منیر الدین احمد کا افسانہ

موبی

محفلین
منیر الدین احمد

نسبی اولاد

لڑکی مجھے پہلی نظر میں ہی بھا گئی ۔ اس میں غضب کی کشش تھی۔ اسکے چہرے پر معصومیت کی جھلک تھی ، جو عام طور سے ان چہروں پر نظر آتی ہے ، جنہوں نے ابھی دنیا نہیں دیکھی ہوتی اور جن کا واسطہ زندگی کے گرم و سرد سے نہیں پڑا ہوتا ۔ میرے پہنچنے سے قبل پہلا سیشن ختم ہو چکا تھا اور سمینار کے شرکاءشام کے کھانے کے بعد سیر سپاٹے کے لئے کلب سے باہر جا چکے تھے ۔ اس وقت وہ لوگ یقینا قصبے کی باروں میں بیٹھے ہوں گے یا شاید موسیقی کی دھنوں پر ڈانس کر رہے ہوں گے ۔ ہلڈے کو منتظمین نے میری آمد کا انتظار کرنے کو کہا تھا ۔مجھے پہنچنے میں دیراس وجہ سے ہو ئی تھی کہ راستے میں ایک نوجوان نے اپنے آپ کو ہماری گاڑی کے آگے پھینک کر خود کشی کر لی تھی ۔ جب تک پولیس حادثہ کی رپورٹ درج نہیں کر لیتی ، گاڑی کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس قضیئے کو نپٹانے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ اسکے بعد ہماری گاڑی کو سفر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ، مگر اس عرصے میں ریلوے کے پروگرام میں اچھی خاصی گڑ بڑ ہو چکی تھی۔ چونکہ ا س کا سبب ہماری گاڑی تھی، ا س لئے اس کو مزید تاخیر کا تازیانہ بھگتنا پڑا ۔ اس طرح میں سمینار کے پہلے سیشن میںشامل ہو سکا ، نہ ہی شام کے کھانے میں شریک ہوا ۔

اس روز موسم خاصا خوشگوار تھا ۔ اکتوبر کا مہینہ اختتام کو پہنچ رہا تھا ۔ خزاں اپنے جوبن پر تھی اور میں راستے میں دھوپ اور چھاوں کا کھیل دیکھتا اور درختوں کے رنگ برنگے پتوں سے محظوظ ہوتا آیا تھا ، جس کے سبب ایک جادوائی منظر پیدا ہو گیا تھا ۔ پھر جب ایک پری نے کلب میں میرااستقبال کیا اور بتایا کہ وہ میری راہ تک رہی تھی ، تو مجھے لگا کہ میں سچ مچ پرستان میں پہنچ گیا تھا ۔

ہلڈے نے مجھے کمرے کی چابی دی اور کہا کہ میرا کھانا اوون میں گرم رکھاہے ۔ میں نے کہا کہ میں ریل گاڑی کی ڈائننگ کار میں کھا چکا ہوں۔

‎"‬ پھر میری ڈیوٹی ختم ہو جاتی ہے ‎"‬ ہلڈے نے کہا:‎"‬ البتہ آپ کو قصبے کی سیر کیلئے چلنے کا شوق ہے ، تو میں خوشی سے آپ کا ساتھ دوں گی‎" ‬ ۔

‎"‬ میں ضرور چلوں گا اور اپنا سفری بیگ کمرے میں رکھنے اور منہ ہاتھ دھونے میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگاوں گا ‎"‬ ۔ میں نے جواب دیا ۔

ہرن آلب جرمنی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ، جس کی شہرت دراصل وہاں کے معدنی چشمے کی وجہ سے ہے ، جس کا پانی کئی ہزار فٹ کی گہرائی سے نکلتا ہے ۔ اس میں پائی جانے والی معدنیات کو بہت سی بیماریوں سے شفا دلانے کی صفت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے ہر سال ہزاروں انسان اس قصبے میں آ کر چند ہفتے گذارتے اور دن میں کئی بار چشمے کا پانی پیتے اور معدنی پانی کے تالاب میں نہاتے ہیں۔ ایسے مقامات ملک کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں ۔ جہاں پر خصوصی کلینک بنے ہوئے ہیں ، جس کے سبب ان قصبوں کا سیزن سارا سال چلتا ہے اورگرمیوں یا سردیوںپرمنحصر نہیںہوتا ۔ زائرین اور مریض قصبے کی رونق کو بڑھانے کا موجب بنتے ہیں ۔ ان قصبوں میں ریستورانوں، قہوہ خانوں اور کلبوں کی بھر مار ہوتی ہے، جو سرشام بھر جاتے ہیں ۔دراصل ا ن قصبوں کی شہرت کا انحصار اس چیز پر ہوتا ہے کہ لوگ وہاں پر اپنی شامیں کہاںپر اور کیسے گذارتے ہیں۔اسلئے قصبوں کے کرتا دھرتا نت نئی دلچسپیوں کے سامان پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔جرمنی کے بیشتر جوا خانے اور اونچے درجے کے چکلے ایسے ہی قصبوں میں پائے جاتے ہیں ۔

