مندر کا شیر
جو شخص کبھی دیبی دھورا نہیں گیا وہ اس کے گردوپیش کے مناظر کے حُسن کا کبھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ یہاں "پرماتما کے پہاڑ" کی چوٹی کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں کھڑے ہوکر آپ جِدھر نظر اٹھائینگے آپ کو ازلی و ابدی حُسن کےطلسمی نظارے دکھائی دینگے۔ ریسٹ ہاؤس سے دریائے پانار کی ڈھلان شروع ہوجاتی ہے۔ اس وادی سے پرے پہاڑیوں کا سلسلہ ابدی برف میں کھوجاتا ہے۔
نینی تال سے ایک غیر ہموار اور پیچیدہ سڑک لوہر گھاٹ کی طرف جاتی ہے جودیبی دھورا کے اندر سے ہوکر گزرتی ہے۔ اسی سڑک کی ایک شاخ دیبی دھورا کو الموڑہ سے ملاتی ہے۔ اسی مؤخرالذکر سڑک پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کھیل رہا تھا کہ مجھے محکمۂ تعمیرات کے اوورسیز نے بتایا کہ اس چیتے نے دیبی دھورا میں ایک شخص ہلاک کردیا ہے۔ لہذا میں دیبی دھورا کی سمت چل پڑا۔
اپریل کی ایک گرم دوپہر کو ابھی میں دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچا ہی تھا اور چائے سے خود کو تازہ دم کررہا تھا کہ دیبی دھورا کے مندر کا پجاری میرے پاس آیا۔ دو برس پہلے جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے آیا تھا تو اس بوڑھے نخیف و نزار آدمی سے میری دوستی ہوگئی تھی۔ وہ مقامی مندر کا پجاری تھا۔ تھوڑی دیر پہلے مندر کے قریب سے گزرتے وقت میں نے اسے سلام کیا تھا۔ مگر اس نے فقط سر ہلا کر جواب دینے میں اکتفا کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ عبادت میں مصروف تھا۔ اب عبادت ختم کرکے وہ میرے پاس آگیا تھا اور برآمدے کے فرش پر بیٹھا میرے ساتھ گپ بازی میں مصروف تھا۔ میں بھی سفر کی تھکاوٹ کا مارا ہوا تھا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے سوا کچھ نہ کرنا چاہتا تھا۔
پجاری سے مجھے پتا چلا کہ اوورسیز نے مجھے غلط بتایا تھا کہ دیبی دھورا میں چیتے نے ایک آدمی کو ہلاک کردیا تھا۔ وہآدمی اس پجاری کا مہمان تھا اور اس نے رات اس کے پاس مندر میں ہی بسر کی تھی۔ وہ شخص پجاری کی نصیحت کے خلاف رات کو باہر مندر کے چبوترے پر سوگیا تھا۔ نصف شب کے قریب جب مندر کے گردوپیش کی چٹانیں مندر پہ سایہ فگن تھیں تو آدم خور چیتا رینگتا ہوا اس جگہ آیا اور اس چبوترے پر سوئے ہوئے شخص کا ٹخنا پکڑ کر اسے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ وہ شخص ہڑبڑا کر اٹھا اور قریبی الاؤ سے سلگتی ہوئی ایک لکڑی پکڑ کر چیتے کو مار بھگایا۔ اس کے شور سے مندر کے اندر سوئے ہوئے بعض دوسرے پجاری بھی جاگ اٹھے۔ وہ ایک دم اس کی مدد کو پہنچ گئے۔ اپنے لیئے صورتحال خطرناک دیکھ کر چیتا راہِ فرار اختیار کر گیا۔اس شخص کے زخم زیادہ تشویش ناک نہ تھے۔ گاؤں کے وید نے ان پر بعض جڑی بوٹیوں کا مرہم لگا دیا جس کے بعد وہ آگے اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔
پجاری کی یہ باتیں سن کر میں نے دیبی دھورا ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا۔ گردوپیش کے دیہات کے لوگ ہر روز مندر میں اور وید کی دوکان پر آیا جایا کرتے تھے۔ یہ لوگ میری آمد کی خبر چاروں طرف پھیلا سکتے تھے اور جب آدم خور چیتا کسی انسان یا جانور کو ہلاک کرتا تو لوگوں کو مجھے تلاش کرنے میں آسانی رہتی۔
جب بڈھا پجاری شام کے قریب مجھ سے رخصت ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ گردوپیش کے علاقے میں کون سی جگہ شکار کے لیئے موزوں رہے گی۔ کیونکہ میرے آدمیوں نے کئی دن سے گوشت نہ چکھا تھا اور دیبی دھورا میں کسی قیمت پر گوشت ملنا محال تھا۔
