معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔کمالِ بشریت

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کا ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقل ناتواں آج بھی حیران اور ششدر ہے۔ عقل یہ ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ کیسے پیکرِ انسانی کائنات کی لا محدود وسعتوں کو چیرتا ہوا لا مکاں کی رفعتوں تک پہنچ گیا لیکن ،
؎عشق کی اکِ جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
سفر معراج چار مراحل پر مشتمل ہے۔
1-پہلا مرحلہ
یہ مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی تمام تفصیلات ، بارگاہِ نبوی میں حاضری جبریل کے آداب وغیرہ مندرج ہیں۔
2- دوسرا مرحلہ
سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر آسمانوں پر اولی العظم انبیاء سے ملاقاتوں تک ہے۔
3۔ تیسرا مرحلہ
تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ تک کا سفر ہے۔
4- چوتھا مرحلہ
سفر معراج کا چوتھا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی قرابتوں تک کا ہے۔ اس سے آگے کی ملاقات کے احوال مخفی رکھے گئے ہیں سورہ نجم میں سفر معراج کے حوالے سے آیات کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
بے شک اس مقام پر فقط اللہ ہی تھا جو پیار بھرے انداز میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکھڑا تکنے والا تھا اور جو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میٹھی میٹھی زبان سے اس کی عرضداشت سننے والا تھا۔
تمام انبیاء کو معجزات عطا فرمائے گئے لیکن نبی آخر الزماں کو اتنے معجزات عطا فرمائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر مبارک کو بھی معجزہ بنا دیا گیا اور ایسا معجزہ کہ آج تک عقل انسانی اس معجزہ کے پہلے مرحلہ تک بھی پہنچنے سے قاصر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج تو اپنی جگہ مقدم اس سے بھی کمال یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیدار الہی سے مستفید ہوے جس کی تڑپ میں عرصہ دراز تک حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طور پہ اللہ سے مناجات کرتے رہے وہ دیدار نبی کریم کو خدا نے اس وقت عطا فرما دیا جب آپ محو استراحت تھےاورحضرت جبرائیلؑ نے کافوری ہونٹوں سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تلیوں کو بوسہ دے کر جگایا۔ حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ نے جو دیدار کروایا وہ صرف انوارِ صفاتِ خداوندی کی ایک تجلی تھی جبکہ آقاﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کا اتنی قریب سے مشاہدہ کیا کہ قاب قوسین یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔

عارف الراعی فرماتے ہیں :
و إن قابلتْ لفظة لَنْ تَرَانِيْ
بما کَذَبَ الْفُؤَادُ فهمّت معنی
فموسٰی خرّ مغشياً عليه
و أحمد لم يکن ليزيغ ذهناً

ترجمہ :۔ ’’اگر تو لَن تَرَانِي اور مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى کا آپس میں مقابلہ کرے تو تیری سمجھ میں آ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ موسیٰ بے ہوش گئے جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمِ اقدس بھی دنگ نہ ہوئی‘‘ ۔

(الصاوی علی الجلالين، 4 : 137)
 
Top