::::::: ماہ حج اور ہم ::: پہلے دس دن ::: فضیلت اور احکام :::::::

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ایک دفعہ پہلے میں نے یہ مضمون تصویری شکل میں ارسال کیاتھا اور اب اسے تحریری صورت میں ارسال کر رہا ہوں ،
اور اس کے ساتھ ذی الحج سے متعلقہ دیگر مضامین جو کہ پہلے ارسال کیے تھے ، اُں کے روابط بھی لکھ رہا ہوں ،
اور جس کتاب سے یہ مضمون اخذ کیا گیا اُس کو نازل کرنے کا ربط بھی ،
سب قارئین سے دعا کی درخواست ہے ، و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: ذی الحج کے پہلے دس دِن:::::

ذی الج کے پہلے دس دِن بہت فضلیت والے ہیں ، لیکن ہماری بگڑی ہوئی عادات کا شِکار ہو کر ہمارے درمیان اپنی اَصلی حالت کھو چُکے ہیں اور دیگر دینی معاملات اور عِبادات کی طرح اِن دِنوں کا حال بھی بے حال کیا جا چُکا ہے ، یہ دس دِن حج کرنے والے اور نہ کرنے والے کے لئیے بہت فضلیت والے ہیں اور سب کے لئیے ایک جیسا حُکم ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے::: ( وِ یَذکُرُوا اسَّمَ اللَّہِ فِیۤ اَیَّامٍ مَعلُومَاتٍ ) ( اور وہ اللہ کے نام کو یاد کریں معلوم شدہ دِنوں میں ) سورت الحج آیت ٢٨​

اور فرمایا ( وِ اَذکُرُوا اسمَ اللَّہِ فِیۤ اَیَّامٍ مَعدُُودَاتٍ )( اور گنتی کے دِنوں میں اللہ کے نام کو یاد کرو ) سورت البقرہ آیت ٢٠٣​

'' عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہُما نے معلوم شدہ دِنوں کی تفسیر میں کہا کہ یہ ذوالحج کے پہلے دِس دِن ہیں اور گنتی کے دِنوں کی تفسیر میں کہا کہ یہ اَیامِ تشریق ہیں '' صحیح البُخاری ، کتاب العیدین ، باب ، فضل العمل فی اَیام التشریق ،​

عبداللہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ::: ( مَا العَملُ فی اَیامِ العَشرِ اَفضلَ مِن العَملِ فی ہذہِ : قالوا : و لا الجِھادُ : قال : و لا الجِھادُ اِلَّا رَجُلٌ خَرجَ یُخاطِرُ بِنَفسِہِ وَ مَالِہِ و لم یَرجِعُ بشيءٍ )( اِن دس دِنوں میں کئیے جانے والوں کاموں ( یعنی نیک کاموں ) سے زیادہ بہتر کام اور کوئی نہیں : صحابہ نے کہا : کیا جِہاد بھی نہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دِیا : جِہاد بھی نہیں ، سوائے اِس کے کہ کوئی اپنا مال اور جان لے کر نکلے اور اُس میں سے کوئی چیز بھی واپس نہ آئے ) یعنی ، صِرف وہ جِہاد اِن دس دِنوں کے عمل سے زیادہ بہتر ہے جِس میں مُجاہد کی جان اور مال دونوںاللہ کی راہ میں کام آ جائیں) ۔ صحیح البُخاری حدیث ، ٩٦٩ ۔​

عبداللہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ::: ( مِا مِن اَیامٍ العَملُ الصَّالحُ اَحبَ اِلیَ اللَّہِ مِن ھذہِ الاَیامِ العشر : قالوا : ولا الجِھادُ فی سبِیلِ اللَّہِ : قال : و لا الجِھادُ فی سبِیلِ اللَّہِ ، اِلَّا رَجُلٌ خَرجَ بِنَفسِہِ وَ مَالِہِ و لم یَرجِع مِن ذَلِکَ بشيءٍ ) ( اِن دس دِنوں میں کئیے جانے والے نیک کام اللہ تعالیٰ کو کِسی بھی اور دِنوں میں کئیے جانے والے نیک کاموں سے زیادہ محبوب ہیں صحابہ نے کہا : کیا جِہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دِیا : جِہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی اپنا مال اور جان لے کر نکلے اور اُس میں سے​
کوئی چیز بھی واپس نہ آئے ) اَبو داؤد حدیث ٢٤٣٥ ، ابن ماجہ حدیث ١٧٢٧ ۔ اِمام ا لاَلبانی نے صحیح قرار دِیا ۔​
::::: اِن دس دِنوں میں ہی اِسلام کے پانچ اَرکان میں سے ایک کو اَدا کرنے کا وقت ہوتا ہے اور وہ رکن ہے حج :::::
::::: حج کی فرضیت :::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَ لِلَّہِ عَلیٰ النَّاسِ حِجّ ُ البَیتِ مَنِ اَستَطاعَ اِلَیہِ سَبِیلاً ، وَ مَن کَفَرَ فَاِنَّ اللَّہَ غَنِيٌ عَنِ العَلٰمِینَ ) ( اور لوگوں میں سے جِس کی قُدرت ہو اُس پر اللہ کے لئیے ( اللہ کے ) گھر کا حج کرنا فرض ہے ، اور جو انکار کرے گا ، تو اللہ سب جہانوں سے غنی ہے ) سورت آل عمران آیت ٩٧​
اور فرمایا ( وَ اََذِّن فی النَّاسِ بِالحَجِ یَاَتُوکَ رِجَالاً وَ عَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یاَتِینَ مِن کُلِّ فَجٍ عَمِیقٍ لِّیَشھَدُوا مَنٰفِعَ لَھُم )( اور لوگوں میں حج کی پکار کرو ، تُمہارے پاس پیدل اور کمزور اونٹوں پر لوگ آئیں گے اور ہر وسیع ( کھلے چوڑے ) راستے سے آئیں گے ، تا کہ اپنے فائدے حاصل کریں ) سورت حج آیت ٢٧ ۔​
لہذا ہر وہ مُسلمان جو حج کے لئیے اللہ کے گھر تک پُہنچنے اور حج کرنے کی طاقت رکھتا ہے ، یعنی مالی اور جسمانی طاقت تو اُس پر حج کرنا فرض ہو جاتا ہے ۔
::::: حج کی فضلیت :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ::: ( مَن حَجَ و لَم یَرفُث و لَم یَفسُق رَجع کیوم ولدتہُ اُمُہُ ) ( جِس نے حج کیا ، اور جنسی معاملات میں ملوث ہونے ، اور گُناہ کرنے سے باز رہا تو وہ اُس دِن کی طرح واپس آئے گا جِس دِن اُس کی ماں نے اُسے جنم دِیا تھا ) صحیح البُخاری حدیث ١٥٢١​
( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ '' کون سا کام سب سے زیادہ اَفضل ہے '' تو اُنہوں نے فرمایا ( اللہ ا ور اُس کے رسول پر اِیمان ) پھر پوچھا گیا '' پھر اِس کے عِلاوہ '' تو اُنہوں نے فرمایا ( اللہ کی راہ میں جہاد ) پھر پوچھا گیا '' پھر اِس کے عِلاوہ '' تو اُنہوں نے فرمایا ( قبول شدہ حج ) ) صحیح البُخاری حدیث ١٥١٩ ۔​
::::: یومِ عرفات :::::
اِن دس بلند رتبہ دِنوں کا نواں دِن وہ ہے جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، یہ ہی وہ قیام ہے جِس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کہا ہے ( النسائی حدیث ٣٠١٦) جِس قیام پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اَظہار کرتا ہے ( مُسند اَحمد حدیث ٧٠٨٩) اور اِس دِن میں ا للہ تعالیٰ دوسرے دِنوں کی نسبت سب سے زیادہ بندوں کی مغفرت کرتا ہے صحیح مُسلم حدیث ١٣٤٨ ،​
جو مُسلمان اِس قیام میں شامل نہیں ہوتے لیکن اِس دِن کا روزہ رکھتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں کو اِس دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں ایک سال پچھلے اور ایک سال اگلے کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ۔ ( صحیح مُسلم حدیث ١١٦٢ )​
