تحریک انصاف یہی لوٹوں کی سیاست کرنے کی وجہ سے پچھلے الیکشن میں بری طرح ہاری تھی اور الزام سارا دھاندلی یعنی ریٹرننگ آفیسرز اور الیکشن کمیشن پر تھوپ دیا
جناب عمران خان صاحب نے جیو پر حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا "میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں پاکستان کا وزیراعظم بن گیا ہوں اور آپ یہ بات لکھ کر رکھ لیں"
جب اتنی شدید خوائش کا اظہار کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد شکست جو بظاہر سیاسی سمجھ بوجھ کی کمی، ٹکٹوں کی غلط تقسیم، وفاداریاں بدلنے والوں کی اکثریت، انتخابی جدوجہد کو مخصوص شہری علاقے تک محدود رکھنے جیسی موٹی موٹی 'وجوہات کی وجہ' سے ہوئی ہو، کو ہضم کرنا مشکل اور منظم دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی سیاست کرنا آسان ہے۔
کچھ نظر انتخابی نتائج پر ڈالتے ہیں۔۔ صورتحال کچھ نہ کچھ واضح ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی کی 40 نشستوں پر تحریک انصاف کا کوئی امیدوار ہی نہیں تھا (کے پی کے سے 1، پنجاب سے 10، سندھ سے 24، بلوچستان سے 5)
۔۔
قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوران کی ضمانت ضبط ہوئی۔ (جو امیدواران ڈالے گئے مستند ووٹوں کا 1/8 یا 12.5 فیصد بھی نہ حاصل کر پائیں ان کا زر ضمانت ضبط ہو جاتا ہے) اس طرح تکنیکی طور پر قومی اسمبلی کی 133 نشستوں پر تحریک انصاف تھی ہی نہیں۔
باقی بچ جانے والی 229 نشستوں پر تحریک انصاف 202 نشستوں سے انتخابات ہار گئی۔
۔۔
ان 202 نشستوں میں سے صرف 31 امیدواران نے الیکشن ٹریبونل میں انتخابی عذرداریاں داخل کروائیں، یعنی 172 امیدواروں نے اپنی انتخابی شکست کو تسلیم کر لیا۔
ان 31 میں سے 20 کا فیصلہ ہو چکا اور ان 20 میں سے صرف 2 نے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، باقی اٹھارہ نے ٹریبونل کے فیصلے کو مان لیا۔
۔۔
باقی بچ جانے والی 11 عذرداریوں پر ایک نشست جماعت اسلامی، ایک اے این پی، ایک آزاد امیدواراور 8 مسلم لیگ ن کے خلاف ہیں۔
اگر جناب عمران خان کے مینڈیٹ چرانے کے رونے چلانے کو دیکھ کر ان مندرجہ بالا اعداد کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بجا ہو گا، کہ عمران خان اور ان کی جماعت غلط بیانی کر رہی ہے اور مخالفین کا نعرہ 'رو عمران رو' سچا ہے۔
عمران خان کے بار بار مطالبہ کے باوجود حکومت وقت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ 4 حلقوں کا مطالبہ کوئی اتنا پیچیدہ نہیں تھا کہ اسکو چند ماہ میں حل نہ کیا جا سکتا۔ اسوقت نون لیگی وزراء یہی کہتے تھے کہ چار حلقوں کا محض بہانہ ہے۔ اصل کہانی کچھ اور ہے۔
جناب عمران خان پارلیمانی نظام میں 'مل جل' کر قانون سازی کرنے کے نظام کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ سیاست کچھ لو اور کچھ دو پر چلتی ہے، خاص طور پر جب انتخابات ہو چکے ہوں۔ اگر جناب خان صاحب کی آواز لیگی وزراء نہیں سن یا سمجھ رہے تھے تو خان صاحب کو وزیر اعظم سے براہ راست رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ بلکل ایسے ہی جیسے وزیر اعظم صاحب نے وزیرستان آپریشن پر عمران خان صاحب کو بلانے کی بجائے ان کے پاس جا کر انھیں اعتماد میں لیا۔