مسعود اظہر کی کتاب “جہاد ایک محکم ۔۔۔“

قسیم حیدر

محفلین
جہاد ایک قطعی اور محکم فریضہ1

جہاد ایک محکم اور قطعی فریضہ



از قلم


محمد مسعود ازھر






بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن مجید کی آیاتِ جہاد
چند دن پہلے بعض اکابر علماء کرام کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ وہاں مرادان کے دور تفسیر کا ذکر چھڑ گیا۔ بندہ نے بتایا کہ یکم محرم الحرام ۱۴۲۴ ھ سے ۵ محرم تک "دورہ تفسیر آیات الجہاد" کے عنوان سے یہ دورہ منعقد ہوا تھا۔ الحمد للہ کئی ہزار افراد نے اس میں پورے ذوق و شوق سے شرکت فرمائی۔ دورہ کے اختتام پر آٹھ سو سے زائد طلبہ کو سند بھی جاری کی گئی۔ اس پانچ روزہ دورہ تفسیر میں اللہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم اور اس کے بے پایاں رحمت کے طفیل قرآن مجید کی چار سو چوراسی مدنی آیاتِ جہاد کا مکمل بیان ہوا۔ اور اگر سورۃ نحل کی آیت ۱۱۰ کو بھی اکثر مفسرین کے قول کے مطابق مدنی مان لیا جائے توقرآن پاک کی کل آیات جہاد و قتال چار سو پچاسی ۴۸۵ہو جاتی ہیں۔ مجلس میں موجود ایک عالم دین نے مشورہ عنایت فرمایا کہ اس دورے کا عنوان "آیات الجہاد" کی بجائے قرآن پاک کی کسی سورت کے نام پر رکھا جائے۔پھر اس سورۃ کے ضمن میں جملہ آیاتِ جہاد کو بیان کر دیا جائے۔فقیہ العصر، یادگار اسلاف حضرت مولانا عبدالستار زیدمجدھم نے یہ مشورہ سن کر ارشاد فرمایا کہ چونکہ آج کل زور و شور سے آیات جہاد کے خلاف مہم چل رہی ہے اس لیے "آیات الجہاد" کا عنوان ہی زیادہ مفید اور بہتر ہے۔ حضرت اقدس دامت برکاتہم کی تحسین و تصدیق سے دل کو بہت سکون نصیب ہوا۔
فجزاہ اللہ احسن الجزاء فی الدارین
اسی مجلس میں یہ تقاضا بھی سامنے آیا کہ ان آیات کی فہرست فورًا شائع کر دی جائےتاکہ علماء کرام اور عوام سب کی توجہ ادھر ہو جائے۔چونکہ بہت تیزی کے ساتھ یہود و نصارٰی او ر منافقین نے جہاد کے خلاف کام شروع کر دیا ہے اور مسلمان ان کے منفی الزامات سے متاثر ہو سکتے ہیں اس لئے جہاد کو قرآن پاک کے ذریعے اجاگر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کا عقیدہ جہاد کے بارے میں عقیدہ اور نظریہ پختہ ہو جائے۔اور انہیں کامل یقین ہو جائے کہ جہاد و قتال اللہ تعالی کا حکم ہے اور یہ حکم قرآن پاک کی سینکڑوں آیات میں موجود ہے۔اس مبارک مجلس سے پہلے بندہ کا ارادہ تھا کہ ان آیات جہاد و قتالکی مختصر تشریح لکھ کرتعلیم الجہاد جلد دوم کے طور پر انہیں شائع کیا جائے۔مگر بے ہنگم مشاغل کی کثرت اس کام کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو رہا ہے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس مبارک کام کی تکمیل کے لئے دعا فرما دیں۔ بندہ کی کئی کتابیں ابھی تشنہ تکمیل ہیں۔ تین کتابیں صرف نظر ثانی کے انتظار میں رکھی ہوئی ہیں جبکہ بعض کتابوں کا مواد ذہن میں بھرا ہوا ہے۔ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ عافیت کے ساتھ وہ تمام کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق مرحمت فرما دے جو امت مسلمہ کے لئے مفید اور میری آخرت کے لئےنفع مند ہوں۔
آیاتِ جہاد کی تکمیل کا کام معلوم نہیں کب مکمل ہو گا۔اس مجلس کے بعد یہ ارادہ ہوا کہ اس کالم میں آیاتِ جہاد کی فہرست و دیگر مختصر و ضروری چیزیں شائع کر دی جائیں تاکہ ایک امانت مسلمانوں تک پہنچ جائے اور انہیں پورے شرح صدر کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ جہاد و قتال کس قدر اہم اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ کی تالیف "تعلیم الجہاد" پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ اس کتاب کے چوتھے حصے میں بندہ نے قرآن پاک کی چار سو گیارہ آیاتِ جہاد کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ ترجمے کے ساتھ کہیں کہیں مختصر تشریح بھی عرض کی گئی ہے۔ چار سو گیارہ آیات کا یہ مجموعہ ۱۹۹۶ تہاڑ جیل دہلی میں مرتب کیا گیا تھا۔ وہاں بندہ کے پاس تفاسیرموجود نہیں تھیں اس لئے ظاہری طور پر جن آیات کا جہاد و قتال سے تعلق واضح نظر آیا انہیں اس مجموعہ میں شامل کر لیا گیا۔ پھر نظر ثانی کے بعد ان آیات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ تعداد چارسو سولہ تک جا پہنچی۔ حالیہ نظر بندی کے بعد جب اللہ تعالی نے مکمل آیاتِ جہاد کا دورہ تفسیر پڑھانے کی توفیق مرحمت فرمائی تو الحمدللہ میرے پاس اکثر مشہور و معتبر تفاسیر موجود تھیں۔ ان تفاسیر کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ آیاتِ جہاد کی تعداد چار سو سولہ سے کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ اب تک چار سو چوراسی آیات کا انتخاب کیا جاچکا ہے۔ دورہ تفسیر کے دوران علماء کرام کی خدمت میں یہ بات بھی عرض کی گئی تھی کہ ۴۸۴ آیات کی یہ تعداد حتمی نہیں ہے بلکہ اگر آپ ان آیات پر غور فرمائیں جن میں منافقین کے احوال درج ہیں، یا جن میں کفار کے ساتھ عدم ولاء اور براء ۃ کا حکم ہے تو مزید کئی آیات کا تعلق فریضہ جہاد سے نکل سکتا ہے۔
علماء کرام اگر اس موضوع پر محنت فرمائیں گے تو ان شاء اللہ اسلام کا یہ اہم فریضہ پوری طرح سے امت کے سامنے واضح ہو جائے گا اور سینکڑوں قرآنی آیات کی موجودگی میں کوئی بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دے سکے گا اور نہ ہی کسی مسلمان کو اس فریضے کے انکار کی جرأت ہو گی اور نہ ہی کوئی کلمہ گو اس کی مخالفت کا گناہ کرے گا۔ الحمدللہ مردان کے دورہ تفسیر کی کیسٹیں ہزاروں کی تعداد میں پھیل چکی ہیں اور دورہ پڑھنے والے کئی علماء کرام نے اطلاع دی ہےکہ وہ بھی الحمدللہ مسلمانوں کو آیاتِ جہاد کا باقاعدگی سے درس دے رہےہیں اور طلبہ کو جہادی آیات کی فہرستیں لکھوا رہے ہیں۔ ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہےکہ کئی جید علماء کرام اس دورہ کی کیسٹوں کو لکھ رہے ہیں اور وہ اس موضوع پر مستقل تصانیف کا ارادہ رکھتے ہیں۔
الحمد للہ و ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
الحمد للہ الذی بنعمتۃ تتم الصالحات
آئیے اب ایک نظر قرآن پاک کی آیاتِ جہاد پر ڈالتے ہیں۔ مدنی سورتوں میں ایک جائزے کے مطابق کل آیاتِ جہاد ۴۸۴ ہیں۔
وہ سورتیں جن میں آیاتِ جہاد موجود ہیں

البقرۃ
آل عمران
النساء
المائدۃ
الانفال
التوبۃ
الحج
النور
الاحزاب
محمد (القتال)
الفتح
الحجرات
الحدید
المجادلہ
الحشر
الممتحنۃ
الصف
التحریم
العادیات
النصر
(یعنی قرآن پاک کی بیس سورتوں میں اس فریضے کا مفصل بیان ملتا ہے)

وہ سورتیں جن میں جہا د کے متعلق اشارات ملتے ہیں

البقرۃ۔۔۔۔۔آل عمران۔۔۔۔۔۔۔المائدۃ

قرآن پا ک میں عمومی طور پر جہاد کا موضوع ان دس عنوانات کے تحت ملتا ہے۔

۱۔ اجازت و فرضیت جہاد ۲۔ احکام جہاد ۳۔ قصص جہاد ۴۔جہاد اور مجاہدین کے فضائل نیز شہداء کرام کےفضائل ۵۔ اصول و قواعدجنگ ۶۔جان و مال سے جہاد کی ترغیبات ۷۔ترکِ جہاد پر وعیدیں ۸۔منافقین کی جہاد سے پہلو تہی ۹۔جہاد کی تیاری ۱۰۔جہاد میں مال خرچ کرنے کے الگ فضائل

وہ غزوات و سرایاجن کا تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے۔

۱۔ سریہ ابن جحش رضی اللہ عنہ ۲۔ غزوہ بدر ۳۔غزوہ بنی قینقاع ۴۔ غزوہ احد ۵۔غزوہ حمراء الاسد ۶۔غزوہ بدر (صغرٰی) ۷۔ غزوہ خندق (احزاب) ۸۔غزوہ بنی قریظہ ۹۔غزوہ حدیبیہ ۱۰۔ فتح مکہ ۱۱۔غزوہ خیبر ۱۲۔غزوہ تبوک ۱۳۔ غزوہ حنین ۱۴۔غزوہ طائف ۱۵۔غزوہ بنی نضیر
یہ پندرہ معرکے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قتال اسلامی فریضہ اور عبادت ہے۔اور اللہ تعالی کے راستے میں لڑئی اور جنگ کرنا انبیاء علیہم السلام کا کام ہے۔ نیز یہ غزوات جہاد کے شرعی معنی کو بھی متعین کرتے ہیں۔
جہاد کی شرائط
۱۔ مسلمان ہونا ۲۔مرد ہونا ۳۔ آزاد ہونا ۴۔عاقل ہونا ۵۔ بالغ ہونا ۶۔استطاعت کا ہونا (معذور پر فرض نہیں)
(فرضِ عین ہونے کی صورت میں احکام مختلف ہیں اور جہاد چار صورتوں میں فرضِ عین ہو جاتا ہے)

جہاد کے اہداف
قرآن پاک نے جہاد کے تین اہداف بیان فرمائے ہیں۔
۱۔ اسلام کی دعوت محفوظ و غالب ہو جائے۔
۲۔ مستضعفین کی نصرت، یعنی مغلوب اور کمزور مسلمانوں کی مدد و حفاظت
۳۔رد العدوان، یعنی اس طاقت کو توڑنا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرکشی کر سکتی ہو۔

جہاد کی فرضیت کے دلائل
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں قتال کی فرضیت کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔
۱۔ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 216،251،190،244
۲۔ سورۃ التوبۃ آیت نمبر 5،29،36،38،41
۳۔سورۃ الحج آیت نمبر40
۴۔ سورۃ محمد آیت نمبر 4
اب ایک ایک سورت پر مختصرًا نظر ڈالتے ہیں۔

البقرۃ:
سورۃ البقرۃ مدنی سورت ہے۔ اس میں کل دو سو چھیاسی آیات ہیں۔ اس سورت میں آیاتِ جہاد33 ہیں۔ اس میں جہاد کے متعلق 4 اہم مباحث ہیں۔
۱۔ فرضیت جہاد
۲۔حکمتِ جہاد
۳۔اہمیت اطاعت امیر
۴۔فدائی حملہ
اس سورۃ مبارکہ میں سریۃ ابن جحش رضی اللہ عنہ، صلح حدیبیہ اورشہداء بدر کا تذکرہ ہے۔ وہ 33 آیات جن میں جہاد و قتال کا بیان ہے یہ ہیں۔109،114،153،154،155،156،157177.190.191.192.193.194.195207.216.217.218.239.243.244.245.246.247.248.249.250.251.252.261.262.273.286
نیز سورۃ البقرۃ کی درج ذیل پانچ آیات میں جہاد کی طرف اشارات موجود ہیں:

36،58،59،89،214

آل عمران:
آل عمران مدنی سورت ہے ۔ اس میں کل دو سو آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد57ہے۔ ان آیات میں جہاد کے کئی مباحث کا بیان ہے۔خصوصًا ان تین موضوعات کا مفصل بیان ملتاہے۔
۱۔ کافروں سے تعلقات کی نوعیت
۲۔شکست سہنے اور پھر سنبھلنے کا طریقہ
۳۔ رباط
اس سورۃ میں غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کاتذکرہ ملتاہے اور غزوہ احد کے ضمن میں غزوہ بدرکا تذکرہ بھی موجود ہے۔سورۃ آل عمران کی 57 آیاتِ جہاد کی فہرست یہ ہے:
12٫13٫28٫
110 تا 112،
118 تا 129
139 تا 175
195، 200
نیز سورۃ آل عمران کی درج ذیل چودہ آیات میں جہاد کی طرف اشارات ملتےہیں:
19،56،57،81،100،101،102،103،104،130،131،132،133،134

النساء:
النساء مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل ایک سو چھہتر آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں 41 آیاتِ جہاد ہیں۔ ان آیات میں جہاد کے متعلق یہ پانچ بحثیں خصوصی طور پر ملتی ہیں ۱۔ مظلوموں کے لئے قتال ۲۔مجاہدین کی قاعدین (گھر بیٹھنے والوں) پر فضیلت ۳۔ بے بسی کو مجبوری بتا کر جہاد سے رکنے والوں کا انجام ۴۔ نفاق اور ترکِ جہاد کی اہم وجہ، عزت کا شوق ۵۔کافروں کی جنگ اور یلغار روکنے کا الہی طریقہ
اس سورۃ میں غزوہ حمراء الاسد یا بدر صغرٰی کا تذکرہ موجود ہے۔ سورۃ نساء کی 41آیاتِ جہاد درج ذیل ہیں:
69 تا 84، 88 تا 91، 94 تا 104، 138تا146، 147

المائدۃ:
المائدۃ مدنی سورت ہے۔ اس میں کل ایک سو بیس آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد 20 ہے۔ ان آیات میں خصوصی طور پر دو اہم بحثیں ہیں۔
۱۔ حزب اللہ کون؟
۲۔دشمنوں کے درجات
اس سورت میں فتح مکہ کے دن کاتذکرہ ہے۔ سورۃ المائدۃ کی 20 آیات جہاد یہ ہیں:
2،3
تا 13، 20تا 26، 35، 51تا56، 82 11
نیز سورۃ المائدۃ کی درج ذیل آٹھ آیات میں جہاد کی طرف اشارات موجود ہیں
57،58،59،60،61،62،63،67

الانفال:
الانفال مدنی سورت ہے ۔ اس میں کل پچھتر آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد75 ہے۔ ان آیات میں دو اہم مسئلے بیان کیے گئےہیں۔
۱۔ اقدامی جہاد
۲۔غنیمت کی حِلّت
اس بابرکت سورت میں غزوہ بدر کا مفصل بیان ملتا ہے۔ اس سورۃ کا دوسرا نام سورۃ البدر ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں جہاد کے ۲۰ فوائد، مجاہدین کے ۲۵ اوصاف اور ۱۵ جنگی قوانین بیان کیے گئےہیں۔