"جی ہاں" اس نے جواب دیا۔ "یہاں مندر کا شیر جو ہے۔"
میری اس یقین دہانی پر کہ اس کے شیر کو ہلاک کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں، اس نے ایک قہقہہ لگا کر کہا "جناب آپ اسے بےشک ہلاک کردیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔"
اور اس طرح مجھے دیبی دھورا کے مندر کے شیر کا پتہ چلا جس نے مجھے شکار کا ایک دلچسپ ترین تجربہ بخشا اور جسے میں اب آپ کے سامنے بیان کروں گا۔
اگلی صبح میں لوہر گھاٹ کی طرف اس غرض سے نکل گیا کہ آدم خور چیتے کے پنجوں کے نشان تلاش کرسکوں یا س کے متعلق گردوپیش کے دیہات کے لوگوں سے کچھ اطلاعات لے سکوں کیونکہ چیتا رات کو اس مسافر پر حملہ کرکے اس سمت گیا تھا۔ جب میں دوپہر کو کھانے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس میں آیا تو میں نے ایک شخص کو اپنے ایک ملازم سے باتیں کرتے دیکھا۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ اس کا نام بالا سنگھ ہے۔ رات کو اسے پجاری سے پتا چلا تھا کہ میں شکار کھیلنا چاہتا ہوں اور وہ مجھے چند بارہ سینگوں کا اتا پتا دینے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کھانے کے بعد میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔کھانے کے بعد حسب وعدہ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ میرے پاس بالکل نئی بندوق تھی جو کچھ عرصے پہلے میں نے کلکتہ سے اپنے ایک اسلحہ فروش دوست کی دوکان سے خریدی تھی۔ وہ بندوق مارکیٹ میں بالکل نئی تھی اور لوگ اس کے نام سے پہلے واقف نہ ہونے کی بنا پر اسے خریدنے سےگریز کرتے تھے۔میں نے بھی وہ بندوق اس شرط پر خریدی تھی کہ اگر وہ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کرسکی تو میں اسے واپس کر جاؤں گا۔
دیبی دھورا کے جنوب کی سمت کی پہاڑیوں کی ڈھلوان شمال کی پہاڑیوں کی ڈھلوان کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ہم دیودار کے درختوں میں سے گزرتے ہوئے شمال کی سمت ہی جارہے تھے۔ وادی کی مشرق کی سمت ، گھاس کے ایک قطعے کی طرف جو گنجان جنگل سے گھرا ہوا تھا اشارہ کرتے ہوئے اس شخص نے کہا کہ بارہ سینگے یہیں گھاس چرنے آتے ہیں۔اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسوادی کی دائیں طرف ایک پگڈنڈی ہے جودیبی دھورا اور اس کے گاؤں کو آپس میں ملاتی ہے۔ اور اس پگڈنڈی سے اس نے بارہ سینگوںکو اس گھاس کے قطعے میں گھومتے پھرتے دیکھاتھا۔میری رائفل پانچ سو گز تک مار کر سکتی تھی۔چونکہ اس پگڈنڈی اور گھاس کے قطعے کادرمیانی فاصلہ بمشکل تین سو گز تھا۔ لہذا میںنے وہیں بیٹھ کر شکار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
جب ہم وہاں بیٹھے باتیں کررہے تھے تو میں نے سامنے قدرے بائیں طرف چند گِدھ آسمان پہ منڈلاتے دیکھے۔ میں نے اپنے ساتھی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ جس پر اس نے کہا کہ گھاس کے قطعے کی دوسری طرف ایک گاؤں ہے۔ ممکن ہے وہاں کوئی مویشی مرگیا ہو اور گِدھ اس کی لاش کو ہضم کرنے کی فکر میں ہوں۔ اس کی اس تشریح سے میری تسلّی نہ ہوئی اور ہم دونوں اس گاؤں کی سمت چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ گاؤں فقط ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی سے پرے کچھ فاصلے پر ایک بیل مرا پڑا تھا اور گِدھ اس کا گوشت نوچ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ایک شخص جھونپڑی سے باہر نکلا۔ ہمارا پُرتپاک خیر مقدم کرنے کے بعد اس نے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور چیتے کا شکار کرنے آیا ہوں تو اس نے بڑے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ کاش اسے کل میری آمد کا پتہ چل جاتا "تب آپ اس شیر کا شکار کرسکتے تھے جس نے میرا بیل ہلاک کیا ہے۔" اس نے مجھے بتایا کہ اس کے پندرہ مویشی کھیت میں بندھے ہوئے تھے۔ رات کو شیر آیا اور اس کا ایک بیل ہلاک کرگیا ۔ اس کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔ لہذا وہ بے چارگی کے عالم میں بیل کو شیر کی نذر ہوتا دیکھتا رہا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے یہ معلوم تھا کہ دیبی دھورا کے علاقے میں شیر رہتا ہے تو پھر اس نے اپنے مویشی کھُلے کھیت میں کیوں باندھے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس سے پیشتر شیر نے کبھی کسی پالتو مویشی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
جب میں وہاں سے جانے لگا تو اس شخص نے پوچھا کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ بارہ سینگوں کا شکار کرنے۔ اس پر وہ ملتجی لہجے میں کہنے لگا کہ اس وقت میں بارہ سینگوں کا خیال ترک کرکے شیر کا شکار کروں، "آپ جانتے ہیں کہ میری ملکیت بہت چھوٹی سی ہے۔ اگر شیر اسی طرح میرے بیلوں بھینسوں کو ہلاک کرتا رہا تو میں اور میرے بال بچے بھوکوں مرجائیں گے۔"
گِدھ مُردہ بیل ختم کرچکے تھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیونکہ گزشتہ رات شیر کو اپنے شکار کی خاطر کسی قسم کی دقّت نہ اٹھانی پڑی تھی۔ اس بنا پر میرا خیال تھا کہ وہ آج رات کو بھی آئے تھے۔ میرا ساتھی بھی اب بارہ سینگوں کے بجائے شیر کے شکار کو ترجیع دینے لگا تھا۔ میں ان آدمیوں کو وہیں چھوڑ کر یہ معلوم کرنے کی خاطر چل پڑا کہ شیر کس سمت گیا تھا۔ چونکہ گاؤں کے آس پاس کوئی درخت نہ تھا جس پر میں اپنی مچان تیار کرسکتا تھا۔ لہذا میں چاہتا تھا کہ شیر کو اُس کی واپسی پر راستے میں ہی جا ملوں۔وہاں کی زمین بڑی سخت تھی جس پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی نہ دیتے تھے۔ دو دفعہ گاؤں کے چکر کاٹنے کے بعد میں پاس ہی بہنے والی برساتی ندی کی سمت چل پڑا۔ وہاں ہموار و نمدار زمین پر ایک بڑے شیر کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ ان نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ شیر اپنا شکار کھانے کے بعد ندی کی بالائی سمت گیا تھا اور یہ فرض کرلینا بےجا نہ تھا کہ وہ اسی سمت سے واپس آئے گا۔ جھونپڑی وہاں سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر تھی۔ ندی کے جس کنارے پر میں نے شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ وہیں ایک دیودار کا درخت تھا جس پر جنگلی گلاب کی ایک بیل چڑھی ہوئی تھی۔ درخت کی ایک موٹی سی شاخ ندی پر جھکی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اس کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دو شاخوں کے درمیان بڑے آرام سے بیٹھا جاسکتا ہے۔
