علامہ دہشتناک : صفحہ 92-93 : تینتالیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


veqf41.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

شکاری

محفلین
صفحہ 93-92
لیکن جوزف نے اسکا بازو پکر کر کھینچتے ہوئے کہا۔ “ٹھہرومسڑ۔!اتنی جلدی بھی ٹھیک نہیں ہے۔!“
“کیا بات ہے۔!“ صفدر جھنجھلا گیا۔
“پہلے ان دونوں‌‌ کو باہر نکالو۔ تم دیکھتے نہیں کہ کتنا اندھیرا ہے۔!“
“اوہ۔۔۔۔!“ صفدر کو عقل آگئی۔
“ہم نہیں نکلیں گے۔!“ ان میں‌ سے ایک بولا۔
“کیوں ۔۔۔۔!“ صفدر غرایا۔
“تم شائد زندہ رہنے دو۔ لیکن وہ۔۔۔۔!“
“پوری بات کرو۔!“
“ہمارا باس اپنے آدمیوں کو دوسروں کے قبضے میں زندہ نہیں رہنے دیتا۔!“
“تو وہ تمہارا باس تھا جس نے اسٹین گن سے فائرنگ کی تھی۔“ جوزف نے پوچھا۔
“ہاں باس ہی تھا۔!“
“وہ کون ہے۔!“
“مالک ہے۔۔۔۔!“
“میں نام پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔!“
“شہروز۔۔۔۔!“
“نام نیا ہے۔۔۔۔!“
“نام لینے کا حکم نہیں صرف باس کہلاتا ہے۔۔۔۔“
“کہاں رہتا ہے۔۔۔۔!“
“ہم نہیں جانتے۔۔۔۔!“
“چلو۔۔۔۔نکلوباہر۔۔۔۔ہمارے آدمی بھی ہیں۔!“
“یہ باڈی گارڈ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہے۔۔۔۔باس کہیں آس پاس ہی موجود ہوگا وہ ہمیں تم لوگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دے گا۔آج تک اس نے اپنے کسی آدمی کو بے بس نہیں ہونے دیا۔ کہتا ہے کہ بے بسی سے موت اچھی۔!“
صفدر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ ایسا ہی زبردست دھماکہ تھا وہ سب ایک




کے اوپر ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے۔ اور کسی کو اس کا ہوش نہیں رہاتھا کہ اس کے اوپر چھت کا کتنا ملبہ گرا تھا۔!
کسی پر کچھ بھی بیتی ہو۔! لیکن جوزف نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے صفدر کو آواز دی تھی اور اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔ آنکھوں سے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ مدہم سی روشنی کا احساس ہوا تھا اور یہ روشنی بتدریج تیز ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ کراہنے لگاتھا۔ کیونکہ بات پوری میں سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا قریب ہی نرس کھڑی نظرآئی۔
“اٹھنے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔!“
“ہاں ۔۔۔۔شائد ۔۔۔۔کیا کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں ٹانگ کے۔۔۔۔!“
“نہیں‌ ایک سمپل فریکچر ہے۔ پریشانی بات نہیں۔!“
“اور میرے ساتھی۔۔۔۔!“
ایک صاحب اور ہیں جن کے بازو کا گوشت ادھڑ گیا ہے!“
“مسڑ صفدر۔۔۔۔!“
“اور وہ دونوں۔۔۔۔!“
“بس یہاں آپ ہی دونوں ہیں۔!“‌‌ نرس نے کہا تھا اور قریب ہی رکھے ہوئے فون پر کسی کو جوزف کےہوش میں آجانے کی اطلاع دی تھی۔
اور پھر پندرہ یا بیس منٹ بعد جوزف عمران کی شکل دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔
“سب ٹھیک ہے۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔!“ تیری خواہش تھی ناکہ فلیٹ سے نکل بھاگے۔بس اب یہیں پڑارہ۔۔۔۔!“
“لیکن یہ سب کیا تھا باس! اس بار تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔!“
“بس ہے ایک خطرناک جانور۔۔۔۔ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔!“
“کیا وہ دونوں زندہ ہیں۔“
“بالکل محفوظ ہیں۔ جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ صرف بیہوش ہوگئے تھے۔
 

