علامہ دہشتناک : صفحہ 62-63 : اٹھائیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



v4qn2f.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

شکاری

محفلین
صفحہ ستائیس ، اٹھائیس، انتیس یہ میری ٹیم کے ہوئے ۔ میں صفحہ ستائیس پر کام کررہا ہوں باقی دو صفحوں پر کاشان اور خرم بھائی آپس میں مشورہ کرکے کام شروع کردیں ۔ اس کے بعد تینوں اپنے اپنے صفحے ایک دوسرے کو پروف ریڈنگ کے لیے بیھج دیں ۔
شکریہ۔
 

شکاری

محفلین
واپس کیوں نہیں پہنچ سکتا۔!
علامہ کے نمبرڈائل کرکے وہ اسے اپنی رواداد سنانے لگا تھا۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔!
“تمہیں یقین ہے کہ وہ کوئی غیر ملکی عورت تھی۔!“
“جی ہاں! اطالوی ہوسکتی ہے۔!“
“اگر تمہیں یقین ہے تو دیکھ لو۔! لیکن ٹھہرو۔ اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے تمہاری جو مدد دے رہا ہے۔!“
“ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔!“
اچھی بات ہے کوشش کرو۔۔۔۔ناکامی کے بعد رپورٹ درج کرادینا۔!“
“ لل۔۔۔۔لیکن جناب! میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔!“
“تو پھر گاڑی جائے گی ہاتھ سے۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“ کہہ کر وہ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سننے کا منتظر رہا تھا!علامہ کے شاگرد ان خصوصی ایسے ہی تابعدار تھے۔ وہ ریسیور ہک سے لگا کر باہر آیا۔
گاڑی اب کسی نامعلوم منزل کی طرف جارہی تھی! پیڑ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
اجنبی نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا جیسے ہونٹ سی لیے ہوں۔
کچھ دیر بعد گاڑی کو ایک پرشکوہ عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر پیڑ چونکا تھا۔
“ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔یہ تو رانا پیلس ہے۔!“ وہ بوکھلا کر بولا۔
“میں رانا تہور علی صندوقی ہوں۔۔۔۔!“ اجنبی نے سخت لہجے میں کہا۔
“مم۔۔۔۔مطلب یہ کہ۔۔۔۔!“
گاڑی کمپاؤنڈ میں ایک جگہ رک چکی تھی۔ اجنبی نے پیڑ سے اترنے کو کہا۔
“لیکن آپ تو مجھے اس عورت کے گھر لے جارہے تھے۔!“
“اسے بھی یہیں پکڑوا بلواؤں گا۔ بے فکر رہو۔!“
پیڑ چپ چاپ گاڑی سے اُتر آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس چکر میں پھنس گیا ہے۔ رانا تہور علی کا نام اس نے سنا تھا۔ لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔!


“میرے ساتھ آؤ۔!“ رانا نے عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا۔!
“پہلے میں پوری بات سمجھ لوں۔ پھر کوئی قدم اٹھاؤں گا۔!“
“کیا سمجھنا چاہتے ہو۔!“
“میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ رانا جیسی شخصیت ہپی عورتوں کے چکر میں پڑے گی۔“
“تو پھر۔!“
“بھلا آپ کو میرے ساتھ کیا سروکار ہوسکتا ہے۔!“
وہ مجھے دیکھ کر نروس ہوگئی تھی۔ اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرو گے۔!“
“کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔!“
“اندر چلو۔ میں سمجھا دوں گا۔!“

×‌ × × × × × ×
شیلا بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور عمران کے چہرے پر حماقتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے۔!
“میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔!“
“بتا چکا ہوں کہ ان چھ جوانوں کو بھی پکڑوالیا ہے جو تمہاری کیمپنگ میں شامل تھے اور دونوں لڑکیوں کی نگرانی کررہا ہوں۔!“
“آخر تم ہوکون۔!“
“احمق اعظم۔۔۔۔اور عقل مندوں کا دشمن جانی۔۔۔۔!“
“اتنے شاندار محل میں رہتے ہو۔!“
“محل میرا نہیں۔!میرے ایک دوست رانا تہور علی صندوقی کا ہے۔۔۔۔!“
“میں نے یہ نام سنا ہے!لیکن آج تک نہیں سمجھ سکی کہ صندوقی سے کیا مراد ہے۔!“
“صندوق سے برآمد ہوا تھا۔ صندوق سے پہلے کی تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔!“
“میں نہیں سمجھی۔!“
“اس کی حماقت یہ کہ اب تک صندوق سے چمٹا ہوا ہے۔۔۔۔! ہاں تومیں نے ابھی تمہیں
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : ابو کاشان مکمل