20 فوائد جہاد
۱۔ انسان کو حق کا رستہ عطا ہوتاہے۔ آیت ۵
۲۔اسلام کو ایسا غلبہ عطا ہوتا ہے جس کو کافر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ آیت ۸
۳۔انسانوں کی فرشتوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ آیت۹،۱۰
۴۔اللہ تعالی خرق عادت چیزوں سے نصرت فرماتے ہیں۔آیت ۱۱
۵۔ اللہ تعالی کی محبت اور قرب نصیب ہوتا ہے۔ آیت۱۷
۶۔انسان کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ آیت۲۴
۷۔ جہاد کی برکت سے اللہ تعالی پاکیزہ روزی اور ٹھکانہ دیتے ہیں۔ آیت ۲۶، ۷۶
۸۔اللہ تعالی گناہ معاف فرماتے ہیں۔آیت۲۹
۹۔اللہ تعالی مجاہد کو قوت فیصلہ اور عقل دیتے ہیں۔ آیت ۲۹
۱۰۔ کافروں کو شدید مالی نقصان ہوتا ہے۔(دیوالیہ ہو جاتےہیں) آیت ۳۶
۱۱۔ حق اور باطل الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ آیت۳۷
۱۲۔کافروں کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ آیت۳۹
۱۳۔جہاد کی وجہ سے مالِ غنیمت ملتاہے۔ آیت ۴۱
۱۴۔ کافروں پر حجت تمام ہو جاتی ہے آیت۴۲
۱۵۔مسلمانوںکو اللہ کی طرف سے خاص خاص بشارتیں نصیب ہوتی ہیں۔آیت۴۳
۱۶۔ترقی اور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔آیت۴۵
۱۷۔کافروں پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ جاتا ہے۔آیت ۶۰
۱۸۔ مسلمانوں میں اتحاد اور جوڑ پیدا ہوتاہے۔ آیت۶۵
۱۹۔اللہ تعالی قوت کو بڑھا دیتے ہیں۔ آیت۶۵
۲۰۔ایمان کامل ہو جاتاہے۔آیت ۷۴
 

قسیم حیدر

محفلین
قادیانیت کا خلاصہ“انکار جہاد“

مجاہدین کے ۲۵ اوصاف
1) تقویٰ آیت ۱
2) اصلاح ذات البین آیت ۱
3) اللہ و رسول کی اطاعت آیت ۱
4) اللہ کا خوف آیت ۲
5) قرآن مجید سے تعلق آیت ۲
6) توکل آیت ۲
7) نماز قائم کریں آیت ۳
8) انفاق فی سبیل اللہ آیت ۳
9) استغاثہ من اللہ آیت ۹
10) ثابت قدمی آیت ۱۱
11) دعوت جہاد پر فورًا لبیک کہیں۔ آیت۱۵
12) اطاعت امیر آیت ۲۰
13) شکر گزاری آیت ۲۶
14) نہی عن المنکر آیت ۲۷
15) مال و اولاد قربان کریں آیت ۲۸
16) کافروں کی طاقت توڑنے کا جنون سر پر سوار رہے آیت ۳۹
17) اجتماعی اموال کی شرعی تقسیم آیت ۴۱
18) نزاع سے بچیں آیت ۴۶
19) صبر کریں آیت ۴۶
20) تکبر اور ریا سے بچیں آیت ۴۷
21) مسلسل قوت و تربیت کو بڑھاتے رہیں آیت ۶۰
22) حالات پر کڑی نظر رکھیں آیت ۶۱، ۶۲
23) دعوت جہاد آیت ۶۵
24) حب دنیا سے بچیں آیت ۶۷
25) قومیت، وطنیت، لسانیت کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی رشتے کو ملحوظ رکھیں آیت ۷۲
۱۵ قوانین جنگ
1. ۔ ڈٹ کے لڑنا ہے پیٹھ نہیں پھیرنی۔ آیت ۱۵
2. جنگ کے دوران اللہ اور رسول کی اطاعت آیت۲۰
3. اطاعت امیر آیت ۲۴
4. جب کوئی جنگی تدبیر دل میں آ جائے اس پر فورًا عمل کریں دیر نہ لگائیں آیت ۲۴
5. اموال میں خیانت نہ کریں کیونکہ یہ باعث جبن ہے آیت۲۷
6. تنافس کریں
7. مسلسل اور کثرت سے ذکر کریں (الفاظ کا اثر ہوتا ہے) آیت ۴۵
8. لشکر متحد رکھنا چاہیے آیت ۴۶
9. کافروں کو ہلکی مار دے کر پیچھے نہ ہٹ آؤ آیت۵۷
10. مسلسل دشمن کو رعب میں رکھو آیت۶۰
11. ایک جماعت ایسی رکھو جومسلسل جہاد پر ابھارتی رہے آیت ۶۵
12. جب دشمن ہاتھ آئیں تو پہلے خوب خونریزی کرو پھر قیدی بناؤ۔ آیت ۶۷
13. جن کو قیدی بنا لو ان کو اندر اندر اپنے ساتھ ملا کر انہیں گھر کا بھیدی بنا لو آیت۷۰
14. جب کوئی مظلوم مدد کے لئے پکارے تو دیر مت لگاؤ (یہ اللہ کی مدد کا وقت ہوتا ہے) آیت۷۲
15. جب کافروں کا آپس میں اتحاد ہو تو تم ان کے خلاف اتحاد کر لو آیت ۷۳

التوبہ:
التوبہ مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل ایک سوانتیس آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں آیات جہاد ۹۲ ہیں۔ ان آیات میں درج ذیل اہم مباحث کا بیان ہے:
1. قتال کے سات فوائد اور حکمتیں
2. جہاد کی افضلیت
3. اہل کتاب سے جہاد اور اس کی وجہ
4. منافقین کی جہاد سے پہلو تہی اور اس کے بہانے
اس سورت میں فتح مکہ، غزوہ حنین اور غزوہ تبوک کا ذکر ملتا ہے۔ سورۃ توبہ کی ۹۲ آیات جہا د کی فہرست یہ ہے۔۱ تا ۶۰۔ ۷۳، ۷۴، ۸۱ تا ۹۶۔ ۱۰۶ تا۱۱۲۔ ۱۱۷ تا۱۲۳
الحج:
الحج مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل آیتیں ایک سو اٹھتر(۱۷۸) ہیں۔ جبکہ آیات جہاد کی تعداد ۱۷ ہے۔ ان آیات میں دو اہم بحثیں ہیں۔
۱۔ جہاد کی حکمت
۲۔ اجازت جہاد برائے مظلومین
اس سورۃ میں ایک تفسیری قول کے مطابق غزوہ بدر کے مجاہدین کا تذکرہ ملتا ہے۔ سورۃ الحج کی ۱۷ آیات جہاد درج ذیل ہیں:
۱۹ تا ۲۴۔ ۳۸ تا ۴۱۔ ۵۵۔ ۵۸ تا ۶۲۔ ۷۸
النور:
النور مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل چونسٹھ آیتیں ہیں۔ اس سورت میں آیات جہاد ۴ ہیں۔ اور اہم موضوعات دو ہیں:
۱۔ خلافت
۲۔ اطاعت امیر
ان چار آیات کے نمبر یہ ہیں۔ ۵۳۔۵۴۔۵۴۔۶۲
الاحزاب:
الاحزاب مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل تہتر آیتیں ہیں۔ جبکہ آیات جہاد کی تعداد ۲۲ ہے۔ اہم موضوعات درج ذیل ہیں۔
۱۔غزوہ احزاب کا مفصل تذکرہ جس میں بہت سارے مسائل جہاد کا تذکرہ ہے۔
۲۔ غزوہ بنی قریظہ اور نصرت خداوندی
۳۔ گستاخ رسول کی سزا
سورۃ احزاب کی ۲۲آیات جہاد یہ ہیں۔ ۹ تا ۲۷۔۶۰ تا ۶۲
محمد:
محمد مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل آیتیں اڑتیس ہیں۔ جبکہ آیات جہاد ۳۲ ہیں۔ اہم مباحث یہ ہیں۔
۱۔ قیدی کے احکام
۲۔منافقین کی جہاد سے دوری
۳۔ جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب
سورۃ محمد کی ۳۲ آیات جہاد کی فہرست درج ذیل ہے:
۱ تا ۱۳۔ ۲۰ تا ۳۸
الفتح:
الفتح مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل انتیس آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی تمام ۲۹ آیات میں جہاد کا بیان ہے۔ اس میں اہم جہادی بحث "بیعت علی الجہاد" کی ہے۔ جبکہ غزوات میں سے صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر اور فتح مکہ کا تذکرہ ہے۔ فہرست ۱ تا ۲۹
الحجرات:
الحجرات مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل اٹھارہ آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں آیات جہاد ۵ ہیں۔ اہم مباحث دو ہیں
۱۔ دشمن کے بارے میں تحقیق
۲۔ مسلمان مقاتلین کی باہم صلح
پانچ آیات کی فہرست درج ذیل ہے۔
۶۔ ۹۔ ۱۰۔۱۴۔ ۱۵
الحدید:
الحدید مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد انتیس (۲۹) جبکہ آیات جہاد ۴ ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں فتح مکہ یا حدیبیہ کا تذکرہ ہے۔۴ آیات جہاد کی فہرست یہ ہے۔ ۱۰۔۱۱۔۱۹۔۲۵
المجادلہ:
المجادلہ مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد بائیس جبکہ جہادی آیات ۳ ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں "حزب اللہ" کی تعیین کی گئی ہے۔ تین آیات جہاد یہ ہیں۔ ۲۰۔ ۲۱۔ ۲۲
الحشر:
الحشر مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد ۲۴ ہے جن میں سے ۱۷ آیات میں جہاد کا بیان ہے۔ اہم مباحث دو ہیں۔
۱۔ کفار کس طرح لڑتے ہیں۔
۲۔ مال فئے کے احکامات
اس سورۃ مبارکہ میں غزوہ بنی نضیر اور اشارتًا غزوہ بنی قینقاع کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۱۷ آیات جہاد کی فہرست یہ ہے۔ ۱ تا ۱۷
الممتحنۃ:
الممتحنۃ مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد تیرہ ہے۔ جبکہ آیات جہاد بارہ ہیں۔ اس سورت میں خصوصی طور پر جاسوسی کے احکا مات کا تذکرہ ملتاہے۔ نیز بعض دیگر جنگی قوانین کا بیان بھی ہے۔ سورۃ میں فتح مکہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۱۲ آیات جہاد کی فہرست یہ ہے:
۱ تا ۱۱۔ ۱۳
الصف:
الصف مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد چودہ ہے۔ جبکہ آیات جہاد۱۱ ہیں۔ اس سورۃ میں جہادی صف بندی اور مجاہدین کے اتحاد کی فضیلت کا بیان ہے۔ نیز جہاد کو ایک کامیاب تجارت قرار دیا گیا ہے۔ فہرست درج ذیل ہے:
۱ تا ۴۔ ۸ تا ۱۴
التحریم:
التحریم مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد بارہ ہے۔ جبکہ ایک آیت میں جہاد کا بیان ہے۔ اس سورت میں کفار و منافقین سے جہاد کا حکم ہے۔ یہ حکم آیت نمبر ۹ میں ہے۔
العادیات:
العادیات مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد گیارہ جبکہ آیات جہاد ۶ ہیں۔ اس سورت میں جہادی گھوڑوں کا بیان ہے۔ فہرست درج ذیل ہے:
۱ تا ۶
النصر:
النصر مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد تین ہے۔ آیات جہاد ۳ ہیں۔ اس سورت میں فتح کے آداب کا بیان ہے۔ فہرست یہ ہے:
۱ تا ۳۔
اب ایک نظر مجموعی فہرست پر ڈالئے
سورت کا نام آیات جہاد کی تعداد
البقرۃ ۳۳
آل عمران ۵۷
النساء ۴۱
المائدۃ ۲۰
الانفال ۷۵
البراءۃ ۹۲
الحج ۱۷
النور ۴
الاحزاب ۲۲
محمد ۳۲
الفتح ۲۹
الحجرات ۵
الحدید ۴
المجادلہ ۳
الحشر ۱۷
الممتحنۃ ۱۲
الصف ۱۱
التحریم ۱
العادیات ۶
النصر ۳
کل آیات جہاد ۴۸۴
اور اگر سورۃ نحل کی آیت ۱۱۰ شامل کی جائے تو کل آیات جہاد ۴۸۵ ہیں۔
چند ضروری گزارشات:
آیاتِ جہاد کی فہرست آپ نے پڑھ لی۔ اب اس سلسلے میں چند اہم گزارشات پیش خدمت ہیں:
1. وہ خواتین و حضرات جن کے پاس "تعلیم الجہاد" کے پرانے نسخے ہیں وہ اپنے قلم سے ان نسخوں میں درج آیات جہاد کی فہرست درست فرما لیں۔ یہ مضمون ان شاء اللہ ان کی رہنمائی کے لیے کافی ہوگا۔
2. وہ خواتین و حضرات جن کے دل میں یہ مضمون پڑھ کر جہاد فی سبیل اللہ کو سمجھنے کی امنگ پیدا ہو وہ اس مضمون میں پیش کی گئی فہرست کو سامنے رکھ کر تفسیر عثمانی، تفسیر " بیان القرآن"(حضرت تھانوی رحمہ اللہ)، تفسیر " معارف القرآن"(حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ) میں ان آیات کا ترجمہ اور تشریح ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ ایک باران آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد انہیں جہاد کے بارے میں کسی طرح کا کوئی خلجان باقی نہیں رہے گا۔ جہاد کے اس مبارک فریضے میں نبی اکرم ﷺ کا خون گرا اور حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جسموں کے ٹکڑے ہوئے۔ کیا ہمارا اتنا بھی فرض نہیں بنتا کہ ہم صرف چند گھنٹے خرچ کر کے آیات جہاد کو پڑھ لیں۔
3. علماء کرام سے گزارش ہے کہ اگر انہیں بعض آیات کے جہاد کے ساتھ تعلق میں کوئی شبہ ہو تو معتمد اور متداول تفاسیر کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں۔ امید ہےکہ موافق تفسیری اقوال تک آپ کی رسائی ہو جائے گی۔ اگر مطالعے کے باوجود کوئی اشکال باقی رہے یا کوئی غلطی سامنے آئے تو بندہ کو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ غلطی کی اصلاح کی جا سکے۔
4. کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر دینی خدمات سر انجام دینے والے احباب اس مضمون میں درج تمام تفاصیل اور جہادی آیات کی فہرست کسی بھی ویب سائٹ پر دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ مفید طریقہ کار یہ ہےکہ ہر ایک یا دو دن بعد چند آیات کو نمایاں کر کے لکھا جائے اور ان آیات کا اردو اور انگریزی ترجمہ کسی مستند تفسیر سے لکھا جائے۔ زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ، حضرت تھانوی رحمہ اللہ، حضرت مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمے دیئے جائیں۔ نیز آیات کی تشریح میں فی الحال تفسیر عثمانی کے فوائد کافی ہیں۔
5. وہ مسلمان جو اب تک جہاد و قتال کے فریضے کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں اگر یہ تمام قرآنی تفاصیل پڑھ کر اپنے غلط نظریئے یا طرزِ عمل سے توبہ کرنا چاہیں تو یہ ان کے لئے بڑی سعادت کی بات ہو گی۔ مگر اس توبہ کی مزید پختگی اور قبولیت کے لئے انہیں چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں تک اس مضبوط، یقینی اور قطعی دعوت کو پہنچائیں۔
والسلام
محمد مسعود ازھر

قادیانیت کا خلاصہ "انکارِ جہاد"


اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور یہ امت آخری امت ہے۔ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا، وہ آخری زمانے میں امتی بن کر اتریں گے، اپنی باقی زندگی گزاریں گے، دجال کو قتل کریں گے، زمین پر امن قائم فرمائیں گے اور وفات پاکر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔
حضرت امام مہدی آخری زمانے میں عام انسانوں کی طرح پیدا ہوں گے، وہ رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے ہوں گے اور وہ خود کو چھپائیں گے مگر پہچان لیے جائیں گے، مسلمان انہیں اپنا امام و امیر بنائیں گے اور ان کے ساتھ مل کر خوب خوب جہاد کریں گے۔جہاد اسلام کا قطعی فریضہ اور قرآن پاک کا ایک محکم حکم ہے۔جہاد مسلمانوں پر نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی طرح فرض ہے۔جہاد کا منکر کافر ہے اور اس بارے میں کج بحثی کرنے والاگمراہ ہے۔جہاد قیامت تک جاری و ساری رہے گا اور رسول اللہ ﷺکے امتیوں کی ایک حق جماعت ہر زمانے میں جہاد کرتی رہے گی اور کسی زمانے میں ایک گھڑی کے لیے بھی جہاد موقوف یاملتوی نہیں ہو گا۔اور جہاد سے مراد قتال فی سبیل اللہ ہے، پھر قتال فی سبیل اللہ کی معاونت میں جو کا م ہو گا وہ بھی جہاد ہے خواہ زبان سے ہو یا قلم وغیرہ سے۔۔۔۔۔۔
یہ چند اسلام عقائد و نظریات ہیں جن کا ثبوت قرآن و سنت سے ہے۔ ماضی قریب کے ایک کذاب و دجال مرزا قادیانی ملعون و مردود نے ان عقائد کا انکار کیا اور مسلمانوں کا ان عظیم نعمتوں سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ الحمد للہ امت مسلمہ کا اکثر حصہ اس خوفناک کینسر سے بچ گیا جبکہ چند محروم بد نصیب لوگ اپنے جرائم کی پاداش میں اس ناپاک کھائی میں گر گئے۔ان میں سے جو زندہ ہیں ان کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، کاش وہ لوٹ آئیں۔۔۔۔ کاش وہ سمجھ جائیں۔
خود سوچیں اگر نبوت کا دروازہ کھلا رہتا تو یہ امت کس طرح آگے بڑھتی، کس طرح خیرِ امت کہلائے گی۔ ہر دوسرے دن نئے نبی کا اعلان، پھر اس کے سچا یا جھوٹا ہونے کی تفتیش و تحقیق، پھر اس کی اپنی باتیں۔۔۔پھر کوئی نیا نبی۔ تب قوموں اور قبیلوں میں مقابلہ ہو گا اور ہر قوم اپنا نبی لائے گی، تب ایک عالمگیر امت کہاں وجود پائے گی۔اللہ کی قسم! ختم نبوت ایک ایسی نعمت ہے جس نے ہم مسلمانوں کو لاکھوں جھنجھٹوں سے بچا کر کام کے لئے آزاد کر دیا ہے۔ پھر سوچئے کہ مرزا قادیانی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ نبی پاک ﷺ کی اطاعت کرتے کرتے اتنا اوپر چلا گیا کہ نبی بن گیا۔ اگر ترقی کا یہ دروازہ کھلا رہا تو پھر کون کون یہ دعوٰی کرے گا اس کی حد متعین نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی مسلمان عبادت اس لیے کرتا ہے تا کہ بندگی اور غلامی کا حق ادا کرے۔ اگر ہر عابد کو بندگی کے علاوہ کسی اور مقام کی توقع دلا دی گئی توشیطان ہر کسی کو پٹخے گا اور تب ممکن ہےکہ امت میں نبی زیادہ ہوں اور امتی کم۔
حضرت امام مہدی کی ولادت و امامت اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول بھی مسلمانوں کے لئے بڑی نعمت اور سعادت ہیں۔ ان دونوں حضرات کی برکت سے اسلام آخری زمانے میں عروج پائے گا۔ مسلمان ایک جھنڈے تلے متحد ہوں گے۔ جہاد کا ہر طرف دور دورہ ہو گا۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو حالتِ ایمان میں جہاد کی توفیق اور شہادت کی سعادت ملے گی، دنیا سے کفر کی طاقت کا خاتمہ ہو جائے گا، صلیب ٹوٹ جائے گی، خنزیر قتل کر دیئے جائیں گے اور زمین پر اسلام کا پاکیزہ نظام قائم ہو گا۔ مرزا قادیانی ملعون جوبقول خودانگریز کا خود کاشتہ پودا تھا اس نے اعلان کر دیا کہ وہی مسیح موعود ہے اور وہی مہدی آخر الزمان ہے۔ اگر خدانخواستہ، خدا نخواستہ یہ ناپاک دعوٰی مان لیا جائے تو امت مسلمہ کے لیے کس قدر محرومی کی بات ہے کہ اس امت کا وہ امام جن کے انتظار میں لوگ صدیوں سے آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں جب آیا تو ملکہ برطانیہ کی وفاداری کے گیت گاتا رہا، مسلمانوں کو انگریزی غلامی کے تندور میں جھونکتا رہا، غلام پیدا ہوا اور بحالت غلامی مر گیا۔جس نے ایک دن اسلامی عظمت و حکومت کا سورج طلوع ہوتے نہیں دیکھا۔ اتنی عظیم امت کے لیے اتنی بڑی بد نصیبی۔۔۔۔۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
انگریز چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے دل سے عزت و عظمت کے خواب نکال دے، ان کے دلوں سے جذبہ جہاد نچوڑ لے، ان کے دماغوں سے شوق شہادت کھرچ لے اور ان کے ارمانوں سے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کا سودا مٹا دے۔ بس اسی کام کے لیے مرزا قادیانی کو لایا گیا اور اس سے طرح طرح کے دعوے کرائے گئے۔ زیادہ دعوے کرنے کا مقصد مسلمانوں کو ان علمی بحثوں میں الجھانا تھا جن سے مسلمانوں کی اکثریت دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ناواقف ہے۔ قادیانی گروپ کا اصل مقصد انگریزی اقتدار کا تحفظ اور مسلمانوں کو اس غلامی پر مطمئن رکھنا تھا۔ اور یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا تھا جب مرزا قادیانی جہاد کو مشکوک بنا دے اور ان عظیم شخصیات کو جن کے حوالے سے مسلمانوں کو جہاد یاد رہتا ہے بدنام کر دے۔ چنانچہ مرزا ملعون نے جہاد کا برملا انکار کیا، مجاہدین کو خوب برا بھلا کہا اور جہاد کے منسوخ یا ملتوی ہونے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف اس نے مستقبل کی اہم جہادی شخصیتوں حضرت عیسی علیہ السلام اور امام مہدی کو خوب بدنام کیا اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت پر ان مبارک ناموں کی تختیاں چپکا کر مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ حال تو درکنار مستقبل میں بھی جہاد کا خیال چھوڑ دو کیونکہ زمانے کا مہدی اور مسیح خود انگریز کی کاسہ لیسی کر رہا ہے اور ملکہ برطانیہ کی حکومت کو خدا کی دَین بتا رہا ہے۔ ان تمام باتوں پر اگر باریکی سے غور کیا جائے تو مرزائیت کا خلاصہ "انکار جہاد" نکلے گا کیونکہ مرزا کی تمام باتوں، کوششوں اور سازشوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان جہاد چھوڑ دیں، جہاد کا خیال دل سے نکال دیں اور جہاد کے معنی بدل دیں۔ پھر اسی نظریئے کے ذیل میں مرزا اور اس کی پارٹی نے کوشش کی کہ کسی طرح لوگوں کی نظر میں نبی اکرم ﷺ کا مقام (نعوذ باللہ) مرزا قادیانی سے کم کر کے دکھایا جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے قیامت تک قتال فی سبیل اللہ کے جاری رہنے کا اعلان فرمایا ہے۔ مسلمان نبی اکرم ﷺ سے سچی عقیدت و محبت رکھتے ہیں اس لیے انہیں اس اعلان پر پختہ یقین ہے۔ چنانچہ ہر زمانے میں جو لوگ بھی جہاد کے لیے اٹھے، مسلمانوں نے انہیں حق پر سمجھ کر ان کی نصرت کی۔ دوسری طرف مرزا قادیانی ملعون نے جہاد کی منسوخی کا اعلان کیا۔۔ اب اس اعلان کی وقعت تبھی لوگوں کے دل میں آ سکتی تھی جب وہ مرزا قادیانی کو (نعوذ باللہ) نبی اکرم ﷺ سے افضل سمجھیں۔ اشعارو عبارات کی حد تک انہوں نے اس کی کوشش بھی کی مگر نظریاتی طور پر انہوں نے ایک اور داؤ کھیلا اور وہ یہ کہ جہاد کی دو قسمیں گھڑ لیں ایک تلوار کا دوسرا قلم کا۔ پھر یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ نعوذ باللہ قلم کا جہاد جہادِ کبیر اور تلوار کا جہاد جہادِ صغیر ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیے:
تاریخی قومی دستاویز ۱۹۷۰ صفحہ نمبر ۱۹۰ مرزا ناصر (مرزا قادیانی کا پوتا) کہتا ہے " تلوار کا جہاد منسوخ ہے۔ تلوار کا جہاد تو جہادِ صغیر ہے قلم کا جہاد جہادِ کبیر ہے"
دیکھیئے! بلی تھیلے سے باہر آ گئی کہ مرزا قادیانی ملعون تو پڑھا لکھا تھا۔ اس نے اپنے منحوس قلم سے اٹھاسی کتابیں لکھیں۔ جب کہ سید الکونین حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی ﷺ اُمِّی تھے آپ نہیں لکھتے تھے۔ تو نعوذ باللہ قادیانی ملعون افصل ہوا کیونکہ اس نے قلم نے جہادِ کبیر(بڑا جہاد) کیا، جبکہ نبی اکرم ﷺ نے تلوار سے جہادِ صغیر ( چھوٹا جہاد) کیا۔ علمی اعتبار سے مرزا کی یہ بات بالکل بے وزن اور بودی ہے۔ نبی پاک ﷺ کا امّی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ آپ ﷺ کا کمال اور معجزہ ہے۔ اور تلوار کا جہاد جو نبی اکرم ﷺ نے کیا وہ بڑا جہاد ہے کیونکہ ساری امت مل کر اس جہاد کی ایک گھڑی کی قیمت ادا نہیں کر سکتی۔ اور آپ ﷺ کے جہاد کا تذکرہ قرآن پاک نے کیا ہے اور قرآن پاک نے آپ ﷺ اور آپ کی امت کو تلوار کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ہے۔اللہ کا حکم اور قرآن کا حکم کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ پھر جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ تو قرآن پاک کا موضوع ہے اور قرآن پاک میں اس عنوان کی سینکڑوں آیات موجود ہیں۔ یہ تو مرزا ملعون کا ناپاک وسوسہ ہے کہ یہ جہاد چھوٹا جہاد ہے ورنہ قرآن پاک کو پڑھ لیجیئے، ہوش خود بخود ٹھکانے آ جائیں گے کہ ہم جس چیز کو چھوٹا کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کس قدر اونچا مقام ہے۔ مرزا قادیانی ملعون نے جہاد کے خلاف بہت کچھ لکھا اور پھر اپنے ان ظالمانہ وسوسوں کو پوری امت مسلمہ میں پھیلانے کی کوشش کی۔چنانچہ وہ لکھتا ہے:
" میری عمر کا اکثر حصہ سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک، عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہےکہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں"
(تریاق القلوب، ص ۲۷،۲۸ مندرجہ روحانی خزائن ص۱۵۵ ج۱۵)
دیکھا آپ نے مرزا اپنے کارناموں کا اعتراف کر رہا ہے۔
۱۔ جہاد کے خلاف کتابیں اور اشتہارات لکھے ہیں۔
۲۔ انہیں دوسرے ملکوں میں پھیلایا ہے۔
۳۔ جہاد کو ماننا احمقوں کا کام ہے۔
۴۔ جہاد کے مسائل جوش دلاتے ہیں ( معلوم ہوا کہ جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ کی مخالفت ہو رہی ہے)
۵۔ یہ سارے کام سلطنتِ برطانیہ کو بچانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
مرزا ملعون خود بھی اپنی بے برکت و ناپاک زندگی جی کر مر گیا، سلطنتِ برطانیہ بھی نہ بچ سکی بلکہ ایک بے نور ٹھنڈے علاقے تک محدود ہو گئی مگر مرزا کی ناپاک کوششوں سے ایک طبقہ اسلام کی مقدس شاہراہ سے گمراہ ہو کر مرتد ہو گیا۔ جبکہ دوسری طرف مرزا قادیانی کے جہاد کے خلاف پھیلائے جانے والے پچاس الماریوں کے برابر وساوس مسلمانوں میں اس بری طرح پھیل گئے کہ وہ لوگ جنہیں کبھی آدھے منٹ کے کے لیے محاذِ جنگ کی سعادت نصیب نہیں ہوئی اپنے گھروں میں بیٹھ کر دعوٰی کر رہے ہیں کہ وہ بڑا جہاد کر رہے ہیں۔ (ایسا جہاد جس میں اسلام دشمن کافروں کی نکسیر تک نہیں پھوٹتی) جبکہ غزوہ احد میں آقا مدنیﷺ جس جہاد میں زخمی ہو کر گر پڑے تھے وہ نعوذ باللہ چھوٹا جہاد ہے۔ ہائے کاش! مسلمان سمجھیں اور اپنے دامن کو مرزائی چنگاریوں سے بچائیں۔ قتال فی سبیل اللہ کو بے دھڑک چھوٹا جہاد کہہ دینے والے حضرات سے میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ وہ قرآن پاک کی سینکڑوں آیاتِ قتال کو ایک نظر دیکھ لیں پھر اگر ان کے دل گردے میں اس جہاد کو چھوٹا جہاد کہنے کی طاقت باقی رہے تو شوق سے کہتے پھریں۔ (ہم نے ہفت روزہ شمشیر میں آیاتِ جہاد کی مکمل فہرست بحمد للہ شائع کر دی ہے)۔ مرزا قادیانی ملعون نے جہاد کے خلاف جو ظالمانہ وساوس پھیلائے ان وساوس کے اثرات پر اسے مکمل بھروسہ تھا اور اسے یقین تھا کہ جو جو لوگ اس کے زیرِ اثر آتے جائیں گے وہ جہاد کے منکر ہوتے جائیں گے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
" میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے" ( مجموعہ اشتہارات ص ۱۹ ،ج ۳)
مرزا کی اس عبارت سے چند باتیں واضح طور پر سمجھ میں آتی ہیں۔
۱۔ قادیانی تحریک کا اساسی مقصد مسلمانوں کو جہاد سے برگشتہ اور بیگانہ کرنا ہے، چنانچہ وہ فخر سے کہہ رہا ہے کہ میرے مرید جیسے جیسے بڑھتے جائیں گے جہاد کے انکار کی فضا عام ہوتی جائے گی۔
۲۔ مرزا قادیانی اپنے مریدوں اور ماننے والوں کو جس بات کی سب سے زیادہ تلقین کرتا تھا وہ بات تھی " انکارِ جہاد"۔ کیونکہ جس پیر کے ہاں جس بات پر زیادہ بیان ہوتا ہے مریدین پر اسی بات کا زیادہ رنگ چڑھتا ہے۔ اہلِ حق مشائخ میں سے بعض موت کی یاد پر زور دیتے ہیں، بعض دنیا کی محبت کے خاتمے کو اساسی موضوع بناتے ہیں۔ بعض حسن پرستی کے خلاف توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ شیخ کے اساسی بیان کا مریدین پر خوب اثر ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی ملعون بھی نبی اور پیر بنا بیٹھا تھا۔ اس کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کی زبان پرہر وقت جہاد کی مخالفت جاری رہتی تھی اور اس کے بیانات کا مرکزی موضوع جہاد کی مخالفت ہوتا تھا۔ اس لیے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ مریدین کے بڑھنے سے ترکِ جہاد کے نظرئیے کو تقویت ملے گی۔
۳۔ ہم نے مضمون کے شروع میں عرض کیا تھا کہ قادیانیت کا خلاصہ انکارِ جہاد ہے اور قادیانیت کی ہر تان اسی پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ مرزا کی یہ عبارت بھی اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ وہ صاف لفظوں میں کہہ رہا ہے کہ مجھے مہدی اور مسیح مان لینا ہی جہاد کا انکار کرنا ہے۔ یعنی مرزا نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا ہی اس لیے تھا کہ لوگ جہاد کے منکر ہو جائیں۔ اس لیے کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام اور امام مہدی کا انتظار کرتے ہی جہاد کے حوالے سے ہیں۔ اب مرزا مسلمانوں کو دین کی سربلندی سے مایوس کرنے اور جہاد سے ان کا ذہن ہٹانے کے لیے خود مسیح و مہدی بن بیٹھا۔ سیدھے سادھے مسلمان جب ایک نیم پاگل، بیمار، بےبس، بزدل، نہتے، شوگر و گیس سے بھرے شہوت و خباثت کے پتلے کو مہدی اور مسیح دیکھیں گے تو ان کے دل سے اسلام اور جہاد کی عظمت خود بخود دھل جائے گی اور ان کے خیالات میں لاکھوں فدائیوں کی کمان کرنے والے، مشرق و مغرب کے کفر کو عبرتناک شکست دینے والے، خود جنگوں میں کودنے والے، آسمان سے فرشتوں کا سہارا لے کر دمشق میں اترنے والے، اپنی آنکھوں کی چمک اورسانس کی حدت سے یہودیت کو ختم کرنے والے اور زمین پر اسلام کا اقتدار اعلٰی قائم کرنے والے مسیح اور مہدی کا خیال محو ہو جائے گا تب وہ انگریز کی غلامی کو دل و جان سے قبول کر لیں گے۔
ایک اہم نکتہ:
یہاں ایک اہم بات ذہن میں آ گئی اور وہ یہ ہے ہہ کہ مسلمانوں کا تابناک ماضی اور ان کا روشن مستقبل انہیں کسی کا دل سے غلام نہیں بننے دیتا۔ وہ ماضی میں دیکھتے ہیں تو انہیں اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ سر پر جنگی ٹوپی پہنے، جنگوں کا سالارِ اعظم بنے، فتوحات پر فتوحات کرتے نظر آتے ہیں۔اور جب وہ مستقبل کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو انہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور امام مہدی کے فدائی دستے سرفروشی کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ پس مایوس مسلمانوں کو ان کا ماضی دلاسہ دیتا ہے اور مستقبل ان کے دلوں سے مایوسی کو کھرچتا ہے۔ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعوٰی کر کے مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب مدینہ کی طرف دیکھنے کی بجائے غلاموں کے وطن قادیان کی طرف دیکھیں اور پھر اس نے مسیح اور مہدی کا دعوٰی کر کے مسلمانوں کو مستقبل سے مایوس کرنے کی سعی کی ہے کہ دیکھو جس مسیح اور مہدی کے انتظار میں تم ہر کسی سے ٹکر لیتے ہو وہ سر سے پاؤں تک بیماریوں میں گھرا ہوا، ایک افیونی بدکار ہے، اس لیے اب تم انگریزوں کی اطاعت دل و جان سے قبول کر لو۔ چنانچہ اس ظالم نے ملکہ برطانیہ کہ اطاعت کو اسلام کا حصہ قرار دیا، وہ لکھتا ہے:
" سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ خدا تعالٰی کی اطاعت کریں دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو، سو وہ سلطنت حکومتِ برطانیہ ہے"