ابو کاشان

محفلین
ٹائپنگ : شکاری مکمل
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل
صفحہ 93-92
لیکن جوزف نے اسکا بازو پکر کر کھینچتے ہوئے کہا۔ “ٹھہرومسڑ۔!اتنی جلدی بھی ٹھیک نہیں ہے۔!“
“کیا بات ہے۔!“ صفدر جھنجھلا گیا۔
“پہلے ان دونوں‌‌ کو باہر نکالو۔ تم دیکھتے نہیں کہ کتنا اندھیرا ہے۔!“
“اوہ۔۔۔۔!“ صفدر کو عقل آگئی۔
“ہم نہیں نکلیں گے۔!“ ان میں‌ سے ایک بولا۔
“کیوں ۔۔۔۔!“ صفدر غرایا۔
“تم شائد زندہ رہنے دو۔ لیکن وہ۔۔۔۔!“
“پوری بات کرو۔!“
“ہمارا باس اپنے آدمیوں کو دوسروں کے قبضے میں زندہ نہیں رہنے دیتا۔!“
“تو وہ تمہارا باس تھا جس نے اسٹین گن سے فائرنگ کی تھی۔“ جوزف نے پوچھا۔
“ہاں باس ہی تھا۔!“
“وہ کون ہے۔!“
“مالک ہے۔۔۔۔!“
“میں نام پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔!“
“شہروز۔۔۔۔!“
“نام نیا ہے۔۔۔۔!“
“نام لینے کا حکم نہیں صرف باس کہلاتا ہے۔۔۔۔“
“کہاں رہتا ہے۔۔۔۔!“
“ہم نہیں جانتے۔۔۔۔!“
“چلو۔۔۔۔ نکلوباہر۔۔۔۔ ہمارا آدمی بھی ہیں۔!“
“یہ باڈی گارڈ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہے۔۔۔۔باس کہیں آس پاس ہی موجود ہوگا وہ ہمیں تم لوگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دے گا۔آج تک اس نے اپنے کسی آدمی کو بے بس نہیں ہونے دیا۔ کہتا ہے کہ بے بسی سے موت اچھی۔!“
صفدر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ ایسا ہی زبردست دھماکہ تھا وہ سب ایک




کے اوپر ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے۔ اور کسی کو اس کا ہوش نہیں رہاتھا کہ اس کے اوپر چھت کا کتنا ملبہ گرا تھا۔!
کسی پر کچھ بھی بیتی ہو۔! لیکن جوزف نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے صفدر کو آواز دی تھی اور اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔ آنکھوں سے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ مدہم سی روشنی کا احساس ہوا تھا اور یہ روشنی بتدریج تیز ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ کراہنے لگاتھا۔ کیونکہ بات پوری میں سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا قریب ہی نرس کھڑی نظرآئی۔
“اٹھنے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔!“
“ہاں ۔۔۔۔شائد ۔۔۔۔کیا کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں ٹانگ کے۔۔۔۔!“
“نہیں‌ ایک سمپل فریکچر ہے۔ پریشانی بات نہیں۔!“
“اور میرے ساتھی۔۔۔۔!“
ایک صاحب اور ہیں جن کے بازو کا گوشت ادھڑ گیا ہے!“
“مسڑ صفدر۔۔۔۔!“
“اور وہ دونوں۔۔۔۔!“
“بس یہاں آپ ہی دونوں ہیں۔!“‌‌ نرس نے کہا تھا اور قریب ہی رکھے ہوئے فون پر کسی کو جوزف کےہوش میں آجانے کی اطلاع دی تھی۔
اور پھر پندرہ یا بیس منٹ بعد جوزف عمران کی شکل دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔
“سب ٹھیک ہے۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔!“ تیری خواہش تھی ناکہ فلیٹ سے نکل بھاگے۔بس اب یہیں پڑارہ۔۔۔۔!“
“لیکن یہ سب کیا تھا باس! اس بار تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔!“
“بس ہے ایک خطرناک جانور۔۔۔۔ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔!“
“کیا وہ دونوں زندہ ہیں۔“
“بالکل محفوظ ہیں۔ جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ صرف بیہوش ہوگئے تھے۔