واپس کیوں نہیں پہنچ سکتا۔!
علامہ کے نمبرڈائل کرکے وہ اسے اپنی رواداد سنانے لگا تھا۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔!
“تمہیں یقین ہے کہ وہ کوئی غیر ملکی عورت تھی۔!“
“جی ہاں! اطالوی ہوسکتی ہے۔!“
“اگر تمہیں یقین ہے تو دیکھ لو۔! لیکن ٹھہرو۔ اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے تمہاری جو مدد دے رہا ہے۔!“
“ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔!“
اچھی بات ہے کوشش کرو۔۔۔۔ناکامی کے بعد رپورٹ درج کرادینا۔!“
“ لل۔۔۔۔لیکن جناب! میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔!“
“تو پھر گاڑی جائے گی ہاتھ سے۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“ کہہ کر وہ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سننے کا منتظر رہا تھا!علامہ کے شاگرد ان خصوصی ایسے ہی تابعدار تھے۔ وہ ریسیور ہک سے لگا کر باہر آیا۔
گاڑی اب کسی نامعلوم منزل کی طرف جارہی تھی! پیڑ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
اجنبی نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا جیسے ہونٹ سی لیے ہوں۔
کچھ دیر بعد گاڑی کو ایک پرشکوہ عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر پیڑ چونکا تھا۔
“ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔یہ تو رانا پیلس ہے۔!“ وہ بوکھلا کر بولا۔
“میں رانا تہور علی صندوقی ہوں۔۔۔۔!“ اجنبی نے سخت لہجے میں کہا۔
“مم۔۔۔۔مطلب یہ کہ۔۔۔۔!“
گاڑی کمپاؤنڈ میں ایک جگہ رک چکی تھی۔ اجنبی نے پیڑ سے اترنے کو کہا۔
“لیکن آپ تو مجھے اس عورت کے گھر لے جارہے تھے۔!“
“اسے بھی یہیں پکڑوا بلواؤں گا۔ بے فکر رہو۔!“
پیڑ چپ چاپ گاڑی سے اُتر آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس چکر میں پھنس گیا ہے۔ رانا تہور علی کا نام اس نے سنا تھا۔ لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔!


“میرے ساتھ آؤ۔!“ رانا نے عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا۔!
“پہلے میں پوری بات سمجھ لوں۔ پھر کوئی قدم اٹھاؤں گا۔!“
“کیا سمجھنا چاہتے ہو۔!“
“میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ رانا جیسی شخصیت ہپی عورتوں کے چکر میں پڑے گی۔“
“تو پھر۔!“
“بھلا آپ کو میرے ساتھ کیا سروکار ہوسکتا ہے۔!“
وہ مجھے دیکھ کر نروس ہوگئی تھی۔ اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرو گے۔!“
“کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔!“
“اندر چلو۔ میں سمجھا دوں گا۔!“

×‌ × × × × × ×
شیلا بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور عمران کے چہرے پر حماقتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے۔!
“میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔!“
“بتا چکا ہوں کہ ان چھ جوانوں کو بھی پکڑوالیا ہے جو تمہاری کیمپنگ میں شامل تھے اور دونوں لڑکیوں کی نگرانی کررہا ہوں۔!“
“آخر تم ہوکون۔!“
“احمق اعظم۔۔۔۔اور عقل مندوں کا دشمن جانی۔۔۔۔!“
“اتنے شاندار محل میں رہتے ہو۔!“
“محل میرا نہیں۔!میرے ایک دوست رانا تہور علی صندوقی کا ہے۔۔۔۔!“
“میں نے یہ نام سنا ہے!لیکن آج تک نہیں سمجھ سکی کہ صندوقی سے کیا مراد ہے۔!“
“صندوق سے برآمد ہوا تھا۔ صندوق سے پہلے کی تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔!“
“میں نہیں سمجھی۔!“
“اس کی حماقت یہ کہ اب تک صندوق سے چمٹا ہوا ہے۔۔۔۔! ہاں تومیں نے ابھی تمہیں