(شہادت القرآن ص ۸۴، روحانی خزائن ص۳۸۰،ج۳)
اس عبارت میں اور باتوں کے علاوہ ایک قابل غور بات یہ ہے کہ مرزا نے انگریزی سلطنت کی تعریف امن قائم کرنے کے حوالے سے کی ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک اور ملحد و منکر جہاد وحید الدین خان کا ایک انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ بھی انڈیا حکومت کی تعریف امن کے حوالے سے کر رہا تھا اور کشمیری مجاہدین کو لتاڑ رہا تھا۔ یہاں میں قارئین کواس بات کی دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ مرزا قادیانی ہو یا وحید الدین خان، وہ جہاد کی مخالفت کسی دینی دلیل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی جان کے لیے امن اور مفادات حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان کی یہ عبارتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان ظالموں کی نظر میں بس دنیا کے مفادات اور یہاں کی زندگی ہے۔ورنہ آپ پورا قرآن پڑھ لیجیئے۔ انبیاء علیہم السلام وقت کے ان بادشاہوں سے ٹکرائے جنہوں نے اپنے ملکوں میں آج کے حکمرانوں سے زیادہ ظاہری امن قائم کر رکھا تھا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام نے کفر اور اسلام کو معیار بنایا نہ کہ جان کی حفاظت اور دنیاوی مفادات کو۔ پس اے مسلمانو! انبیاء علیہم السلام کے راستے پر ڈٹے رہو اور ان بزدل ، نفس پرست اور دنیا کی عارضی زندگی چاہنے والے نام نہاد مفکرین کی بات نہ مانو۔ یہ لوگ خود بھی بزدل ہیں اور مسلمانوں کو بھی کافروں کا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ظاہری طور پر ان کا دعوٰی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کس بچا رہے ہیں حالانکہ مسلمان دنیا میں بچنے کے لیے نہیں آیا اور نہ کوئی موت آنے پر کسی کو بچا سکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں نے ہمیشہ ایمان کی خاطر قربانی دی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے جان بچانے کے لیے ایمان کو چھوڑا ہو یا دین کو بدلا ہو۔ ماضی کے ایمان والوں نے آگ کی خندقیں قبول کر لیں مگر کفر کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔ بس ہماری کامیابی بھی دین اور جہاد میں ہے نہ کہ بزدلی اور بے ہمتی میں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے زمانے میں اور وحید الدین خان اپنے دور میں کفر کی قوت سے بری طرح مرعوب ہو چکے ہیں۔ اور ان کے دل و دماغ میں یہ بات مزین کر دی گئی ہے کہ اب کفر کی یلغار کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مرزا کو سلطنتِ برطانیہ اور وحید الدین خان کو امریکہ اور انڈیا کی طاقت پر بھروسہ ہے۔چنانچہ وہ انہی طاقتوں پر بھروسہ کر کے یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اب اگر گردن نہ جھکائی تو انہیں جڑ سے ختم کر دیا جائے گا۔ چنانچہ مرزا ملعون نے اپنے زمانے میں اس بات کا اعلانیہ دعوٰی کیا تھا کہ اب مسلمان کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتے۔ لیجیئے اس کےاشعار پڑھیئے:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے خیال دوستو
دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال دوستو
اب آ گیا مسیح جو دین کا امام ہے
دیں کے لیے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسمان سے نورِ خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور قتال کا فتوٰی فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہےجو یہ رکھتا ہے اعتقاد
اس نظم میں چند اشعار کے بعد کہتا ہے:
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
دیکھیں راز فاش ہو گیا کہ مرزا کو سلطنتِ انگریزی کی قوت پر مکمل بھروسہ تھا بس اسی بھروسے پر اس نے یہ پیشگوئی کر دی۔ آج کے جہاد مخالف دانشوروں کو بھی امریکہ، انڈیا، اسرائیل کی طاقت پر اس قدر بھروسہ ہے کہ وہ بھی اسلام، مسلمانوں اور مجاہدین کے خاتمے کی صبح شام پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو کافروں کے سامنے سر جھکانے کا حکم دیتے رہتے ہیں۔ الحمد للہ مرزا قادیانی کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ اب ان شاء اللہ زمانے کے پیٹ پرست دانشوروں کی باتیں بھی غلط ثابت ہوں گی اور جہاد کو کوئی نہیں مٹا سکے گا۔ آجکل بعض لوگ مسلمانوں کی کمزوری کا رونا رو کر، ایمان میں ان کی عدم پختگی کا حوالہ دے کر انہیں جہاد سے روکتے ہیں۔ یہ نظریات بھی مرزا قادیانی کے ہیں۔چنانچہ اسی نظم میں چند اشعار آگے چل کر وہ کہتاہے:
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں
اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی
وہ سلطنت و رعب، وہ شوکت نہیں رہی
چند اشعار آگے لکھتا ہے:
دل میں تمہارے یار کی الفت نہیں رہی
حالت تمہاری جاذبِ نصرت نہیں رہی
(مرزا کی یہ پوری نظم تحفہ گولڑویہ ضمیمہ ص۴۲، روحانی خزائن ص۷۷، ج ۱۷ پر درج ہے)
اس نظم کے مذکورہ بالا اشعار کو بار بار پڑھیں اور پھر اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ کہیں خدانخواستہ مرزائی کینسر کا کچھ اثر ہمارے اندر تو نہیں آ گیا؟ یاد رکھئیے مرزائی افکار حضور سرور کونینﷺ کی گستاخی، بے ادبی اوردشمنی پر مبنی ہیں۔ اس لیے ہر عاشقِ رسول کا دل ان افکار سے پاک ہونا ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی یار رکھئیے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی مقام پر کیوں نہ ہو، جب وہ خود جہاد میں نہ نکلنا چاہتا ہو، اپنی جان اللہ تعالٰی کے لیے قربان نہ کرنا چاہتاہو اور وہ اپنی اس کمزوری اور غلطی پر رونے کی بجائے جہاد پر اعتراضات کرتا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے منہ سے وہی وسوسے نشر ہوں گے جو مرزا قادیانی ملعون نے پھیلائے ہیں "ہم میں طاقت نہیں، ہم نصرت کے قابل نہیں" اور بہت کچھ۔۔۔۔
یہاں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی ملعون سے لے کر عصر حاضر کے نام نہاد دانشوروں تک جہاد کے تمام مخالفین مسلمانوں کو تو جہاد سے روکتے رہے جبکہ یہی لوگ کافروں کے لڑنے کی حمایت کرتے ہیں اور خود ان کے ساتھ مل کر لڑنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی ان بد نصیب لوگوں کی قسمت میں بس اللہ کے راستے میں لڑنا نہیں ہے کیونکہ انہیں اس میں ہلاکت نظر آتی ہے۔ لیکن جب انہی لوگوں کو کافر اپنے ساتھ مل کر لڑنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بھاگ بھاگ کر ان کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ مال، عہدے، حکومت بچانے کے لالچ میں۔
چنانچہ مرزا قادیانی ملعون لکھتا ہے:
" میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔میرا والد مرزا غلام مرتضٰی گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسانِ پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امدار میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کا ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں۔ مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا"
(کتاب البریہ ص ۳، ۴، ۵ ۔ روحانی خزائن ص ۴، ج ۱۳)
مجاہدین کو شدت پسند، دہشت گرد،رجعت زدہ کہنے والے اس عبارت میں موجود مناظر پر ایک نظر ڈالیں، مسلمانوں کے لیے انگریزوں سے لڑنا حرام، دین دشمنی اور بے مصلحتی، جبکہ انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا قابل فخر، کشمیری مجاہدین کا غاصب انڈین فوجوں سے لڑنا حرام جبکہ وحید الدین خان کا نرسیمہا راؤ سے ایوارڈ قبول کرنا قابلِ فخر، طالبان کی حمایت حرام اور ناقابل معافی جرم مگر امریکیوں کو اڈے دینا اور ان کی مدد کرنا قابل فخر، عراقی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانا حرام جبکہ اپنی مسلمان فوجوں کو عراق میں امریکہ کے تعاون کے لیے بھیجنا قابل فخر۔آخر یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا ان باتوں کا اس کے علاوہ بھی کوئی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسا کرنے والے لوگ اللہ تعالٰی کو نہیں مانتے اور نہ ان کے دل و دماغ میں اللہ تعالٰی کی کوئی عزت، اہمیت اور وقعت ہے اور نہ ان کے حاشیہ خیال میں اللہ تعالٰی کے کسی حکم کا کوئی مقام ہے۔ یہ لوگ بس وقت کے زمینی تاجداروں کے پجاری ہیں اور اپنی اس عارضی سی زندگی کو بچانے اور سنوارنے کی خاطر جہاد سے انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگر زمین پر عمومی امن کے قائل ہوتے تو پھر کسی کے لڑنے کو درست نہ سمجھتے اور نہ کبھی لڑنے والوں کا لباس پہنتے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے حق میں لڑنا غلط سمجھتے ہیں جبکہ کفر کے ساتھ مل کر لڑنے کو فخر جانتے ہیں اور خود اپنے ان مسلمان بھائیوں کو مارنا چاہتے ہیں جو دین اور جہاد کی خالص بات کرتے ہیں۔ دیکھیئے مرزا قادیانی ایک طرف تو اس قدر رواداری کا قائل ہے کہ مسلمانوں کو چیخ چیخ کر انگریزی حکومت کی اطاعت پر کھڑا کر رہا ہے، انگریزوں کے لیے ان کے اندر وسعتِ ظرفی پیدا کر رہا ہے جبکہ خود یہی مرزا قادیانی جہاد کا نام لینے والے مسلمانوں کو کیسی گندی گالیاں دے رہا ہے۔ یہاں اسے نہ رواداری کا خیال رہا اور نہ وسعتِ ظرفی کا۔ دیکھیئے مرزا لکھتا ہے:
" بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں؟ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے۔کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے، اس سے جہاد کیسا؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے"
(شہادت القرآن ص ۸۴، روحانی خزائن ص ۳۸۰، ج۲)
دیکھی آپ نے خوفناک قسم کی دو رنگی۔ انگریزوں کے لیے منہ میں گھی شکر اور انہیں برا بھلا کہنا خلافِ تہذیب اور بد اخلاقی، اور مجاہدین کے لیے حرامی اور بدکار جیسے الفاظ۔یہی تہذیب آپ کو وحید الدین خان کے قلم میں ملے گی۔بالکل یہی دو رنگی، ہندوؤں کے لیے سینہ فراخ اور اپنوں کو دو دو من کی گالیاں۔ اور یہی انداز آپ کو ہمارے ملک کے جہاد مخالف طبقے میں ملے گا۔ وہ اسلام دشمنوں کو برا بھلا کہنا کفر سمجھتے ہیں جبکہ اپنے مسلمان مجاہد بھائیوں کو گالیاں دینا اور انہیں مارنا اپنے ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ہاں! اللہ کے دشمن ایسے ہی ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت میں ان کی یہی علامات درج ہیں۔ جبکہ اللہ تبارک و تعالٰی کے محبوب بندے کافروں کے لیے سخت اور مسلمانوں کے لے نرم ہوتے ہیں۔
یہاں دورنگی کی بات چل نکلی تو ایک اور دورنگی بھی ملاحظہ فرما لیں۔ مرزا قادیانی، وحید الدین خان، منکرینِ حدیث اور جہاد کے مخالف طبقے جب جہاد کے خلاف لکھتے یا بولتے ہیں تو جہاد کے معنی "قتال فی سبیل اللہ" لیتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مرزا قادیانی کے اب تک جتنے حوالے اس مضمون میں پڑھے ہیں، ان میں مرزا لفظ جہاد سے قتال ہی مراد لے رہا ہے اور قتال ہی کو حرام قرار دے رہا ہے۔ آپ ان عبارتوں کو دوبارہ پڑھ لیجیئے، آپ کو درجنوں ثبوت اس بات کے مل جائیں گے کہ مرزا مسلمانوں کو لڑنے سے منع کر رہا ہے اور قتال کو حرام کہہ رہا ہے۔ لیکن جب قرآن و سنت میں جہاد کے بے شمار فضائل سامنے آتے ہیں تو مرزا قادیانی سے لےکر ہر جہاد مخالف طبقہ ان فضائل کو اپنی ذات کے لیے ثابت کرنے پر تل جاتاہے۔ تب وہ جہاد کے بیسییوں معنی نکال کر خود کو مجاہد اعظم ثابت کرتے ہیں۔ چنانچہ خود مرزا قادیانی ملعون و دجّال لکھتا ہے:
"جنگ سے مراد تلوار و بندوق کی جنگ نہیں کیونکہ یہ تو سراسر نادانی اور خلاف ہدایت قرآن ہے جو دین کے پھیلانے کے لیے جنگ کیا جائے اس جگہ جنگ سے ہماری مراد زبانی مباحثات ہیں جو نرمی اور انصاف اور معقولیت کی پابندی کے ساتھ کیے جائیں ورنہ ہم ان تمام مذہبی جنگوں کے سخت مخالف ہیں جو جہاد کے طور پر تلوار سے کئے جاتے ہیں"
(تریاق القلوب، ص۲ ، روحانی خزائن ص ۱۳۰ ج ۱۵)
مرزا کی یہ عبارت غور سے پڑھیں اور پھر اس خطرناک سازشی دورنگی کو دیکھیں کہ کس عیاری کے ساتھ جہاد کے معنی کو مشکوک کیا جا رہا ہے۔ نیز وہ حضرات جو جہاد کا لفظ آتے ہیں مشین چلا دیتے ہیں کہ یہ بھی جہاد ہے، وہ بھی جہاد ہے۔ اس عبارت پر غور فرمائیں کہ مرزا کہہ رہا ہے کہ
" اس جگہ جنگ سے ہماری مراد(یعنی جہاد کے معنی بدلنا اور انہیں خلط ملط کرنا) قادیانی مراد ہے۔ چنانچہ جو لوگ قادیانی مراد پوری کر رہے ہیں وہ اللہ تعالٰی سے ڈریں اور جہاد کے ساتھ انصاف کریں۔ مرزا قادیانی ملعون نے انگریز کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے جہاد کے خلاف جو کچھ بویا وہ مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک ناسور بنا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قادیانی افکار کی تردید کے وقت اس موضوع کا خاص اہمیت دی جائے۔کیونکہ یہی موضوع قادیانیت کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ اور جہاد کے بارے میں پھیلے ہوئے قادیانی وساوس مرزا ملعون کی ظاہری کامیابی ہیں۔ اب اگر ہم اس فتنہ ملعونہ کو ناکام کرنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ جہاد کے بارے میں اپنا اور امتِ مسلمہ کا ذہن صاف کریں اور اپنے لٹریچر کو جہاد مخالف قادیانی وساوس سے صاف کر لیں۔ ہمیں معلوم ہواہے کہ امریکہ نے قادیانیوں کو منظم کرنے کے لئے نئے بجٹ کا اعلان کر دیا ہے اور اب انگریزوں کے بعد امریکی اس ناپاک ٹولے کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔کیونکہ قادیانیت ایک باطل ہے اور باطل نے ٹوٹنا اور ختم ہونا ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنی جماعت کو انگریز کی پناہ میں دیا تھا۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
"حالانکہ میں جانتاہوں کہ خدا تعالٰی نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت کے زیرِ سایہ ہمیں حاصل ہے یہ امن مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔ پھر میں خود اپنے آرام کا دشمن بنوں اگر اس سلطنت کے بارے میں کوئی باغیانہ منصوبہ دل میں مخفی رکھوں۔ اور جو لوگ مسلمانوں میں سے ایسے بد خیال، جہاد اور بغاوت دلوں میں مخفی رکھتے ہوں، میں ان کو سخت نادان اورظالم سمجھتا ہوں۔"
(تریاق القلوب ص ۲۸، روحانی خزائن ص۱۵۶، ج ۱۵)
امید ہےکہ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ جہاد کی مخالفت کسی دینی دلیل کی بنا پر نہیں صرف اور صرف انگریز کی پناہ حاصل کرنے کے لئےتھی۔ بعینہ یہی حال وحید الدین خان اور دوسرے مخالفین جہاد کا ہے۔ یہ سب لوگ کچھ دینی عبارتوں کا سہارا ضرور لیتے ہیں، بعض آیات و احادیث کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں۔ مگر یقین کریں کہ یہ لوگ کسی دینی جذبے یا دلیل کے تحت جہاد کے مخالف نہیں ہوتے۔ بلکہ جہاد کی مخالفت ان کی نوکری، ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے جو ان کے کافر آقاؤں نے ان کے ذمے لگائی ہے۔ یہ لوگ اپنی حفاظت چاہتے ہیں اور دنیا کا ڈھیروں مال اور بس۔ برطانیہ نے اس ٹولے کی سرپرستی کی مگرپھر بھی ابھی تک قادیانی دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے ربوہ نام سے ایک شہر بسایا مگر الحمد للہ اس کا نام تبدیل ہو گیا ہے اور مرزائیوں کے لیے بھولے بھالے لوگوں کو گمراہ کرنے کا ایک دروازہ بند ہو گیا۔ انہوں نے برطانیہ میں پناہ پکڑی اور افریقہ کی غربت کوقادیانیت کے لئے پل بنایا مگر اہلِ حق ہر جگہ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ قادیانیت کی عمر تھوڑی ہے اور اس باطل نے مٹنا ہے مگر مسلمانوں کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کوناپاک قادیانی وساوس سے پاک رکھیں اور جہاد کے ساتھ غیر مشروط محبت اور وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کردیں کہ ہم مرزا قادیانی پر بھی لعنت بھیجتے ہیں اور اس کے باطل نظریات پر بھی۔
والسلام
محمد مسعود ازھر
 