لیکن جوزف نے اسکا بازو پکر کر کھینچتے ہوئے کہا۔ “ٹھہرو مسڑ۔! اتنی جلدی بھی ٹھیک نہیں ہے۔!“
“کیا بات ہے۔!“ صفدر جھنجھلا گیا۔
“پہلے ان دونوں‌‌ کو باہر نکالو۔ تم دیکھتے نہیں کہ کتنا اندھیرا ہے۔!“
“اوہ۔۔۔۔!“ صفدر کو عقل آگئی۔
“ہم نہیں نکلیں گے۔!“ ان میں‌ سے ایک بولا۔
“کیوں ۔۔۔۔!“ صفدر غرایا۔
“تم شائد زندہ رہنے دو۔ لیکن وہ۔۔۔۔!“
“پوری بات کرو۔!“
“ہمارا باس اپنے آدمیوں کو دوسروں کے قبضے میں زندہ نہیں رہنے دیتا۔!“
“تو وہ تمہارا باس تھا جس نے اسٹین گن سے فائرنگ کی تھی۔“ جوزف نے پوچھا۔
“ہاں باس ہی تھا۔!“
“وہ کون ہے۔!“
“مالک ہے۔۔۔۔!“
“میں نام پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔!“
“شہروز۔۔۔۔!“
“نام نیا ہے۔۔۔۔!“
“نام لینے کا حکم نہیں صرف باس کہلاتا ہے۔۔۔۔!“
“کہاں رہتا ہے۔۔۔۔!“
“ہم نہیں جانتے۔۔۔۔!“
“چلو۔۔۔۔ نکلوباہر۔۔۔۔ ہمارے آدمی بھی ہیں۔!“
“یہ باڈی گارڈ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہے۔۔۔۔ باس کہیں آس پاس ہی موجود ہوگا وہ ہمیں تم لوگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دے گا۔آج تک اس نے اپنے کسی آدمی کو بے بس نہیں ہونے دیا۔ کہتا ہے کہ بے بسی سے موت اچھی۔!“
صفدر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ ایسا ہی زبردست دھماکہ تھا وہ سب ایک کے اوپر ایک ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے۔ اور کسی کو اس کا ہوش نہیں رہا تھا کہ اس کے اوپر چھت کا کتنا ملبہ گرا تھا۔!
کسی پر کچھ بھی بیتی ہو۔! لیکن جوزف نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے صفدر کو آواز دی تھی اور اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔ آنکھوں سے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مدہم سی روشنی کا احساس ہوا تھا اور یہ روشنی بتدریج تیز ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ کراہنے لگا تھا۔ کیونکہ بات پوری میں سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔ وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا قریب ہی نرس کھڑی نظرآئی۔
“اٹھنے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔!“
“ہاں ۔۔۔۔ شائد ۔۔۔۔ کیا کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں ٹانگ کے۔۔۔۔!“
“نہیں‌ ایک سمپل فریکچر ہے۔ پریشانی بات نہیں۔!“
“اور میرے ساتھی۔۔۔۔!“
ایک صاحب اور ہیں جن کے بازو کا گوشت ادھڑ گیا ہے!“
“مسڑ صفدر۔۔۔۔!“
“اور وہ دونوں۔۔۔۔!“
“بس یہاں آپ ہی دونوں ہیں۔!“‌‌ نرس نے کہا تھا اور قریب ہی رکھے ہوئے فون پر کسی کو جوزف کے ہوش میں آجانے کی اطلاع دی تھی۔
اور پھر پندرہ یا بیس منٹ بعد جوزف عمران کی شکل دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔
“سب ٹھیک ہے۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔!“ تیری خواہش تھی ناکہ فلیٹ سے نکل بھاگے۔بس اب یہیں پڑا رہ۔۔۔۔!“
“لیکن یہ سب کیا تھا باس! اس بار تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔!“
“بس ہے ایک خطرناک جانور۔۔۔۔ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔!“
“کیا وہ دونوں زندہ ہیں۔“
“بالکل محفوظ ہیں۔ جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ صرف بیہوش ہوگئے تھے۔
 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ

لیکن جوزف نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔ "ٹھہرو مسڑ! اتنی جلدی بھی ٹھیک نہیں ہے۔"
"کیا بات ہے؟" صفدر جھنجھلا گیا۔
"پہلے ان دونوں‌‌ کو باہر نکالو۔ تم دیکھتے نہیں کہ کتنا اندھیرا ہے۔"
"اوہ۔۔۔۔" صفدر کو عقل آگئی۔
"ہم نہیں نکلیں گے۔" ان میں‌ سے ایک بولا۔
"کیوں ۔۔۔۔؟" صفدر غرایا۔
"تم شائد زندہ رہنے دو۔ لیکن وہ۔۔۔۔"
"پوری بات کرو۔"
"ہمارا باس اپنے آدمیوں کو دوسروں کے قبضے میں زندہ نہیں رہنے دیتا۔"
"تو وہ تمہارا باس تھا جس نے سٹین گن سے فائرنگ کی تھی؟" جوزف نے پوچھا۔
"ہاں باس ہی تھا۔"
"وہ کون ہے؟"
"مالک ہے۔۔۔۔"
"میں نام پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔"
"شہروز۔۔۔۔"
"نام نیا ہے۔۔۔۔"
"نام لینے کا حکم نہیں صرف باس کہلاتا ہے۔۔۔۔"
"کہاں رہتا ہے۔۔۔۔؟"
"ہم نہیں جانتے۔۔۔۔"
"چلو۔۔۔۔ نکلو باہر۔۔۔۔ ہمارے آدمی بھی ہیں۔"
"یہ باڈی گارڈ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہے۔۔۔۔ باس کہیں آس پاس ہی موجود ہوگا۔ وہ ہمیں تم لوگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دے گا۔ آج تک اس نے اپنے کسی آدمی کو بے بس نہیں ہونے دیا۔ کہتا ہے کہ بے بسی سے موت اچھی۔"
صفدر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ ایسا ہی زبردست دھماکہ تھا۔ وہ سب ایک کے اوپر ایک ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے اور کسی کو اس کا ہوش نہیں رہا تھا کہ اس کے اوپر چھت کا کتنا ملبہ گرا تھا۔
کسی پر کچھ بھی بیتی ہو لیکن جوزف نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے صفدر کو آواز دی تھی اور اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔ آنکھوں سے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مدھم سی روشنی کا احساس ہوا تھا اور یہ روشنی بتدریج تیز ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ کراہنے لگا تھا کیونکہ بات پوری میں سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔ وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا۔ قریب ہی نرس کھڑی نظر آئی۔
"اٹھنے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔"
"ہاں ۔۔۔۔ شائد ۔۔۔۔ کیا کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں ٹانگ کے۔۔۔۔؟"
"نہیں‌ ایک سمپل فریکچر ہے۔ پریشانی بات نہیں۔"
"اور میرے ساتھی۔۔۔۔؟"
ایک صاحب اور ہیں جن کے بازو کا گوشت ادھڑ گیا ہے۔"
"مسڑ صفدر۔۔۔۔"
"اور وہ دونوں۔۔۔۔؟"
"بس یہاں آپ ہی دونوں ہیں۔"‌‌ نرس نے کہا تھا اور قریب ہی رکھے ہوئے فون پر کسی کو جوزف کے ہوش میں آ جانے کی اطلاع دی تھی۔
اور پھر پندرہ یا بیس منٹ بعد جوزف عمران کی شکل دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔
"سب ٹھیک ہے۔" عمران سر ہلا کر بولا۔" تیری خواہش تھی نا کہ فلیٹ سے نکل بھاگے۔ بس اب یہیں پڑا رہ۔۔۔۔"
"لیکن یہ سب کیا تھا باس؟ اس بار تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔"
"بس ہے ایک خطرناک جانور۔۔۔۔ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔"
"کیا وہ دونوں زندہ ہیں؟"
"بالکل محفوظ ہیں۔ جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ صرف بیہوش ہوگئے تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر۔۔ فائنل:

