جوش علی گڑھ سے خطاب - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
اے علی گڑھ، اے جواں قسمت دبستانِ کہن
اے کہ شمعِ فکر سے تابندہ تیری انجمن
تیرے پیمانوں میں لرزاں ہے شرابِ علم و فن
حشر کے دن تک پھلا پھولا رہے تیرا چمن
مشعلِ مینا سے روشن تیرا میخانہ رہے
رہتی دنیا تک ترا گردش میں پیمانہ رہے
ایک دن ہم بھی تری آنکھوں کے بیماروں میں تھے
تیری جنسِ علم پرور کے خریداروں میں تھے
تیری زلفِ خم بہ خم کے نوگرفتاروں میں تھے
تیرے اصنامِ سمن بر کے پرستاروں میں تھے
تیری برقِ جلوۂ رنگیں پہ شیدا ہم بھی تھے
تیرے کوہِ طور کے اک روز موسیٰ ہم بھی تھے
لیکن اے علم و معارف کے درخشاں آفتاب
کچھ بہ اندازِ دگر بھی تجھ سے کرنا ہے خطاب
گو یہ دھڑکا ہے کہ ہوں گا موردِ قہر و عتاب
کہہ بھی دوں جو کچھ ہے دل میں، تا کجا یہ پیچ و تاب
بن پڑے جو سعی اپنے سے وہ کرنا چاہیے
مرد کو کہنے کے موقع پر نہ ڈرنا چاہیے
اے علی گڑھ! اے ہلاکِ جلوۂ وضعِ فرنگ
"ٹیمز" ہے آغوش میں تیرے، بجائے موجِ گنگ
ظلمتِ مغرب میں ہے آوارہ تیری ہر امنگ
ولولوں پر تیرے شاید عرصۂ مشرق ہے تنگ
آ کہ حیراں ہے وطن کا کارواں تیرے لیے
گوش بر آواز ہے ہندوستاں تیرے لیے
عاشقِ مغرب! نگاہِ شرق کے جادو بھی دیکھ
اے سنہری زلف کے قیدی، سیہ گیسو بھی دیکھ
دیدۂ ازرق کے شیدا، دیدۂ آہو بھی دیکھ
سازِ بے رنگی کے بندے! سوزِ رنگ و بو بھی دیکھ
"جسم" تا کے؟ "روحِ" لرزاں کے شرارے کو بھی دیکھ
"ٹیمز" سے منہ موڑ کر گنگا کے دھارے کو بھی دیکھ
پختہ کاری سیکھ، یہ آئینِ خامی تا کجا
جادۂ افرنگ پر یہ تند گامی تا کجا
سوچ تو جی میں یہ جھوٹی نیک نامی تا کجا
مغربی تہذیب کا طوقِ غلامی تا کجا
مرد اگر ہے غیر کی تقلید کرنا چھوڑ دے
چھوڑ دے، للہ! بالاقساط مرنا چھوڑ دے
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۸ء
 
Top