نبیل

تکنیکی معاون
قسیم، یہ فلسفہ جہاد کی وضاحت کی بجائے کوئی رد قادیانیت قسم کی تقریر لگ رہی تھی۔ اس کا کیا مقصد ہے؟ کیا اب آپ لوگوں کے مؤقف (اگر کوئی مؤقف ہے) سے اختلاف کرنے والا قادیانیت نواز قرار پائے گا؟
 

قسیم حیدر

محفلین
فی الوقت میں نے یہ کتاب صرف مطالعے کی غرض سے ٹائپ کی ہے۔اس لئے کہ لائبریری میں صرف منتظمین کی پسند ہی کی کتابیں نہیں ہونی چاہیئیں بلکہ ہر قسم کا مواد موجود ہونا چاہیے۔ تاکہ کسی قسم کا حوالہ دیتے وقت سہولت ہو۔ مولانا مسعود اظہر کے بہت سے نظریات ایسے ہیں جن سے مجھے ذاتی طور پر سخت اختلاف ہے۔ اگر آپ مندرجہ بالا موقف کو میری بجائے مسعود اظہر کا موقف قرار دیں تو زیادہ درست ہو گا۔ میں کوئی مولوی ہوں نہ جیش محمد سے میراکوئی تعلق ہے لیکن اگر ہم وسعت قلبی اور اعتدال پسندی کا درس دیتے ہیں تو اپنے مخالفین کو سننے کا حوصلہ ہم میں ہونا چاہیئے۔ مذہبی تنگ نظر مولوی اگر دوسرے کا موقف نہیں سنتے تو روشن خیال شدت پسند کیا کم ہیں۔ اس بات کو نبیل بھائی پر تنقید نہ سمجھا جائے۔ یہ میرے عمومی تاثرات ہیں۔ “فلسفہ جہاد“ کی وضاحت کے لیے سید مودودی کی کتاب “جہاد فی الاسلام“ کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ اس کے کاپی رائیٹ کے بارے مجھے میں معلومات نہیں ہیں۔ اگر کتاب مجھے مل گئی تو ان شاء اللہ “فلسفہ جہاد“ کی وضاحت کے لیے اسے برقیانے کی کوشش کروں گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قسیم حیدر نے کہا:
لائبریری میں صرف منتظمین کی پسند ہی کی کتابیں نہیں ہونی چاہیئیں

:?: :?:

کیا یہاں مراد اردو ڈیجیٹل لائبریری ہے؟

اگرہاں تو یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ ایک معیاری لائبریری کی بنیاد و تعمیر ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوتی ہے اور اردو ڈیجیٹل لائبریری کو ایک معیاری تشکیل دینا مقصود ہے۔

اسی ذیل میں تمام اراکین سے توقع کی جاتی ہے کہ اپنے اظہارِ خیال میں ذمہ دارانہ لہجہ اپنائیں گے۔

شکریہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
شگفتہ، آپ فکر نہ کریں۔ اس قسم کا مواد لائبریری کے زمرہ نہیں شامل ہوگا اور نہ ہی اس طرح کے مباحث وہاں کرنے دیے جائیں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قسیم حیدر نے کہا:
اگر ہم وسعت قلبی اور اعتدال پسندی کا درس دیتے ہیں تو اپنے مخالفین کو سننے کا حوصلہ ہم میں ہونا چاہیئے۔ مذہبی تنگ نظر مولوی اگر دوسرے کا موقف نہیں سنتے تو روشن خیال شدت پسند کیا کم ہیں۔ اس بات کو نبیل بھائی پر تنقید نہ سمجھا جائے۔ یہ میرے عمومی تاثرات ہیں۔[/
quote]
بالکل میرے دل کی بات کہہ دی۔ البتہ اس بات پہ اعتراض ہے کہ کہ “مذہب کا نام لینے والوں کو ہم تنگ نظر ہوتے ہیں۔“ نہ ہر مذہبی تنگ نظر ہوتا ہے اور نہ ہی ہر روشنی خیالی کا دعوی کرنے والا وسیع القلب۔
 

قسیم حیدر

محفلین
اچھا

اچھا بھائی مت شامل کرنا اسے ڈیجیٹل لائبریری میں۔ لیکن یہ تو بتا دیں کہ سید مودودی کے ترجمہ کو میں ڈیجیٹائز کرنا چاہوں تو کیا اس میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے یا نہیں اور اس پر پہلے کچھ کام ہوا ہے یا نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھا

قسیم حیدر نے کہا:
اچھا بھائی مت شامل کرنا اسے ڈیجیٹل لائبریری میں۔ لیکن یہ تو بتا دیں کہ سید مودودی کے ترجمہ کو میں ڈیجیٹائز کرنا چاہوں تو کیا اس میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے یا نہیں اور اس پر پہلے کچھ کام ہوا ہے یا نہیں۔
مذہب سے متعلق کتب کو شامل کرنے سے پہلے ہم لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ کس موضوع پر سب سے بہتر کتاب کون سی رہے گی

سید مودودی صاحب کی تفسیر پر ہمارا اتفاق ہے کہ اس کتاب کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ باقی تفصیلات باس صاحبہ (سیدہ شگفتہ صاحبہ) فراہم کر سکتی ہیں
 
جہاد ایک محکم اور قطعی فریضہ
از قلم


محمد مسعود ازھر


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قرآن مجید کی آیاتِ جہاد
چند دن پہلے بعض اکابر علماء کرام کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ وہاں مرادان کے دور تفسیر کا ذکر چھڑ گیا۔ بندہ نے بتایا کہ یکم محرم الحرام 1424 ھ سے 5 محرم تک "دورہ تفسیر آیات الجہاد" کے عنوان سے یہ دورہ منعقد ہوا تھا۔ الحمد للہ کئی ہزار افراد نے اس میں پورے ذوق و شوق سے شرکت فرمائی۔ دورہ کے اختتام پر آٹھ سو سے زائد طلبہ کو سند بھی جاری کی گئی۔ اس پانچ روزہ دورہ تفسیر میں اللہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم اور اس کے بے پایاں رحمت کے طفیل قرآن مجید کی چار سو چوراسی مدنی آیاتِ جہاد کا مکمل بیان ہوا۔ اور اگر سورۃ نحل کی آیت 110 کو بھی اکثر مفسرین کے قول کے مطابق مدنی مان لیا جائے توقرآن پاک کی کل آیات جہاد و قتال چار سو پچاسی 485ہو جاتی ہیں۔ مجلس میں موجود ایک عالم دین نے مشورہ عنایت فرمایا کہ اس دورے کا عنوان "آیات الجہاد" کی بجائے قرآن پاک کی کسی سورت کے نام پر رکھا جائے۔پھر اس سورۃ کے ضمن میں جملہ آیاتِ جہاد کو بیان کر دیا جائے۔فقیہ العصر، یادگار اسلاف حضرت مولانا عبدالستار زیدمجدھم نے یہ مشورہ سن کر ارشاد فرمایا کہ چونکہ آج کل زور و شور سے آیات جہاد کے خلاف مہم چل رہی ہے اس لیے "آیات الجہاد" کا عنوان ہی زیادہ مفید اور بہتر ہے۔ حضرت اقدس دامت برکاتہم کی تحسین و تصدیق سے دل کو بہت سکون نصیب ہوا۔
فجزاہ اللہ احسن الجزاء فی الدارین
اسی مجلس میں یہ تقاضا بھی سامنے آیا کہ ان آیات کی فہرست فورًا شائع کر دی جائےتاکہ علماء کرام اور عوام سب کی توجہ ادھر ہو جائے۔چونکہ بہت تیزی کے ساتھ یہود و نصارٰی او ر منافقین نے جہاد کے خلاف کام شروع کر دیا ہے اور مسلمان ان کے منفی الزامات سے متاثر ہو سکتے ہیں اس لئے جہاد کو قرآن پاک کے ذریعے اجاگر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کا عقیدہ جہاد کے بارے میں عقیدہ اور نظریہ پختہ ہو جائے۔اور انہیں کامل یقین ہو جائے کہ جہاد و قتال اللہ تعالی کا حکم ہے اور یہ حکم قرآن پاک کی سینکڑوں آیات میں موجود ہے۔اس مبارک مجلس سے پہلے بندہ کا ارادہ تھا کہ ان آیات جہاد و قتالکی مختصر تشریح لکھ کرتعلیم الجہاد جلد دوم کے طور پر انہیں شائع کیا جائے۔مگر بے ہنگم مشاغل کی کثرت اس کام کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو رہا ہے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس مبارک کام کی تکمیل کے لئے دعا فرما دیں۔ بندہ کی کئی کتابیں ابھی تشنہ تکمیل ہیں۔ تین کتابیں صرف نظر ثانی کے انتظار میں رکھی ہوئی ہیں جبکہ بعض کتابوں کا مواد ذہن میں بھرا ہوا ہے۔ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ عافیت کے ساتھ وہ تمام کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق مرحمت فرما دے جو امت مسلمہ کے لئے مفید اور میری آخرت کے لئےنفع مند ہوں۔
آیاتِ جہاد کی تکمیل کا کام معلوم نہیں کب مکمل ہو گا۔اس مجلس کے بعد یہ ارادہ ہوا کہ اس کالم میں آیاتِ جہاد کی فہرست و دیگر مختصر و ضروری چیزیں شائع کر دی جائیں تاکہ ایک امانت مسلمانوں تک پہنچ جائے اور انہیں پورے شرح صدر کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ جہاد و قتال کس قدر اہم اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ کی تالیف "تعلیم الجہاد" پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ اس کتاب کے چوتھے حصے میں بندہ نے قرآن پاک کی چار سو گیارہ آیاتِ جہاد کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ ترجمے کے ساتھ کہیں کہیں مختصر تشریح بھی عرض کی گئی ہے۔ چار سو گیارہ آیات کا یہ مجموعہ 1996 تہاڑ جیل دہلی میں مرتب کیا گیا تھا۔ وہاں بندہ کے پاس تفاسیرموجود نہیں تھیں اس لئے ظاہری طور پر جن آیات کا جہاد و قتال سے تعلق واضح نظر آیا انہیں اس مجموعہ میں شامل کر لیا گیا۔ پھر نظر ثانی کے بعد ان آیات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ تعداد چارسو سولہ تک جا پہنچی۔ حالیہ نظر بندی کے بعد جب اللہ تعالی نے مکمل آیاتِ جہاد کا دورہ تفسیر پڑھانے کی توفیق مرحمت فرمائی تو الحمدللہ میرے پاس اکثر مشہور و معتبر تفاسیر موجود تھیں۔ ان تفاسیر کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ آیاتِ جہاد کی تعداد چار سو سولہ سے کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ اب تک چار سو چوراسی آیات کا انتخاب کیا جاچکا ہے۔ دورہ تفسیر کے دوران علماء کرام کی خدمت میں یہ بات بھی عرض کی گئی تھی کہ 484 آیات کی یہ تعداد حتمی نہیں ہے بلکہ اگر آپ ان آیات پر غور فرمائیں جن میں منافقین کے احوال درج ہیں، یا جن میں کفار کے ساتھ عدم ولاء اور براء ۃ کا حکم ہے تو مزید کئی آیات کا تعلق فریضہ جہاد سے نکل سکتا ہے۔
علماء کرام اگر اس موضوع پر محنت فرمائیں گے تو ان شاء اللہ اسلام کا یہ اہم فریضہ پوری طرح سے امت کے سامنے واضح ہو جائے گا اور سینکڑوں قرآنی آیات کی موجودگی میں کوئی بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دے سکے گا اور نہ ہی کسی مسلمان کو اس فریضے کے انکار کی جرأت ہو گی اور نہ ہی کوئی کلمہ گو اس کی مخالفت کا گناہ کرے گا۔ الحمدللہ مردان کے دورہ تفسیر کی کیسٹیں ہزاروں کی تعداد میں پھیل چکی ہیں اور دورہ پڑھنے والے کئی علماء کرام نے اطلاع دی ہےکہ وہ بھی الحمدللہ مسلمانوں کو آیاتِ جہاد کا باقاعدگی سے درس دے رہےہیں اور طلبہ کو جہادی آیات کی فہرستیں لکھوا رہے ہیں۔ ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہےکہ کئی جید علماء کرام اس دورہ کی کیسٹوں کو لکھ رہے ہیں اور وہ اس موضوع پر مستقل تصانیف کا ارادہ رکھتے ہیں۔
الحمد للہ و ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
الحمد للہ الذی بنعمتۃ تتم الصالحات
آئیے اب ایک نظر قرآن پاک کی آیاتِ جہاد پر ڈالتے ہیں۔ مدنی سورتوں میں ایک جائزے کے مطابق کل آیاتِ جہاد 484 ہیں۔
وہ سورتیں جن میں آیاتِ جہاد موجود ہیں

البقرۃ
آل عمران
النساء
المائدۃ
الانفال
التوبۃ
الحج
النور
الاحزاب
محمد (القتال)
الفتح
الحجرات
الحدید
المجادلہ
الحشر
الممتحنۃ
الصف
التحریم
العادیات
النصر
(یعنی قرآن پاک کی بیس سورتوں میں اس فریضے کا مفصل بیان ملتا ہے)

