عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ایک تعارف

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہیں ابتدائے دعوت ہی کے دوران قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ان کے والد زمانہ جاہلیت میں وفات پا چکے تھے جبکہ والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا زمانہ پایا اور مشرف باسلام ہوئیں۔
عرب کے ریگزاروں سے جب حق کی روشنی پھوٹی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں سے تھے۔ دعوت حق قبول کرنے کے بعد ان کی زندگی دین کے لیے وقف ہو گئی۔قبول اسلام کے بعد وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے ساتھ رہے۔ قربت نبوی کا عالم یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مسواک اور نعلین مبارک ان کے پاس رکھے ہوا کرتے تھے۔
قرآن مجید کی تفسیر ان کا خاص میدان تھی جس میں انہیں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان سے قرآن سیکھنے کی ہدایت کی اور ایک موقعہ پر فرمائش کر کے ان سے قرآن سنا۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ کہتے ہیں" میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوا سنا ہے کہ چار اشخاص سے قرآن سیکھو،(اوروہ چار آدمی یہ ہیں) عبداللہ بن مسعود، سالم، معاذ اور ابی بن کعب (رضی اللہ عنہم)۔ تب سے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں"۔
کیا ہی عظیم مقام ہے۔ کسی مفسر کا تزکیہ دوسرے علماء کرتے ہیں، کوئی اپنی سند اور سرٹیفکیٹ کی وجہ سے عالم سمجھا جاتا ہے لیکن اس صحابی کا مقام کتنا بلند ہو گا جس کی قرآن فہمی کی گواہی خود زبان رسالت نے دی ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ خود بھی تحدیث نعمت کے طور پر اس کا اظہار کیا کرتے تھے۔صحیح البخاری میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے کہ "اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صحابہ جانتے ہیں کہ میں ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا ہوں،(پھر انکسارًا فرمایا کہ) میں ان سے بہتر نہیں ہوں"
ایک دفعہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
“اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے! کتاب اللہ کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ وہ کہاں نازل ہوئی اور کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ وہ کس بارے میں نازل ہوئی اور اگر مجھے کسی ایسے شخص کا پتہ ہوتا جو کتاب اللہ کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے تو میں اس تک ضرورپہنچتا بشرطیکہ اونٹ (سواری) وہاں تک جا سکتی ہو"
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
“قرآن اور سنت کا علم اس شخص پر ختم ہو جاتا ہے"
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کا فتویٰ ان کے شاگردوں اور حلقہ تدریس کے ذریعے عام ہو کر فورًا لوگوں کی زندگیوں میں جاری و ساری ہو جایا کرتا تھا۔ باقی دو صحابی زید بن ثابت اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔
کتب تفاسیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس میں بہت کچھ بعد والوں نے ان سے منسوب کر دیا تھا جس میں صحیح، ضعیف، مقبول، مردود ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے ائمہ حدیث کی صورت میں ہر زمانے میں ایسے لوگ کھڑے کیے جنہوں نے صحیح کو ضعیف سے اور مقبول کو مردود سےالگ کر دکھایا چنانچہ ملاوٹ کرنے والے نامراد ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس علم کی حفاظت فرمائی۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات 32 ھ یا 33 ھ میں ہوئی۔ فرضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
(الاسرائیلیات و الموضوعات فی کتب التفسیر سے ماخوذ)
 
Top