::::: عید ا لاَضحی :::::
:::::اِن دس دِنوں کا دسواں دِن حج کرنے اور حج نہ کرنے والوں کے لئیے اللہ کی راہ میں جانور قُربان کرنے کا دِن ہے ،
::::: اور حج کرنے والوں کے لئیے اپنے اَحرام سے حلال ہو جانے کا دِن ہے ::::: اور سب مسلمانوںکے لئیے عید کا دن ہے​
( سُنن اَبو داؤد حدیث ٢٤١٩ سُنن النسائی حدیث ٣٠٠٤ ، سُنن الترمذی حدیث ٧٧٣ ) ۔​
::::: پہلے دس دِنوں میں کی جانے والی غلطیاں:::::
::::: حاجی اور غیر حاجی اِن دس دِنوں میں اپنے اپنے فرائض ادا کرنے میں نہ صِرف کوتاہی کرتے ہیں بلکہ بہت سی غلطیاں کرتے ہیں جو غلطیاں عام طور نظر آتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :::​
::::: ( ١ ) لوگ عام طور پر اِن دس دِنوں کو دوسرے عام دِنوں کی طرح گُذار دیتے ہیں اور اِن میں نیک کاموں کی کثرت کرنا تو درکنار کوئی بھی نیک کام عام معمولات سے زیادہ نہیں کرتے ۔​
::::: ( ٢ ) تسبیح ( سُبحان اللہ کہنا ) تکبیر ( اللہ اکبر کہنا ) ، تہلیل ( لا اِلہَ اِلَّا اللَّہ) کہنا اور تحمید (الحمدُ للَّہ کہنا ) نہیں کی جاتی یا بہت ہی کم کی جاتی ہے اور زیادہ تر اُسے فرض نمازوں کے بعد تک ہی محدود رکھا جاتا ہے ، جب کہ صحابہ اِن دس دِنوں میں گلیوں بازاروں میں اللہ کی تکبیریں بُلند کیا کرتے تھے اور لوگ بھی اُن کی تکبیر سُن کر تکبیر بُلند کیا کرتے تھے ، جیسا کہ عبداللہ ابنِ عُمر اور اَبو ھُریرہ ( رضی اللہ عنہُم ) کے بارے میں روایت ہے ۔ صحیح البُخاری کتاب العیدین باب فضل العمل فی اَیام التشریق ۔ ( اَس کی تفصیل بھی رمضان کے آخر میں عید والے مضامین بیان کی تھی )​
::::: ( ٣ ) تسبیح ، تکبیر ، تہلیل اور تحمید کو با جماعت کیا جانا ۔​
::::: ( ٤ ) مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی با جماعت ا ور بُلند آواز کے ساتھ اِس تسبیح ، تکبیر ، تہلیل اور تحمید میں شامل ہونا ۔​
::::: ( ٥ ) تسبیح ، تکبیر اور تہلیل اور تحمید کے ساتھ موسیقی کو شامل کرنا یا رقص کرنا یا بد مستی کے مظاہرے کرنا ، جِسے کچھ خاص لوگوں کی زُبان (اصطلاحات )میں حالتِ جذب یا حالتِ وجد کہا جاتا ہے ۔ اور اِس کی تعریف میں وہ لوگ جو کُچھ کہتے ہیں سوائے کُفر کے اور کُچھ نہیں ، اگر بات لمبی ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو اِس کی تشریح ضرور کرتا ، فی الحال اِتنا ہی کہتا ہوں کہ حالتِ جذب میں وہ لوگ شیطان میں جذب ہوتے ہیں یا شیطان اُن میں ، اور اِسی طرح وجد ان میں بھی یہ ایک دوسرے کے لئیے مُیسر ہوتے ہیں ۔
::::: ( ٦ ) تسبیح ، تکبیر اور تہلیل اور تحمید کو خلافِ سُنّت اپنے الفاظ میں ، اپنی گنتی میں ، اپنے انداز میں ادا کرنا ۔​
::::: ( ٧ ) تسبیح ، تکبیر اور تہلیل اور تحمید کو عام جگہوں پر با آوازِ بُلند نہ کہنا ۔​
::::: ( ٨ ) تسبیح ، تکبیر اور تہلیل اور تحمید کو تسبیح یا پتھروں گُٹھلیوں وغیرہ پر گِن کر کرنا ، اِس کام کا سُنّت میں کوئی ثبوت نہیں ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تسبیحات اور ذکر کو اپنے سیدھے ہاتھ کی پہلی پوروں پر گنا کرتے تھے ۔​
::::: ( ٩ ) سارے کے سارے دس دِنوں کا روزہ رکھنا ، یہ کام بھی خِلافِ سُنّت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اِن دس دنوں کے روزے نہیں رکھے سوائے ٩ ذی الحج یعنی قیامِ عرفات کے دِن کے ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ::: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اِن دس دِنوں کے روزے نہیں رکھے ) صحیح مُسلم حدیث ١١٧٦ ،​