وہ سورتیں جن میں جہا د کے متعلق اشارات ملتے ہیں

البقرۃ۔۔۔۔۔آل عمران۔۔۔۔۔۔۔المائدۃ

قرآن پا ک میں عمومی طور پر جہاد کا موضوع ان دس عنوانات کے تحت ملتا ہے۔

1۔ اجازت و فرضیت جہاد 2۔ احکام جہاد 3۔ قصص جہاد 4۔جہاد اور مجاہدین کے فضائل نیز شہداء کرام کےفضائل 5۔ اصول و قواعدجنگ 6۔جان و مال سے جہاد کی ترغیبات 7۔ترکِ جہاد پر وعیدیں 8۔منافقین کی جہاد سے پہلو تہی 9۔جہاد کی تیاری 10۔جہاد میں مال خرچ کرنے کے الگ فضائل

وہ غزوات و سرایاجن کا تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے۔

1۔ سریہ ابن جحش رضی اللہ عنہ 2۔ غزوہ بدر 3۔غزوہ بنی قینقاع 4۔ غزوہ احد 5۔غزوہ حمراء الاسد 6۔غزوہ بدر (صغرٰی) 7۔ غزوہ خندق (احزاب) 8۔غزوہ بنی قریظہ 9۔غزوہ حدیبیہ 10۔ فتح مکہ 11۔غزوہ خیبر 12۔غزوہ تبوک 13۔ غزوہ حنین 14۔غزوہ طائف 15۔غزوہ بنی نضیر
یہ پندرہ معرکے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قتال اسلامی فریضہ اور عبادت ہے۔اور اللہ تعالی کے راستے میں لڑئی اور جنگ کرنا انبیاء علیہم السلام کا کام ہے۔ نیز یہ غزوات جہاد کے شرعی معنی کو بھی متعین کرتے ہیں۔
جہاد کی شرائط
1۔ مسلمان ہونا 2۔مرد ہونا 3۔ آزاد ہونا 4۔عاقل ہونا 5۔ بالغ ہونا 6۔استطاعت کا ہونا (معذور پر فرض نہیں)
(فرضِ عین ہونے کی صورت میں احکام مختلف ہیں اور جہاد چار صورتوں میں فرضِ عین ہو جاتا ہے)

جہاد کے اہداف
قرآن پاک نے جہاد کے تین اہداف بیان فرمائے ہیں۔
1۔ اسلام کی دعوت محفوظ و غالب ہو جائے۔
2۔ مستضعفین کی نصرت، یعنی مغلوب اور کمزور مسلمانوں کی مدد و حفاظت
3۔رد العدوان، یعنی اس طاقت کو توڑنا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرکشی کر سکتی ہو۔

جہاد کی فرضیت کے دلائل
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں قتال کی فرضیت کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔
1۔ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ( )
2۔ سورۃ التوبۃ آیت نمبر 5،29،36،38،41
3۔سورۃ الحج آیت نمبر40
4۔ سورۃ محمد آیت نمبر 4
اب ایک ایک سورت پر مختصرًا نظر ڈالتے ہیں۔

البقرۃ:
سورۃ البقرۃ مدنی سورت ہے۔ اس میں کل دو سو چھیاسی آیات ہیں۔ اس سورت میں آیاتِ جہاد33 ہیں۔ اس میں جہاد کے متعلق 4 اہم مباحث ہیں۔
1۔ فرضیت جہاد
2۔حکمتِ جہاد
3۔اہمیت اطاعت امیر
4۔فدائی حملہ
اس سورۃ مبارکہ میں سریۃ ابن جحش رضی اللہ عنہ، صلح حدیبیہ اورشہداء بدر کا تذکرہ ہے۔ وہ 33 آیات جن میں جہاد و قتال کا بیان ہے یہ ہیں۔109،114،153،154،155،156،157177.190.191.192.193.194.195207.216.217.218.239.243.244.245.246.247.248.249.250.251.252.261.262.273.286
نیز سورۃ البقرۃ کی درج ذیل پانچ آیات میں جہاد کی طرف اشارات موجود ہیں:

36،58،59،89،214

آل عمران:
آل عمران مدنی سورت ہے ۔ اس میں کل دو سو آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد57ہے۔ ان آیات میں جہاد کے کئی مباحث کا بیان ہے۔خصوصًا ان تین موضوعات کا مفصل بیان ملتاہے۔
1۔ کافروں سے تعلقات کی نوعیت
2۔شکست سہنے اور پھر سنبھلنے کا طریقہ
3۔ رباط
اس سورۃ میں غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کاتذکرہ ملتاہے اور غزوہ احد کے ضمن میں غزوہ بدرکا تذکرہ بھی موجود ہے۔سورۃ آل عمران کی 57 آیاتِ جہاد کی فہرست یہ ہے:
12٫13٫28٫
110 تا 112،
118 تا 129
139 تا 175
195، 200
نیز سورۃ آل عمران کی درج ذیل چودہ آیات میں جہاد کی طرف اشارات ملتےہیں:
19،56،57،81،100،101،102،103،104،130،131،132،133،134

النساء:
النساء مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل ایک سو چھہتر آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں 41 آیاتِ جہاد ہیں۔ ان آیات میں جہاد کے متعلق یہ پانچ بحثیں خصوصی طور پر ملتی ہیں 1۔ مظلوموں کے لئے قتال 2۔مجاہدین کی قاعدین (گھر بیٹھنے والوں) پر فضیلت 3۔ بے بسی کو مجبوری بتا کر جہاد سے رکنے والوں کا انجام 4۔ نفاق اور ترکِ جہاد کی اہم وجہ، عزت کا شوق 5۔کافروں کی جنگ اور یلغار روکنے کا الہی طریقہ
اس سورۃ میں غزوہ حمراء الاسد یا بدر صغرٰی کا تذکرہ موجود ہے۔ سورۃ نساء کی 41آیاتِ جہاد درج ذیل ہیں:
69 تا 84، 88 تا 91، 94 تا 104، 138تا146، 147

المائدۃ:
المائدۃ مدنی سورت ہے۔ اس میں کل ایک سو بیس آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد 20 ہے۔ ان آیات میں خصوصی طور پر دو اہم بحثیں ہیں۔
1۔ حزب اللہ کون؟
2۔دشمنوں کے درجات
اس سورت میں فتح مکہ کے دن کاتذکرہ ہے۔ سورۃ المائدۃ کی 20 آیات جہاد یہ ہیں:
2،3
تا 13، 20تا 26، 35، 51تا56، 82 11
نیز سورۃ المائدۃ کی درج ذیل آٹھ آیات میں جہاد کی طرف اشارات موجود ہیں
57،58،59،60،61،62،63،67

الانفال:
الانفال مدنی سورت ہے ۔ اس میں کل پچھتر آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد75 ہے۔ ان آیات میں دو اہم مسئلے بیان کیے گئےہیں۔
1۔ اقدامی جہاد
2۔غنیمت کی حِلّت
اس بابرکت سورت میں غزوہ بدر کا مفصل بیان ملتا ہے۔ اس سورۃ کا دوسرا نام سورۃ البدر ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں جہاد کے 20 فوائد، مجاہدین کے 25 اوصاف اور 15 جنگی قوانین بیان کیے گئےہیں۔

20 فوائد جہاد
1۔ انسان کو حق کا رستہ عطا ہوتاہے۔ آیت 5
2۔اسلام کو ایسا غلبہ عطا ہوتا ہے جس کو کافر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ آیت 8
3۔انسانوں کی فرشتوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ آیت9،10
4۔اللہ تعالی خرق عادت چیزوں سے نصرت فرماتے ہیں۔آیت 11
5۔ اللہ تعالی کی محبت اور قرب نصیب ہوتا ہے۔ آیت17
6۔انسان کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ آیت24
7۔ جہاد کی برکت سے اللہ تعالی پاکیزہ روزی اور ٹھکانہ دیتے ہیں۔ آیت 26، 76
8۔اللہ تعالی گناہ معاف فرماتے ہیں۔آیت29
9۔اللہ تعالی مجاہد کو قوت فیصلہ اور عقل دیتے ہیں۔ آیت 29
10۔ کافروں کو شدید مالی نقصان ہوتا ہے۔(دیوالیہ ہو جاتےہیں) آیت 36
11۔ حق اور باطل الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ آیت37
12۔کافروں کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ آیت39
13۔جہاد کی وجہ سے مالِ غنیمت ملتاہے۔ آیت 41
14۔ کافروں پر حجت تمام ہو جاتی ہے آیت42
15۔مسلمانوںکو اللہ کی طرف سے خاص خاص بشارتیں نصیب ہوتی ہیں۔آیت43
16۔ترقی اور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔آیت45
17۔کافروں پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ جاتا ہے۔آیت 60
18۔ مسلمانوں میں اتحاد اور جوڑ پیدا ہوتاہے۔ آیت65
19۔اللہ تعالی قوت کو بڑھا دیتے ہیں۔ آیت65
20۔ایمان کامل ہو جاتاہے۔آیت 74

مجاہدین کے 25 اوصاف
(1) تقویٰ آیت 1
(2) اصلاح ذات البین آیت 1
(3) اللہ و رسول کی اطاعت آیت 1
(4) اللہ کا خوف آیت 2
(5) قرآن مجید سے تعلق آیت 2
(6) توکل آیت 2
(7) نماز قائم کریں آیت 3
(8)انفاق فی سبیل اللہ آیت 3
9) استغاثہ من اللہ آیت 9
10) ثابت قدمی آیت 11
11) دعوت جہاد پر فورًا لبیک کہیں۔ آیت15
12) اطاعت امیر آیت 20
13) شکر گزاری آیت 26
14) نہی عن المنکر آیت 27
15) مال و اولاد قربان کریں آیت 28
16) کافروں کی طاقت توڑنے کا جنون سر پر سوار رہے آیت 39
17) اجتماعی اموال کی شرعی تقسیم آیت 41
1(18)نزاع سے بچیں آیت 46
19) صبر کریں آیت 46
20) تکبر اور ریا سے بچیں آیت 47
21) مسلسل قوت و تربیت کو بڑھاتے رہیں آیت 60
22) حالات پر کڑی نظر رکھیں آیت 61، 62
23) دعوت جہاد آیت 65
24) حب دنیا سے بچیں آیت 67
25) قومیت، وطنیت، لسانیت کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی رشتے کو ملحوظ رکھیں آیت 72
15 قوانین جنگ
1. ۔ ڈٹ کے لڑنا ہے پیٹھ نہیں پھیرنی۔ آیت 15
2. جنگ کے دوران اللہ اور رسول کی اطاعت آیت20
3. اطاعت امیر آیت 24
4. جب کوئی جنگی تدبیر دل میں آ جائے اس پر فورًا عمل کریں دیر نہ لگائیں آیت 24
5. اموال میں خیانت نہ کریں کیونکہ یہ باعث جبن ہے آیت27
6. تنافس کریں
7. مسلسل اور کثرت سے ذکر کریں (الفاظ کا اثر ہوتا ہے) آیت 45
8. لشکر متحد رکھنا چاہیے آیت 46
9. کافروں کو ہلکی مار دے کر پیچھے نہ ہٹ آؤ آیت57
10. مسلسل دشمن کو رعب میں رکھو آیت60
11. ایک جماعت ایسی رکھو جومسلسل جہاد پر ابھارتی رہے آیت 65
12. جب دشمن ہاتھ آئیں تو پہلے خوب خونریزی کرو پھر قیدی بناؤ۔ آیت 67
13. جن کو قیدی بنا لو ان کو اندر اندر اپنے ساتھ ملا کر انہیں گھر کا بھیدی بنا لو آیت70
14. جب کوئی مظلوم مدد کے لئے پکارے تو دیر مت لگاؤ (یہ اللہ کی مدد کا وقت ہوتا ہے) آیت72
15. جب کافروں کا آپس میں اتحاد ہو تو تم ان کے خلاف اتحاد کر لو آیت 73

التوبہ:
التوبہ مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل ایک سوانتیس آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں آیات جہاد 92 ہیں۔ ان آیات میں درج ذیل اہم مباحث کا بیان ہے:
1. قتال کے سات فوائد اور حکمتیں
2. جہاد کی افضلیت
3. اہل کتاب سے جہاد اور اس کی وجہ
4. منافقین کی جہاد سے پہلو تہی اور اس کے بہانے
اس سورت میں فتح مکہ، غزوہ حنین اور غزوہ تبوک کا ذکر ملتا ہے۔ سورۃ توبہ کی 92 آیات جہا د کی فہرست یہ ہے۔1 تا 60۔ 73، 74، 81 تا 96۔ 106 تا112۔ 117 تا123
الحج:
الحج مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل آیتیں ایک سو اٹھتر(178) ہیں۔ جبکہ آیات جہاد کی تعداد 17 ہے۔ ان آیات میں دو اہم بحثیں ہیں۔
1۔ جہاد کی حکمت
2۔ اجازت جہاد برائے مظلومین
اس سورۃ میں ایک تفسیری قول کے مطابق غزوہ بدر کے مجاہدین کا تذکرہ ملتا ہے۔ سورۃ الحج کی 17 آیات جہاد درج ذیل ہیں:
19 تا 24۔ 38 تا 41۔ 55۔ 58 تا 62۔ 78
النور:
النور مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل چونسٹھ آیتیں ہیں۔ اس سورت میں آیات جہاد 4 ہیں۔ اور اہم موضوعات دو ہیں:
1۔ خلافت
2۔ اطاعت امیر
ان چار آیات کے نمبر یہ ہیں۔ 53۔54۔54۔62
الاحزاب:
الاحزاب مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل تہتر آیتیں ہیں۔ جبکہ آیات جہاد کی تعداد 22 ہے۔ اہم موضوعات درج ذیل ہیں۔
1۔غزوہ احزاب کا مفصل تذکرہ جس میں بہت سارے مسائل جہاد کا تذکرہ ہے۔
2۔ غزوہ بنی قریظہ اور نصرت خداوندی
3۔ گستاخ رسول کی سزا
سورۃ احزاب کی 22آیات جہاد یہ ہیں۔ 9 تا 27۔60 تا 62
محمد:
محمد مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل آیتیں اڑتیس ہیں۔ جبکہ آیات جہاد 32 ہیں۔ اہم مباحث یہ ہیں۔
1۔ قیدی کے احکام
2۔منافقین کی جہاد سے دوری
3۔ جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب
سورۃ محمد کی 32 آیات جہاد کی فہرست درج ذیل ہے:
1 تا 13۔ 20 تا 38
الفتح:
الفتح مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل انتیس آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی تمام 29 آیات میں جہاد کا بیان ہے۔ اس میں اہم جہادی بحث "بیعت علی الجہاد" کی ہے۔ جبکہ غزوات میں سے صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر اور فتح مکہ کا تذکرہ ہے۔ فہرست 1 تا 29
الحجرات:
الحجرات مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل اٹھارہ آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں آیات جہاد 5 ہیں۔ اہم مباحث دو ہیں
1۔ دشمن کے بارے میں تحقیق
2۔ مسلمان مقاتلین کی باہم صلح
پانچ آیات کی فہرست درج ذیل ہے۔
6۔ 9۔ 10۔14۔ 15
الحدید:
الحدید مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد انتیس (29) جبکہ آیات جہاد 4 ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں فتح مکہ یا حدیبیہ کا تذکرہ ہے۔4 آیات جہاد کی فہرست یہ ہے۔ 10۔11۔19۔25
المجادلہ:
المجادلہ مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد بائیس جبکہ جہادی آیات 3 ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں "حزب اللہ" کی تعیین کی گئی ہے۔ تین آیات جہاد یہ ہیں۔ 20۔ 21۔ 22
الحشر:
الحشر مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد 24 ہے جن میں سے 17 آیات میں جہاد کا بیان ہے۔ اہم مباحث دو ہیں۔
1۔ کفار کس طرح لڑتے ہیں۔
2۔ مال فئے کے احکامات
اس سورۃ مبارکہ میں غزوہ بنی نضیر اور اشارتًا غزوہ بنی قینقاع کا تذکرہ ملتا ہے۔ 17 آیات جہاد کی فہرست یہ ہے۔ 1 تا 17
الممتحنۃ:
الممتحنۃ مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد تیرہ ہے۔ جبکہ آیات جہاد بارہ ہیں۔ اس سورت میں خصوصی طور پر جاسوسی کے احکا مات کا تذکرہ ملتاہے۔ نیز بعض دیگر جنگی قوانین کا بیان بھی ہے۔ سورۃ میں فتح مکہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ 12 آیات جہاد کی فہرست یہ ہے:
1 تا 11۔ 13
الصف:
الصف مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد چودہ ہے۔ جبکہ آیات جہاد11 ہیں۔ اس سورۃ میں جہادی صف بندی اور مجاہدین کے اتحاد کی فضیلت کا بیان ہے۔ نیز جہاد کو ایک کامیاب تجارت قرار دیا گیا ہے۔ فہرست درج ذیل ہے:
1 تا 4۔ 8 تا 14
التحریم:
التحریم مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد بارہ ہے۔ جبکہ ایک آیت میں جہاد کا بیان ہے۔ اس سورت میں کفار و منافقین سے جہاد کا حکم ہے۔ یہ حکم آیت نمبر 9 میں ہے۔
العادیات:
العادیات مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد گیارہ جبکہ آیات جہاد 6 ہیں۔ اس سورت میں جہادی گھوڑوں کا بیان ہے۔ فہرست درج ذیل ہے:
1 تا 6
النصر:
النصر مدنی سورۃ ہے۔ آیات کی تعداد تین ہے۔ آیات جہاد 3 ہیں۔ اس سورت میں فتح کے آداب کا بیان ہے۔ فہرست یہ ہے:
1 تا 3۔
اب ایک نظر مجموعی فہرست پر ڈالئے
سورت کا نام آیات جہاد کی تعداد
البقرۃ 33
آل عمران 57
النساء 41
المائدۃ 20
الانفال 75
البراءۃ 92
الحج 17
النور 4
الاحزاب 22
محمد 32
الفتح 29
الحجرات 5
الحدید 4
المجادلہ 3
الحشر 17
الممتحنۃ 12
الصف 11
التحریم 1
العادیات 6
النصر 3
کل آیات جہاد 484
اور اگر سورۃ نحل کی آیت 110 شامل کی جائے تو کل آیات جہاد 485 ہیں۔
چند ضروری گزارشات:
آیاتِ جہاد کی فہرست آپ نے پڑھ لی۔ اب اس سلسلے میں چند اہم گزارشات پیش خدمت ہیں:
1. وہ خواتین و حضرات جن کے پاس "تعلیم الجہاد" کے پرانے نسخے ہیں وہ اپنے قلم سے ان نسخوں میں درج آیات جہاد کی فہرست درست فرما لیں۔ یہ مضمون ان شاء اللہ ان کی رہنمائی کے لیے کافی ہوگا۔
2. وہ خواتین و حضرات جن کے دل میں یہ مضمون پڑھ کر جہاد فی سبیل اللہ کو سمجھنے کی امنگ پیدا ہو وہ اس مضمون میں پیش کی گئی فہرست کو سامنے رکھ کر تفسیر عثمانی، تفسیر " بیان القرآن"(حضرت تھانوی رحمہ اللہ)، تفسیر " معارف القرآن"(حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ) میں ان آیات کا ترجمہ اور تشریح ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ ایک باران آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد انہیں جہاد کے بارے میں کسی طرح کا کوئی خلجان باقی نہیں رہے گا۔ جہاد کے اس مبارک فریضے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون گرا اور حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جسموں کے ٹکڑے ہوئے۔ کیا ہمارا اتنا بھی فرض نہیں بنتا کہ ہم صرف چند گھنٹے خرچ کر کے آیات جہاد کو پڑھ لیں۔
3. علماء کرام سے گزارش ہے کہ اگر انہیں بعض آیات کے جہاد کے ساتھ تعلق میں کوئی شبہ ہو تو معتمد اور متداول تفاسیر کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں۔ امید ہےکہ موافق تفسیری اقوال تک آپ کی رسائی ہو جائے گی۔ اگر مطالعے کے باوجود کوئی اشکال باقی رہے یا کوئی غلطی سامنے آئے تو بندہ کو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ غلطی کی اصلاح کی جا سکے۔
4. کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر دینی خدمات سر انجام دینے والے احباب اس مضمون میں درج تمام تفاصیل اور جہادی آیات کی فہرست کسی بھی ویب سائٹ پر دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ مفید طریقہ کار یہ ہےکہ ہر ایک یا دو دن بعد چند آیات کو نمایاں کر کے لکھا جائے اور ان آیات کا اردو اور انگریزی ترجمہ کسی مستند تفسیر سے لکھا جائے۔ زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ، حضرت تھانوی رحمہ اللہ، حضرت مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمے دیئے جائیں۔ نیز آیات کی تشریح میں فی الحال تفسیر عثمانی کے فوائد کافی ہیں۔
5. وہ مسلمان جو اب تک جہاد و قتال کے فریضے کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں اگر یہ تمام قرآنی تفاصیل پڑھ کر اپنے غلط نظریئے یا طرزِ عمل سے توبہ کرنا چاہیں تو یہ ان کے لئے بڑی سعادت کی بات ہو گی۔ مگر اس توبہ کی مزید پختگی اور قبولیت کے لئے انہیں چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں تک اس مضبوط، یقینی اور قطعی دعوت کو پہنچائیں۔
والسلام
محمد مسعود ازھر

