غبار خاطرصفحہ نمبر198

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر198
معلوم ہونے لگا ، پورے احمدنگر کو اس بخششِ عام کی خبر مل گئی ہے اور علاقہ سے سارے کوؤں نے اپنے اپنے گھروں کوخیر باد کہہ کر یہیں دُھونی زمانے کی ٹھان لی ہے ۔ بیچاری میناؤں کو جو اس اہتمام ضیافت کی اصلی مہمان تھیں ابھ یتک خبر بھی نہیں پہنچی تھی۔ اب اگر پہنچ جاتی تو بھلا طفیلیوں کے اس ہجوم میں ان کے لیے جگہ کہاں نکلنے والی تھی۔
(۳۲۷)
طفیلی جمع شد چنداں کہ جائے میماں گم شد
محمود صاحب کے صلائے عام سے پہلے ہی یہاں کوؤں کی کائیں کائیں کی روشن چوکی برابر بجتی رہتی تھی۔ اب جو ان کا دستر خوان کرم بچھا تو نقاروں پر بھی چوب پڑگئی۔ ایک دو دن تک تو لوگوں نے صبر کیا، آخر ان سے کہنا پڑا کہ اگرآپ کے دستِ کرم کی بخششیں رک نہیں سکتیں تو کم از کم چند دنوں کے لیے ملتوی ہی کر دیجئے ورنہ ان ترکانِ یغمادوست کی ترکتازیاں ، کمروںکے اندر کے گوشہ نشینوں کو بھی امن چین سے بیٹھنے نہ دیں گی۔ اور ابھی تو صرف احمد نگر کے کوؤں کو خبر ملی ہے اگر فیض عام کا یہ لنگر خانہ اس طرح جاری رہا تو عجب نہیں تمام دکن کے کوئے قلعہ احمد نگر پر حملہ بول دیں اورآپ کو صائب کا شعر یاد دلائیں کہ :
(۳۲۷)
دوردستاں رابہ احسان یاد کر دن ہمت است
ورنہ ہر نخلے بہ پائے خود ثمر می افگند۱۶؎
ابھی محمود صاحب اس درخواست پرغور کر ہی کر رہے تھے کہ ایک دوسرا واقعہ ظہور میں آگیا ۔ ایک دن صبح کیا دیکھتے ہیں کہ چھت کی منڈیر پر و معمر ومشین گد بھی تشریف لے آئے ہیں:
پیری سے کمر میںایک ذرا خم
توقیر کی صورتِ مجسم۱۷؎
اور گردن اُٹھائے صلائے سفرہ کے منتظر ہیں:
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی ۱۸؎
معلوم ہوتا ہے ، ان ناخواندہ مہمانوں کی آمد محمود صاحب پر بھی باایںہمہ جو دوسخائے عام گراں گزری۔ کہنے لگے ، بزرگوں نے کہا ہے، گدوں کا آنا منحوس ہوتا ہے۔
 
Top