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں کی طرف سے روایت ہے کہ ::: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٩ ذی الحج ، دس محرم اور ہر مہینے کے تین دِن ( یعنی اَیامِ بیض ) اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے ) سنن اَبو داؤد حدیث ٢٤٣٤ ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کا یہ مطلب نہیں کہ مہینے کے باقی سوموار اور جمعرات کا روزہ نہیں رکھا جائے گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے جیسا کہ دیگر صحیح اَحادیث میں آیا ہے ۔ ::::: ( ١٠ ) اَیامِ تشریق ، یعنی گیارہ ، بارہ ، تیرہ ذی الحج کے روزے رکھنا ۔​
::::: ( ١١ ) جِس شخص نے قُربانی کرنے کا اِرادہ کیا ہو ، قُربانی کرنے سے پہلے اُس شخص کا بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال کاٹنا یا اُکھیڑنا یا ناخن کاٹنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی خِلاف ورزی ہے ، اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ::: ( اِذَا دَخَلتِ العَشرُ وَ اََرادَ اََحَدُکُم اََن یُضَحِّیَ ، فَلا یَمَسَّ مِن شَعرِہِ وَ بَشَرِہِ شَیاءً ) ((( جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور تُم میں سے کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور جِسم میں سے کِسی چیز کو مت چھوئے ) صحیح مُسلم حدیث ، ١٩٧٧​
بالوں اور جِسم کو مت چھوئے کا کیا مطلب ہے ، اِسی حدیث کی دوسری دو روایات جو اِس کے بعد ہی اِمام مُسلم نے نقل کی ہیں ،اِن دو روایات میں ا ِس حُکم کی تفصیل ملتی ہے ، یہ بھی اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ایک روایت کے الفاظ ہیں :::​
( جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور کِسی کے پاس قُربانی کے لئیے جانور ہو اور وہ اُسے قُربان کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں میں سے بالکل کُچھ نہ لے ( یعنی کوئی بال نہ کاٹے ) اور ہر گِز اپنے ناخُن نہ کاٹے )
اور دوسری کے ( جب تُم لوگ ذی الحج کا چاند دیکھ لو اور تُم میں سے کوئی قُربانی کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخُنوں سے باز رہے )
اِن تمام اَحکام کی موجودگی میں قُربانی کرنے والے کِسی بھی شخص کے لئیے اِس بات کی کوئی گُنجائش نہیں رہتی کہ وہ قُربانی کرنے سے پہلے بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال لے یا ناخُن کاٹے ، ہاں کِسی ضرورت کی صُورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے ، ایسا کیا جانے کا جواز کیا ہے ، یا کِس بُنیاد پر یہ کہا جا رہا ہے ، اِس کی تفصیل آگے آنے والے صفحات میں ''' دِین آسانی ہے ''' کے زیرِ عنوان ملاحظہ فرمائیے ۔
::::: ( ١٢ ) اگر حاجی اور حالتَ احرام والے کے عِلاوہ ، صِرف قُربانی کرنے والاکوئی شخص بوجہ ضرورت یا بھول یا غلطی سے اپنے جِسم کا کوئی بال لے یا ناخن کاٹ لے تو اُس پر فدیہ یا جُرمانہ ہونے کا فتویٰ دینا ، اِیسے فتوے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ اللہ کی کتاب میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت میں ۔​
::::: ( ١٣ ) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص حج کے مہینے کے دوسرے تیسرے یاپہلے دس دِنوں میں سے کِسی بھی دِن قُربانی کا اِرادہ کرتا ہے ، اور اِس ارادے سے پہلے وہ اپنے بال یا ناخن کاٹ چُکا ہوتا ہے ، تو اُسے یہ کہا یا سمجھایا جاتا ہے کہ اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے کیونکہ تُم نے چاند نکلنے کے بعد بال یا ناخن کاٹ لیئے ہیں لہذا اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے ، یہ بھی اُوپر درج کئی گئی اَحادیث کے خِلافِ ہے ، کیونکہ قُربانی کا ارادہ کرنے والا شخص اِس حُکم کا پابند قُربانی کرنے کے ارادے کے بعد ہو گا پہلے نہیں ۔