قادیانیت کا خلاصہ "انکارِ جہاد"


اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور یہ امت آخری امت ہے۔ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا، وہ آخری زمانے میں امتی بن کر اتریں گے، اپنی باقی زندگی گزاریں گے، دجال کو قتل کریں گے، زمین پر امن قائم فرمائیں گے اور وفات پاکر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔
حضرت امام مہدی آخری زمانے میں عام انسانوں کی طرح پیدا ہوں گے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہوں گے اور وہ خود کو چھپائیں گے مگر پہچان لیے جائیں گے، مسلمان انہیں اپنا امام و امیر بنائیں گے اور ان کے ساتھ مل کر خوب خوب جہاد کریں گے۔جہاد اسلام کا قطعی فریضہ اور قرآن پاک کا ایک محکم حکم ہے۔جہاد مسلمانوں پر نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی طرح فرض ہے۔جہاد کا منکر کافر ہے اور اس بارے میں کج بحثی کرنے والاگمراہ ہے۔جہاد قیامت تک جاری و ساری رہے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کی ایک حق جماعت ہر زمانے میں جہاد کرتی رہے گی اور کسی زمانے میں ایک گھڑی کے لیے بھی جہاد موقوف یاملتوی نہیں ہو گا۔اور جہاد سے مراد قتال فی سبیل اللہ ہے، پھر قتال فی سبیل اللہ کی معاونت میں جو کا م ہو گا وہ بھی جہاد ہے خواہ زبان سے ہو یا قلم وغیرہ سے۔۔۔۔۔۔
یہ چند اسلام عقائد و نظریات ہیں جن کا ثبوت قرآن و سنت سے ہے۔ ماضی قریب کے ایک کذاب و دجال مرزا قادیانی ملعون و مردود نے ان عقائد کا انکار کیا اور مسلمانوں کا ان عظیم نعمتوں سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ الحمد للہ امت مسلمہ کا اکثر حصہ اس خوفناک کینسر سے بچ گیا جبکہ چند محروم بد نصیب لوگ اپنے جرائم کی پاداش میں اس ناپاک کھائی میں گر گئے۔ان میں سے جو زندہ ہیں ان کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، کاش وہ لوٹ آئیں۔۔۔۔ کاش وہ سمجھ جائیں۔
خود سوچیں اگر نبوت کا دروازہ کھلا رہتا تو یہ امت کس طرح آگے بڑھتی، کس طرح خیرِ امت کہلائے گی۔ ہر دوسرے دن نئے نبی کا اعلان، پھر اس کے سچا یا جھوٹا ہونے کی تفتیش و تحقیق، پھر اس کی اپنی باتیں۔۔۔پھر کوئی نیا نبی۔ تب قوموں اور قبیلوں میں مقابلہ ہو گا اور ہر قوم اپنا نبی لائے گی، تب ایک عالمگیر امت کہاں وجود پائے گی۔اللہ کی قسم! ختم نبوت ایک ایسی نعمت ہے جس نے ہم مسلمانوں کو لاکھوں جھنجھٹوں سے بچا کر کام کے لئے آزاد کر دیا ہے۔ پھر سوچئے کہ مرزا قادیانی یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے کرتے اتنا اوپر چلا گیا کہ نبی بن گیا۔ اگر ترقی کا یہ دروازہ کھلا رہا تو پھر کون کون یہ دعوٰی کرے گا اس کی حد متعین نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی مسلمان عبادت اس لیے کرتا ہے تا کہ بندگی اور غلامی کا حق ادا کرے۔ اگر ہر عابد کو بندگی کے علاوہ کسی اور مقام کی توقع دلا دی گئی توشیطان ہر کسی کو پٹخے گا اور تب ممکن ہےکہ امت میں نبی زیادہ ہوں اور امتی کم۔
حضرت امام مہدی کی ولادت و امامت اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول بھی مسلمانوں کے لئے بڑی نعمت اور سعادت ہیں۔ ان دونوں حضرات کی برکت سے اسلام آخری زمانے میں عروج پائے گا۔ مسلمان ایک جھنڈے تلے متحد ہوں گے۔ جہاد کا ہر طرف دور دورہ ہو گا۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو حالتِ ایمان میں جہاد کی توفیق اور شہادت کی سعادت ملے گی، دنیا سے کفر کی طاقت کا خاتمہ ہو جائے گا، صلیب ٹوٹ جائے گی، خنزیر قتل کر دیئے جائیں گے اور زمین پر اسلام کا پاکیزہ نظام قائم ہو گا۔ مرزا قادیانی ملعون جوبقول خودانگریز کا خود کاشتہ پودا تھا اس نے اعلان کر دیا کہ وہی مسیح موعود ہے اور وہی مہدی آخر الزمان ہے۔ اگر خدانخواستہ، خدا نخواستہ یہ ناپاک دعوٰی مان لیا جائے تو امت مسلمہ کے لیے کس قدر محرومی کی بات ہے کہ اس امت کا وہ امام جن کے انتظار میں لوگ صدیوں سے آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں جب آیا تو ملکہ برطانیہ کی وفاداری کے گیت گاتا رہا، مسلمانوں کو انگریزی غلامی کے تندور میں جھونکتا رہا، غلام پیدا ہوا اور بحالت غلامی مر گیا۔جس نے ایک دن اسلامی عظمت و حکومت کا سورج طلوع ہوتے نہیں دیکھا۔ اتنی عظیم امت کے لیے اتنی بڑی بد نصیبی۔۔۔۔۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
انگریز چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے دل سے عزت و عظمت کے خواب نکال دے، ان کے دلوں سے جذبہ جہاد نچوڑ لے، ان کے دماغوں سے شوق شہادت کھرچ لے اور ان کے ارمانوں سے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کا سودا مٹا دے۔ بس اسی کام کے لیے مرزا قادیانی کو لایا گیا اور اس سے طرح طرح کے دعوے کرائے گئے۔ زیادہ دعوے کرنے کا مقصد مسلمانوں کو ان علمی بحثوں میں الجھانا تھا جن سے مسلمانوں کی اکثریت دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ناواقف ہے۔ قادیانی گروپ کا اصل مقصد انگریزی اقتدار کا تحفظ اور مسلمانوں کو اس غلامی پر مطمئن رکھنا تھا۔ اور یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا تھا جب مرزا قادیانی جہاد کو مشکوک بنا دے اور ان عظیم شخصیات کو جن کے حوالے سے مسلمانوں کو جہاد یاد رہتا ہے بدنام کر دے۔ چنانچہ مرزا ملعون نے جہاد کا برملا انکار کیا، مجاہدین کو خوب برا بھلا کہا اور جہاد کے منسوخ یا ملتوی ہونے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف اس نے مستقبل کی اہم جہادی شخصیتوں حضرت عیسی علیہ السلام اور امام مہدی کو خوب بدنام کیا اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت پر ان مبارک ناموں کی تختیاں چپکا کر مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ حال تو درکنار مستقبل میں بھی جہاد کا خیال چھوڑ دو کیونکہ زمانے کا مہدی اور مسیح خود انگریز کی کاسہ لیسی کر رہا ہے اور ملکہ برطانیہ کی حکومت کو خدا کی دَین بتا رہا ہے۔ ان تمام باتوں پر اگر باریکی سے غور کیا جائے تو مرزائیت کا خلاصہ "انکار جہاد" نکلے گا کیونکہ مرزا کی تمام باتوں، کوششوں اور سازشوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان جہاد چھوڑ دیں، جہاد کا خیال دل سے نکال دیں اور جہاد کے معنی بدل دیں۔ پھر اسی نظریئے کے ذیل میں مرزا اور اس کی پارٹی نے کوشش کی کہ کسی طرح لوگوں کی نظر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام (نعوذ باللہ) مرزا قادیانی سے کم کر کے دکھایا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک قتال فی سبیل اللہ کے جاری رہنے کا اعلان فرمایا ہے۔ مسلمان نبی اکرم ﷺ سے سچی عقیدت و محبت رکھتے ہیں اس لیے انہیں اس اعلان پر پختہ یقین ہے۔ چنانچہ ہر زمانے میں جو لوگ بھی جہاد کے لیے اٹھے، مسلمانوں نے انہیں حق پر سمجھ کر ان کی نصرت کی۔ دوسری طرف مرزا قادیانی ملعون نے جہاد کی منسوخی کا اعلان کیا۔۔ اب اس اعلان کی وقعت تبھی لوگوں کے دل میں آ سکتی تھی جب وہ مرزا قادیانی کو (نعوذ باللہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل سمجھیں۔ اشعارو عبارات کی حد تک انہوں نے اس کی کوشش بھی کی مگر نظریاتی طور پر انہوں نے ایک اور داؤ کھیلا اور وہ یہ کہ جہاد کی دو قسمیں گھڑ لیں ایک تلوار کا دوسرا قلم کا۔ پھر یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ نعوذ باللہ قلم کا جہاد جہادِ کبیر اور تلوار کا جہاد جہادِ صغیر ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیے:
تاریخی قومی دستاویز 1970 صفحہ نمبر 190 مرزا ناصر (مرزا قادیانی کا پوتا) کہتا ہے " تلوار کا جہاد منسوخ ہے۔ تلوار کا جہاد تو جہادِ صغیر ہے قلم کا جہاد جہادِ کبیر ہے"
دیکھیئے! بلی تھیلے سے باہر آ گئی کہ مرزا قادیانی ملعون تو پڑھا لکھا تھا۔ اس نے اپنے منحوس قلم سے اٹھاسی کتابیں لکھیں۔ جب کہ سید الکونین حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وسلم اُمِّی تھے آپ نہیں لکھتے تھے۔ تو نعوذ باللہ قادیانی ملعون افصل ہوا کیونکہ اس نے قلم نے جہادِ کبیر(بڑا جہاد) کیا، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار سے جہادِ صغیر ( چھوٹا جہاد) کیا۔ علمی اعتبار سے مرزا کی یہ بات بالکل بے وزن اور بودی ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا امّی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور معجزہ ہے۔ اور تلوار کا جہاد جو نبی اکرم نے کیا وہ بڑا جہاد ہے کیونکہ ساری امت مل کر اس جہاد کی ایک گھڑی کی قیمت ادا نہیں کر سکتی۔ اور آپ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کا تذکرہ قرآن پاک نے کیا ہے اور قرآن پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو تلوار کے ساتھ جہاد کا حکم دیا ہے۔اللہ کا حکم اور قرآن کا حکم کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ پھر جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ تو قرآن پاک کا موضوع ہے اور قرآن پاک میں اس عنوان کی سینکڑوں آیات موجود ہیں۔ یہ تو مرزا ملعون کا ناپاک وسوسہ ہے کہ یہ جہاد چھوٹا جہاد ہے ورنہ قرآن پاک کو پڑھ لیجیئے، ہوش خود بخود ٹھکانے آ جائیں گے کہ ہم جس چیز کو چھوٹا کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کس قدر اونچا مقام ہے۔ مرزا قادیانی ملعون نے جہاد کے خلاف بہت کچھ لکھا اور پھر اپنے ان ظالمانہ وسوسوں کو پوری امت مسلمہ میں پھیلانے کی کوشش کی۔چنانچہ وہ لکھتا ہے:
" میری عمر کا اکثر حصہ سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک، عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہےکہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں"
(تریاق القلوب، ص 27،28 مندرجہ روحانی خزائن ص155 ج15)
دیکھا آپ نے مرزا اپنے کارناموں کا اعتراف کر رہا ہے۔
1۔ جہاد کے خلاف کتابیں اور اشتہارات لکھے ہیں۔
2۔ انہیں دوسرے ملکوں میں پھیلایا ہے۔
3۔ جہاد کو ماننا احمقوں کا کام ہے۔
4۔ جہاد کے مسائل جوش دلاتے ہیں ( معلوم ہوا کہ جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ کی مخالفت ہو رہی ہے)
5۔ یہ سارے کام سلطنتِ برطانیہ کو بچانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
مرزا ملعون خود بھی اپنی بے برکت و ناپاک زندگی جی کر مر گیا، سلطنتِ برطانیہ بھی نہ بچ سکی بلکہ ایک بے نور ٹھنڈے علاقے تک محدود ہو گئی مگر مرزا کی ناپاک کوششوں سے ایک طبقہ اسلام کی مقدس شاہراہ سے گمراہ ہو کر مرتد ہو گیا۔ جبکہ دوسری طرف مرزا قادیانی کے جہاد کے خلاف پھیلائے جانے والے پچاس الماریوں کے برابر وساوس مسلمانوں میں اس بری طرح پھیل گئے کہ وہ لوگ جنہیں کبھی آدھے منٹ کے کے لیے محاذِ جنگ کی سعادت نصیب نہیں ہوئی اپنے گھروں میں بیٹھ کر دعوٰی کر رہے ہیں کہ وہ بڑا جہاد کر رہے ہیں۔ (ایسا جہاد جس میں اسلام دشمن کافروں کی نکسیر تک نہیں پھوٹتی) جبکہ غزوہ احد میں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم جس جہاد میں زخمی ہو کر گر پڑے تھے وہ نعوذ باللہ چھوٹا جہاد ہے۔ ہائے کاش! مسلمان سمجھیں اور اپنے دامن کو مرزائی چنگاریوں سے بچائیں۔ قتال فی سبیل اللہ کو بے دھڑک چھوٹا جہاد کہہ دینے والے حضرات سے میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ وہ قرآن پاک کی سینکڑوں آیاتِ قتال کو ایک نظر دیکھ لیں پھر اگر ان کے دل گردے میں اس جہاد کو چھوٹا جہاد کہنے کی طاقت باقی رہے تو شوق سے کہتے پھریں۔ (ہم نے ہفت روزہ شمشیر میں آیاتِ جہاد کی مکمل فہرست بحمد للہ شائع کر دی ہے)۔ مرزا قادیانی ملعون نے جہاد کے خلاف جو ظالمانہ وساوس پھیلائے ان وساوس کے اثرات پر اسے مکمل بھروسہ تھا اور اسے یقین تھا کہ جو جو لوگ اس کے زیرِ اثر آتے جائیں گے وہ جہاد کے منکر ہوتے جائیں گے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
" میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے" ( مجموعہ اشتہارات ص 19 ،ج 3)
مرزا کی اس عبارت سے چند باتیں واضح طور پر سمجھ میں آتی ہیں۔
1۔ قادیانی تحریک کا اساسی مقصد مسلمانوں کو جہاد سے برگشتہ اور بیگانہ کرنا ہے، چنانچہ وہ فخر سے کہہ رہا ہے کہ میرے مرید جیسے جیسے بڑھتے جائیں گے جہاد کے انکار کی فضا عام ہوتی جائے گی۔
