موبائل کے تباہ کن اثرات

کالم نگار۔۔۔بشریٰ امیر
راضیہ کی والدہ انتہائی خوش تھیں کیونکہ انہوں نے اپنی بیٹی سے جی بھر کر باتیں کی تھیں۔ بیٹی فن لینڈ میں مقیم ہے، یورپ کے انتہائی شمال میں چار ملک ایسے ہیں جنہیں اسکنڈے نیوین کے ممالک کہا جاتا ہے۔ یہ ملک ڈنمارک، ناروے،سویڈن اور فن لینڈ ہیں۔ فن لینڈ میں چھ مہینے کی رات ہوتی ہے اور چھ مہینے کا دن ہوتا ہے۔ اتنی دور کے ملک میں راضیہ جب اپنی بیٹی اور چھوٹے چھوٹے نواسوں اور نواسیوں سے باتیں کر رہی تھیں تو بچوں کے چہکنے مہکنے کی باتیں سن کر اس کا دل باغ باغ ہوئے جا رہا تھا۔ کبھی کبھی راضیہ یوں بھی کرتی ہے کہ دونوں طرف سے کیمرے آن ہو جاتے ہیں، نیٹ اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کو سامنے پا کر گفتگو بھی کرتی ہیں اور دیکھتی بھی ہیں… راضیہ کی بیٹی اپنی ماں کو اپنے گھر کے سارے مناظر دکھا چکی ہے کہ اس کا گھر کیسا ہے، بیڈ روم کیسا ہے، باورچی خانہ کس طرح کا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
میں اپنی سہیلی راضیہ کی یہ باتیں سن کر سوچ رہی تھی کہ کہاں وہ وقت ہوا کرتا تھا، گائوں کے کسی پڑھے لکھے نوجوان سے خط لکھوایا جاتا تھا، وہ ہفتہ پندرہ دنوں کے بعد منزل پر پہنچتا تھا، پھر خط کو پڑھنے کے لئے کوئی پڑھا لکھا آدمی تلاش کیا جاتا تھا، اگر اس خط میں کسی کے فوت ہونے کی خبر ہوتی تھی تو خط ملنے پر سوائے اس کے کچھ نہ ہو سکتا تھا، کہ ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد فوت شدہ عزیز کے گھر پہنچ کر تعزیت کی جائے۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا اس قدر ایک دوسرے کے قریب آ گئی کہ دنیا کو گلوبل ولیج یعنی ایک گائوں کہا جانے لگا ہے، جس طرح ایک گائوں کے لوگ آپس میں جان پہچان رکھتے ہیں، اسی طرح دنیا ایک گائوں بن چکی ہے۔
جہاں تک موبائل فون کی بات ہے کچھ عرصہ پہلے یہ موبائل امیر لوگوں کے پاس ہوا کرتا تھا، پھر عام ہو گیا اور اب اس قدر عام ہو گیا کہ امیر غریب کا امتیاز مٹ گیا، ہر گھر میں یہ داخل ہو گیا اور اب گھر کے ہر فرد کے پاس آ گیا۔ مائیں بچوں کو موبائل دے کر بازار بھیجتی ہیں کہ بچے کے ساتھ رابطہ رہے گا۔ اغوا اور دھماکے عام ہیں، خیریت تو معلوم رہے گی مگر وہ بچہ اور کس کس سے اور کیا کیا رابطے کرتا ہے، بیٹی کیا کیا کرتی ہے، یہ سب اللہ ہی کو معلوم ہے، ماں باپ کو تو اس وقت معلوم ہوتا ہے جب نتائج سامنے آتے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں، لمبی راتوں میں یہ بچے لحاف اور کمبل اوڑھ کر بظاہر گہری اور میٹھی نیند سوئے ہوتے ہیں لیکن اس لحاف کے اندر باہر کی دنیا کے ساتھ ایک جہان آباد ہوتا ہے، رابطے ہوتے ہیں، ادھر سے آوازیں ہوتی ہیں اور وہ آوازیں ہیڈ فون کے ذریعے سنی جا رہی ہوتی ہیں، جبکہ ادھر سے لکھے ہوئے پیغامات جا رہے ہوتے ہیں یا پھر دونوں طرف سے پیغامات اور کبھی دونوں طرف سے آوازیں۔ الغرض! حالات کے مطابق رابطے، لحاف کے اندر رابطوں کی لہریں اور موجیں اور اوپر مکمل سکون اور سکوت، ماں باپ کے لئے پورا اطمینان کہ اس کا لاڈلا یا لاڈلی سو گئی ہے۔
ایک اور مصیبت یہ ہے کہ بچوں نے موبائل پر گیمیں اور نہ جانے کیا کیا کھیلنا شروع کر دیا ہے، ہر وقت بس ہاتھ میں موبائل اور نظر سکرین پر… بچے تو کیا بڑے بھی اس مصیبت کا شکار ہیں… یورپ کے کئی لوگ بھی اب اس مصیبت سے گھبرا رہے ہیں حالانکہ ان کا معاشرہ حیا باختہ معاشرہ ہے۔
پچھلے دنوں اسپین کے شہر بارسلونا سے خبر آئی کہ اس کے ایک قریبی قصبے ’’لیدا‘‘ میں ذہنی امراض کا ایک ادارہ ہے جس کی سربراہ ڈاکٹر اتگیس ہے وہ کہتی ہیں کہ ان کے ہسپتال میں پہلی بار ایسے بچوں کا علاج کیا جا رہا ہے جو موبائل فوبیا کا شکار ہو چکے تھے۔ ان بچوں کی عمریں 12اور 13سال ہیں، یہ سکول سے فیل ہو رہے تھے۔ نفسیاتی عوارض کے شکار ہو رہے تھے اور یہ اس قدر فون کے عادی ہو چکے تھے کہ فون کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اخلاقی عادتیں بھی خراب ہو چکی تھیں۔ رشتہ داروں سے جھوٹ بول کر پیسے لیتے ہیں چنانچہ اب ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