واپس کیوں نہیں پہنچ سکتا۔!
علامہ کے نمبرڈائل کر کے وہ اسے اپنی رواداد سنانے لگا تھا۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔!
“تمہیں یقین ہے کہ وہ کوئی غیر ملکی عورت تھی۔!“
“جی ہاں! اطالوی ہوسکتی ہے۔!“
“اگر تمہیں یقین ہے تو دیکھ لو۔! لیکن ٹھہرو۔ اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے تمہاری جو مدد دے رہا ہے۔!“
“ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔!“
اچھی بات ہے کوشش کرو۔۔۔۔ناکامی کے بعد رپورٹ درج کرا دینا۔!“
“لل۔۔۔۔ لیکن جناب! میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔!“
“تو پھر گاڑی جائے گی ہاتھ سے۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“ کہہ کر وہ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سننے کا منتظر رہا تھا! علامہ کے شاگردانِ خصوصی ایسے ہی تابعدار تھے۔ وہ ریسیور ہک سے لگا کر باہر آیا۔
گاڑی اب کسی نامعلوم منزل کی طرف جارہی تھی! پیڑ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
اجنبی نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا جیسے ہونٹ سی لئے ہوں۔
کچھ دیر بعد گاڑی کو ایک پرشکوہ عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر پیڑ چونکا تھا۔
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ یہ تو رانا پیلس ہے۔!“ وہ بوکھلا کر بولا۔
“میں رانا تہور علی صندوقی ہوں۔۔۔۔!“ اجنبی نے سخت لہجے میں کہا۔
“مم۔۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔۔!“
گاڑی کمپاؤنڈ میں ایک جگہ رک چکی تھی۔ اجنبی نے پیڑ سے اترنے کو کہا۔
“لیکن آپ تو مجھے اس عورت کے گھر لے جارہے تھے۔!“
“اسے بھی یہیں پکڑوا بلواؤں گا۔ بے فکر رہو۔!“
پیڑ چپ چاپ گاڑی سے اُتر آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس چکر میں پھنس گیا ہے۔ رانا تہور علی کا نام اس نے سنا تھا۔ لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔!
“میرے ساتھ آؤ۔!“ رانا نے عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا۔!
“پہلے میں پوری بات سمجھ لوں۔ پھر کوئی قدم اٹھاؤں گا۔!“
“کیا سمجھنا چاہتے ہو۔!“
“میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ رانا جیسی شخصیت ہپی عورتوں کے چکر میں پڑے گی۔“
“تو پھر۔!“
“بھلا آپ کو میرے ساتھ کیا سروکار ہوسکتا ہے۔!“
وہ مجھے دیکھ کر نروس ہوگئی تھی۔ اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرو گے۔!“
“کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔!“
“اندر چلو۔ میں سمجھا دوں گا۔!“

×‌ × × × × × ×
شیلا بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور عمران کے چہرے پر حماقتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے۔!
“میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔!“
“بتا چکا ہوں کہ ان چھ جوانوں کو بھی پکڑوا لیا ہے جو تمہاری کیمپنگ میں شامل تھے اور دونوں لڑکیوں کی نگرانی کررہا ہوں۔!“
“آخر تم ہوکون۔!“
“احمق اعظم۔۔۔۔اور عقل مندوں کا دشمن جانی۔۔۔۔!“
“اتنے شاندار محل میں رہتے ہو۔!“
“محل میرا نہیں۔! میرے ایک دوست رانا تہور علی صندوقی کا ہے۔۔۔۔!“
“میں نے یہ نام سنا ہے! لیکن آج تک نہیں سمجھ سکی کہ صندوقی سے کیا مراد ہے۔!“
“صندوق سے برآمد ہوا تھا۔ صندوق سے پہلے کی تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔!“
“میں نہیں سمجھی۔!“
“اس کی حماقت یہ کہ اب تک صندوق سے چمٹا ہوا ہے۔۔۔۔! ہاں تومیں نے ابھی تمہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




اٹھائیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

اٹھائیسواں : 62 - 63 | ٹیم 3 | شکاری | ابو کاشان | ----- | ---- | 60 %







 

جیہ

لائبریرین
واپس کیوں نہیں پہنچ سکتا؟
علامہ کے نمبرڈائل کر کے وہ اسے اپنی روداد سنانے لگا تھا۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“تمہیں یقین ہے کہ وہ کوئی غیر ملکی عورت تھی؟“
“جی ہاں! اطالوی ہوسکتی ہے۔“
“اگر تمہیں یقین ہے تو دیکھ لو۔ لیکن ٹھہرو۔ اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے تمہاری جو مدد دے رہا ہے؟“
“ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔“
اچھی بات ہے کوشش کرو۔۔۔۔ناکامی کے بعد رپورٹ درج کرا دینا۔“
“لل۔۔۔۔ لیکن جناب میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔“
“تو پھر گاڑی جائے گی ہاتھ سے۔“
“دیکھا جائے گا۔“ کہہ کر وہ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سننے کا منتظر رہا تھا۔ علامہ کے شاگردانِ خصوصی ایسے ہی تابعدار تھے۔ وہ ریسیور ہک سے لگا کر باہر آیا۔
گاڑی اب کسی نامعلوم منزل کی طرف جارہی تھی۔ پیٹر تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
اجنبی نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا جیسے ہونٹ سی لئے ہوں۔
کچھ دیر بعد گاڑی کو ایک پرشکوہ عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر پیٹر چونکا تھا۔
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ یہ تو رانا پیلس ہے۔“ وہ بوکھلا کر بولا۔
“میں رانا تہور علی صندوقی ہوں۔۔۔۔“ اجنبی نے سخت لہجے میں کہا۔
“مم۔۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔۔؟“
گاڑی کمپاؤنڈ میں ایک جگہ رک چکی تھی۔ اجنبی نے پیٹر سے اترنے کو کہا۔
“لیکن آپ تو مجھے اس عورت کے گھر لے جا رہے تھے۔“
“اسے بھی یہیں پکڑوا بلواؤں گا۔ بے فکر رہو۔“
پیٹر چپ چاپ گاڑی سے اُتر آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس چکر میں پھنس گیا ہے۔ رانا تہور علی کا نام اس نے سنا تھا لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
“میرے ساتھ آؤ۔“ رانا نے عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
“پہلے میں پوری بات سمجھ لوں پھر کوئی قدم اٹھاؤں گا۔“
“کیا سمجھنا چاہتے ہو؟“
“میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ رانا جیسی شخصیت ہیپی عورتوں کے چکر میں پڑے گی۔“
“تو پھر؟“
“بھلا آپ کو میرے ساتھ کیا سروکار ہوسکتا ہے؟“
وہ مجھے دیکھ کر نروس ہوگئی تھی، اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرو گے؟“
“کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔“
“اندر چلو۔ میں سمجھا دوں گا۔“

× × × × × × ×

شیلا بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور عمران کے چہرے پر حماقتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے۔
“میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔“
“بتا چکا ہوں کہ ان چھ جوانوں کو بھی پکڑوا لیا ہے جو تمہاری کیمپنگ میں شامل تھے اور دونوں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوں۔“
“آخر تم ہوکون؟“
“احمق اعظم۔۔۔۔اور عقل مندوں کا دشمنِ جانی۔۔۔۔“
“اتنے شاندار محل میں رہتے ہو؟“
“محل میرا نہیں۔ میرے ایک دوست رانا تہور علی صندوقی کا ہے۔۔۔۔“
“میں نے یہ نام سنا ہے لیکن آج تک نہیں سمجھ سکی کہ صندوقی سے کیا مراد ہے۔“
“صندوق سے برآمد ہوا تھا۔ صندوق سے پہلے کی تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔“
“میں نہیں سمجھی۔“
“اس کی حماقت یہ کہ اب تک صندوق سے چمٹا ہوا ہے۔۔۔۔ ہاں تو میں نے ابھی تمہیں
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