2۔ مرزا قادیانی اپنے مریدوں اور ماننے والوں کو جس بات کی سب سے زیادہ تلقین کرتا تھا وہ بات تھی " انکارِ جہاد"۔ کیونکہ جس پیر کے ہاں جس بات پر زیادہ بیان ہوتا ہے مریدین پر اسی بات کا زیادہ رنگ چڑھتا ہے۔ اہلِ حق مشائخ میں سے بعض موت کی یاد پر زور دیتے ہیں، بعض دنیا کی محبت کے خاتمے کو اساسی موضوع بناتے ہیں۔ بعض حسن پرستی کے خلاف توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ شیخ کے اساسی بیان کا مریدین پر خوب اثر ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی ملعون بھی نبی اور پیر بنا بیٹھا تھا۔ اس کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کی زبان پرہر وقت جہاد کی مخالفت جاری رہتی تھی اور اس کے بیانات کا مرکزی موضوع جہاد کی مخالفت ہوتا تھا۔ اس لیے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ مریدین کے بڑھنے سے ترکِ جہاد کے نظرئیے کو تقویت ملے گی۔
3۔ ہم نے مضمون کے شروع میں عرض کیا تھا کہ قادیانیت کا خلاصہ انکارِ جہاد ہے اور قادیانیت کی ہر تان اسی پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ مرزا کی یہ عبارت بھی اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ وہ صاف لفظوں میں کہہ رہا ہے کہ مجھے مہدی اور مسیح مان لینا ہی جہاد کا انکار کرنا ہے۔ یعنی مرزا نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا ہی اس لیے تھا کہ لوگ جہاد کے منکر ہو جائیں۔ اس لیے کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام اور امام مہدی کا انتظار کرتے ہی جہاد کے حوالے سے ہیں۔ اب مرزا مسلمانوں کو دین کی سربلندی سے مایوس کرنے اور جہاد سے ان کا ذہن ہٹانے کے لیے خود مسیح و مہدی بن بیٹھا۔ سیدھے سادھے مسلمان جب ایک نیم پاگل، بیمار، بےبس، بزدل، نہتے، شوگر و گیس سے بھرے شہوت و خباثت کے پتلے کو مہدی اور مسیح دیکھیں گے تو ان کے دل سے اسلام اور جہاد کی عظمت خود بخود دھل جائے گی اور ان کے خیالات میں لاکھوں فدائیوں کی کمان کرنے والے، مشرق و مغرب کے کفر کو عبرتناک شکست دینے والے، خود جنگوں میں کودنے والے، آسمان سے فرشتوں کا سہارا لے کر دمشق میں اترنے والے، اپنی آنکھوں کی چمک اورسانس کی حدت سے یہودیت کو ختم کرنے والے اور زمین پر اسلام کا اقتدار اعلٰی قائم کرنے والے مسیح اور مہدی کا خیال محو ہو جائے گا تب وہ انگریز کی غلامی کو دل و جان سے قبول کر لیں گے۔
ایک اہم نکتہ:
یہاں ایک اہم بات ذہن میں آ گئی اور وہ یہ ہے ہہ کہ مسلمانوں کا تابناک ماضی اور ان کا روشن مستقبل انہیں کسی کا دل سے غلام نہیں بننے دیتا۔ وہ ماضی میں دیکھتے ہیں تو انہیں اپنے محبوب نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سر پر جنگی ٹوپی پہنے، جنگوں کا سالارِ اعظم بنے، فتوحات پر فتوحات کرتے نظر آتے ہیں۔اور جب وہ مستقبل کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو انہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور امام مہدی کے فدائی دستے سرفروشی کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ پس مایوس مسلمانوں کو ان کا ماضی دلاسہ دیتا ہے اور مستقبل ان کے دلوں سے مایوسی کو کھرچتا ہے۔ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعوٰی کر کے مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب مدینہ کی طرف دیکھنے کی بجائے غلاموں کے وطن قادیان کی طرف دیکھیں اور پھر اس نے مسیح اور مہدی کا دعوٰی کر کے مسلمانوں کو مستقبل سے مایوس کرنے کی سعی کی ہے کہ دیکھو جس مسیح اور مہدی کے انتظار میں تم ہر کسی سے ٹکر لیتے ہو وہ سر سے پاؤں تک بیماریوں میں گھرا ہوا، ایک افیونی بدکار ہے، اس لیے اب تم انگریزوں کی اطاعت دل و جان سے قبول کر لو۔ چنانچہ اس ظالم نے ملکہ برطانیہ کہ اطاعت کو اسلام کا حصہ قرار دیا، وہ لکھتا ہے:
" سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ خدا تعالٰی کی اطاعت کریں دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو، سو وہ سلطنت حکومتِ برطانیہ ہے"
(شہادت القرآن ص 84، روحانی خزائن ص380،ج3)
اس عبارت میں اور باتوں کے علاوہ ایک قابل غور بات یہ ہے کہ مرزا نے انگریزی سلطنت کی تعریف امن قائم کرنے کے حوالے سے کی ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک اور ملحد و منکر جہاد وحید الدین خان کا ایک انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ بھی انڈیا حکومت کی تعریف امن کے حوالے سے کر رہا تھا اور کشمیری مجاہدین کو لتاڑ رہا تھا۔ یہاں میں قارئین کواس بات کی دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ مرزا قادیانی ہو یا وحید الدین خان، وہ جہاد کی مخالفت کسی دینی دلیل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی جان کے لیے امن اور مفادات حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان کی یہ عبارتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان ظالموں کی نظر میں بس دنیا کے مفادات اور یہاں کی زندگی ہے۔ورنہ آپ پورا قرآن پڑھ لیجیئے۔ انبیاء علیہم السلام وقت کے ان بادشاہوں سے ٹکرائے جنہوں نے اپنے ملکوں میں آج کے حکمرانوں سے زیادہ ظاہری امن قائم کر رکھا تھا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام نے کفر اور اسلام کو معیار بنایا نہ کہ جان کی حفاظت اور دنیاوی مفادات کو۔ پس اے مسلمانو! انبیاء علیہم السلام کے راستے پر ڈٹے رہو اور ان بزدل ، نفس پرست اور دنیا کی عارضی زندگی چاہنے والے نام نہاد مفکرین کی بات نہ مانو۔ یہ لوگ خود بھی بزدل ہیں اور مسلمانوں کو بھی کافروں کا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ظاہری طور پر ان کا دعوٰی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کس بچا رہے ہیں حالانکہ مسلمان دنیا میں بچنے کے لیے نہیں آیا اور نہ کوئی موت آنے پر کسی کو بچا سکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں نے ہمیشہ ایمان کی خاطر قربانی دی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے جان بچانے کے لیے ایمان کو چھوڑا ہو یا دین کو بدلا ہو۔ ماضی کے ایمان والوں نے آگ کی خندقیں قبول کر لیں مگر کفر کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔ بس ہماری کامیابی بھی دین اور جہاد میں ہے نہ کہ بزدلی اور بے ہمتی میں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے زمانے میں اور وحید الدین خان اپنے دور میں کفر کی قوت سے بری طرح مرعوب ہو چکے ہیں۔ اور ان کے دل و دماغ میں یہ بات مزین کر دی گئی ہے کہ اب کفر کی یلغار کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مرزا کو سلطنتِ برطانیہ اور وحید الدین خان کو امریکہ اور انڈیا کی طاقت پر بھروسہ ہے۔چنانچہ وہ انہی طاقتوں پر بھروسہ کر کے یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اب اگر گردن نہ جھکائی تو انہیں جڑ سے ختم کر دیا جائے گا۔ چنانچہ مرزا ملعون نے اپنے زمانے میں اس بات کا اعلانیہ دعوٰی کیا تھا کہ اب مسلمان کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتے۔ لیجیئے اس کےاشعار پڑھیئے:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے خیال دوستو
دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال دوستو
اب آ گیا مسیح جو دین کا امام ہے
دیں کے لیے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسمان سے نورِ خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور قتال کا فتوٰی فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہےجو یہ رکھتا ہے اعتقاد
اس نظم میں چند اشعار کے بعد کہتا ہے:
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
دیکھیں راز فاش ہو گیا کہ مرزا کو سلطنتِ انگریزی کی قوت پر مکمل بھروسہ تھا بس اسی بھروسے پر اس نے یہ پیشگوئی کر دی۔ آج کے جہاد مخالف دانشوروں کو بھی امریکہ، انڈیا، اسرائیل کی طاقت پر اس قدر بھروسہ ہے کہ وہ بھی اسلام، مسلمانوں اور مجاہدین کے خاتمے کی صبح شام پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو کافروں کے سامنے سر جھکانے کا حکم دیتے رہتے ہیں۔ الحمد للہ مرزا قادیانی کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ اب ان شاء اللہ زمانے کے پیٹ پرست دانشوروں کی باتیں بھی غلط ثابت ہوں گی اور جہاد کو کوئی نہیں مٹا سکے گا۔ آجکل بعض لوگ مسلمانوں کی کمزوری کا رونا رو کر، ایمان میں ان کی عدم پختگی کا حوالہ دے کر انہیں جہاد سے روکتے ہیں۔ یہ نظریات بھی مرزا قادیانی کے ہیں۔چنانچہ اسی نظم میں چند اشعار آگے چل کر وہ کہتاہے:
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں
اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی
وہ سلطنت و رعب، وہ شوکت نہیں رہی
چند اشعار آگے لکھتا ہے:
دل میں تمہارے یار کی الفت نہیں رہی
حالت تمہاری جاذبِ نصرت نہیں رہی
(مرزا کی یہ پوری نظم تحفہ گولڑویہ ضمیمہ ص42، روحانی خزائن ص77، ج 17 پر درج ہے)
اس نظم کے مذکورہ بالا اشعار کو بار بار پڑھیں اور پھر اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ کہیں خدانخواستہ مرزائی کینسر کا کچھ اثر ہمارے اندر تو نہیں آ گیا؟ یاد رکھئیے مرزائی افکار حضور سرور کونینﷺ کی گستاخی، بے ادبی اوردشمنی پر مبنی ہیں۔ اس لیے ہر عاشقِ رسول کا دل ان افکار سے پاک ہونا ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی یار رکھئیے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی مقام پر کیوں نہ ہو، جب وہ خود جہاد میں نہ نکلنا چاہتا ہو، اپنی جان اللہ تعالٰی کے لیے قربان نہ کرنا چاہتاہو اور وہ اپنی اس کمزوری اور غلطی پر رونے کی بجائے جہاد پر اعتراضات کرتا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے منہ سے وہی وسوسے نشر ہوں گے جو مرزا قادیانی ملعون نے پھیلائے ہیں "ہم میں طاقت نہیں، ہم نصرت کے قابل نہیں" اور بہت کچھ۔۔۔۔
یہاں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی ملعون سے لے کر عصر حاضر کے نام نہاد دانشوروں تک جہاد کے تمام مخالفین مسلمانوں کو تو جہاد سے روکتے رہے جبکہ یہی لوگ کافروں کے لڑنے کی حمایت کرتے ہیں اور خود ان کے ساتھ مل کر لڑنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی ان بد نصیب لوگوں کی قسمت میں بس اللہ کے راستے میں لڑنا نہیں ہے کیونکہ انہیں اس میں ہلاکت نظر آتی ہے۔ لیکن جب انہی لوگوں کو کافر اپنے ساتھ مل کر لڑنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بھاگ بھاگ کر ان کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ مال، عہدے، حکومت بچانے کے لالچ میں۔
چنانچہ مرزا قادیانی ملعون لکھتا ہے:
" میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔میرا والد مرزا غلام مرتضٰی گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسانِ پنجاب میں ہے اور 1857 میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امدار میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کا ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں۔ مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا"
(کتاب البریہ ص 3، 4، 5 ۔ روحانی خزائن ص 4، ج 13)
مجاہدین کو شدت پسند، دہشت گرد،رجعت زدہ کہنے والے اس عبارت میں موجود مناظر پر ایک نظر ڈالیں، مسلمانوں کے لیے انگریزوں سے لڑنا حرام، دین دشمنی اور بے مصلحتی، جبکہ انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا قابل فخر، کشمیری مجاہدین کا غاصب انڈین فوجوں سے لڑنا حرام جبکہ وحید الدین خان کا نرسیمہا راؤ سے ایوارڈ قبول کرنا قابلِ فخر، طالبان کی حمایت حرام اور ناقابل معافی جرم مگر امریکیوں کو اڈے دینا اور ان کی مدد کرنا قابل فخر، عراقی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانا حرام جبکہ اپنی مسلمان فوجوں کو عراق میں امریکہ کے تعاون کے لیے بھیجنا قابل فخر۔آخر یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا ان باتوں کا اس کے علاوہ بھی کوئی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسا کرنے والے لوگ اللہ تعالٰی کو نہیں مانتے اور نہ ان کے دل و دماغ میں اللہ تعالٰی کی کوئی عزت، اہمیت اور وقعت ہے اور نہ ان کے حاشیہ خیال میں اللہ تعالٰی کے کسی حکم کا کوئی مقام ہے۔ یہ لوگ بس وقت کے زمینی تاجداروں کے پجاری ہیں اور اپنی اس عارضی سی زندگی کو بچانے اور سنوارنے کی خاطر جہاد سے انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگر زمین پر عمومی امن کے قائل ہوتے تو پھر کسی کے لڑنے کو درست نہ سمجھتے اور نہ کبھی لڑنے والوں کا لباس پہنتے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف اسلام
 
Top