علامہ دہشتناک : صفحہ 84-85 : انتالیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


33nhgs8.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

ابو کاشان

محفلین
وہ عمارت سے نکل آئے تھے عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھالایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔!
"ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔!" شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔! "ہیڈ کوارٹر۔!"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب!" شہزاد چونک پڑا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔!" عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ "پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔"
"تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔!"
"تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔!"
"لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔!"
"باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے۔۔۔۔ ناپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی۔!"
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
"میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے۔!" عمران نے پھر سوال کیا۔
"زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے۔!" شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
"کیسی حماقت؟"
"مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔!"
"میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔!"
شہزاد خاموش رہا۔
"البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔" عمران ہی بولتا رہا۔ "بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔!"
"صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟"
"تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے ضماقت ہی سرزد ہوئی ہے۔!"
"مجھے اعتراف ہے۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔! تم نے دام بڑھا دیئے۔!"
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔!" عمران نے سوال کیا۔
"کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔!"
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب ست گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کت کان جھنجھنا اٹھے تھے۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔! صفدر نت پورے بریک لگائے۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
"احمق۔!" عمران دہاڑا۔ "چلو۔! ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔!"
"کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔!" صفدر ہکلایا۔
"فائر کر گیا ہے۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔!"
صفدر نت ایکسی لیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نت چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر اسپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔!
"اور تیز۔۔۔۔!" عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
"پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔!"
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ ریا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔!
"باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔!" عمران نے صفدر سے کہا۔"اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔!"
 

گرو جی

محفلین
شگفتہ جی میں‌ نے آپ کے کہنے کے مطابق تدوین کر لی ہے اب چیک کر لیں میری تحریر احوال ایک شادی کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت شکریہ نشاندہی کے لیے ، میں دیکھتی ہوں ابھی ۔

اچھا اگر کسی پوسٹ یا تھریڈ کی نشاندہی کرنا ہو تو اس ربط پر بھی کر سکتے ہیں ۔ کسی دوسری جگہ ممکن ہے میری نظر سے نہ گزرے یا دیر سے گزرے ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وہ عمارت سے نکل آئے تھے عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھالایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔!
"ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔!" شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔! "ہیڈ کوارٹر۔!"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب!" شہزاد چونک پڑا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔!" عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ "پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔"
"تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔!"
"تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔!"
"لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔!"
"باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے۔۔۔۔ باپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی۔!"
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
"میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے۔!" عمران نے پھر سوال کیا۔
"زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے۔!" شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
"کیسی حماقت؟"
"مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔!"
"میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔!"
شہزاد خاموش رہا۔
"البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔" عمران ہی بولتا رہا۔ "بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔!"
"صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟"
"تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے حماقت ہی سرزد ہوئی ہے۔!"
"مجھے اعتراف ہے۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔! تم نے دام بڑھا دیئے۔!"
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔!" عمران نے سوال کیا۔
"کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔!"
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب سے گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کے کان جھنجھنا اٹھے تھے۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔! صفدر نے پورے بریک لگائے۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
"احمق۔!" عمران دہاڑا۔ "چلو۔! ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔!"
"کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔!" صفدر ہکلایا۔
"فائر کر گیا ہے۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔!"
صفدر نے ایکسی لیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نے چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر اسپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔!
"اور تیز۔۔۔۔!" عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
"پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔!"
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ ریا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔!
"باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔!" عمران نے صفدر سے کہا۔"اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔!"


میں نے اس کو پڑھ لیا ہے اب جیہ آپی پڑھے گی شکریہ
 

جیہ

لائبریرین
وہ عمارت سے نکل آئے تھے۔ عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھا لایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔
"ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔" شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔ "ہیڈ کوارٹر۔"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب" شہزاد چونک پڑا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔" عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ "پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔"
"تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔"
"تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔"
"لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔"
"باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے۔۔۔۔ باپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی؟"
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
"میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے۔" عمران نے پھر سوال کیا۔
"زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے۔" شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
"کیسی حماقت؟"
"مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔"
"میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔"
شہزاد خاموش رہا۔
"البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔" عمران ہی بولتا رہا۔ "بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔"
"صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟"
"تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے حماقت ہی سرزد ہوئی ہے۔"
"مجھے اعتراف ہے۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔ تم نے دام بڑھا دیئے۔"
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے؟" عمران نے سوال کیا۔
"کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔"
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب سے گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کے کان جھنجھنا اٹھے تھے۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔ صفدر نے پورے بریک لگائے۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
"احمق۔" عمران دھاڑا۔ "چلو ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔"
"کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔" صفدر ہکلایا۔
"فائر کر گیا ہے۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔"
صفدر نے ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نے چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر سپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔
"اور تیز۔۔۔۔" عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
"پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔ تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔"
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔
"باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔" عمران نے صفدر سے کہا۔ "اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔"
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

وہ عمارت سے نکل آئے تھے ۔ عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھا لایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔
"ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔" شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔ "ہیڈ کوارٹر۔"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب" شہزاد چونک پڑا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔" عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ "پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔"
"تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔"
"تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔"
"لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔"
"باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے ۔۔۔۔ باپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی؟"
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
"میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے ۔" عمران نے پھر سوال کیا۔
"زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے ۔" شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
"کیسی حماقت؟"
"مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔"
"میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔"
شہزاد خاموش رہا۔
"البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔" عمران ہی بولتا رہا۔ "بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔"
"صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟"
"تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے حماقت ہی سرزد ہوئی ہے ۔"
"مجھے اعتراف ہے ۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔ تم نے دام بڑھا دیئے ۔"
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے ؟" عمران نے سوال کیا۔
"کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے ۔"
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب سے گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کے کان جھنجھنا اٹھے تھے ۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔ صفدر نے پورے بریک لگائے ۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
"احمق۔" عمران دھاڑا۔ "چلو ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔"
"کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔" صفدر ہکلایا۔
"فائر کر گیا ہے ۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔"
صفدر نے ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نے چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر سپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔
"اور تیز۔۔۔۔" عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
"پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔ تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔"
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے ۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔
"باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔" عمران نے صفدر سے کہا۔ "اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔"
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

