ماوراء
محفلین
1196
نامن پور میں لوگ آصف کی عزت کرتے تھے اور ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ ہندو اپنی امانتیں آصف کے سپرد کر دیتے دیش اپنے جھگڑوں کے تصفیہ کے لئے آصف کو پنج بنانے پر خوشی محسوس کرتے لیکن آصف کے اپنے گھر میں ان کے خیالات کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ان کی بیوی کو اس کی رائے مشورے یا فیصلے پر قطعی اعتماد نہ تھا۔ گھر میں ہر بات پر انھیں جھاڑ جھپٹ ہوتی تھی۔ جسے وہ سر جھکا کر سننے کے عادی ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے خیال اور رائے پر قائم رہتے اور وہی کرتے تھے جو ان کے خیال میں درست ہوتا۔
آصف نے زیادہ تر زندگی جنوبی ہندوستان کے ایک شہر میں گزاری تھی۔ جہاں ان کا ایک اعلٰی قسم کا ہوٹل تھا۔ جس میں بڑے بڑے اہل کار اور یورپین آ کر ٹھہرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے وہ دوسروں کی بات غور سے سننے کے عادی ہو چکے تھے ان کی طبیعت میں اخلاق تھا تحمل تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی وہ وہم کی بیماری میں مبتلا تھے۔ جو کافی شدت اختیار کر چکی تھی۔
تین بیٹوں کے علاوہ آصف کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جس کا نام بلند بخت تھا۔ بلند بخت نے چند ایک جماعتوں تک مدرسہ میں تعلیم پائی تھی اور آصف نے اسے مدرسہ سے اٹھا لیا تھا چونکہ دستور کے مطابق نامن پور کے لوگ بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے قائل نہ تھے۔ آصف خود تو تعلیم کے حق میں تھے ممکن ہے ان کی بیگم زبردستی بلند بخت کو مکتب سے اٹھا لیا ہو۔
بلند بخت ابھی عنفوان شباب میں ہی تھی کہ اسے ایک قریب رشتہ دار کے بیٹے سے منسوب کر دیا گیا۔ اور جلد ہی بڑی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔
لڑکے نے دولہا بننے سے پہلے بار بار اپنے والدیں کو کہلوایا تھا کہ اس کی شادی نہ کی جائے چونکہ وہ شادی کے قابل نہیں۔ لیکن والدین نے اس کی بات کو درخور اعتنانہ سمجھا۔ شاید وہ سمجھتے رہے کہ لڑکا ویسے ہی ہچکچاتا ہے اس کے ذہن پر عورت کا ڈر حاوی ہے۔ آہستہ آہستہ مانوس ہو جائے گا۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس سامان کو یکھ کر جو آصف جہیز کے مشتاق تھے لڑکا چاہے قابل ہو یا نہ ہو۔ سامان پر قبضہ جمانے کے تو وہ قابل ہے۔ لٰہذا انہوں نے لڑکے کی بات نہ سنی۔
بلند بخت شب عروسی میں دولہا کا انتظار کرتی رہی۔ دولہا کے والدین اسے ڈھونڈتے رہے۔
نامن پور میں لوگ آصف کی عزت کرتے تھے اور ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ ہندو اپنی امانتیں آصف کے سپرد کر دیتے دیش اپنے جھگڑوں کے تصفیہ کے لئے آصف کو پنج بنانے پر خوشی محسوس کرتے لیکن آصف کے اپنے گھر میں ان کے خیالات کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ان کی بیوی کو اس کی رائے مشورے یا فیصلے پر قطعی اعتماد نہ تھا۔ گھر میں ہر بات پر انھیں جھاڑ جھپٹ ہوتی تھی۔ جسے وہ سر جھکا کر سننے کے عادی ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے خیال اور رائے پر قائم رہتے اور وہی کرتے تھے جو ان کے خیال میں درست ہوتا۔
آصف نے زیادہ تر زندگی جنوبی ہندوستان کے ایک شہر میں گزاری تھی۔ جہاں ان کا ایک اعلٰی قسم کا ہوٹل تھا۔ جس میں بڑے بڑے اہل کار اور یورپین آ کر ٹھہرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے وہ دوسروں کی بات غور سے سننے کے عادی ہو چکے تھے ان کی طبیعت میں اخلاق تھا تحمل تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی وہ وہم کی بیماری میں مبتلا تھے۔ جو کافی شدت اختیار کر چکی تھی۔
تین بیٹوں کے علاوہ آصف کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جس کا نام بلند بخت تھا۔ بلند بخت نے چند ایک جماعتوں تک مدرسہ میں تعلیم پائی تھی اور آصف نے اسے مدرسہ سے اٹھا لیا تھا چونکہ دستور کے مطابق نامن پور کے لوگ بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے قائل نہ تھے۔ آصف خود تو تعلیم کے حق میں تھے ممکن ہے ان کی بیگم زبردستی بلند بخت کو مکتب سے اٹھا لیا ہو۔
بلند بخت ابھی عنفوان شباب میں ہی تھی کہ اسے ایک قریب رشتہ دار کے بیٹے سے منسوب کر دیا گیا۔ اور جلد ہی بڑی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔
لڑکے نے دولہا بننے سے پہلے بار بار اپنے والدیں کو کہلوایا تھا کہ اس کی شادی نہ کی جائے چونکہ وہ شادی کے قابل نہیں۔ لیکن والدین نے اس کی بات کو درخور اعتنانہ سمجھا۔ شاید وہ سمجھتے رہے کہ لڑکا ویسے ہی ہچکچاتا ہے اس کے ذہن پر عورت کا ڈر حاوی ہے۔ آہستہ آہستہ مانوس ہو جائے گا۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس سامان کو یکھ کر جو آصف جہیز کے مشتاق تھے لڑکا چاہے قابل ہو یا نہ ہو۔ سامان پر قبضہ جمانے کے تو وہ قابل ہے۔ لٰہذا انہوں نے لڑکے کی بات نہ سنی۔
بلند بخت شب عروسی میں دولہا کا انتظار کرتی رہی۔ دولہا کے والدین اسے ڈھونڈتے رہے۔