جھونپڑی میں واپس آکر میں نے ان دونوں دیہاتیوں کو بتایا کہ میں اپنی بھاری رائفل لینے کی خاطر ریسٹ ہاؤس جارہا ہوں۔ لیکن میرے راہبر نے بڑی زندہ دِلی سے کہا کہ میں یہ تکلیف نہ کروں، وہ خود ہی میری رائفل لے آئے گا۔ اسے ضروری ہدایات دینے کے بعد میں اس دیہاتی کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی باتیں سننے لگا کہ اسے کس طرح اپنے سر پر گھاس پھوس کی چھت کا سایہ قائم رکھنے کے لیے فطرت اور جنگلی جانورو ں سے نبرد آزمائی کرنی پڑتی ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلا جاتا تو اس نے بڑی سادگی ے کہا، "یہی تو میرا گھر ہے"۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں نے جھونپڑی ی سمت دو آدمی آتے دیکھے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی بندوق نہ تھی۔ان میں سے ایک بالا سنگھ تھا۔ جس نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ بالا سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ میری بھاری رائفل نہ لا سکا تھا کیونکہ اس کے کارتوس سُوٹ کیس میں بند تھے اور میں اس سُوٹ کیس کی چابی بھیجنا بھول گیا تھا۔ لہذا اب شیر کو نئی رائفل ہی سے شکار کیا جاسکتا تھا۔
درخت پر چڑھنے سے پہلے میں نے کسان سے کہا کہ میری کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو خاموش رکھے اور بیوی کو اس وقت تک چولہا نہ جلانے دے جب تک میں شیر شکار نہ کرلوں یا جب تک یہ فیصلہ نہ کرلوں کہ شیر نہیں آرہا۔ بالا سنگھ کو میں نے یہ ہدایت دیں کہ وہ جھونپڑی کے مکینوں کو خاموش رکھے اور جب میں سیٹی بجاؤں تو لالٹین روشن کردے۔ اس کے بعد میری مزید ہدایات کا منتظر رہے۔
جب سورج کا آخری شعلہ بھی پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو اس کے ساتھ ہی وادی میں چہچہانے والے ہزاروں پرندوں کی آوازیں تھم گئیں۔ شفق گہری ہونے کے ساتھ ہی پہاڑی کے اوپر ایک اُلّو بولنے لگا۔ چاند طلوع ہونے سے پہلے نیم تاریکی کا ایک چھوٹا سا وقفہ آیا۔ یہ وقفہ آتے ہی جھونپڑی کے مکین مُردوں کی طرح خاموش ہوگئے۔ میں نے مضبوطی سے اپنی رائفل پکڑ رکھی تھی اور اندھیرے میں دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زور دے رہا تھا کہ شیر میرے درخت کے نیچے سے گزرنے کے بجائے پرے سے گزر کر اپنے گزشتہ شب والے شکار کے پاس گیا۔اور وہاں فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر غصے میں آگیا۔ وہ مدھم آواز میں گِدھوں کو برا بھلا کہنے لگا جو اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرگئے تھے۔ وہ تین چار منٹ تک بڑبڑاتا رہا اور پھر اس کے بعد خاموشی چھاگئی۔ چاندنی لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی۔ چند منٹ بعد چاند سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا تھا۔ بیل کی ہڈیاں چاندنی میں سفید سفید چمک رہی تھیں۔ مگر شیر کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا۔ شدّتِ احساس سے میرے ہونٹ خشک ہوگئے تھے۔ میں نے ان پر زبان پھیر کر انہیں نمدار کیا اور پھر آہستہ سے سیٹی بجائی۔ بالا سنگھ پہلے ہی چوکنا بیٹھا تھا۔ اس نے فوراً لالٹین روشن کردی اور جھونپڑی کا دروازہ کھول کر باہر کھڑا ہوکر اگلے حکم کا انتظار کرنے لگا۔ جب سے میں اس درخت پر بیٹھا تھا اس سیٹی کے سوا میں نے کوئی آواز نہ نکالی تھی اور اب جو میں نے نیچے دیکھا تو شیر شفاف چاندنی میں درخت کے نیچے کھڑا تھا اور اپنے داہنے کندھے پر سے بالا سنگھ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میری بندوق کی نالی اور شیر کے سر کے درمیان پانچ فٹ سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب شیر میری مُٹھّی میں ہے اور میری ایک ہی گولی اسے ٹھنڈا کردے گی۔ میں نے بڑے اعتماد سے نشست باندھی اور رائفل کی لبلبی دبادی۔ لبلبی میری انگلی کے دباؤ تلے دبتی چلی گئی اور کچھ بھی نہ ہوا۔
