منتظری کی تدفین کے بعد’جھڑپیں

ایرانی حزبِ اختلاف کی حمایت کرنے والی ویب سائٹس کے مطابق قم میں آیت اللہ منتظری کی تدفین کے موقع پر اصلاح پسندوں اور پولیس میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق جھڑپوں کی اطلاعات مل رہی ہیں تاہم تاحال یہ واضح نہیں یہ کس پیمانے پر ہوئی ہیں۔

خیال رہے کہ دسیوں ہزاروں ایرانی قم میں اہلِ تشیع کے اہم عالم اور ایرانی حکومت کے نقاد آیت اللہ العظمٰی حسین علی منتظری کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

آیت اللہ منتظری کی عمر ستاسی برس تھی اور ان کا انتقال سنیچر کی شب ہوا تھا۔ وہ انقلابِ ایران کے اہم ترین رہنماؤں میں سے تھے اور اب ان کا شمار ایران کے موجودہ صدر کے بڑے نقادوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے جون میں ایرانی صدارتی انتخاب کے بعد صدر احمدی نژاد کی مذمت میں فتوٰی بھی دیا تھا۔

ایرانی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بڑی تعداد میں آیت اللہ منتظری کے جنازے میں شرکت کریں جبکہ ایرانی حکومت نے قم میں ہجوم سے نمٹنے میں مہارت رکھنے والی پولیس تعینات کر دی ہے۔ حزبِ اختلاف نے پیر کو قومی یومِ سوگ قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اصلاح پسند گروہوں کی ایک ویب سائٹس کے مطابق جنازے کے موقع پر قم شہر میں سکیورٹی انتظامات سخت رہے تاہم جنازے کے شرکاء آیت اللہ منتظری اور اپوزیشن رہنما حسین موسوی کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔ ویب سائٹس کے مطابق جنازے میں شریک متعدد افراد نے سبز رنگ کے بینر اٹھا رکھے تھے۔ خیال رہے کہ سبز ایرانی حزبِ اختلاف کا رنگ ہے۔

اس سے قبل انہیں ویب سائٹس پر اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی اور سابق سپیکر مہدی کروبی کے بیانات شائع ہوئے تھے جن میں عوام سے بڑی تعداد میں جنازے میں شرکت کے لیے کہا گیا تھا۔ قم میں آیت اللہ منتظری کے جنازے میں ایرانی حزبِ اختلاف کے رہنما میر حسین موسوی اور سابق سپیکر اسمبلی مہدی کروبی خود بھی شریک ہوئے۔

بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ آیت اللہ منتظری کا جنازہ ایک ایسا جلوس تھا کہ جس پر ایرانی حکومت پابندی عائد نہیں کر سکتی تھی تاہم اسے یہ خدشہ بھی ہے کہ جنازے کا جلوس کہیں ملک میں حزبِ اختلاف کی جانب سے مظاہروں کے نئے سلسلے کا نقطۂ آغاز نہ بن جائے۔

جان لین کے مطابق پولیس نے قم کی جانب سفر کرنے والے سوگواروں سے بھری بسیں روکی ہیں اور کچھ گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ حکومت نے جنازے کی کوریج کے حوالے سے مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر نئی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔

ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں آیت اللہ منتظری کو بہترین منصف قرار دیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اللہ آیت اللہ منتظری کو اہم امتحان میں ناکامی پر معاف کردے گا۔ علی خامنہ ای کا یہ بیان اس تنازعہ کی جانب اشارہ تھا جب سنہ 1989 میں آیت اللہ منتظری اور آیت اللہ خمینی کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے۔

آیت اللہ منتظری کو ایک زمانے میں امام خمینی کا جانشین مقرر کیا گیا تھا کہ لیکن سنہ 1989 میں آیت اللہ خمینی کے انتقال سے کچھ ماہ قبل ایران میں حقوقِ انسانی کی صورتحال پر دونوں علماء میں تنازعے کے بعد ان سے یہ استحقاق واپس لے لیا گیا تھا۔بعد ازاں سنہ 1997 میں آیت اللہ منتظری نے امام خمینی کے جانشین آیت اللہ علی خامنہ ای کے اختیارات پر سوال اٹھایا تھا جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کا مدرسہ بند کر دیا گیا تھا بلکہ انہیں چھ برس نظر بندی میں گزرانے پڑے تھے۔

بی بی سی اردو
 
Top