آئے میری یہ تجویز ہے ذمہ داروں سے یہاں کہ حضرات سے کہ اس کتاب کا عربی، انگلش دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے۔ انشاء اللہ عربی کی ہم ذمہ داری لیتے ہیں اگر ہمیں اجازت دی جائے تو انشاء اللہ ہم اس کی ذمہ داری لیں گے چونکہ یہ کتاب واقعتاً ایسی ہے کہ اس کی مثال ہمارے علم کے مطابق جب سے تفسیر لکھی گئی آج تک کوئی تفسیر ہمیں نہیں ملی جو خالص آیات جہاد کے بارے میں ہو ہمارے علم میں نہیں ہے۔ علمی لحاظ سے یہ بہت مستند اور متعمد کام ہے اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ حضرات اور ہم سب کو اللہ تعالیٰ اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ انشاء اللہ مشورہ بھی کریں گے دوستوں سے ساتھیوں سے ان حضرات سے ہمیں اجازت دیں گے۔ انگلش میں بھی عربی میں بھی تو انشاء اللہ ہماری اپنی زبان ہے اس میں بھی لیکن یہ چیز ایسی ہے کہ یہ ہر مسلمان کے ذہن کو پڑھنے کے قابل اسے بنانا چاہئے تاکہ وہ براہ راست اسے سمجھ سکے پڑھ سکے چونکہ تفسیر تو ایسی چیز ہے کہ ہر آدمی اسے پڑھ سکتا ہے اور اس کا ترجمہ عربی میں انگلش میں چونکہ یہ دنیا کی انٹرنیشنل زبانیں ہیں ویسے فرانسیسی میں بنگلہ دیشی میں دوسری زبانوں میں بھی ہم مشورہ کریں گے حضرات سے انشاء اللہ جیسے بھی حکم وگا ان کا عربی کے لئے تو میں خود تیار ہوں انشاء اللہ اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے لیکن میں دل سے آپ سب حضرات کو اور تمام آپ کے مجاہدین ساتھیوں کو جیش کے ساتھیوں کو اور خود حضرت مولانا مسعود ازہر صاحب کو اللہ تعالیٰ ان کو بہت ہی زیادہ جزائے خیر عطا فرمائے کہ ایسی مستند علمی جہاد سے مستفید کتاب انہوں نے لکھی ہے جو وقت کی ضرورت تھی اور جس سے انشاء اللہ جیسے کہ مجھ سے پہلے مفتی عبدالرؤف صاحب بھی فرما رہے تھے کہ یہ صحیح بات ہے یہ کفر کے منہ پر طمانچہ ہے چونکہ صدیوں سے کفار کی یہ کوشش ہے کہ امت کو جہاد سے ہٹایا جائے کہ آج کل جو دہشت گردی اور جہاد کو خلط کیا جارہا ہے ہم تمام مسلمان مسلمانوں سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف کون ہوگا دہشت گردی ہے کیا یہ ہے اصل بات یہ جہاد کو اگر دہشت گردی کہتے ہیں تو یہ جھوٹے ہیں کفار ہیں ان کے دل کا کیا اعتبار ہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب اسرائیل میں ایک لڑکی نے فدائی کارروائی کی ایک عورت نے جس کی عمر بائیس سال کی تھی اس نے فدائی کارروائی کی تو اس میں بش کا بیان آیا تھا کہ اسلام اسے ناپسند کرتا ہے کیا عجیب زمانہ ہے کہ ایک عیسائی اسلام کا فتویٰ دے رہا ہے خبیث تمہیں کیا پتہ قرآن کیا ہے حدیث کیا ہے اسلام کیا ہے؟ تم تو اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہو ساری دنیا میں اسلام کو ختم کرنے کی فکر کررہے ہو سازشیں کررہے ہو مکر کررہے ہو، اب ایسا زمانہ آگیا ہے کہ جن لوگوں کو قرآن کا پتہ نہ حدیث کا پتہ بلکہ نہ دین کا پتہ اور پتہ ہی نہیں بلکہ دین سے کوئی تعلق نہیں دین کے دشمن وہ بھی اب اسلام میں فتوے دے رہے ہیں ایسا خراب زمانہ ہے اس ملک میں جو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے جو وزیر تعلیم ہے جسکی ایک بات ابھی مولانا نے سنائی وہ عجیب اللہ کا بندہ ہے وزیر تعلیم اتنی بدقسمتی ہے اس ملک کی کہ وہ کہتا ہے کہ قرآن کے چالیس پارے ہیں اسے یہ نہیں پتہ کہ قرآن کے تیس پارے ہیں یا چالیس پارے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے تعلیم میں قرآن پڑھانا شروع کردیا اس نے کہا ہم پورے چالیس پارے پڑھارہے ہیں ابھی وہ وزیر تعلیم ہے