خدایا! میں کس قدر غیر محتاط واقع ہوا تھا۔ درخت پر بیٹھنے سے پہلے میں نے رائفل میں پانچ کارتوس بھرے تھے۔ کارتوسوں کو باہر نکال کر اس کا معائنہ کرنے کی غرض سے میں نے رائفل کھولی تو کارتوس اپنی جگہ بالکل فِٹ تھے۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ گھوڑا دبانے پر اس نے چلنے سے انکار کردیا تھا؟ اس کی وجہ مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی۔ اگر بندوق پرانی ہوتی تو میں اپنی غلطی کو فورا درست کرلیتا۔ بندوق کو دوبارہ راست کرکے میں نے ابھی اُس کا گھوڑا بھی نہ دبایا تھا کہ وہ خودبخود چل گئی۔ ایک زور دار دھماکا ہوا اور شیر ایک ہی چھلانگ لگا کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میں نے جلدی سے بالا سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بھاگ کر جھونپڑی کے دروازے کے اندر داخل ہورہا تھا۔
اب درخت پر بیٹھنا فضول تھا۔ میں نے بالا سنگھ کو آواز دی تاکہ وہ درخت سے اترنے میں میری مدد کرسکے۔ جھونپڑی میں آکر میں نے جو رائفل کا بغور معائنہ کیا تو جس دکان سے میں نے اسے خریدا تھا اس دکاندار کی مجھے ایک نصیحت یاد آ گئی جو اس رائفل کے متعلق اس نے مجھے کی تھی۔ وہ دُہرے سسٹم والی رائفل تھی اور جب تک اس کے دونوں تالے نہ کھولے جائیں وہ چل نہ سکتی تھی۔ یہ نقطہ میرے ذہن سے بالکل نکل گیا تھا اور جب میں نے اپنی ناکامی کی وجہ بالا سنگھ کو بتائی تو وہ خود کو ملامت کرنے لگا۔ "اگر آپ کی بھاری رائفل اور سُوٹ کیس دونوں یہاں اٹھا لاتا تو ہرگز ایسا نہ ہوتا۔" اس وقت میں اُس سے متفق ہوگیا۔ لیکن بعد میں جب دن گزرتے گئے تو مجھے یقین ہوگیا کہ اگر اُس شام میرے پاس بھاری رائفل بھی ہوتی تو شاید پھر بھی میں اُس شیر کو شکار نہ کر پاتا۔
اگلی صبح میں شیر کے متعلق کوئی نئی خبر حاصل کرنے کی خاطر بڑی دیر تک نواحی علاقوں میں پھرتا رہا۔ اور جب ریسٹ ہاؤس میں آیا تو ایک شخص بڑی بےتابی سے میرا انتظار کررہا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ شیر نے ابھی ابھی اُس کی ایک گائے ہلاک کردی ہے۔ اُس گائے نے نیا نیا بچھڑا جنا تھا اور اب دودھ نہ ملنے کی صورت میں بچھڑے کی موت کا بھی خطرہ تھا کیونکہ اس وقت اس کی اور کوئی گائے بھی دودھ نہ دے رہی تھی۔
گزشتہ شب شیر کو اس کی خوش قسمتی نے بچا لیا تھا۔ لیکن آخر کب تک قسمت اس کا ساتھ دی گی۔ ان سب شکاروں کا حساب اسے اپنی موت کی صورت میں دینا ہوگا۔ اِس پہاڑی علاقے میں مویشی پہلے ہی کم تھے اور ایک مویشی کا ہلاک ہو جانا بڑا سنجیدہ مسلہ تھا۔ اُس شخص کو اپنے دوسرے مویشیوں کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ کیونکہ وہ بھاگ کر اُس کے گاؤں پہنچ چکے تھے۔ لہذا اُس نے مجھے کہا کہ میں بڑے آرام سے کھانا کھاؤں۔ دوپہر کے ایک بجے کھانے سے فارغ ہوکر میں اُس شخص کے ساتھ ہولیا۔ میرے دو آدمی مچان کا سامان اٹھائے ہمارے پیچھے چل رہے تھے۔
ہمارا قریبی راستہ پہاڑی کی چوٹی پر سے گزرتا تھا لیکن میں شیر کے کام میں مُخل نہ ہونا چاہتا تھا۔ لہذا ہم نے پہاڑی کے گِرد چکر کاٹ کر اُس جگہ پہنچنے کا فیصلہ کیا جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی۔ راہ میں نمدار زمین پر بھگوڑے مویشیوں کے کھُروں کے گہرے نشان موجود تھے۔ ان پر چلتے ہوئے ہم جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ وہاں خون کا ایک تالاب تھا۔ اس کے اندر سے گائے کو گھسیٹنے کی کشادہ لکیر موجود تھی۔ یہ لکیر کوئی دو سو گز تک جاکر ایک ندی کے کنارے ختم ہوگئی تھی۔ وہاں گھنے درخت تھے۔ ندی میں پاؤں پاؤں پانی تھا۔ شیر اپنا شکار لے کر ندی کے کنارے انہی گھنے درختوں میں کہیں چھپا تھا۔