مجھے یاد آیا اسی طرح کے میسج ہمارے ہاں بھی چل رہے ہیں کہ میں بڑی مصیبت میں ہوں مجھے تیس روپے کا ایزی لوڈ کر وا دیں اور یہ کہ مجھ پر لعنت اگر میں جھوٹ بولوں تو؟ مگر کیا کیا جائے کہ قسمیں اٹھانے والے اور اپنے آپ کو گالیاں دے کر بیس تیس اور دس روپے تک کا ایزی لوڈ لینے والے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی فون شروع ہو چکے ہیں کہ جناب آپ کو مبارک ہو آپ کی لاٹری پانچ لاکھ روپے نکلی ہے، بیک کال کیجئے، جب بے چارہ لالچ کا مارا کال کرتا ہے تو آگے ایک پراسیس بتلایا جاتا ہے جس میں وہ دس پندرہ ہزارخرچ کر دیتا ہے اور پھر پیسے لٹا کر بیٹھ جاتا ہے۔ الغرض! لوٹ مار کا ایک دھندا بھی شروع ہو چکا ہے۔
موبائل کمپنیوں نے بھی خوب کیا ہے انہوں نے 100سے لے کر 500اور ہزار یا اس سے بھی زائد مفت پیغامات کی سروس دے دی ہے ایک ایک گھنٹے کے پیکج متعارف کرا دیئے ہیں۔ اب ان سے فائدہ اٹھا کر لڑکے اور لڑکیاں اپنے اخلاق تباہ کر رہے ہیں۔ الغرض! موبائل کا شیطانی پہلو خوب ننگا ہو کر ناچ دکھا رہا ہے اور ہماری نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ بچیاں اپنی معلومات میسج پر دے دیتی ہیں پھر بلیک میل ہوتی ہیں اور گھرانوں میں وہ وہ اندھیر مچ رہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔
یاد رکھئے! موبائل کا زیادہ استعمال خطرناک بھی ہے جیسا کہ ایک امریکی سائنسدان ڈیوس کا کہنا ہے کہ موبائل فون دماغ کے سرطان کا سبب بن رہے ہیں۔ ڈیوس کے مطابق موبائل سے نکلنے والی شعائیں نقصان دہ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی موبائل کمپنیاں اپنے ساڑھے چار ارب صارفین اور تیس کھرب ڈالر کا بزنس بچانے کے لئے سالہا سال سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ موبائل کے استعمال سے ہونے والے دماغ کے سرطان اور دیگر عوارض کے سائنسی شواہد منظرعام پر نہ آئیں اور دفن ہی رہیں۔
والدین خصوصاً مائوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں جب دیکھیں کہ اس کے ہاتھ میں ہر وقت موبائل ہے دنیا و مافیہا سے بے نیاز وہ اپنی دھن میں لگا ہے، ماں باپ کی کسی بات پر توجہ نہیں، بڑے کوئی بات کر رہے ہیں، تو وہ صوفے میں گھس کر موبائل سے لگا ہے، تو مائیں پیار سے اس کی یہ عادت ختم کروائیں، خاص طور پر لڑکیاں جو ہر وقت ماں کے پاس ہوتی ہیں اور ماں کی عدم توجہی کی وجہ سے موبائل کو ہی اپنی ماں سمجھ بیٹھتی ہیں، مائوں کو چاہئے کہ ان کو وقت دیں، پڑھائی میں ان کی مدد کریں اگر نہیں پڑھی ہوتی تو تب بھی احساس کے لئے اس کے پاس بیٹھیں، فارغ اوقات میں گھر کے کاموں میں اسے اپنے ساتھ لگائے اور ساتھ ساتھ اسے نصیحت بھی کرتی رہے، اس طرح موبائل کی عادت کم ہو جائے گی۔ لیکن افسوس مائیں لڑکیوں کو موبائل دے کر خود ان سے دور ہو گئیں۔ ماشاء اللہ گھنٹہ بھر پیکج سے اپنی جان چھوٹے تو تب ہی وہ اپنی بچیوں کو ٹائم دے پائیں۔
خدارا! معصوم ذہن اور کم عمری اور کم عقلی کی وجہ سے بچیوں کو گمراہ ہونے سے بچائیں۔ موبائل کی نعمت اگر اللہ نے عطا کر دی ہے تو اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں،
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ بعض لوگ فون کرتے ہیں تو آگے سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ تو جواب ملتا ہے میں ہوں۔ مجھے پہچانا نہیں؟
ارے بھئی! اسوۃ رسولﷺ یہ ہے کہ فوراً اپنا نام بتلا کر کہو کہ میں فلاں بول رہا ہوں۔ ایسے ہی ایک شخص اللہ کے رسولﷺ کے دروازے پر آیا، دستک دی۔ آپﷺ نے پوچھا کون؟ وہ کہنے لگا۔ میں… آپﷺ نے فرمایا! میں کا کیا مطلب؟ اپنا نام بتائو۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ بعض لوگ غلط احادیث جن کی کوئی سند نہیں ہوتی بھیج دی جاتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا! ’’جس نے میرے بارے میں ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے‘‘۔ علاوہ ازیں پھر ایسے وظیفے بتلائے جاتے ہیں کہ اگر یہ پڑھو گے تو کل تک فلاں کام ہو جائے گا۔ اگر یہ والی حدیث آگے نہ بھیجی تو تمہارا نقصان ہو جائے گا اور پھر ایسی ایسی من گھڑت باتیں لکھی جاتی ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ کسی بندے کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں پھیلاتا پھر رہا ہے اور پھر ایسی خبروں کی تشہیر کی جاتی ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں۔ یاد رہے! سورۃ حجرات میں اللہ کے فرمان کے مطابق نصیحت ہے کہ
’’اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کسی فاسق کی خبر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کر تم اس خبر کے مطابق جہالت میں کسی کے خلاف اقدام کر ڈالو اور پھر بعد میں تمہیں شرمندگی اٹھانا پڑ جائے۔‘‘


