ماہ محرم اور عاشورا کا روزہ-تاریخی پس منظر -

سویدا

محفلین
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ نیا اسلامی ہجری سال ۱۴۳۱ھ شروع ہونے کو ہے اور اس کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ” افضل الصیام بعد صیام شھر رمضان شھر الله المحرم “ (ترمذی)
ترجمہ: ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں۔ “
محرم کے مہینے کو قرآن کریم نے عزت واحترام والا مہینہ قرار دیا ہے، خصوصا محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ”عاشوراء“ کہاجاتا ہے جس کے معنی ہیں ”دسواں دن“یہ دن اللہ تعالی کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے دس محرم (عاشوراء) کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا ، بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء(دس محرم) کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ، ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے(صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (مشکوة شریف)
نیز دس محرم ہی کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانے کے روزہ رکھا ،اس لیے یہودی بھی اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ :ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم(یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیحین)
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ہمیشہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ، وفات سے پہلے جوعاشوراء کا دن آیا تو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی ،اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاوٴں گا یعنی ۹ /محرم یا ۱۱/محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے ۔
یہاں‌ایک قابل غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں‌کی مشابہت عام زندگی میں‌تو کجا عبادات میں‌بھی آپ نے احتراز فرمایا اور صحابہ کو بھی حکم دیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ۱۰/محرم الحرام کے ساتھ ۹ / محرم یا ۱۱/ محرم کو بھی روزہ رکھنا چاہئے اور یہ دونوں روزے رکھنا مستحب ہے، صرف دس محرم کے دن روزہ رکھنا مکروہ اور خلاف اولی ہے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
آپ کی تحریر بہت اچھی تھی پر آپ نے عاشورہ کے حوالے سے سب سے اہم بات کسی وجہ سے نہیں بتائی اور وہ ہے کہ اسلام کو جس دن دوسری زندگی ملی وہ ہے روزِ عاشورہ ۔ یعنی آپ نے اتنی غیر اہم باتیں کیں اور جس بات یا واقع کی ہمارے دین میں سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ آپ کے ذہن سے کیسے پوشیدہ ہوگئی یہ بات ناقابلِ فہم ہے ۔ آج جو دین ہم کو نظر آرہا ہے ہم جو نمازیں پڑھ رہے ہیں روزہ رکھ رہے ہیں یہ دین چلا گیا ہوتا اگر ہمارے پیارے رسول (ص)ٌ کے نواسے حضرت امام حسین نے اپنے گھر کو لٹا کر اسلام نا بچایا ہوتا۔ اور گھرانا بھی ایسا جو وارث قران ہو وارث دین ہو ۔ امام حسین(ع) نے دین پر اپنا سب کچھ لٹا کر یہ واضع کردیا کہ دین کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ لٹایا جاسکتا ہے دین پر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے پر دین کو کسی بھی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اقتدار پر بیٹھنے والا یزید آستین کا سانپ بن گیا تھا اور اپنی نفسانی خواہشات کی خاطر دین میں تبدیلی کر رہا تھا شراب اور زنا کو عام کر رہا تھا تو شیر حق کے شیر نے یزیدیت کے اس خواب کو خاک میں ملادیا اور اتنی بڑی قربانی دی کہ عاشورہ کی باقی ساری اہمیتیں پیچھے رہ گئیں اور اب اگر کسی کو عاشورہ یاد آتا ہے تو صرف سید الشہدا کے حوالے سے کیوں نہ انکے ہی نام سے یہ دن مخصوص ہو کہ آپ(ص) نے اپنے نانا کا وعدہ ایسے پورا کیا کہ ننھے سے علی اصغر کی بھی قربانی دی اور بی بی زینب(ع)و بی بی ام کلثوم کے پردے کی بھی اور ایسے ہی تو ہوتے ہیں محمد(ص) کے گھرانے والے
باقی یزیدیت تو آج بھی عمل پیرا ہے اور جدو جہد کر رہی ہے حق کے خلاف ۔ اور عاشور کی دیگر اہمیتیں بیان کرنا اور اصل واقع جو بلواسطہ اسلام سے منسلک ہے اسکو بیان نا کرنا اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ عاشور کے روزے کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں سوائے اس بات کہ کہ یزید کی ماں نے منت مانگی تھی کہ ار میرا بیٹا کامیاب ہوا اور امام حسین(ع) قتل ہوگئے تو میں ہر سال اس دن کا روزہ رکھا کروں گی۔ اور آج تک اسکی سنت پر عمل کیا جاتا ہے اور ضعیف روایتوں کا سہارہ لے کر یزید کی ماں کے اس عمل کو سنت کا درجہ دے کر امام حسین (ع) کے قتل پر جو یزیدیوں کو تسکین ہوئی تھی اسکا اظہار آج تک کیا جاتا ہے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔ ۔ عاشور کے روزے کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں سوائے اس بات کہ کہ یزید کی ماں نے منت مانگی تھی کہ اگر میرا بیٹا کامیاب ہوا اور امام حسین(ع) قتل ہوگئے تو میں ہر سال اس دن کا روزہ رکھا کروں گی۔ اور آج تک اسکی سنت پر عمل کیا جاتا ہے اور ضعیف روایتوں کا سہارہ لے کر یزید کی ماں کے اس عمل کو سنت کا درجہ دے کر امام حسین (ع) کے قتل پر جو یزیدیوں کو تسکین ہوئی تھی اسکا اظہار آج تک کیا جاتا ہے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یہودیوں نے محرم الحرام کا روزہ رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو اس دن فرعون سے نجات دلائی تھی، اس لیے ہم شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ ہمارا موسٰی علیہ السلام پر زیادہ حق ہے اس لیے ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ پھر فرمایا کہ یہودیوں سے الگ نظر آنے کے لیے ہم دو روزے رکھیں گے۔ اسی لیے مسلمان 9 اور 10 محرم یا 10 اور 11 محرم کے روزے رکھتے ہیں۔ ان روزوں کا یزید کی ماں سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی مسلمان اس کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔

یہ واقعہ کربلا کے واقعہ سے بہت پہلے کا ہے۔
 

سویدا

محفلین
شمشاد بھائی نے وضاحت کردی ہے اس لیے ضرورت باقی نہیں رہتی
دس محرم کے روزے کا تذکرہ صحیح‌احادیث میں‌موجود ہے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے دس محرم کو روزہ رکھا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حضور کی وفات کے ساٹھ سال بعد کا واقعہ ہے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
یہودیوں نے محرم الحرام کا روزہ رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو اس دن فرعون سے نجات دلائی تھی، اس لیے ہم شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ ہمارا موسٰی علیہ السلام پر زیادہ حق ہے اس لیے ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ پھر فرمایا کہ یہودیوں سے الگ نظر آنے کے لیے ہم دو روزے رکھیں گے۔ اسی لیے مسلمان 9 اور 10 محرم یا 10 اور 11 محرم کے روزے رکھتے ہیں۔ ان روزوں کا یزید کی ماں سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی مسلمان اس کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔

یہ واقعہ کربلا کے واقعہ سے بہت پہلے کا ہے۔

شمشاد میں آپ سے بحث نہیں کروں گا بس کچھ اس سلسلے میں جو سوالات ہیں میرے ذہن میں وہ کرونگا ہوسکتا ہے میں ہی غلط ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب دیتے وقت آپ کو ہی حقیقت کا احساس ہوجائے۔
1-آپ نے کہا ہے یہ روایت واقعہ کربلا سے پہلی کی ہے تو یہ بتائیے کہ یہ روایت جب تحریر ہوئی وہ وقت کربلا کہ واقہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا ظاہر ہے بعد کا ہوگا کیونکہ کوئی بھی محدث چاہے وہ امام مسلم ہوں امام بخاری یا ترمزی واقعہ کربلا کہ کئی سو سال بعد پیدا ہوئے تھے تو عین ممکن ہے یا حدیث یزید کی ماں کے فعل کو دوام بخشنے کے لیئے گڑھی گئی ہو۔
2-کیا آنحضرت کی اولاد اسوہ رسول اللہ(ص) پر عمل نہیں کرتی تھی
3- اگر آنحضرت کی اولاد ہی اسوہ (ص)پر عمل نہیں کرتی تھی تو پھر انکی شریعت کو صحیح طور پر سمجھنے والا کون ہوسکتا ہے جو دعوٰی کرے کہ میں انکی اولاد سے بھی زیادہ انکی شریعت اور سنت کا وارث ہوں
4-واقعہ کربلا میں عاشور اور نو محرم کو آنحضرت(ص) کے نواسے بھی تھے نواسیاں بھی اور باقی حضرت ہاشم کا پورا قبیلہ ہی موجود تھا تقریباََ تو ان میں سے کتنوں نے اس دن روزہ رکھا ہوا تھا
5- اگر امام حسین(ع) اور دیگر صحابہ جو امام حسین(ع) کے ساتھ موجود تھے سب کا روزہ تھا تو یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ وہ سب بھوکے پیاسے مارے گئے یاد رہے روزہدار کو بھوکا پیاسا نہیں کہا جاتا ۔ کیونکہ وہ اللہ کی رضا کے لیئے باوجود پانی پینے اور کھانا کھانے کی استطاعت ہونے کے اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھتا ہے۔
6- یزیدی فوج میں بھی تو مسلمان تھے حالانکہ یہ بات مجھکو کہنا بہت ہی تکلیف دہ ہے پر چونکہ کچھ مسلمان بھائیں کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید اور اسکے ساتھی حق پر تھے نعوذُباللہ من ذالک تو ان میں سے کتنوں کا روزہ ثابت ہے واقع کربلا میں

میں ے واقعہ کربلا بنیاد اس لئے بنایا ہے کہ اسلام میں عاشور کے دن کا سب سے اہم واقعہ یہی ہے جس سے حق اور باطل کی تمیز بھی ہوتی ہے۔
 

سویدا

محفلین
آپ کی تسلی اور تشفی کے لیے عاشورائ کے روزے سے متعلق صحیح‌احادیث میں‌سے کچھ یہاں‌نقل کردیں ہیں‌

- عن عبد اللَّه بن أبي يزيد أنه سمع ابن عباس رضي اللَّه عنهما وسئل عن صيام يوم عاشوراء؟ فقال: " ما علمت أن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم صام يوماً يطلب فضله على الأيام إلا هذا اليوم، ولا شهراً إلا هذا الشهر - يعني رمضان -" .
وفي لفظ: " ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غيره إلا هذا اليوم: يوم عاشوراء..".
أخرجه البخاري (4/245) (ح2006) ، ومسلم (1132) ، والنسائي (4/204) (ح2370)، وأحمد (1/367) ، وابن خزيمة (2086)، والبيهقي في "شعب الإيمان" (3779)، وفي "السنن الكبرى" (4/286)، والطبراني (1254).