وہ عمارت سے نکل آئے تھے ۔ عمران شہزاد کو صفدر کی گاڑی تک بڑھا لایا۔ صفدر نے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تھا۔ عمران کے ریوالور کا دباؤ ‌شہزاد کے پہلو پر کسی قدر بڑھ گیا۔۔۔۔
"ڈیڑھ لاکھ بہت ہیں۔ میں پہلے ہی آگاہ کئے دیتا ہوں۔" شہزاد گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا۔
عمران اس کی طرف توجّہ دیئے بغیر صفدر سے بولا۔ "ہیڈ کوارٹر۔"
"کک۔۔۔۔ کیا مطلب" شہزاد چونک پڑا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔" عمران ریوالور کا دباؤ بڑھاتا ہوا بولا۔ "پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں کہہ رہا۔ میرے گرگے پاگل خانے کو ہیڈ کوارٹر کہتے ہیں۔"
"تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ تم میری قوّت سے واقف نہیں ہو۔"
"تمہاری قوّت سے واقف نہ ہوتا تو سیدھا تمہارے پاس کیوں آتا۔"
"لیکن جو حرکت تم نے اس وقت کی ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارے باپ کا اثر و رسوخ بھی کام نہ آ سکے گا۔"
"باپ کا تو نام ہی نہ لو۔ ہر بلیک میلر اس بھری پُری دنیا میں تنہا ہوتا ہے ۔۔۔۔ باپ کے لائق ہوتا تو گھر کیوں چھوڑتا۔ ویسے کیا تم بتا سکتے ہو کہ اگر میں ان ساتوں کو پولیس کے حوالے کر دوں تو کس کی گردن پھنسے گی؟"
شہزاد کچھ نہ بولا۔ اب اس کی آنکھوں میں فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔
"میں نے پوچھا تھا کہ کس کی گردن پھنسنے والی ہے ۔" عمران نے پھر سوال کیا۔
"زندگی میں پہلی بار مجھ سے ایک حماقت سر زد ہوئی ہے ۔" شہزاد آہستہ آہستہ بڑبڑایا۔
"کیسی حماقت؟"
"مجھے تم کو نظر انداز کر دینا چاہئے تھا۔"
"میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ تم مجھے نظر انداز کر دو۔ کر ہی نہیں سکتے تھے جبکہ میں نے پہلی بار تمہارے ہوٹل میں قدم رکھا تھا۔"
شہزاد خاموش رہا۔
"البتہ تمہیں معاملے کی بات فوراً ہی نہیں شروع کر دینی چاہئے تھی۔" عمران ہی بولتا رہا۔ "بہرحال ان میں براہِ راست صاحبِ معاملہ ہی سے بات کروں گا۔"
"صاحبِ معاملہ تم کسے سمجھتے ہو؟"
"تمہیں کیوں بتاؤں۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ تم سے حماقت ہی سرزد ہوئی ہے ۔"
"مجھے اعتراف ہے ۔۔۔۔ جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئے تھا۔۔۔۔ تم نے دام بڑھا دیئے ۔"
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں ان ساتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے ؟" عمران نے سوال کیا۔
"کسی بلیک میلر کو پولیس والوں کے سے انداز میں سوالات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے ۔"
ٹھیک اسی وقت ایک تیز رفتار موٹر سائیکل بائیں جانب اتنے قریب سے گزری تھی کہ صفدر گڑبڑا گیا تھا اور عمران کے کان جھنجھنا اٹھے تھے ۔
شہزاد اگلی سیٹ کی پشت گاہ پر ڈھلک گیا۔۔۔۔ اس کی بائیں کنپٹی سے خون کا فوّارہ چھوٹ رہا تھا۔ صفدر نے پورے بریک لگائے ۔ گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔
"احمق۔" عمران دھاڑا۔ "چلو ورنہ وہ ہاتھ سے جائے گا۔"
"کک۔۔۔۔ کیا ہوا۔" صفدر ہکلایا۔
"فائر کر گیا ہے ۔۔۔۔ شہزاد۔۔۔۔ ختم ہو گیا۔"
صفدر نے ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ گاڑی نے چھلانگ سی لگائی تھی۔
چالیس۔۔۔۔ پچاس۔۔۔۔ ساٹھ۔۔۔۔ اور پھر سپیڈو میٹر کی سوئی ساٹھ اور ستّر کے درمیان جھولنے لگی۔
"اور تیز۔۔۔۔" عمران غرّایا۔
لیکن موٹر سائیکل کا کہیں پتا نہ تھا۔
"پندرہ منٹ بعد عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "بے کار ہے وہ کچّے راستے پر مڑ گیا۔۔۔۔ تم بھی گاڑی سڑک سے اتار کر کسی ٹیلے کی اوٹ میں لے چلو۔"
اور پھر جب گاڑی رکی تھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئے ۔ شہزاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار کے فائر سے اس کی بائیں کنپٹی میں سوراخ ہو گیا تھا۔
"باڈی پر پڑے ہوئے خون کے دھبّے صاف کرو۔۔۔۔" عمران نے صفدر سے کہا۔ "اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اس لاش کو انتہائی احتیاط سے سائیکو مینشن لے چلیں اور سرد خانے میں رکھ دیں۔"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top