ہمارا ارادہ اندرون قصبہ کا ایک چکر لگانے اور پھر کسی اچھی سی بار میں جا کر بیٹھنے کاتھا ۔ مگر شام بھیگنے کے ساتھ ساتھ ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی ۔اس لئے ہم نے پہلی بار میں داخل ہونے کا ارادہ کیا ، جو ہمارے راستے میں آئے گی ۔ ہمیں اپنی غلطی کا احساس بہت جلد ہو گیا ، کیونکہ پہلی بار ہم جنس مردوں کے لئے مخصوص تھی ۔ وہاں پر ہلڈے کے سوا کوئی دوسری عورت موجود نہ تھی ۔ مردوں کے جوڑے ایک دوسرے کو پیار سے بازوᄊں میں تھامے ہوئے ڈانس کر رہے تھے اور کھلے بندوں ایک دوسرے کو ہونٹوں پر چوم رہے تھے ۔ہم نے محسوس کیا کہ سب کی نظریں ہماری طرف لگی ہوئی تھیں ، جو بار میں ایک عورت کی موجودگی پر پریشان لگتی تھیں ۔ ہم نے وہاں سے کھسک جانے میں عافیت جانی۔

غلط بار میں جانے کی ذمہ داری چونکہ میری تھی، اسلئے ہلڈے نے کہا کہ اگلی بار کا انتخاب ا س کا ہو گا۔میں نے کہا دیکھ لینا کہ وہ ہم جنس عورتوں کی بار نہ ہو ۔ ہلڈے نے کہا کہ وہاں پر وہ یوں بھی تم کو داخل نہیں ہونے دیں گی۔ ان دنوں ہم جنسی پرجرمن معاشرے میں بحث مباحثہ چل رہا تھا۔ اسلئے میں نے دل میں سوچا کہ اب ساری شام اس پر بات کرتے ہوئے گذرے گی۔ مگر میرا قیاس درست نہ تھا۔ہلڈے کو اس موضوع میں دلچسپی نہ تھی۔ وہ اس نوجوان کے بارے میں جاننا چاہتی تھی ، جس نے اپنے آپکو ریل گاڑی کے آگے پھینک کر خود کشی کر لی تھی ۔

‎"‬ اس کے بارے میں گاڑی میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا ‎"‬ میں نے جواب دیا:‎"‬ ہو سکتا ہے کہ کل کے اخبار میں تفصیلات چھپیں۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی تھی کہ کسی مسافر کے لبوں پر خود کشی کرنے والے کیلئے ہمدردی کا ایک بول تک نہ آیا تھا ۔ ہر کوئی اپنے اگلے کنکشن کے مس ہو جانے کا رونا رو رہا تھا۔ گارڈ اور ٹکٹ چیکر سارا وقت لوگوں کو نئے کنکشن ڈھونڈ کر دینے میں لگے رہے ‎"‬ ۔

‎"‬ خود کشی کی وارداتیں ا ن دنوں بہت ہو رہی ہیں‎"‬ ۔ ہلڈے نے کہا ۔

‎"‬ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سارے کے سارے اس ریل گاڑی کے سامنے اپنے آپ کو پھینکتے ہیں ، جس میں میں سفر کر رہا ہوتا ہوں ‎"‬ میں نے کہا: ‎"‬ میرے ساتھ تھوڑے عرصے میں تیسری بار ایسا واقعہ پیش آیا ہے ‎"‬ ۔

ہلڈے کے خاندان میں بھی ایک واقعہ ہو چکا تھا ۔ جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ معاملہ خود کشی کا تھا ۔اس کا تعلق اس کے باپ کی موت سے تھا ، جو دو ہفتے قبل اپنے مکان کی مرمت کر تے ہوئے چھت پر سے گرنے سے وقوع میں آئی تھی ۔ ہلڈے کے سوا دوسروں کا خیال تھا کہ وہ ترچھی چھت پر سے، جو بارش ہو نے کی وجہ سے گیلی تھی، پھسل جانے کے سبب گرگیا تھا ۔