2- وعن أبي قتادة رضي اللَّه عنه ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " صيام يوم عاشوراء، أحتسب على اللَّه أن يكفر السنة التي قبله" .
أخرجه مسلم (1162)، وأبو داود (2/321) (ح2425)، والترمذي (2/115) (ح749) ، وابن ماجة (1/553) (ح1738) ، وأحمد (5/308)، والبيهقي (4/286).
3- وعن عبد اللَّه بن عباس رضي اللَّه عنهما قال: " قدم رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم المدينة فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا يوم صالح، نجّى اللَّه فيه موسى وبني إسرائيل من عدوهم، فصامه، فقال: أنا أحق بموسى منكم فصامه وأمر بصيامه" .
وفي رواية: " فصامه موسى شكراً، فنحن نصومه" .
وفي رواية أخرى: " فنحن نصومه تعظيماً له" .
أخرجه البخاري (4/244) ح(2004) ، ومسلم (1130)، وأبو داود (2/426) (ح2444) ، وابن ماجه (1/552) ح(1734) ، والبيهقي (4/286).
- وعن الرُّبيع بنت معوِّذ رضي اللَّه عنها قالت: "أرسل رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم غداة عاشوراء إلى قرى الأنصار التي حول المدينة : من كان أصبح صائماً فليتم صومه، ومن كان مفطراً فليتم بقية يومه، فكنّا بعد ذلك نصومه، ونصوِّمه صبياننا الصغار، ونذهب إلى المسجد، فنجعل لهم اللعبة من العهن، فإذا بكى أحدهم أعطيناها إياه، حتى يكون الإفطار" .
وفي رواية: " فإذا سألونا الطعام أعطيناهم اللعبة تلهيهم، حتى يتموا صومهم".
أخرجه البخاري (4/200) (ح1960) ، ومسلم (1136) ، وأحمد (6/359) ، وابن حبان (8/385) (ح3620) ، والطبراني (24/275) (ح700) ، والبيهقي (4/288).
- وعن سلمة بن الأكوع رضي اللَّه عنه ، أن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم أمر رجلاً من أسلم: "أن أذِّن في الناس: من كان أكل فليصم بقية يومه، ومن لم يكن أكل فليصم، فإن اليوم عاشوراء" .
أخرجه البخاري (4/245) (ح2007) ، ومسلم (1135) ، والنسائي (4/192) ، والدارمي (2/22) ، وابن خزيمة (2092) ، وابن حبان (8/384) (ح3619) ، والبيهقي (4/288) ، والبغوي في "شرح السنة" (1784).

