مدتوں تک اہل دل کو یاد آئے گی غزل

غزل

مدتوں تک اہل دل کو یاد آئے گی غزل
یہ غزل ہوتی ہے کیا خود ہی بتائے گی غزل

آٹھ دس اشعار جوڑینگے اگر ترتیب سے
پھر غزل کی رات کی محفل سجائے گی غزل

شعر کے مصرعوں کے جیسا ہے تعلق آپ سے
یوں اگر ملتے رہے تو ہو ہی جائے گی غزل

پیر میں زنجیر پہنے رقص کرتی راگنی
کیا ! زبان بندی کے موسم میں سنائے گی غزل

کورے کاغذ پر لکھی ہے جو جگر کے خون سے
دیکھیے کل کو وہ کیا طوفاں اٹھائے گی غزل

خواب خوشبو روشنی شوخی ادا اور رنگ و بو
یہ عناصر ہوں تو کیا تیور دکھائے گی غزل

آپ جیسے صاحبان ذوق کی تعریف سے
رنگ کیسا آج دیکھیںگے جمائے گی غزل

آپ کے افکار کی پیچیدگی تو ہے وبال
بوجھ اس پیچیدگی کا کیا اٹھائے گی غزل

حسن کے پیکر کی جو توصیف لکھے گا حسیب
لفظ مھکینگے غزل کے مسکرائے گی غزل

حسیب احمد حسیب​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت اچھے تیور دکھائے ہیں غزل میں البتہ اتنی اچھی غزل کے ایک شعر میں "مصرعوں" کو فاعلن کا ہمو وزن باندھا جانا چاہیئے ۔ مجھے یہ غزل کے شایاں نہیں لگ رہا۔
تکنیکی اعتبار سے اس کو" مصرع" بھی کیا جائے تو کافی ہے۔با قی غزل واقعی قابل شتائش لگی ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب حسیب صاحب! کیا بات ہے ۔ اچھے اشعار ہیں ۔ کچھ حشو و زوائد ہیں امید ہے کہ ذرا سا وقت دیں گے تو سنور جائے گی غزل ۔ بہت داد!
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ!
 
Top