::::: ( ١٤ ) کُچھ لوگ اپنی قُربانی کرنے کے لئیے کِسی کو وکیل بنا دیتے ہیں یا وصیت کر دیتے ہیں ، اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ اب بال یا ناخن نہ کاٹنے کے خُکم کی پابندی وہ کرے گا ہم نہیں ، اور بڑے آرام سے بال ناخن اور داڑھی وغیرہ کاٹتے یا تراشتے ہیں ، اور ایسا کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ بال یا ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کا حُکم اُس کے لئیے جو قُربانی کر رہا ہے نہ کہ اُس کے لئیے جو اُس کی طرف سے جانور ذبح کر رہا یا اُس کا گوشت وغیرہ تقسیم کر رہا ہے ، یہ حیلہ ہے ، جیسا کہ بنی اَسرائیل مچھلیاں پکڑنے کے لئیے کیا کرتے تھے ۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ::: ( یُخٰدِعُونَ اللَّہَ وَالَّذِینَ ءَ ا مَنُوا وَ مَا یَخدَعُونَ اَلَّا اََنفُسَھُم وَ مَا یَشعُرُونَ ) ( ( یہ لوگ اپنی طرف سے ) اللہ کو اور جو ایمان لائے ہیں اُنہیں دہوکہ دے رہے مگر ( اصل میں ) یہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے لیکن جانتے نہیں ) سورت ، بقرہ ، آیت ، ٩​
::::: ( ١٥ ) کِسی خاندان کا بڑا جب قُربانی کا ارادہ کرے تو باقی گھر والوں کو بال یا ناخن کاٹنے یا تراشنے سے روک دینا ، یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ لوگ بھی قُربانی کے کاموں میں شامل ہوں گے لہذا یہ بھی اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹیں گے ۔ یہ بھی ایسا فتویٰ ہے جِس کے لئیے دین میں کوئی دلیل نہیں ۔​
::::: ( ١٦ ) قُربانی کے جانور کو کِسی ایک میت کے ایصالِ ثواب کے لئیے خاص کرنا ۔​
::::: ( ١٧ ) قُربانی کرتے ہوئے جانور کی پیٹھ پر یا جِسم کے کِسی حصے پر ہاتھ رکھ کر یا اِس کے بغیر ہی کہنا کہ یہ قُربانی فُلان کے نام کی ہے ، اے اللہ اِس کا ثواب فُلان کو پہنچا دے ، اور بسا اَوقات تو چھری چلانے والا صِرف اِس بات کا ہی اَعلان کرتا ہے اور جانور اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی بجائے غیر اللہ کے نام پر کاٹ دِیا جاتا ہے ، اگر بھول سے ایسا ہو تو اِنشاءَ اللہ کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ بات آ سانی سے مانی جانی والی نہیں کہ ذبح سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی نیت کا اَعلان کرنا یا کروانا تو یاد رہتا ہے مگر اللہ کا نام لینا یاد نہیں رہتا ۔
ثواب اور اَجر پُہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ، اور وہ کِسی کے حُکم یا ارادے کا پابند نہیں ، سُبحانہُ و تعالیٰ ، اِس موضوع پر میری ایک کتاب بعنوان '' ایصال ثواب کیا ، کب اور کیسے '' شائع ہو چکی ہے ، وللہ الحمد و ماتوفیقی اِلا باللہ۔
::::: ( ١٨ ) حرام مال میں سے قُربانی کرنا ، اللہ تعالیٰ حرام مال سے دی گئی چیز کو قبول نہیں کرتا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے::: ( اِنَّ اللَّہَ طیِّبٌ لا یُقبلُ اِلَّا طیِّباً ) ( اللہ پاک ہے اور پاکیزہ کے علاوہ قبول نہیں کرتا ) صحیح مُسلم ۔​
::::: ( ١٩ ) قُربانی کرنے کی مالی اَستطاعت ہونے کے باوجود بھی قُربانی نہ کرنا ۔​
::::: ( ٢٠ ) پیسے بچانے کی خاطر یا نام کرنے کے لئیے کہ فُلان نے بھی قُربانی کی ہے جیسا تیسا جانور بھی ملے ، لے کر قُربان کر دینا ۔​