6- وعن أبي موسى الأشعري رضي اللَّه عنه قال: "كان يوم عاشوراء يوماً تعظّمه اليهود، وتتخذه عيداً، فقال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : "صوموه أنتم" .
وفي رواية لمسلم: " كان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتخذونه عيداً، ويلبسون نساءهم فيه حليهم وشارتهم، فقال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : فصوموه أنتم".
أخرجه البخاري (4/244) (ح2005) ، ومسلم (1131).
قال النووي: " الشارة بالشين المعجمة بلا همز، وهي الهيئة الحسنة والجمال، أي يلبسونهم لباسهم الحسن الجميل" . شرح مسلم (8/10).
- وعن محمد بن صيفي رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء: " أمنكم أحد أكل اليوم، فقالوا: منا من صام، ومنا من لم يصم، قال: فأتموا بقية يومكم، وابعثوا إلى أهل العَروض فليتموا بقية يومهم".
أخرجه النسائي (4/192)، وابن ماجه (1/552) ، (ح1735)، وأحمد (4/388)، وابن خزيمة (2091) ، وابن حبان (8/382) (ح3617) .
- عن عائشة رضي اللَّه عنها قالت: " كان عاشوراء يصام قبل رمضان، فلما نزل رمضان كان من شاء صام، ومن شاء أفطر".
وفي رواية : " كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يصومه في الجاهلية، فلما قدم المدينة صامه، وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان ترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه" .
أخرجه البخاري (4/244) (ح2001) ، (2002) ، ومسلم (1125) ، وأبو داود (2/326) (ح2442)، والترمذي (2/118) (ح753) ، ومالك في "الموطأ" (1/299) ، وأحمد (6/29، 50، 162) ، وابن خزيمة (2080).
- وعن عبد اللَّه بن عمر رضي اللَّه عنهما قال: "كان عاشوراء يصومه أهل الجاهلية، فلما نزل رمضان قال: من شاء صامه، ومن شاء لم يصمه" .
وفي رواية : وكان عبد اللَّه لا يصومه إلا أن يوافق صومه.
وفي رواية لمسلم: " إن أهل الجاهلية كانوا يصومون يوم عاشوراء، وأن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم صامه، والمسلمون قبل أن يفرض رمضان، فلما افترض، قال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : " إن عاشوراء يوم من أيام الله، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه" .
وفي رواية له أيضاً : " فمن أحب منكم أن يصومه فليصمه، ومن كره فليدعه" .
أخرجه البخاري (4/102، 244) (ح1892) ، (2000) ، و(8/177) (ح4501)، ومسلم (1126) ، وأبو داود (2/326) (ح2443) ، وابن ماجه (1/553) (ح1737) ، والدارمي (1/448) (ح1711) ، وابن حبان (8/386) ، (ح3622) ، (3623) ، والبيهقي (4/290).
- وعن عائشة رضي اللَّه عنها: " أن قريشاً كانت تصوم عاشوراء في الجاهلية، ثم أمر رسول اللَّه  بصيامه، حتى فرض رمضان، فقال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : من شاء فليصمه، ومن شاء فليفطره" .
وفي رواية للبخاري: " كانوا يصومون عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوماً تستر فيه الكعبة.." .
أخرجه البخاري (4/102) (ح1893) ، و(4/244) (ح2002) ، و(3/454) (ح1592)، ومسلم (1125) ، وأبو داود (2/326) (ح2442)، والترمذي (2/118)، (ح753) ، والدارمي (1/449) (ح1712) ، ومالك في "الموطأ" (1/229) ، وأحمد (6/162، 244) ، وابن حبان (8/385) (ح3621) ، والبيهقي (4/288) ، والبغوي في "شرح السنة" (1702).
1- وعن حميد بن عبدالرحمن أنه سمع معاوية رضي اللَّه عنه يقول: سمعت رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يقول: " هذا يوم عاشوراء، ولم يكتب اللَّه عليكم صيامه، وأنا صائم، فمن شاء فليصم، ومن شاء فليفطر" .
أخرجه البخاري (4/244) (ح2003) ، ومسلم (1129) ، والنسائي (4/204) ، ومالك في "الموطأ" (1/299) ، وابن خزيمة (2085) ، وابن حبان (8/390) ، (ح3626) ، والطبراني (19/326) (ح744) ، والبيهقي (4/290)، والبغوي في "شرح السنة" (1785).

12- وعن علقمة بن قيس النخعي، أن الأشعث بن قيس دخل على عبدالله بن مسعود، وهو يطعم يوم عاشوراء، فقال: يا أبا عبدالرحمن ، إن اليوم يوم عاشوراء، فقال: "قد كان يُصام قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان ترك، فإن كنت مفطراً فاطعم" .
وفي رواية لمسلم: " كان يوماً يصومه رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان تركه" .
أخرجه البخاري (8/178) (ح5403) ومسلم (1127).
- وعن جابر بن سمرة رضي اللَّه عنه قال: "كان رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يأمر بصيام يوم عاشوراء، ويحثنا عليه، ويتعاهدنا عنده، فلما فرض رمضان لم يأمرنا ولم ينهنا، ولم يتعاهدنا عنده" .
أخرجه مسلم (1128) ، والطيالسي (1/106) (ح784) ، وأحمد (5/96، 105) ، وابن خزيمة (208) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار" (2/74)، والطبراني (1869) ، والبيهقي (4/265).

14- وعن قيس بن سعد بن عبادة رضي اللَّه عنه قال: " أمرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن نصوم عاشوراء قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان، لم يأمرنا ولم ينهنا، ونحن نفعله" .
أخرجه النسائي في "الكبرى" (2/158) (ح2841) ، وأحمد (3/421) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار (2/74).
 

میر انیس

لائبریرین
آپ کی تسلی اور تشفی کے لیے عاشورائ کے روزے سے متعلق صحیح‌احادیث میں‌سے کچھ یہاں‌نقل کردیں ہیں‌

- عن عبد اللَّه بن أبي يزيد أنه سمع ابن عباس رضي اللَّه عنهما وسئل عن صيام يوم عاشوراء؟ فقال: " ما علمت أن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم صام يوماً يطلب فضله على الأيام إلا هذا اليوم، ولا شهراً إلا هذا الشهر - يعني رمضان -" .
وفي لفظ: " ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غيره إلا هذا اليوم: يوم عاشوراء..".
أخرجه البخاري (4/245) (ح2006) ، ومسلم (1132) ، والنسائي (4/204) (ح2370)، وأحمد (1/367) ، وابن خزيمة (2086)، والبيهقي في "شعب الإيمان" (3779)، وفي "السنن الكبرى" (4/286)، والطبراني (1254).