‎"‬ کیا تمہارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ تمہارے باپ کی موت اتفاقی حاد ثے کے سبب نہ ہوئی تھی ؟‎"‬

‎"‬ ہو سکتا ہے کہ میں اس بات کو عدالت میں ثابت نہ کر سکوں، مگر میرا دل کہتا ہے کہ اس کی موت کے پیچھے میری ماں کا ہاتھ تھا ‎"‬ ۔

‎"‬ تھوڑا پہلے تم نے کہاتھا کہ معاملہ خود کشی کا تھا ۔ اب کہہ رہی ہو کہ تمہارے باپ کی موت میں ما ں کا ہاتھ تھا ‎"‬ ۔ میں نے حیران ہو کر کہا۔

‎"‬ میں یہ کہہ رہی ہوں کہ ماں نے اسے خود کشی کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ میرے ماں باپ کے درمیان مستقل جنگ چلتی تھی‎"‬ ۔

معلوم ہوتا تھا کہ ہلڈے ، جس کے چہرے پر مجھے معصومیت کی جھلک نظر آئی تھی اور میں نے گمان کیا تھا کہ اس کا ابھی زندگی کے گرم و سرد سے واسطہ نہ پڑا ہو گا ، گھریلو خانہ جنگی کا خاصا لمبا تجربہ رکھتی تھی ۔ اس نے بتایا کہ ماں اس کو باپ کے خلاف بڑھکاتی رہتی تھی ۔ مگر اسے اس میں کامیابی نہیں ہوتی تھی ۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ وہ ماں کی باتیں باپ کو بتا دیا کرتی تھی ۔باپ ہلڈے سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ بھی اسے دل و جان سے چاہتی تھی ۔ دوسری طرف ماں کو اس سے یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ باپ کو اس پر ترجیح دیتی تھی ۔

‎"‬ گویا تم بچپن سے خاندانی کشمکش کاحصہ رہی ہو‎"‬ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

‎"‬ میں پہلے دن سے طوفان کے مرکز میں تھی ۔ بلکہ ان کی آپس میں شادی کا سبب میں ہی تھی۔ اگر ماں مجھ سے حمل سے نہ ہوتی ، تو شاید وہ میرے باپ سے بیاہ نہ رچاتی۔ وہ گاᄊں کے ایک دوسرے نوجوا ن کی محبت کا دم بھرتی تھی ، مگر وہ اس سے شادی کرنے کے لئے تیار نہ تھا ‎"‬ ۔

‎"‬اب بات میرے پلے پڑی ہے ۔ ماں نے تمہارے باپ سے شادی تو کر لی تھی ، مگر کسی اور کی محبت کو اپنے دل سے نہ نکال سکی تھی ۔اس بات کا خمیازہ عمر بھر تمہارے باپ کو بھگتنا پڑا ‎"‬ ۔

ہم اپنی باتوں میں ایسے ڈوبے ہوئے تھے کہ ہمیں وقت گذرنے کا احساس تک نہ ہوا ۔ بیرے نے بل لا کر میرے آگے رکھا اور میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی ، تو بارہ بج رہے تھے ۔ ہمارے آگے پیچھے کی میزیں خالی ہو چکی تھیں۔ صرف ایک جوڑا ہمارے علاوہ ابھی بیٹھا ہوا تھا ، جو شاید پیار و محبت کی باتوں میں مصروف تھا ۔ پیانو بجانے والا اپنی اباسی کو دبانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ ہم بل ادا کر کے سرد رات میں باہر نکل گئے ۔ کلب وہاں سے زیادہ دور نہ تھا ۔

اگلے روز کا پہلا سیشن میرے لئے مختص تھا ، جس میں مجھے دو تقریریں کرنی تھیں ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میرا واپسی کا پروگرام تھا ۔ مگر ہلڈے کی فرمائش پر میں نے شام کی ٹرین لینے کا ارادہ کیا ۔ اس طرح مجھے اس کے ساتھ مزید چند گھنٹے گذارنے کا وقت مل گیا ۔ہلڈے نے بتایا کہ پبلک نوٹری ا س کے باپ کا وصیت نامہ دو ہفتوں میں کھولے گا ۔ اس کی ماں سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ باپ کہیں اپنی ساری جائیداد ہلڈے کے نام نہ کر گیا ہو۔

‎"‬ کیا اب خانہ جنگی تمہارے اور ماں کے درمیان ہو گی؟‎"‬ میں نے پوچھا۔

‎"‬ میرے دل میں ماں کے ساتھ جھگڑنے کی کوئی خواہش نہیں ہے ۔لیکن میں بہر صورت یہ جاننا چاہتی ہوں کہ باپ کی خود کشی کے پیچھے کیا راز ہی‎"‬ ۔

