اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

فہیم

لائبریرین
کے حق میں بہت ہی بہتر ہوا مگر وہ ہماری آج کی نہیں قدیم کی سرکار تھیں۔ ہمارے سارے خاندان پر ان کے اور ان کے بزرگوں کے احسانات کے ابنار ہیں۔
نوبل صاحب: بے شک، اپنے محسن اور مربی اور سرپرست اور آقا کی یاد کا تازہ رکھنا شرط مروت اور شیوہ وفاداری ہے مگر میں امید کرتا ہوں کہ ہماری سرکار بھی آپ پر اتنا تو ضرور ثابت کردے گی کہ وہ بھی قدر دانی اور حق شناسی میں قلعے کی کسی سرکار سے کم نہیں۔
جس دن قلعہ شاہی پر گولے برسنا شروع ہوئے ، فوج کا ضعف اور اہل شہر کا ہراس کھل پڑا۔ لوگ لگے مال و متاع چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے اور لوگوں نے یہ بھی غضب ڈھانا شروع کیا کہ کلکتے دروازے سے لے کر لاہور دوازے تک شہر کے شمالی حصے میں شاذ و نادر کوئی مکان ان کے صدمے سے بچا ہو تو بچا ہو ورنہ تو سارے دن اور ساری رات ہر طرف سے یہی آواز چلی آتی تھی: "پھٹ پھٹ اڑا ڑا ڑا دھوں"۔
رفتہ رفتہ ابن الوقت کے محلے میں سے بھی لوگ کھسکنے شروع ہوئے، تب تو ابن الوقت کو سخت تردد پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہوا کہ ہماری عورتوں کے کانوں میں بھی بھنک پڑ جائے اور شہر سے چلے جانے کا اردہ کریں۔ چنانہ ابن الوقت نے ایک دن اس خدشے کو نوبل صاحب سے بھی بیان کیا تو انھوں نے فرمایا، جو لوگ شہروں کے جنوبی حصوں میں رہتے ہیں ان کو گولوں کے ڈر سے بھاگنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ گولہ باری صرف فوج باغی کے ڈرانے کی وجہ سے ہورہی ہے اور وہ حاصل ہوچکی ہے، کیونکہ سب کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں۔ اب سرکار کو جانوں اور عمارتوں کو نقصان کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ نہیں نہیں! آپ بخوبی اطمینان رکھئے، ہم لوگو گولوں کی گزند سے محفوظ ہیں۔ لیکن ہاں اگر ایسا ہوا کہ شہر کے فتح ہوجانے سے پہلے میرا جانا ٹھہر گیا تو اتنی سی احتیاط ضرور کرنا کہ مکان ہفتے عشرے کا سامان رکھ کے مضبوطی کے ساتھ اندر ہو بیٹھنا۔ فتح من فوج کے دشمن کا شہر میں داخل ہونا گویا ایک عذاب کا نازل ہونا ہے۔ سامنے پڑا ہوا آدمی بچ نہیں سکتا۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ شہر کے فتح ہونے سے پہلے میں آپ کی حفاظت کا بندوبست کرسکوں گا۔
اگلے دن جو ابن الوقت قلعہ گیا تو دیکھا جہاں پناہ بھی بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سمجھا کہ اب صبح شام انگریز داخل ہونے والے ہیں۔ وہاں کے کام کاج سے فراغت پاکر گھر کو واپس آرہا تھا کہ بادشاہ کے خاص الخاص خدمت گار یاقوت نے پیچھے سے آواز دی اور برابر آکر کہنے لگا "بھلا ہوا کہ میں نے آپ کو جاتے دیکھ لیا ورنہ آپ کے گھر میں جانا پڑتا۔ جو انگریز آپ کے گھر چھپا ہوا ہے یہ چھٹی اس کے نام کی ہے، اس کو دیجئے گا"۔ یہ کہہ کر یاقوت الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ ابن الوقت اپنے دل میں کہتا چلا آتا تھا کہ کس برتے پتا پانی مردانگی کا وہ حال دیکھ کر ایک دن بھول کر قلعے سے باہر قدم نہ رکھا، بیدار مغزی اس درجہ کی کہ، اپنے خاص الخاص خدمت گار انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں، تو بغاوت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ گھر آکر نوبل صاحب کو چھٹی دی۔ لکھا تھا کہ کل کا دن بیچ پرسوں دو بجے رات سے شہر پر دھاوا ہے۔ آج رات آتھ بجے سے آدھی رات تک ایک لیفٹنٹ کچھ گورے لے کر کابل دروزے کے باہر بو علی شاہ کے تکیہ میں تمہارا منتظر رہے گا۔ دیکھو، موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
غدر سے بہت دنوں بعد تک شہر کے دروازہں پر پہرے کی چوکی کا ایسا سخت انتظام رہا کہ بے تلاشی کوئی گزرنے نہیں پاتا تھا۔ لوگوں میں تو یہ مشہور تھا کہ اس سے مخبری کا انسداد منظور ہے مگر فی الواقع مردم آزاری کے سوائے کوئی بات نہہں تھی یا اب یہ حال ہوگیا تھا کہ کلکتے دروازے سے لے کر کابلی دروازے تک شہر کے پانچ دروازے تو بالکل ہی بند تھے، لاہوری کھلا ہوا تھا مگر برائے نام، کیونکہ گولے کے ڈر کے مارے کسی کو اس دروازے کے باہر بھی قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ آمد و شد کی بڑی بھر مار پہلے سے بھی دلی دروازے اور ترکمان دروازے پر تھی، جب بھاگڑ شروع ہوئی تو یہ حال ہوگیا تھا کہ سارا شہر انہیں دو دروازوں کی راہ میں امڈ ہوا نکلا چلا جاتا تھا۔ صلاح یہ ٹھہری کہ اچھی طرح جھپٹنا ہولے تو ترکمان دروازے سے نکل چلیں اور
باہر باہر گھوم کر تکیہ میں جا داحل ہوں۔
نوبل صاحب جب تک ابن الوقت کے گھر رہے ہندوستانی لباس پہنا کیے اور وہ ایسے جامہ زیب آدمی تھے کہ ہندوستانی کپڑوں میں بہت ہی بھلے معلوم ہوتے تھے۔ جو کپڑے پہنے بیٹھے تھے اسی طرح ابن الوقت اور اس کے دو راز دار ملازموں اور جانثار
 

محمد امین

لائبریرین
ناعمہ عزیز کے لیے:

IbW-0014.gif
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کو ساتھ کر اٹھ کھرے ہوئے۔ نوبل صاحب نے صر ف اتنی احتیاط کی کہ چادر سے اپنا منہ چھپا لیا، جیسے کسی کی آنکھیں دکھتی ہوں۔ ابن الوقت ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے آگے آگے تھا۔ وہ ایسا نفسا نفسی کا وقت تھا کہ کوئی کسی کے حال سے معترض نہ ہوتا۔ نا کسی نے روکا نا کسی نے ٹوکا، اچھی خاصی طرح دندناتے ہوئے دروازے کے باہر جا موجود ہوئے ۔ پھر آگے اجمیری دروازے کے برابر میں گنتی کے چند آدمی نظر آئے جن کو اپنی دھن میں کسی کی کچھ سدھ نا تھی۔ وہاں سے آگے بڑھے تو مطلع صا ف تھا۔​