2- وعن أبي قتادة رضي اللَّه عنه ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " صيام يوم عاشوراء، أحتسب على اللَّه أن يكفر السنة التي قبله" .
أخرجه مسلم (1162)، وأبو داود (2/321) (ح2425)، والترمذي (2/115) (ح749) ، وابن ماجة (1/553) (ح1738) ، وأحمد (5/308)، والبيهقي (4/286).
3- وعن عبد اللَّه بن عباس رضي اللَّه عنهما قال: " قدم رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم المدينة فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا يوم صالح، نجّى اللَّه فيه موسى وبني إسرائيل من عدوهم، فصامه، فقال: أنا أحق بموسى منكم فصامه وأمر بصيامه" .
وفي رواية: " فصامه موسى شكراً، فنحن نصومه" .
وفي رواية أخرى: " فنحن نصومه تعظيماً له" .
أخرجه البخاري (4/244) ح(2004) ، ومسلم (1130)، وأبو داود (2/426) (ح2444) ، وابن ماجه (1/552) ح(1734) ، والبيهقي (4/286).
- وعن الرُّبيع بنت معوِّذ رضي اللَّه عنها قالت: "أرسل رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم غداة عاشوراء إلى قرى الأنصار التي حول المدينة : من كان أصبح صائماً فليتم صومه، ومن كان مفطراً فليتم بقية يومه، فكنّا بعد ذلك نصومه، ونصوِّمه صبياننا الصغار، ونذهب إلى المسجد، فنجعل لهم اللعبة من العهن، فإذا بكى أحدهم أعطيناها إياه، حتى يكون الإفطار" .
وفي رواية: " فإذا سألونا الطعام أعطيناهم اللعبة تلهيهم، حتى يتموا صومهم".
أخرجه البخاري (4/200) (ح1960) ، ومسلم (1136) ، وأحمد (6/359) ، وابن حبان (8/385) (ح3620) ، والطبراني (24/275) (ح700) ، والبيهقي (4/288).
- وعن سلمة بن الأكوع رضي اللَّه عنه ، أن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم أمر رجلاً من أسلم: "أن أذِّن في الناس: من كان أكل فليصم بقية يومه، ومن لم يكن أكل فليصم، فإن اليوم عاشوراء" .
أخرجه البخاري (4/245) (ح2007) ، ومسلم (1135) ، والنسائي (4/192) ، والدارمي (2/22) ، وابن خزيمة (2092) ، وابن حبان (8/384) (ح3619) ، والبيهقي (4/288) ، والبغوي في "شرح السنة" (1784).

6- وعن أبي موسى الأشعري رضي اللَّه عنه قال: "كان يوم عاشوراء يوماً تعظّمه اليهود، وتتخذه عيداً، فقال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : "صوموه أنتم" .
وفي رواية لمسلم: " كان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتخذونه عيداً، ويلبسون نساءهم فيه حليهم وشارتهم، فقال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : فصوموه أنتم".
أخرجه البخاري (4/244) (ح2005) ، ومسلم (1131).
قال النووي: " الشارة بالشين المعجمة بلا همز، وهي الهيئة الحسنة والجمال، أي يلبسونهم لباسهم الحسن الجميل" . شرح مسلم (8/10).
- وعن محمد بن صيفي رضي اللَّه عنه قال: قال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء: " أمنكم أحد أكل اليوم، فقالوا: منا من صام، ومنا من لم يصم، قال: فأتموا بقية يومكم، وابعثوا إلى أهل العَروض فليتموا بقية يومهم".
أخرجه النسائي (4/192)، وابن ماجه (1/552) ، (ح1735)، وأحمد (4/388)، وابن خزيمة (2091) ، وابن حبان (8/382) (ح3617) .
- عن عائشة رضي اللَّه عنها قالت: " كان عاشوراء يصام قبل رمضان، فلما نزل رمضان كان من شاء صام، ومن شاء أفطر".
وفي رواية : " كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يصومه في الجاهلية، فلما قدم المدينة صامه، وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان ترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه" .
أخرجه البخاري (4/244) (ح2001) ، (2002) ، ومسلم (1125) ، وأبو داود (2/326) (ح2442)، والترمذي (2/118) (ح753) ، ومالك في "الموطأ" (1/299) ، وأحمد (6/29، 50، 162) ، وابن خزيمة (2080).
- وعن عبد اللَّه بن عمر رضي اللَّه عنهما قال: "كان عاشوراء يصومه أهل الجاهلية، فلما نزل رمضان قال: من شاء صامه، ومن شاء لم يصمه" .
وفي رواية : وكان عبد اللَّه لا يصومه إلا أن يوافق صومه.
وفي رواية لمسلم: " إن أهل الجاهلية كانوا يصومون يوم عاشوراء، وأن رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم صامه، والمسلمون قبل أن يفرض رمضان، فلما افترض، قال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : " إن عاشوراء يوم من أيام الله، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه" .
وفي رواية له أيضاً : " فمن أحب منكم أن يصومه فليصمه، ومن كره فليدعه" .
أخرجه البخاري (4/102، 244) (ح1892) ، (2000) ، و(8/177) (ح4501)، ومسلم (1126) ، وأبو داود (2/326) (ح2443) ، وابن ماجه (1/553) (ح1737) ، والدارمي (1/448) (ح1711) ، وابن حبان (8/386) ، (ح3622) ، (3623) ، والبيهقي (4/290).
- وعن عائشة رضي اللَّه عنها: " أن قريشاً كانت تصوم عاشوراء في الجاهلية، ثم أمر رسول اللَّه  بصيامه، حتى فرض رمضان، فقال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم : من شاء فليصمه، ومن شاء فليفطره" .
وفي رواية للبخاري: " كانوا يصومون عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوماً تستر فيه الكعبة.." .
أخرجه البخاري (4/102) (ح1893) ، و(4/244) (ح2002) ، و(3/454) (ح1592)، ومسلم (1125) ، وأبو داود (2/326) (ح2442)، والترمذي (2/118)، (ح753) ، والدارمي (1/449) (ح1712) ، ومالك في "الموطأ" (1/229) ، وأحمد (6/162، 244) ، وابن حبان (8/385) (ح3621) ، والبيهقي (4/288) ، والبغوي في "شرح السنة" (1702).
1- وعن حميد بن عبدالرحمن أنه سمع معاوية رضي اللَّه عنه يقول: سمعت رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يقول: " هذا يوم عاشوراء، ولم يكتب اللَّه عليكم صيامه، وأنا صائم، فمن شاء فليصم، ومن شاء فليفطر" .
أخرجه البخاري (4/244) (ح2003) ، ومسلم (1129) ، والنسائي (4/204) ، ومالك في "الموطأ" (1/299) ، وابن خزيمة (2085) ، وابن حبان (8/390) ، (ح3626) ، والطبراني (19/326) (ح744) ، والبيهقي (4/290)، والبغوي في "شرح السنة" (1785).