‎"‬ مجھے تمہارے خاندانی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیںہے ، تاہم اگر تم پسند کرو ،تو مجھے بتانا کہ بالآخراونٹ کس کروٹ بیٹھا تھا ‎"‬ ۔

بہت دنوں تک ہلڈے کی طرف سے کوئی خبر نہ آئی اور میں نے بھی اس سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔یوں بھی جرمن معاشرے میںلوگ اپنا تجسس قابو میں رکھتے ہیں۔ میں نے دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ اگر کچھ بتانے کو ہوتا ،تو ہلڈے خط لکھتی یا فون کرتی ۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے دل میں ہلڈے سے ملاقات کی خواہش کا پودا جڑ پکٹرچکا تھا اور میں چاہتا تھا کہ پھر اس سے ملوں اور اس کے ساتھ کچھ وقت گذاروں ۔

جب چند ماہ کے بعد مجھے ہلڈے کے قصبے کے ایک نزدیکی شہر میں منعقد ہونے والے ایک سمینار میں تقریر کرنے کی دعوت ملی ، تو میں نے ہلڈے کو خط لکھا کہ اگر وہ وہاں پر آ سکے ، تو خوب ہو گا ۔ اس نے واپسی ڈاک سے جواب دیا اور اپنے آنے کا مژدہ سنایا ۔ اس نے لکھا کہ اس کی زندگی کا اونٹ ایک ایسی کروٹ بیٹھا تھا ، جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ تھا ۔

ہلڈے سمینار کے دونوں روز میرے ساتھ رہی ۔ اس کے چہرے پر بدستور معصومیت کی جھلک تھی ، مگر کچھ جھریاں بھی نظر آنے لگی تھیں ۔ پتہ چلا کہ اس کے باپ نے اپنی وفات سے صرف ایک ہفتہ قبل اپنی وصیت میں تبدیلی کی تھی، جس میں درج تھا کہ اگر ‎DNA‬ ٹسٹ کے ذریعہ ثابت ہو جائے کہ ہلڈے اس کی بیٹی ہے ، تو وہ اس کی تمام جائیداد کی اکیلی وارث ہو گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اس کے دل میں یہ شبہ کیسے پیدا ہوا کہ وہ اس کی بیٹی نہیں ۔ اس کا جواب صرف ماں دے سکتی تھی ۔ مگر اس نے چپ سادھ لی تھی ۔ جب اس پر زور ڈالا گیا ، تو اس نے اقرار کیا کہ ایک گھریلو لڑائی جھگڑے میں اس کے منہ سے نکل گیا تھا کہ ہلڈے اس کی نہیں اس کے رقیب کی بیٹی ہے ۔ ہلڈے کو یقین تھا کہ ماں کی اس بات نے باپ کو خود کشی کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ ماں کے تعلقات شادی سے پہلے اس کے باپ کے علاوہ اس کے رقیب سے بھی رہے تھے اور وہ خود بھی شاید نہیں جانتی تھی کہ وہ دونوں میں سے کس سے حمل سے تھی ۔

‎"‬ تو کیا تم نے ‎DNA‬ ٹسٹ کرایا ؟‎"‬ میں نے پوچھا ۔

‎"‬ پہلے تو میں اس کے خلاف تھی ۔ مگر پھر پبلک نوٹری کے کہنے پر اس کے لئے تیار ہو گئی ، کیونکہ اس کے بغیر وراثت کا فیصلہ نہ ہو سکتا تھا ۔ ٹسٹ سے ثابت ہو گیا کہ میں باپ کی نسبی اولاد ہوں ۔ جانتے ہو اسکا کیا مطلب بنتا ہے؟‎"‬

‎"‬ مجھے پتہ نہیں کہ تم کیا کہنا چاہتی ہو‎"‬ میں نے جواب دیا ۔

‎"‬ باپ نے ماں کی اس غلط بیانی کے سبب خود کشی کی تھی کہ میں اسکی بیٹی نہیں ہوں ، جبکہ درحقیقت میں اسکی نسبی اولاد ہوں۔ تم سوچ سکتے ہو کہ یہ جان کر مجھ پر کیا قیامت گذری۔ میرا نروس بریک ڈان ہوگیا ۔ یہ وجہ تھی کہ میں تم سے رابطہ نہ رکھ سکی ۔ مجھے کلینک سے واپس لوٹے ابھی تھوڑے دن ہوئے ہیں ‎"‬ ۔
 
Top