جنگل سے زیادہ ویران، بیاباں سے بڑھ کر وحشت ناک تکیہ ابھی صاف طور پر نظر بھی نہیں آیا کہ دور سے "ہو کمزدِیر" کو آواز آئی۔ معلوم ہو اکہ نوبل صاحب کو لینے لوگ پہنچ گئے ہیں۔ نوبل صاحب کے پکار کر "فرینڈز" کہا تو لیفٹنٹ بریو آگے بڑھے۔ ادھر سے نوبل صاحب جھٹک کر الگ ہوئے۔ دونوں نے ہاتھ ملائے ۔ ساتھ کے گوروں نے "ہرا" کے ساتھ نوبل صاحب کو نجات کی مبارک دی۔ پھر نوبل صاحب کے وہیں کھڑے کھڑے بریو صاحب سے ابن الوقت کی تقریب کی۔ وہ بیچارے مطلق اردو نہیں بول سکتے تھے ، مگر نوبل صاحب ان کی طرف سے ترجمان ہوئے کہ لیفٹنٹ صاحب آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی کیمپ کو چلیں۔ ابن الوقت نے اہل عیال کی تنہائی عذر کیا تو لیفٹنٹ بریو نے کہا خدا نے چاہا تو کل نہیں پرسوں اس سے بہت پہلے ہم آپ سے مل چکیں گے اور سب سے پہلا سپاہی جو آُ کی حفاظت کے لئے آپ کے گھر حاضر ہوگا وہ شاید میں ہی ہوں گا۔ یہ کہہ کر لیفٹنٹ بریو نے جیب سے وہ چرٹ نکالے ۔ا یک نوبل صاحب کو دیا اور دوسرا ابن الوقت کو، اور دیا سلائی بھی سلگا کر ابن الوقت کے آگے کر دی۔ ابن الوقت نے لیفٹنٹ صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور یہ کہہ کر اپنا چرٹ نوبل صاحب کو دے دیا کہ آپ جانتے ہیں مجھےا س کی عادت نہیں ۔ ابن الوقت نے یہ کہا تو سہی مگر ان کو معلو م نہیں تھا کہ انگریزوں کی صحبت میں خدا جانے کیا کیا پینا کھانا اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ نوبل صاحب نے ابن الوقت کو نہایت درجے کی احسان مندی کے ساتھ رخصت کیا ۔ جان نثار تو نابل صاحب کے ساتھ ہو لیا اور ابن الوقت اپنے دونوں نوکروں کے ساتھ پاس کے پاس فراش خانے کی کھڑکی سے داخل ہو کر شہر کے اندر اندر خوش و خرم گھر پہنچا۔​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
فصل چہارم
عذر کے بعد ابن الوقت کو کیا کیا مصیبتیں پیش آئیں
ان دنوں دلی کے رہنے والوں میں بہت ہی تھوڑے دل مطمئن تھے اور جو قدرے قلیل معدوے چند مطمئن تھے، ان میں ایک ابن الوقت بھی تھا۔ نوبل صاحب اور لیفٹنٹ بریو نے تھوڑی دیر پہلے اس کے ساتھ اس قسم کی مدارات کی کہ سینکڑوں ہزاروں امیدیں اس کے دل میں امڈنے لگیں۔ پس اگلا دن عذر کے دوسرے دنوں کی طرح خیریت سے گزرا۔ آدھی رات کا ڈھلنا تھا کہ دلی کے حصے کی قیامت آگئی، یعنی انگریزوں کے دو طرف سے شہر پر حملہ کیا ۔ تھوڑی دیر تو توپیں چلیں اس تسلسل کے ساتھ کہ جیسے کبھی زور کی مہاوٹ میں بجلی ہے کہ برابر کوند رہی ہے اور گرجہے کہ ایک لمحے کو نہیں تھمتی اور پھر بندوقیں چلنا شروع ہوئیں۔ ابن الوقت کو دور سے بس ایسا سن پڑتا تھا کہ بھاڑ میں گویا چنوں کے گھان بھن رہے ہیں۔ پہرسوا پہر دن چڑھتے چڑھتے بارے وہ شدت تو کم ہوےئ مگر بندوقوں کی آواز پھٹ پھٹ کبھی ادھر سے ، ادھر سے چلی ہی آتی تھی۔ پھر ایسا سن پڑا کہ انگریز جابجا مکانوں میں گھس بیٹھے ہیں اور باغی ہیں کہ بولائے بولائے پڑے پھرتے ہیں۔ اصل حال نہیں کھلتا کہ جیت کس کی رہی ۔ غرض جوں توں شام ہوئی اور سچ پوچھو تو شہر کے تمام جنوبی حصے میں دن بھی رات ہی کی طرح اداس تھا ۔ بوڑھے بوڑھے آدمیوں کی ساری عمر امن میں گزری ایسی​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 70