12- وعن علقمة بن قيس النخعي، أن الأشعث بن قيس دخل على عبدالله بن مسعود، وهو يطعم يوم عاشوراء، فقال: يا أبا عبدالرحمن ، إن اليوم يوم عاشوراء، فقال: "قد كان يُصام قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان ترك، فإن كنت مفطراً فاطعم" .
وفي رواية لمسلم: " كان يوماً يصومه رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان تركه" .
أخرجه البخاري (8/178) (ح5403) ومسلم (1127).
- وعن جابر بن سمرة رضي اللَّه عنه قال: "كان رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يأمر بصيام يوم عاشوراء، ويحثنا عليه، ويتعاهدنا عنده، فلما فرض رمضان لم يأمرنا ولم ينهنا، ولم يتعاهدنا عنده" .
أخرجه مسلم (1128) ، والطيالسي (1/106) (ح784) ، وأحمد (5/96، 105) ، وابن خزيمة (208) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار" (2/74)، والطبراني (1869) ، والبيهقي (4/265).

14- وعن قيس بن سعد بن عبادة رضي اللَّه عنه قال: " أمرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن نصوم عاشوراء قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان، لم يأمرنا ولم ينهنا، ونحن نفعله" .
أخرجه النسائي في "الكبرى" (2/158) (ح2841) ، وأحمد (3/421) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار (2/74).
شاید آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ دلیل ہمیشہ فرقہِ مخالف کی کتابوں سے دی جاتی ہے ۔ ان میں سے کسی بھی کتاب کا تعلق میرے مسلک سے نہیں ہے اسلئے یہ میرے اوپر حجت نہیں ہوسکتیں۔ یا تو اصولِ اربعہ سے دلیل دیجئے یا میرے سوالوں کےجواب عقلی دلائل سے دیں۔ اگر میں بھی جواب میں اصول کافی سے دلیلیں دوں تو کیا وہ آپ پر حجت ہوگیں۔
بہت ساری احادیث صرف اسی لیئے مشہور کی گئیں تھیں کہ بنی امیہ نے جو باطل نظریات مسلمانوں میں پھیلائے تھے انکو سپورٹ ملے انہوں نے جو ظلم کیئے آنحضرت (ص) کی آل پر انکی تشہیر نہ ہو پائے اور لوگ انکا محاسبہ نا کریں۔
 

سویدا

محفلین
میں‌معذرت خواہ ہوں‌!
آپ کسی بہتر مناظر کو تلاش کریں‌جو آپ کے شوق مناظرہ کو تسکین پہنچائے !
میرے لیے ترتیب وارقرآن کریم ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین حجت ہے !
 
1-آپ نے کہا ہے یہ روایت واقعہ کربلا سے پہلی کی ہے تو یہ بتائیے کہ یہ روایت جب تحریر ہوئی وہ وقت کربلا کہ واقہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا ظاہر ہے بعد کا ہوگا کیونکہ کوئی بھی محدث چاہے وہ امام مسلم ہوں امام بخاری یا ترمزی واقعہ کربلا کہ کئی سو سال بعد پیدا ہوئے تھے تو عین ممکن ہے یا حدیث یزید کی ماں کے فعل کو دوام بخشنے کے لیئے گڑھی گئی ہو۔
آپ ہی کی مانند میں بھی کسی بحث میں شمولیت اختیار نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ عرض کرتا چلوں کہ امام بخاری اور مسلم رحہما اللہ نے جو حدیثیں بھی بیان کی ہین وہ سند کے ساتھ ہیں، جن کا ہر راوی علم رجال کے جاننے والوں کے ہاں جانا پہنچانا اور ثقہ ہے۔البتہ کربلا کے جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں اغلب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر غلط ہیں۔ آپ ہمارے علم میں اضافہ کیجیے کہ کربلا کے واقعات کب صفحہ قرطاس پر منتقل کیے گئے اور کیا ان کے بیان کرنے والوں میں کوئی عینی شاہد بھی ہے؟
 