گائے صبح کے کوئی دس بجے کے قریب ہلاک کی گئی تھی۔ شیر کی اوّلین خواہش یہی ہوگی کہ اپنے شکار کو کسی ایسی جگہ چھپادے جہاں اس کو کوئی نہ دیکھ سکے۔ لہذا وہ اپنا شکار درختوں کے جھنڈ میں چھپاکر ندی میں سے گزر کر وادی میں اتر گیا تھا۔ جیسا کہ اس کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوتا تھا۔ ایک ایسا علاقہ جہاں انسان اور مویشی عام چلتے پھرتے ہوں وہاں اس قِسم کا اندازہ کرنا کہ شیر کہاں لیٹا ہوگا بعید از قیاس ہے کیونکہ ہلکی سی مدافعت سے بھی وہ اپنی جگہ بدل لیتا ہے۔ اگرچہ شیر کے پنجوں کے نشان وادی میں اتر گئے تھے لیکن میں اور میرے آدمیوں نے بڑی احتیاط سے ندی کے کنارے تک چل کر رک جانا مناسب سمجھا۔
یہ ندی کوئی دو سو گز شمال سے ایک ایسے تالاب سے شروع ہوتی تھی جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا رہتا تھا۔ یہاں کوئی پندرہ فٹ لمبا ایک گڑھا تھاجس کے دہانے پر گھاس وغیرہ اگی ہوئی تھی۔ ہمارا پہلا اندازہ غلط نکلا۔ شیر نے ندی کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں اپنا شکار چھپانے کے بجائے مؤخرالذکر گڑھے میں چھپا رکھا تھا۔ اپنی گائے کو اپنے سامنے مردہ دیکھ کر اس دیہاتی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرے پاس ہمدردی کے چند الفاظ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ شیر نے گائے کو ابھی تک چھوا نہ تھا۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر اسے بڑے آرام سے کھانا چاہتا تھا۔
ہمیں اب اس گڑھے کے پاس ایسی جگہ تلاش کرنی تھی جہاں آرام سے بیٹھا جاسکے۔ ندی کے دوسرے کنارے چند دیودار کے درخت تھے مگر وہ سب کے سب گڑھے سے دور تھے اور وہاں سے شیر پر ٹھیک سے گولی نہ چلائی جاسکتی تھی۔ علاوہ بریں ان پر چڑھنا مشکل تھا۔ گڑھے سے تیس گز کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا مضبوط درخت ندی کی بائیں سمت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں خاصی گھنیری تھیں۔ زمین سے صرف چھ فٹ اوپر جاکر درخت کا تنا دو شاخوں میں بٹ گیا تھا۔ جن کے درمیان میں آسانی سے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ جگہ زمین کے اتنے قریب تھی کہ میرے ساتھیوں نے میرے وہاں بیٹھنے کے خلاف احتجاج کیا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ کرنے سے پہلے میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ گزشتہ شب والی جھونپڑی میں واپس چلے جائیں اور وہاں اس وقت تک میرا انتظار کریں جب تک میں انہیں آواز نہ دوں یا ان کے پاس نہ چلا آؤں۔ وہ جھونپڑی وہاں سے زیادہ دور نہ تھی اور درختوں کی شاخوں میں سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔
میرے ساتھی شام کے چار بجے کے قریب رخصت ہوگئے۔ میں درخت کی شاخوں میں چھپ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے خاصی دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ تجربات سے مجھے معلوم تھا کہ شیر سورج غروب ہونے سے پہلے یہاں نہ آئے گا۔ میری بائیں سمت ندی کوئی پچاس گز تک دکھائی دے رہی تھی۔ جو میرے سامنے کوئی دس گز پر بہہ رہی تھی۔ یہ ندی دس گز گہری اور بیس گز چوڑی تھی۔ میرے سامنے درختوں سے خالی پہاڑی چٹانیں تھیں۔ میری دائیں طرف وہ گڑھا تھا جہاں شیر اپنا شکار چھپا گیا تھا۔ مُردہ گائے میری نظروں سے اوجھل تھی۔کیونکہ لمبی لمبی گھاس نے اسے ڈھانپ رکھا تھا۔ میری پشت پر لمبی لمبی گہری جنگلی گھاس تھی، جو میرے درخت تک آئی ہوئی تھی اور اسی گھاس نے گائے کو بھی چھپا رکھا تھا۔ شیر اپنا شکار یہاں چھپانے کے بعد ندی میں سے گزر کر وادی کی دوسری سمت چلا گیا تھا اور اس کی واپسی کا امکان بھی اسی راہ سے تھا۔ لہذا میں متواتر ندی کی سمت دیکھ رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جونہی شیر ندی کے اس کنارے نمودار ہو اس پر فوراً گولی چلادوں۔
میرے گردوپیش کئی قسم کے جانور اور پرندے تھے جو مجھے شیر کی آمد سے مطلع کرسکتے تھے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ پرندوں اور جانوروں کی تنبیہی آواز سنے بغیر میں نے اچانک شیر کو اپنے شکار کے قریب غراتے ہوئے دیکھا۔ وہ میرے قریب سے گزرنے کے بجائے دوسری سمت سے وہاں پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس سے مجھے کوئی تردّد نہ ہوا۔ میں تجربے سے جانتاتھا کہ شیر دن کے وقت اپنے شکار کے قریب جم کر کھڑا نہیں رہتا اور وہ تھوڑی دیر بعد ضرور کھلے میدان میں میرے سامنے آئے گا۔ اب وہ اپنا شکار کھا رہا تھا۔ ہڈیاں ٹُوٹنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پندرہ منٹ گزر گئے۔ اچانک مجھے اپنی بائیں سمت سے ایک کالا ریچھ آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت بڑا ریچھ تھا۔ اچانک وہ رک گیا۔ اور اپنی تھوتھنی ہوا میں بلند کرکے زور زور سے سونگھنے لگا۔ اس نے گوشت اور شیر کی بو سونگھ لی تھی۔ میں شکار کے دائیں سمت تھا۔ چونکہ ہوا شمال سے جنوب کو چل رہی تھی اسلیئے ریچھ میری بُو نہ سونگھ سکا۔ تب اچانک وہ زمین پر لیٹ گیا اور چند لمحوں کے بعد بڑی احتیاط سے آہستہ آہستہ شیر کی سمت بڑھنے لگا۔ وہ ایک سائے کی طرح حرکت کررہا تھا۔ جوں جوں وہ گڑھے کے قریب آرہا تھا، زیادہ محتاط ہوتا جارہا تھا۔ جب وہ گڑھے سے چند ہی قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو پیٹ کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر وہ رینگتا ہوا گڑھے کے کنارے پر پہنچ گیا اور اپنا سر اٹھاکر اس کے اندر جھانکنے لگا۔ شیر بڑے مزے سے اپنا شکار کھانے میں مصروف تھا۔ اب کیا ہوگا؟ شدّتِ احساس سے میرا جسم ایک تنے ہوئے رسّے کی طرح تھرّارہا تھا اور میرے ہونٹ اور حلق سوکھ گئے تھے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ریچھ اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ جنگل کے بادشاہ کے شکار میں مُخل ہو۔ لیکن ریچھ کی حرکات میری سوچ کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئیں تھیں۔ چند لمحے ریچھ اسی طرح گڑھے کے اندر جھانکتا رہا۔ پھر اچانک وہ ایک زبردست چیخ مارکر گڑھے کے اندر کود گیا۔ اس چیخ کا مقصد میرے خیال میں شیر کو ہراساں کرنا تھا۔ لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ شیر ایک دم مشتعل ہوگیا کیونکہ ریچھ کی چیخ کے جواب میں مجھے ایک تیز گرج سنائی دی۔