گھڑی دن رہتے رہتے کمشنری کا چپراسی ابن الوقت کے نام کا ایک لفافہ لایا شرکت جشن کے بلاوے کا خط تھا۔ اب ابن الوقت جی ہی جی میں بہت زچ ہوا کہ مجھ کو انگریزی دربار میں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، حکام میں کسی سے معرفت نہیں، کیا نوبل صاحب کو ایسے ہی وقت میں مجھے چھوڑ کر چلے جانا تھا۔ بارے کشاں کشاں گیا تو نوبل صاحب کو موجود پایا۔ آج پہلا دن تھا کہ ابن الوقت نے نوبل صاحب کو ان کی اصلی شان میں دیکھا۔ بیسوں انگریز اور ہندوستانی رئیس (اگرچہ اب رئیس کہاں تھے) ان کو گھیرے ہوئے اور نوبل صاحب دربار کے اہتمام میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دوڑے دوڑے پھر رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک تو ابن الوقت کو انہوں نے دیکھا تک نہیں مگر جب ان کی نظر پڑی، فوراً اس کے پاس آ کر ہاتھ ملا کر کہنے لگے: "میں رات دس بجے آیا۔ اس وقت مجھے آپ سے بات کرنے کی مطلق فرصت نہیں ۔ وہ فلاں نمبر کی کرسی آپ کی ہے، وہاں بیٹھئے۔ آج (ذرا سوچ کر) بلکہ کل بھی آپ سے نہیں مل سکوں گا۔ پرسوں نو بجے سے گیارہ بجے تک جس وقت آپ کا جی چاہے آپ مجھ سے ٹامس صاحب کی کوٹھی پر مل سکتے ہیں۔"
ابن الوقت نے شاہی دربار بہتیرے دیکھے تھے۔ ان میں ان گئے گزرے وقتوں میں رونق کہو، شان کہو، صرف درباریوں کے زرق برق کی تھی، وہ بھی پرانی جامہ واریں، دقیانوسی پشمینے۔ اس دربار میں سارے دربار شاہی شاہی کے مول کا تو ایک قالین ہو گا اور شامیانے اور خیمے اور میز اور کرسی اور جھاڑ فانوس اور تصاویر اور اسباب آرائش کا تو کون اندازہ کر سکتا تھا۔ ابن الوقت نے آج جانا کہ ساری رونق سادگی اور صفائی میں ہے۔ غرض شاہی اشتہار پہلے انگریزی اور پھر اردو میں پڑھا گیا، میدان دربار اور چھاؤنی اور قلعے سے تیہری شاہی سلامی سر ہوئی، انگریزی باجے بجنے لگے، نذریں گزرنی شروع ہوئیں۔ اب تو خیر خواہان سرکار کا نمبر آیا۔ ابن الوقت دل میں اپنی خیر خواہی پر بڑا نازاں تھا۔ اب معلوم ہوا کی خاص شہر کے خیر خواہوں کی فہرست میں اس کا نمبر 125 ہے۔ بہرکیف ابن الوقت کی نوبت آئی اور اس کا نام پکارا گیا تو صاحب کمشنر نے اس کو سامنے کھڑا کر کے اپنے ہاتھ سے نادان سنگھ جاٹ، باغی زمیندار ضلع گڑگانوہ، کے علاقہ منضبطہ میں سے موضع کھیر کاپور (خیر خواہ پور) جمعی تین


ص 71
ہزار روپے کی سند امینداری نسلاً بعد نسل، دستخطی مہری لاٹ صاحب، حوالے کی اور نوبل صاحب نے کمشنر صاحب کے پیچھے سے گردن نکال کر اشارہ سے وہیں مبارکباد دی۔
ابن الوقت کی خیر خواہی کا چرچا تو اسی دن سے لوگوں میں ہونے لگا تھا جس دن کہ دلی فتح ہوئی۔ آج کے دربار نے اس کو اور بھی مشتہر کر دیا اور معرفت قرابت کے لوگ جو ہنوز شہر کے باہر خانہ بدوش پڑے پھرتے تھے، آسرا پا کر کچھ سنتے کے ساتھ لوٹ آئے اور کچھ لوٹنے کا سامان کرنے لگے۔ مگر ابن الوقت عجیب کھرے، روکھے، کھردرے، اکھڑ انگریز مزاج آدمی تھا کہ یوں بے غرض اس سے ملو جلو، ملاقات کرو، خوش گپ، خوش مزاج، خوش صحبت اور حرف مطلب زبان پر آیا نہیں اور اس نے
