غبار خاطر صفحہ نمبر 185

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر185
یہاں کے لوگ تو سردی کی سختیوں کی شکایت کررہے ہیں ، اور میرے دل آرزو مند سے اب بھی صدائے ہل من مزید ۲۸؎ اُٹھ رہی ہے کلکتہ سے گرم کپڑے آئے پڑے ہیں، میں نے ابھی تک انہیں چھوا بھی نہیں۔ اس ڈر سے کہ اگر گرم کپڑے پہنوں گا تو سردی کا احساس کم ہو جائے گا اور تخیل کو جولانیوں کا موقع نہیں ملے گا ، ابھی تک گرمیوں ہی کے لباس میں وقت نکال رہاہوں۔ البتہ صبح اُٹھتا ہوں ت اُونی چادر دُہری کر کے کاندھوں پر ڈال لیتا ہوں۔ میرا اور سردی کے موسم کا معاملہ تو وہ ہوگیا جو نظیری نیشاپوری کو پیش آیاتھا:
(۳۰۳)
اُد در وداع و من بجزع، کزمئے و بہاد
رطلے سہ چار ماندئہ دروزے سہ چار خوش ۲۹؎
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ خیال ہوا ، تمہید ہی میں گیارہ صفحے سیاہ ہوگئے اور ابھی تک حرف مد عا زبان قلم پر نہیں آیا۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک ماہ کی محرومی و انتظار کے بعدپرسوں چیتہ خاں نے مژدہ کا مرانی سنایا کہ بمبئی کے آرمی اینڈ نیوی اسٹور نے وہائٹ جیسمین چائے کہیں سے ڈھونڈ نکالی ہے ، اور ایک پونڈ کا پارسل وی پی کردیا ہے۔ چنانچہ کل پارسل پہنچا۔ چیتہ خاں نے اس کی قیمت کا گلہ کرنا شروع کردیا کہ تمہیں ایک پونڈ چائے کے لیے اتنی قیمت دینی پڑی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے ہک مجھے اس کی ارزانی نے حیران کردیا ہے۔ اس نایابی کے زمانے میں اگر اسٹور اس سے دوگنی رقم کا طلبگار ہوتا، جب بھی یہ جنس گرانما یہ ارزاں تھی:
(۳۰۴)
اے کہ می گوئی ''چراجمے ، بجانے می خری؟''
ایں سخن باساقی ماگو کہ ارزاں کردہ است۳۰؎
حسن اتفاق دیکھیے کہ ادھر یہ پارسل پہنچا ادھر بمبئی سے بعض دوستوں نے بھی چند ڈبے چینی دوستوں سے لے کر بھجوا دئیے۔ اب گرفتاری کا زمانہ جتنا بھی طول کھینچے ، چائے کی کمی کا اندیشہ باقی نہیں رہا۔
بہرحال جو بات کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ایک واقعہ نے صبح کے معاملہ کی پوری فضا بدل دی ، اور جوئے طبع افسردہ کا آبِ رفتہ پھر واپس آگیا۔ اب پھر وہی صبح کی مجلس طرب آراستہ ہے، وہی طبعِ سیہ مست کی عالم فراموشیاں ہیں، اور وہی فکر درماندئہ کار
 
Top