لیکن جوزف نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔ "ٹھہرو مسڑ! اتنی جلدی بھی ٹھیک نہیں ہے ۔"
"کیا بات ہے ؟" صفدر جھنجھلا گیا۔
"پہلے ان دونوں‌ کو باہر نکالو۔ تم دیکھتے نہیں کہ کتنا اندھیرا ہے ۔"
"اوہ۔۔۔۔" صفدر کو عقل آگئی۔
"ہم نہیں نکلیں گے ۔" ان میں‌ سے ایک بولا۔
"کیوں ۔۔۔۔؟" صفدر غرایا۔
"تم شاید زندہ رہنے دو۔ لیکن وہ۔۔۔۔"
"پوری بات کرو۔"
"ہمارا باس اپنے آدمیوں کو دوسروں کے قبضے میں زندہ نہیں رہنے دیتا۔"
"تو وہ تمہارا باس تھا جس نے سٹین گن سے فائرنگ کی تھی؟" جوزف نے پوچھا۔
"ہاں باس ہی تھا۔"
"وہ کون ہے ؟"
"مالک ہے ۔۔۔۔"
"میں نام پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔"
"شہروز۔۔۔۔"
"نام نیا ہے ۔۔۔۔"
"نام لینے کا حکم نہیں صرف باس کہلاتا ہے ۔۔۔۔"
"کہاں رہتا ہے ۔۔۔۔؟"
"ہم نہیں جانتے ۔۔۔۔"
"چلو۔۔۔۔ نکلو باہر۔۔۔۔ ہمارے آدمی بھی ہیں۔"
"یہ باڈی گارڈ آپ سے زیادہ تجربہ کار ہے ۔۔۔۔ باس کہیں آس پاس ہی موجود ہو گا۔ وہ ہمیں تم لوگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دے گا۔ آج تک اس نے اپنے کسی آدمی کو بے بس نہیں ہونے دیا۔ کہتا ہے کہ بے بسی سے موت اچھی۔"
صفدر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ ایسا ہی زبردست دھماکہ تھا۔ وہ سب ایک کے اوپر ایک ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے اور کسی کو اس کا ہوش نہیں رہا تھا کہ اس کے اوپر چھت کا کتنا ملبہ گرا تھا۔
کسی پر کچھ بھی بیتی ہو لیکن جوزف نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے صفدر کو آواز دی تھی اور اٹھ بیٹھنے کی کوشش کی تھی۔ آنکھوں سے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مدھم سی روشنی کا احساس ہوا تھا اور یہ روشنی بتدریج تیز ہوتی گئی تھی۔ پھر وہ کراہنے لگا تھا کیونکہ بات پوری میں سمجھ آگئی تھی۔۔۔۔ وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا۔ قریب ہی نرس کھڑی نظر آئی۔
"اٹھنے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے ۔۔۔۔"
"ہاں ۔۔۔۔ شاید ۔۔۔۔ کیا کئی ٹکڑے ہو گئے ہیں ٹانگ کے ۔۔۔۔؟"
"نہیں‌ ایک سمپل فریکچر ہے ۔ پریشانی بات نہیں۔"
"اور میرے ساتھی۔۔۔۔؟"
ایک صاحب اور ہیں جن کے بازو کا گوشت ادھڑ گیا ہے ۔"
"مسڑ صفدر۔۔۔۔"
"اور وہ دونوں۔۔۔۔؟"
"بس یہاں آپ ہی دونوں ہیں۔" نرس نے کہا تھا اور قریب ہی رکھے ہوئے فون پر کسی کو جوزف کے ہوش میں آ جانے کی اطلاع دی تھی۔
اور پھر پندرہ یا بیس منٹ بعد جوزف عمران کی شکل دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔
"سب ٹھیک ہے ۔" عمران سر ہلا کر بولا۔" تیری خواہش تھی نا کہ فلیٹ سے نکل بھاگے ۔ بس اب یہیں پڑا رہ۔۔۔۔"
"لیکن یہ سب کیا تھا باس؟ اس بار تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔"
"بس ہے ایک خطرناک جانور۔۔۔۔ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔"
"کیا وہ دونوں زندہ ہیں؟"
"بالکل محفوظ ہیں۔ جسموں پر ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ صرف بیہوش ہو گئے تھے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top