دوٹوک ٹکا سا جواب پتھر کی طرح منہ پر کھینچ مارا نہیں۔ اگر سیدھی طرح لوگوں سے کہہ دیا کرتا کہ انگریزوں کو معاملے، مقدمے میں سفارش کی چڑ ہوتی ہے یا میں صاف طور پر سفارش کرتے ہوئے ڈرتا ہوں یا موقع پاؤں گا تو کلمتہ الخیر سے دریغ نہیں کرؤں گا ، تو شاید لوگ اس سے اس قدر بے دل نہ ہوتے مگر اس کا تو یہ حال تھا کہ کسی نے پٹھے پر ہاتھ رکھا اور اس نے دولتیاں جھاڑنا شروع کی۔
اگرچہ ابن الوقت کی کج مدارتی سے لوگوں کے دلوں میں اس کی طرف سے نفرت پیدا ہو گئی تھی مگر اپنی غرض کو ؎ "مرا بے خیر تو امید نیست بد مرساں" اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ اور کچھ نہیں تو اتنی ہی بات کے بہانے سے گھڑی دو گھڑی کو آ بیٹھتے کہ آپ نے تو غضب ہی جرات کی، ایسی شورش میں انگریز کو میگزین سے اٹھا کر لائے اور گھر میں پناہ دی۔ منہ پر کہنا تو خوشامد ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ رستم کو بھی مات کیا۔
دوسرا: خیر بہادری تو بہادری، کمال تو یہ تھا کہ ناف شہر میں مجمع مجاہدین یعنی خانقاہ کے زیر سایہ انگریز چھپا رہا اور کسی کے فرشتوں کو خبر نہ ہوئی۔
تیسرا: بھلا انگریزوں کی قدر دانی کو ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اس جان جوکھم کے صلے میں دیا تو کیا دیا، تین ہزار کی زمینداری۔ اے جناب! یہ ملک بخش دینے کے کام ہیں۔ ہائے، آج کو شاہجہان ہونا تھا۔
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین
ص 72
چوتھا: اجی ابھی کیا خبر ہے۔ انگریزوں کے یہاں زمین کے دینے کا دستور نہیں، مگر ڈپٹی کر دیں، صدرِ اعلیٰ کر دیں، کابل میں سفیر یا کسی ریاست میں وزیر بنا کر بھیج دیں، جو چاہیں سو کر سکتے ہیں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ کریں گے، پر کریں گے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا۔​
کھلی خوشامد ہوتی تو ابن الوقت بھی ایسا نِرا احمق نہ تھا کہ سن کر اظہارِ بشاشت کرتا مگر عیار لوگ دو شالوں میں لپیٹ لپیٹ کر جوتیاں مارتے تھے اور یہ جھانسے میں آ کر فخر کے طور پر ایک ایک کے آگے خدر کی حکایتیں بیان کر کے داد چاہتا تھا۔ جب لوگ اس کو بھرے پر چڑھا لیتے تو باتوں باتوں میں یہ بھی پوچھتے "کیوں صاحب، پھر وہ انگریز کپڑے کیسے پہنتا تھا۔"​
ابن الوقت: جب صاحب کو ہم لاشوں میں سے اٹھا کر لائے تو ان کے کپڑے تمام خون میں لت پت تھے۔ صاحب کو اپنے تن بدن کی مطلق خبر نہیں اور اس ووقت تک ہم میں سے بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں۔ جو کپڑے پہنے ہوئے تھے، پہتیرا چاہا کہ چیر کر لاگ کر دیں مگر کپڑے اس بلا کے ڈھیٹ تھے کہ پھاڑے نہیں پھٹتے تھے۔ ہار کر قینچی سے کترے۔ جب تک صاحب ہمارے گھر رہے، یہی ہم طرح کے لوگوں کے ہندوستانی کپڑے پہنتے رہے مگر طنزاً نہیں نصیحتاً اکثر کہا کرتے افسوس، ہندوستان کے لوگ مطلق عقل سے کام نہیں لیتے۔ ایک کپڑے ہم لوگ پہنتے ہیں کہ برسوں پھٹنے کا نام نہیں لیتے اور ایک کپڑے یہ ہیں کہ پہنے اور کھسکے۔ ایسے نازک اور مہین کپڑے عورتوں کی زیب و زینت کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔ مردوں کو خدا نے اسی غرض سے زیادہ توانائی دی ہے کہ ان کو محنت اور مشقت کرنی ہے۔ ہندوستانیوں کا لباس ان کی کاہل اور آسائش طلبی کی دلیل ہے۔ میں دیکھتا ہوں تو اس لباس میں چستی اور چالاکی باقی نہیں رہ سکتی۔​