بشکریہ۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

شمشاد

لائبریرین
تو مائیں پیار سے اس کی یہ عادت ختم کروائیں، خاص طور پر لڑکیاں جو ہر وقت ماں کے پاس ہوتی ہیں اور ماں کی عدم توجہی کی وجہ سے موبائل کو ہی اپنی ماں سمجھ بیٹھتی ہیں، مائوں کو چاہئے کہ ان کو وقت دیں، پڑھائی میں ان کی مدد کریں اگر نہیں پڑھی ہوتی تو تب بھی احساس کے لئے اس کے پاس بیٹھیں، فارغ اوقات میں گھر کے کاموں میں اسے اپنے ساتھ لگائے اور ساتھ ساتھ اسے نصیحت بھی کرتی رہے، اس طرح موبائل کی عادت کم ہو جائے گی۔ لیکن افسوس مائیں لڑکیوں کو موبائل دے کر خود ان سے دور ہو گئیں۔ ماشاء اللہ گھنٹہ بھر پیکج سے اپنی جان چھوٹے تو تب ہی وہ اپنی بچیوں کو ٹائم دے پائیں۔

بہت سی مائیں تو خود اس لعنت میں گرفتار ہیں کہ موبائیل پر گھنٹوں باتیں کرتی ہیں۔
 
Top