غزل

Mubarak Khan

محفلین
اجڑ رہا ہے وطن بستیوں کا گلہ کیا کرنا
غیر کے گھر میں گرہستیوں کا گلہ کیا کرنا

کاٹ ڈالے ہیں تم نے جو تھے با ثمرشجر
اب ان خشک جھاڑیوں کا گلہ کیا کرنا

بوجھ پڑتا نہیں کسی پہ ہمت سے سوا
ہار دے ہمت تو مجبوریوں کا گلہ کیا کرنا

نشیب و افراز ہیں زندگی کا وجود
پھر زندگی میں تبدیلیوں کا گلہ کیا کرنا

چل پڑیں تو کٹ ہی جاتی ہیں منزلیں
جو بیٹھ رہے تو دوریوں کا گلہ کیا کرنا

واسطہ ہو تو آ جاتے ہیں دور دور سے لوگ
جو کٹ گیےٗ تو تنہایوں کا گلہ کیا کرنا

زندگی کی جنگ میں ہیں جب نکل پڑے
تو زخموں کی گہراہیوں کا گلہ کیا کرنا
 
اجڑ رہا ہے وطن بستیوں کا گلہ کیا کرنا
غیر کے گھر میں گرہستیوں کا گلہ کیا کرنا

مجھے نہیں پتہ کہ آپ کب سے مشقِ سخن کر رہے ہیں، اور آپ کا شوقِ مطالعہ کس نہج پر ہے، اور یہ کاوش کب کی ہے، اس کے بعد کی آپ کی کاوشیں کیسی ہیں۔ زیرِ نظر کاوش سے لگتا ہے کہ آپ کے ہاں تخیل اور اس کی مراعات مضبوط ہیں، اوزان کے ادراک میں البتہ مسئلہ ہے۔ آپ کو شعر میں ہنوز بہت مطالعہ اور محنت کی ضرورت ہے۔
کوشش جاری رکھئے۔
 
Top