میر انیس

لائبریرین
آپ ہی کی مانند میں بھی کسی بحث میں شمولیت اختیار نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ عرض کرتا چلوں کہ امام بخاری اور مسلم رحہما اللہ نے جو حدیثیں بھی بیان کی ہین وہ سند کے ساتھ ہیں، جن کا ہر راوی علم رجال کے جاننے والوں کے ہاں جانا پہنچانا اور ثقہ ہے۔البتہ کربلا کے جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں اغلب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر غلط ہیں۔ آپ ہمارے علم میں اضافہ کیجیے کہ کربلا کے واقعات کب صفحہ قرطاس پر منتقل کیے گئے اور کیا ان کے بیان کرنے والوں میں کوئی عینی شاہد بھی ہے؟

السلام علیکم
بھائی آپ میرے لیئیے بہت قابلِ احترام ہیں ۔ پر آپ نے بھی وہی بات کی جو باقی میرے دوسرے بھائی کرتے رہتے ہیں کہ جب ایک بات میں لاجواب ہوگئے تو دوسرا موضوع چھیڑ دیا تاکہ پڑہنے والوں پر یہ تاثر نہ ہو کہ اب ہمارے پاس اور کوئی جواب اس سلسلے میں نہیں رہا ۔ میں نے جو سوالات کیئے تھے انکا تو کوئی جواب بن نہیں پڑا ان سارے لوگوں کی طرح جنہوں نے واقع کربلا کی حقانیت کے خلاف اور اسکو ایک جھوٹا افسانہ قرار دے کر اپنے بزرگوں کے سیاہ کارنامے چھپانے کی خاطر نیٹ پر صفحے کی صفحے بھر دیئے ۔
میرے بھائی آپ نے فرمایا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ساری احادیث پوری سند کے ساتھ ہیں اور سارے راوی ثقہ ہیں تو یہ تو باوجود اسکے کہ میں انکا آپ ہی کی طرح احترام کرتا ہوں کیونکہ بہر حال ان میں احادیث ہیں پر کیا کروں یہ میرے لیئے حجت نہیں ہیں کیونکہ اصولِ اربعہ کی کوئی کتاب آپ کے لیئے حجت نہیں ہے ۔ علمِ رجال کا بھی اپنا اپنا طریقہ ہے اب کیا کیا جائے کہ خود قاتلانِ حسین سے بھی احادیث نقل کی گیئں اور انکو ثقہ کہا گیا تو ایسی احادیث کا کیا اعتبار۔ امام بخاری اور امام مسلم کا بھی ظاہر ہے ایک فرقہ تھا اور انہوں نے وہ ہی احادیث صحیح سمجھیں جو انکے نظریات پر پورا اترتی تھیں باقی انہوں نے شامل نہیں کیں۔ اب خود دیکھئے کہ بعض احادیث کو صرف یہ کہ کر چھوڑ دیا گیا کہ انکا راوی ایک شیعہ تھا اب چاہے وہ کتنا بھی سچا رہا ہو۔
آپ بالکل ایسی ہی بات کر رہے ہیں جیسے اگر یہ تحقیق کرائی جائے کہ پاکستان کی اکنامی کو تباہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی اور اسکا جج بنادیا جائے چوہدری نثار کو کہ یہ جو فیصلہ کریں گے مانا جائے گا تو ظاہر ہے آپکو پتہ ہے وہ کس کے حق میں فیصلہ دیں گے یا پھر اگر جج بنادیا جائے شاہ محمود قریشی کو ۔
واقعہ کربلا کی مخالفت میں وہ لوگ ہی بولتے ہیں جنکا تعلق کسی نہ کسی طرح بنی امیہ سے ہے ۔ ہاں ایسا کوئی راوی لائیں جنکا تعلق بنی ہاشم سے ہو۔
آپ نے پوچھا کہ واقعہ کربلا کا عینی شاہد کون ہے تو عینی شاہد خود امام سجاد(ع) ہیں اور انکے بیٹے امام باقر(ع) ہیں ۔پر یہ سب حوالے میں جب دونگا جب آپ نیا دھاگہ شروع کریں گے۔ میں اپنی نہیں آپ کی کتابوں میں سے حوالے دونگا ۔
پر بھائی پہلے آپ میرے اس دھاگے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب تو دیں۔ یا اگر لاجواب ہوگئے ہیں تو پھر ہم یہ بحث آج سے ختم کردیتے ہیں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
سب سے پہلے تو میں اس بات کی نشاندہی کروں گا کہ سویدا نے جہان تک روزے کی با ت کی تو سب سچی اور صیح ہیں مگر زیادتی یہ کر گیٔں کہ فضیلت اور تاریخ بیان کرتے ہیوے اتنے اہم واقعے کو کھا گیٔں کیوں کہ یہ وا قعی اسلام کی حیات نو تھی جس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں مگر یہھیں پر انیس صا حب کا رویہ سراسر فرقہ پرستانہ اور مشعالانہ ہے اسلامیت اور صلح رحمی کا تقاضا تو ہے تھا کہ سہواً یا جان بوجھ کے جو مِسنگ ہو یٔ ہے اس میں اضا فہ کر کے کچھ مزید شامل کر کے کمی دور کی جا سکتی تھی آگے پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیتے۔ باقی جہان تک سوالات اٹھانے کا معاملہ ہے تو "با ت نکلے گی تو پھر دور تلک جاۓگی" جس کا کو یٔ حاصل مو صو ل نہیں ہو گا جو ، جو ہے وہ وہی رہنا ہے ظہور مہدی (امام غا ٔب کا ظہور نہیں( ہی ظہرر حق ہو گا اور شیعت کا رنگ فق ہو گا۔ اس لیے انیس صا حب امام بخاری اور سلف کو غلط کہنے اور حجت مانگنے سے گریز کریں نہیں تو " حق " کے نام سے ایک نیا دھا گہ کھو لیں اور پھر آپ کو آپ کی معتبر کتابوں سے کیٔ حجت دی جأیں گی۔ ا للھم صلے علی محمد و آل محمد و ا صحاب محمد۔  
 