میں نے تو انٹرویو نہیں سنا وہ کہتا ہے کہ اس سے دہشت گردی پھیلتی ہے جب مفاہیم اتنے بدل جائیں اور سوچیں اتنی بری ہوجائیں اور اپنوں کو نہ قرآن کا پتہ نہ حدیث کا پتہ اور وہ خباثتیں دوسروں کے آلہ کار بن کر دین میں تبدیلی کریں تو پھر ذمہ داری ہے علماء کی اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مسعود ازہر صاحب کو جزائے خیر دے کہ تمام علماء کی طرف سے انہوں نے فرض کفایہ ادا کیا بہت مستند الحمدللہ اللہ تعالیٰ اس پر بہت جزائے خیر دے میں تو سچی بات ہے آپ حضرات کو مبارک باد دینے آیا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری خوش بختی ہے جتنے بھی اتنے اتنے اکابر تشریف لائے ہیں یہ آپ حضرات کے اخلاص کی برکت ہے مولانا کے اخلاص کی برکت ہے اور اس کام کی بدولت ہے جو انہوں نے کیاہے اللہ تعالیٰ جلد از جلد اس کتاب کو مکمل فرمائے۔ اس کو قبولیت سے سرفراز فرمائے اور اس کو اللہ تعالیٰ عام فرمائے اور آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ قدر دانی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کتاب کو نہیں پڑھتے، ہم لوگ معمولی معمولی اپنی خواہشات کے لئے سو دو سو روپے خرچ کردیتے ہیں آپ اس کو اپنے لئے نہ لیں آپ اس کو پڑھیں تو ایک کتاب خرید کے اپنے گاؤں کے عالم کو اور جو علماء ہیں مشائخ ہیں مدرسے میں وہاں اس کو وقف کردیں جب تک کوئی اس کو پڑھتا رہے گا آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا بہت بڑا نیک کام ہے آپ یہ سمجھیں صحابہ کرامؓ میں یہ کمال تھا کہ وہ خود غریب فقیر، مسکین ہوتے تھے پیسے نہیں ہوتے تھے خود اپنے گھر والوں کے لئے کھانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے لیکن جب دین کا کوئی مسئلہ آتا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا مسئلہ آتا تو وہ اپنے پیٹ کاٹ کر اپنا کھانا کم کرکے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ سب حضرات کو توفیق عطا فرمائے ہر شخص یہ نیت کرے کہ میری وجہ سے یہ کتاب پھیلے گی اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگ اسے گھر میں رکھیں خود بھی پڑھیں، اپنی اولاد کو پڑھائیں جب گھر میں ہوگی چیز تو کوئی نہ کوئی پڑھتا رہے گا اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نہیں پڑھنی تو مدرسے میں وقف کردیں اور نور علیٰ نور یہ ہے کہ دو تین نسخے خرید لیں اپنے لئے اور دو تین اوروں کے لئے تو اللہ تعالیٰ آپ سب کو قبول فرمائیں اس میں کوئی ایسا نہ بچے جس کا حصہ نہ ہو، حقیقی بات یہ ہے کہ یہ پورے عالم کفر پہ تمام یہودیوں، ہندوؤں، عیسائیوں، کمیونسٹوں، دین دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ ہم اور اس مبارک تقریب کے شرکاء کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں ہم سب کو اخلاص اور تقویٰ نصیب فرمائے اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اپنی رحمتیں ہم سب پر نازل فرمائے اور ہمارے اس اجتماع کو اللہ تعالیٰ قبولیت سے سرفراز فرمائے۔ واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین۔
٭٭٭

اور انشاءاللہ بہت جلد اس کی اڈیو بھی ان لائن کر دی جائیگی


االسلام علیکم
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت اہم نکات ہیں، ان پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔
بے شک علماء ،انبیائے کرام کے وارث ہیں۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
بیان کا عنوان اوپر دھاگے کا ہی عنوان ہے یعنی اوپر جو کچھ لکھا ہے یہی بیان ہے۔

جزاک اللہ
 
Top