ہم نشین: بھلا صاحب، ان کے کھانے کا آپ نے کیا انتظام کیا تھا؟​
ابن الوقت: انتظام کیا کرنا تھا، جو کچھ گھر میں پکتا تھا، صاحب بھی کھا لیا کرتے تھے۔ البتہ اتنا اہتمام کرنا پڑتا تھا کہ ان کے کھانے میں نمک مرچ نہیں ڈالی جاتی تھی۔ (ص 73)ایک نمک دان میں پسا ہوا نمک، دوسرے میں کالی مرچیں ان کے لئے الگ لگا رکھتے تھے۔ ہندوستانی کھانوں میں پلاؤ، کباب، سموسے، غیرینی، ہلکی ہلکی مٹھائیاں، زیادہ رغبت سے کھاتے تھے۔​
ہم نشین: آپ نے ان کے برتن الگ کروائے ہوں گے؟​
ابن الوقت: بھائی سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے تو برتن بھانڈ کچھ الگ ولگ نہیں کیا۔ کھانا ہمارا، برتن ہمارے، پکانے والے ہم، پھر الگ کرنے کی وجہ؟​
ہم نشین: آخر وہ تھا تو انگریز۔​
ابن الوقت: انگریز تھا تو ہونے دو۔ کھانے میں تو کوئی حرام چیز نہیں ہوتی تھی۔​
ابن الوقت نے اس بات کو ذرا زور سے کہا تو ہم نشین سمجھ گیا کہ میرا کہنا ناگوار طبع ہوا۔ بے چارہ تھا ابن الغرض، دم بخود ہو کر رہ گیا۔ مگر اس کے بعد سے لوگ ابن الوقت کے حقے پان سے ذرا سا احتراز کرنے لگے تھے۔​
 

محمد امین

لائبریرین
76
تمام کمرے، فرش، پردہ چلمن، میز کرسی، شیشہ آلات، آرائش اور آسائش کے سامان سے سجے ہوئے ہیں، ابھی چند دن ہوئے کہ غدر کے دنوں میں اسی کوتھی کے کسی کمرے کی چھت تک باقی نہ تھی یا اب دو ہی مہینے میں "الحکومت تصف الکرامت" نئے سرے سے مکان بھی بن گیا، رنگ بھی پھر گیا، ہر طرح کا سامان بھی مہیا ہو گیا، باغ بھی لگ گیا یعنی جہاں کچھ بھی نہ تھا وہاں وہاں سب کچھ ہوگیا۔ چار چپراسی اور پانشواں جمعدار، اتنے آدمی صاحب کے کمرے سے ایک کمرہ چھوڑ کر دروازے سے لگے بیٹھے ہیں، اندر سے آواز آئی اور دوڑے۔
نوبل صاحب کی شان اگرچہ ابن الوقت کو پہلے دیکھتے نا اتفاق نہیں ہوا تھا مگر اس بات کا اس کو حق الیقین تھا کہ ایک غدر سے نہیں ایسے ایسے ہزاروں غدر کیوں نہ ہوں، انگریزی عمل داری جانے والی نہیں بلکہ غدر کے بعد جو تسلسل بیٹھے گا، پہلے سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوگا۔ وہ خوب سمجھے ہوئے تھا کہ اس وقت اتفاق سے کوئی انگریز بلکہ کوئی کرانی بھی نوبل صاحب کی طرح کہیں بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے، وہ حقیقت میں شیر ببر ہے، فی الحال گرد و غبار سے اور نہ اعتبارِ مآل سوار ہے۔ مگر ابن الوقت کی خود داری ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ نہ تو ا سنے اس بات کا خیال کیا کہ جو لوگ عزت میں، مقدرت میں اور شاید سرکاری خیر خواہی میں بھی اس پر ہر طرح کی ترجیح رکھتے ہیں، بر آمدے میں بٹھائے گئے ہیں اور یہ کمرے میں، اور نہ اس پر نظر کی کہ جو لوگ آنے میں اس سے اقدم ہیں، از روئے انصاف ان کو ملاقات میں بھی اقدم ہونا چاہیے۔ آدھ ہی گھنٹے کے انتظار میں یہ ایسا اکتایا کہ بار بار چہراسیوں سے ترش روئی سے پوچھتا تھا کہ اب کتنے آدمی اور ہیں؟ کہیں تم نے میری اطلاع میں یا صاحب نے سمجھنے میں تو غلطی نہیں کی؟ اس کو اپنے زعم میں منتظر بٹھائے جانے سے خجالت تھی اور وہ اس خجالت کے ٹالنے کو کمرے میں تہلتا اور کتابوں اور تصویروں اور دوسری چیزوں کہ جگہ سے ہٹا کر دیکھتا۔ اگرچہ اس نے کسی چیز کو بے ٹھکانے نہیں کیا مگر چپراسی اس کی یہ آزادی دیکھ کر دل میں بہت نا خوش تھے اور دور ہٹ کر چپکے چپکے آپس میں کہتے تھے: " یہ بھی عجب آدمی ہے کہ ایک دم اس سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا اس کو کمرے میں بٹھانا ہی نہیں تھا۔"

77
جمعدار: میاں ہوش کی بنواؤ، تمہیں خبر بھی ہے کہ یہ کون ہیں۔ غدر میں صاحب انھی کے گھر میں تھے۔ ان کو بر آمدے میں بٹھا دیتا اور صاحب کی نظر پڑ جاتی تو سب کی شامت آ جاتی۔
چپراسی: اجی جمعدار، خیر خواہی کی تو ہماری سر آنکھوں پر، سرکارِ دربار کا کچھ ادب بھی ہے ہا نہیں؟ حاکم کی ڈیوڑھی پر امیر، رئیس، راجا، بابو، نواب، زمیندار کیا سبھی آتے ہیں، اندر جا کر چاہے صاحب کی گود میں بیٹھتے ہوں، ہر باہر تو ہم نے سب کا ایک ہی قاعدہ دیکھا، ہاتھ باندھے سر جھکائے، چپ چاپ۔ کل تم نے لوہارو والے نواب کی طرف خیال نہ کیا ہوگا۔ صاحب کو غسل خانے میں دیر ہوئی تو اس کمرے میں تھے۔ کھانسی اٹھے تو آواز کی گونج کے ڈر کے مارے کھڑکی کے باہر منہ نکال کر اور رومال رکھ کر کھانسے اور میں نے اگال دان لانے کو پوچھا تو اشارے سے منع کر دیا۔
جمعدار: کیا مضائقہ ہے، ان کو صاحب لوگوں سے ملنے جلنے کا اتفاق نہ پڑا ہوگا۔
چپراسی: میں تو انعام لینے جاؤں گا تو ضرور اتنی بات ان کے منہ میں ڈال دوں گا۔
جمعدار: نہیں جی تمہیں کیا پڑی۔
چپراسی: مجھے پڑی یہ کہ اب ان سے صاحب سے ٹھہری خصوصیات ان کا روز کا نہیں تو تیسرے چوتھے دن کا پھیرا ضرور ہوا کرے گا اور ہمارے انگریز صاحب کے پاس باہر کے ایک دو صاحب لوگ ہمیشہ ٹھہرے ہی رہتے ہیں۔ بعضاً انگریز ایسا بد مزاج ہوتا ہے کہ کالے آدمی کی صورت سے جلتا ہے، وہ اگر ایسی بد تمیزی دیکھ پائے تو ڈک سے بوٹ کی ٹھوکر سے خبر لے، انھی کی نہیں بلکہ ہم لوگوں کی بھی۔
اتنے میں نوبل صاحب کی باہر نکلنے کی آہٹ سی معلوم ہوئی، سارے چپراسی اور جس قدر لوگ ملاقات سے رہ گئے تھے، سب کے سب ایک دم سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو شخص صاحب کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اندر سے آئے تھے وہ دروازے سے سلام کر کے رخصت ہوئے۔ باقیوں کو صاحب سلامت کے بعد صاحب نے رخصت کر دیا کہ آج دیر بہت ہو گئی اور خود ابن الوقت کے کمرے میں چلے گئے۔
پہلی بات جو صاحب نے ابن اوقت سے کہی تھی وہ یہ تھی کہ میں افسوس کرتا
 
Top