واپس کیوں نہیں پہنچ سکتا؟
علامہ کے نمبرڈائل کر کے وہ اسے اپنی روداد سنانے لگا تھا۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“تمہیں یقین ہے کہ وہ کوئی غیر ملکی عورت تھی؟“
“جی ہاں! اطالوی ہوسکتی ہے ۔“
“اگر تمہیں یقین ہے تو دیکھ لو۔ لیکن ٹھہرو۔ اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے تمہاری جو مدد دے رہا ہے ؟“
“ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔“
اچھی بات ہے کوشش کرو۔۔۔۔ناکامی کے بعد رپورٹ درج کرا دینا۔“
“لل۔۔۔۔ لیکن جناب میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا۔“
“تو پھر گاڑی جائے گی ہاتھ سے ۔“
“دیکھا جائے گا۔“ کہہ کر وہ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سننے کا منتظر رہا تھا۔ علامہ کے شاگردانِ خصوصی ایسے ہی تابعدار تھے ۔ وہ ریسیور ہک سے لگا کر باہر آیا۔
گاڑی اب کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہی تھی۔ پیٹر تھوڑی تھوڑی دیر بعد کنکھیوں سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
اجنبی نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا جیسے ہونٹ سی لئے ہوں۔
کچھ دیر بعد گاڑی کو ایک پرشکوہ عمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر پیٹر چونکا تھا۔
“ارے ۔۔۔۔ ارے ۔۔۔۔ یہ تو رانا پیلس ہے ۔“ وہ بوکھلا کر بولا۔
“میں رانا تہور علی صندوقی ہوں۔۔۔۔“ اجنبی نے سخت لہجے میں کہا۔
“مم۔۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔۔؟“
گاڑی کمپاؤنڈ میں ایک جگہ رک چکی تھی۔ اجنبی نے پیٹر سے اترنے کو کہا۔
“لیکن آپ تو مجھے اس عورت کے گھر لے جا رہے تھے ۔“
“اسے بھی یہیں پکڑوا بلواؤں گا۔ بے فکر رہو۔“
پیٹر چپ چاپ گاڑی سے اُتر آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس چکر میں پھنس گیا ہے ۔ رانا تہور علی کا نام اس نے سنا تھا لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
“میرے ساتھ آؤ۔“ رانا نے عمارت کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
“پہلے میں پوری بات سمجھ لوں پھر کوئی قدم اٹھاؤں گا۔“
“کیا سمجھنا چاہتے ہو؟“
“میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ رانا جیسی شخصیت ہیپی عورتوں کے چکر میں پڑے گی۔“
“تو پھر؟“
“بھلا آپ کو میرے ساتھ کیا سروکار ہوسکتا ہے ؟“
وہ مجھے دیکھ کر نروس ہو گئی تھی، اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرو گے ؟“
“کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔“
“اندر چلو۔ میں سمجھا دوں گا۔“
× × × × × × ×

شیلا بے تحاشہ ہنس رہی تھی اور عمران کے چہرے پر حماقتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے ۔
“میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔“
“بتا چکا ہوں کہ ان چھ جوانوں کو بھی پکڑوا لیا ہے جو تمہاری کیمپنگ میں شامل تھے اور دونوں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوں۔“
“آخر تم ہوکون؟“
“احمق اعظم۔۔۔۔اور عقل مندوں کا دشمنِ جانی۔۔۔۔“
“اتنے شاندار محل میں رہتے ہو؟“
“محل میرا نہیں۔ میرے ایک دوست رانا تہور علی صندوقی کا ہے ۔۔۔۔“
“میں نے یہ نام سنا ہے لیکن آج تک نہیں سمجھ سکی کہ صندوقی سے کیا مراد ہے ۔“
“صندوق سے برآمد ہوا تھا۔ صندوق سے پہلے کی تاریخ کا پتہ نہیں چلتا۔“
“میں نہیں سمجھی۔“
“اس کی حماقت یہ کہ اب تک صندوق سے چمٹا ہوا ہے ۔۔۔۔ ہاں تو میں نے ابھی تمہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top