میں نے جنگلی درندوں کی نبرد آزمائی بہت کم دیکھی ہے۔ یہ شاید میرا دوسرا تجربہ تھا۔ گڑھے کے اندر شیر اور ریچھ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہورہے تھے اور ان کی تیز خوفناک آوازیں آس پاس گونج رہی تھیں۔ مقابلہ زبردست تھا۔ وقت ایک دم سانس روک کر کھڑا ہوگیا۔ شدت احساس سے میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ یہ جنگ کوئی تین یا چار منٹ جاری رہی ہوگی۔ بحرحال جب شیر نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دشمن کو خاصا نقصان پہنچا چکا ہے تو چھلانگ لگا کر گڑھے سے باہر نکل آیا اور میرے سامنے سے تیزی سے بھاگتا ہوا نکل گیا۔ اس کے پیچھے چیختا چلّاتا ہوا ریچھ تھا۔ شیر ابھی میرے سامنے سے گزرا ہی تھا کہ میں نے بندوق اٹھا کر نشانہ باندھا اور گولی چلادی۔ گولی کی آواز پر شیر غصے سے گرجا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔ چند لمحے وہ گھاس میں چلتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال تھا کہ گولی اس کے دل میں لگی تھی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا تھا۔
اس قسم کے پہاڑی علاقے میں بندوق کی گولی کی آواز توپ کے گولے کی گرج سے کم نہیں ہوتی۔ مگر اس گرج کا پاگل ریچھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ شیر کے تعاقب میں اندھا دھند میری طرف بھاگا چلا آرہا تھا۔ میں ایک ایسے جانور کو ہلاک نہ کرنا چاہتا تھا جس میں اتنے عظیم دشمن کو بھگا دینے کی جرات تھی۔ لیکن اس کی میرے قریب تر آتی ہوئی منحوس چیخ میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ جب وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو میں نے بندوق کی بائیں نالی کی گولی اس کے ماتھے میں پیوست کردی۔ وہ پیٹ کے بل آہستہ سے زمین پر لیٹ گیا اور پھر نہ اٹھ سکا۔
جہاں ایک لمحہ پہلے دو خوفناک درندوں کی ہیبت ناک آوازوں سے جنگل گونج رہا تھا اب سارے میں مکمل خاموشی طاری ہوگئی تھی۔ میرا دل اپنی اصلی حالت پہ آیا تو میں پائپ سلگا کر اپنے اعصاب کو بحال کرنے لگا۔ ابھی میں نے بندوق کو اپنی گود میں رکھ کر پائپ کے ایک دو کش لگائے ہی تھے کہ اپنے سامنے کچھ فاصلے پر مجھے شیر بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ میری طرف نہیں اپنے مردہ دشمن کی طرف دیکھ رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ یہ واقعات پڑھ کر ایک اچھا شکاری بلاشبہ مجھ پر ایک اناڑی شکاری ہونے کا الزام لگادے گا۔ میرے پاس دفاع کی کوئی صورت نہیں لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی طرف سے میں پوری طرح ہوشیار تھا۔ جب میں نے شیر کی پشت پر گولی چلائی تھی تو مجھے یقین تھا کہ میں اسے ایک مہلک ضرب لگا رہا ہوں اور گولی چلانے کے بعد میں نے شیر کی جو چیخ سنی تھی اس سے مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں نے اسے ڈھیر کرلیا ہے۔ میری دوسری گولی سے ریچھ چت ہوگیا تھا۔ لہذا اب میں بندوق کو دوبارہ بھرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا تھا اور اسے اپنی گود میں رکھے ہوئے تھا۔
شیر کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر میں کوئی دو سیکنڈ حیرت میں غلطاں رہا۔ اس کے بعد میں نے جلدی سے رائفل میں کارتوس بھرے۔ اب شیر مجھ سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر تھا اور اس کی رفتار بھی مدھم ہوگئی تھی۔ وہ سامنے والی پہاڑی پر اسی ڈگری کا زاویہ بنائے ہوئے تھا۔ میں نے بندوق اٹھائی اور نشانہ باندھ کر داغ دی۔ شیر لڑکھڑاتا ہوا اپنے پچھلے قدموں پر گرا مگر پھر جلدی سے سنبھل کر پہاڑی کی دوسری سمت کود گیا۔ گولی شیر کے منہ سے کوئی پانچ انچ نیچے چٹان پر لگی تھی جس کے باعث شیر گھبرا کر پیچھے گر پڑا تھا مگر اب کے پھر صاف بچ کر نکل گیا تھا۔