میر انیس

لائبریرین
سب سے پہلے تو میں اس بات کی نشاندہی کروں گا کہ سویدا نے جہان تک روزے کی با ت کی تو سب سچی اور صیح ہیں مگر زیادتی یہ کر گیٔں کہ فضیلت اور تاریخ بیان کرتے ہیوے اتنے اہم واقعے کو کھا گیٔں کیوں کہ یہ وا قعی اسلام کی حیات نو تھی جس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں مگر یہھیں پر انیس صا حب کا رویہ سراسر فرقہ پرستانہ اور مشعالانہ ہے اسلامیت اور صلح رحمی کا تقاضا تو ہے تھا کہ سہواً یا جان بوجھ کے جو مِسنگ ہو یٔ ہے اس میں اضا فہ کر کے کچھ مزید شامل کر کے کمی دور کی جا سکتی تھی آگے پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیتے۔ باقی جہان تک سوالات اٹھانے کا معاملہ ہے تو "با ت نکلے گی تو پھر دور تلک جاۓگی" جس کا کو یٔ حاصل مو صو ل نہیں ہو گا جو ، جو ہے وہ وہی رہنا ہے ظہور مہدی (امام غا ٔب کا ظہور نہیں( ہی ظہرر حق ہو گا اور شیعت کا رنگ فق ہو گا۔ اس لیے انیس صا حب امام بخاری اور سلف کو غلط کہنے اور حجت مانگنے سے گریز کریں نہیں تو " حق " کے نام سے ایک نیا دھا گہ کھو لیں اور پھر آپ کو آپ کی معتبر کتابوں سے کیٔ حجت دی جأیں گی۔ ا للھم صلے علی محمد و آل محمد و ا صحاب محمد۔  

السلام علیکم
چلیں آپ نے یہ بات تو تسلیم کی کہ زیادتی آپ ہی کی طرف سے ہوئی تھی۔ باقی آپ لوگ کی روش ہمیشہ سے وہی جاری ہے کہ جب ایک بات کا جواب نہ بن پڑا تو دوسری شروع کردی اگر ایک کوئی جواب نہ دے پایا تو دوسرا میدان میں آگیا پھر وہ لاجواب ہوکر بیٹھ گیا تو تیسرا آگیا اسطرح تو یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ اب آپ امام مہدی (ع) کے ظہور کو لے آئے جب کہ میں نے جو سوالات کیئے ہیں وہ تو روزے سے متعلق ہیں میں تو انکا جواب چاہتا ہوں۔ وہ آپ پہلے دیں باقی باتیں جو بھی آپ کو کرنی ہیں شوق سے کسی دوسرے دھاگے میں کرلیں مجھکو اپنے فرقہ کی حقانیت پر اتنا یقینِ کامل ہے کہ انشاللہ آپ لوگ ایک کے بعد ایک چپ ہو ہو کر بیٹھتے رہیں گے جیسے اس دھاگے میں کئی لوگوں نے اپنے خیالات سے نوازا پر بغیر کسی دلیل کے۔
دوسری بات کہ میں نے امام بخاری کو سراسر غلط نہیں کہا بلکہ یہ کہا ہے کہ ظاہر ہے وہ بھی کسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے بھی اگر ایسی احادیث کو دیکھا جو انکے فرقے کے یکسر خلاف جارہی تھیں تو انکوحذف کردیا۔ اور یہ میرے مسلک کا نظریہ ہے اور اس سے کسی کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
باقی باتیں جو بھی آپ کو کرنی ہیں شوق سے کسی دوسرے دھاگے میں کرلیں مجھکو اپنے فرقہ کی حقانیت پر اتنا یقینِ کامل ہے کہ انشاللہ آپ لوگ ایک کے بعد ایک چپ ہو ہو کر بیٹھتے رہیں گے جیسے اس دھاگے میں کئی لوگوں نے اپنے خیالات سے نوازا پر بغیر کسی دلیل کے۔
عنقریب انشاءاللہ میں‌ آپ کی یہ دعوت قبول کرتے ہوئے، ایک دعوت آپ کو دوں گا مجھے ذرا ایک ذاتی فورم مکمل کرنے دیں۔ پھر کھلا میدان ہو گا اور یار لوگ جی بھر کر ہاہا کار مچا سکیں گے:grin:
 
Top