::::: ( ٢١ ) سارا گوشت بانٹ دینا ، یا سارا ہی اپنے لئیے رکھ لینا ، یا صِرف اپنے خاص لوگوں میں بانٹنا جِنہوں نے خود بھی قُربانی کی ہوتی ہے اور غریبوں کا خیال نہ رکھنا ۔​
::::: ( ٢٢ ) جانور قُربان کرنے کی بجائے اُس کی قیمت ادا کرنا ۔​
::::: ( ٢٣ ) عید کی نماز سے پہلے قُربانی کرنا ۔​
::::: ( ٢٤ ) بغیر کِسی شرعی عُذر کے اپنا جانور کِسی اور سے ذبح کروانا ۔​
::::: ( ٢٥ ) عید کی نماز پڑہنے سے پہلے کھانا پینا ۔​
::::: ( ٢٦ ) بغیر کِسی عُذر کے عید کی نماز عید گاہ میں پڑہنے کی بجائے کِسی مسجد میں پڑہنا ۔​
::::: ( ٧ ٢ ) عید ملتے ہوئے جو الفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم ادا کیا کرتے تھے اُن کو بُھول کر ایسے الفاظ ادا کرنا جِن کو ادا کرنے کا نہ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ثبوت ہے اور صحابہ کی سُنّت میں نہ اَئمہ کے اَقوال و اَفعال میں ۔​
::::: ( ٨ ٢ ) اِس دِن کو یا اِن دِنوں میں کِسی اور دِن کو ( یا اِن کے علاوہ سال کے کِسی بھی دِن کو ) قبرستان یا کِسی خاص قبر کی زیارت کے خاص کرنا​
::::: ( ٩ ٢ ) عید ملنے کے نام پر حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ، محرم نا محرم کا فرق مٹا کر ، شرم و حیا کو رُخصت کر کے ، غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کر ، عید ملن اَجتماع کرنا ، ایسی ملن پارٹیاں جِن میں سب بھائی ، بہہنیں ، دیور ، بھابھبیاں ، انکل ، آنٹیاں اور کزنز موجود ہوتے ہیں اور کِسی شرعی حد کا خیال اور لحاظ کئیے بغیر ہوتے ہیں ، اور کہتے ہیں ''' پردہ تو نظروں کا ہوتا ہے ''' گویا اِن کی نظریں پاک ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کی نظریں پاک نہ تھیں ، کُچھ اپنے تئیں اِن سے بھی زیادہ مضبوط دلیل رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں کہ ''' دِل صاف ہونے چا ہِیں ''' گویا اِن کے دِل تو صاف ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کے دِل صاف نہ تھے ، اِنِّا لِلِّہِ و اِنَّا اِلیہِ راجِعُونَ ، و اللَّہُ المُستعَانُ ۔
قارئینِ محترم مندرجہ بالا غلطیاں بہت میں سے چند ہیں صرف اِن کا ذِکر اِس لئیے کیا گیا ہے یہ بہت عام نظر آتی ہیں ، اِن کو سمجھ کر اِن کی اصلاح کیجیئے اگر کِسی کو اِن باتوں کے بارے میں کوئی مزید وضاحت درکار ہو تو بِلا تردد طلب فرمائیے ، مُجھے کِسی بھی مُسلمان کی راہنمائی کر کے بہت خوشی ہوتی ہے ، اور بہت کُچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ، اور یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاءَ کردہ توفیق سے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اَعمال قبول فرمائے اور ہمارے گُناہ معاف فرمائے ۔​
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔​
عادِل سُہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذی الحج سے متعلقہ مضامین ، ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا مطالعہ بھی مفید ہو گا ،
::: قربانی سے متعلقہ اہم مسائل :::

::::: قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل :::::

::: یوم عرفات کا روزہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید سے متعلقہ مضامین
::: دونوں عیدوں کے دن اور نمازوں سے متعلقہ مسائل :::

:::::: عید اور نعمتوں پر شکر :::::


::::::: عید کی مبارکباد اور دُعا :::::::

::::::: عید اگر اس طرح منائی جائے تو کیا حرج ہے ؟ :::::::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( کتاب ’’’ عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ‘‘‘ سے ماخوذ )​

 
Top