عشق کا زخم جو منت کشِ مرہم ہوتا - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
عشق کا زخم جو منت کشِ مرہم ہوتا
عید کے روز بھی ہر گھر میں محرم ہوتا
ڈر نہ ہوتا جو کہیں عشق میں رسوائی کا
ساتھ عشاق کے اک حلقۂ ماتم ہوتا
آتشِ عشق میں جلنے کا مزا اپنا ہے
تم نہ ہوتے تو یہ شعلہ ہمیں شبنم ہوتا
ہم تو مر جاتے تڑپ کر غمِ تنہائی سے
سلسلہ آپ کی یادوں کا اگر کم ہوتا
صبر، ایثار، محبت، غمِ دنیا، غمِ دل
سوچتا ہوں کہ مرا کوئی تو ہمدم ہوتا
مار دیتے غمِ دنیا مجھے اک لمحے میں
کربلا قد میں اگر چھوٹا تیرا غم ہوتا
لشکرِ رنج و مصائب کے مقابل تنہا
کون ہوتا جو نہ مجھ میں کہیں دم خم ہوتا
ہجر آثار ہواؤں سے فراغت کے لیے
کوئی لمحہ کوئی رُت کوئی تو موسم ہوتا
شاعری سے جو الگ ہوتا تعارف ریحان
نامکمل یہ تعارف بڑا مبہم ہوتا
(ریحان اعظمی)
 

طارق شاہ

محفلین
کیا ہی کہنے صاحب!
تشکّر ، ایک بہت ہی عمدہ وہ مربوط غزل کی نوازش پر
بہت سی داد قبول ہو، اِس انتخابِ خُوب پر

بہت خوش رہیں جناب ۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان، ایک اور ای بک تمہارے نام سے بنانی ہو گی۔ اس کا مواد بھی مجھے ای میل کر دیں۔

ٹھیک ہے الف عین صاحب۔ میں ریحان اعظمی کی کچھ اور غزلوں کا انتخاب کر لوں، پھر وہ ساری غزلیں ایک ساتھ ورڈ کی فائل میں لکھ کر آپ کو میل کر دوں گا۔
 
Top