ضلع اٹک کے چند رسائل

سید نصرت بخاری

ضلع اٹک کے چندرسائل

رسائل کسی بھی علاقے کا آئینہ یا تصویر ہوتے ہیں۔ان رسائل میں ایک پورا عہد اور ایک پوری تہذیب سانس لے رہی ہوتی ہے۔قومی سطح کے رسائل تو قومی اوربین الاقوامی سطح کی خبریں اور موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔علاقائی سطح کے مسائل اورمقامی نوعیت کی معمولی خبریں ان کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں۔یہ کام علاقائی سطح کے اخبارات ورسائل انجام دیتے ہیں۔ اس حوالے سے چھوٹے شہروں سے نکلنے والے رسائل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ رسائل عام طورپراپنے علاقے کے ایسے علمی و ادبی،سیاسی اورسماجی موضوعات کومحفوظ کر لیتے ہیںجو آنے والے وقتوں میںطلبہ،علما اور مؤرخین کو تاریخ مرتب کرنے کے لیے سچا اور پختہ مواد فراہم کرتے ہیں۔علاقائی سطح کی شادی بیاہ، مقامی میلوں ٹھیلوںاور مختلف نوعیت کے تعلیمی ،مذہبی ،سیاسی اور علمی اجتماعات کی خبروں سے علاقے کی تہذیب ،لوگوں کے رجحانات،سیاسی و سماجی شعور اور ذوق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔علاقائی سطح کی کتنی ہی اہم سیاسی ،مذہبی اورعلمی شخصیات کی تصویریں،انٹرویو اور تحریریں ان رسائل میں ملتی ہیں۔
بعض ادارے خاص طور پر تعلیمی ادارے بھی اپنی طرف سے رسائل کا اجرا کرتے ہیں۔ان رسائل کے مطالعے سے اُن اداروں کے ارتقا کا پتا چلتا ہے۔اُن کے موجودہ تعلیمی ماحول اور قدیم تعلیمی ماحول کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔یہی رسائل آگے چل کے تعلیمی ترقی کی تاریخ لکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیںاور اس بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں کہ اس ادارے نے جو طالبِ علم تیار کیے تھے ،وہ معاشرے اور ملک و قوم کے لیے کہاں تک سود مند ثابت ہوئے ہیں۔
ضلع اٹک میں بھی وقتاََ فوقتاََ رسائل کا اجرا ہوتا رہا۔یہ رسائل آنے والے وقتوں میں ضلع اٹک کی سیاسی،سماجی،معاشرتی اور ادبی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوںکے لیے بہت مفید ہوں گے۔
رہنمائے تعلیم:
’’یہ ماہ وار تھا اور رسالہ پنڈی گھیب سے۶۰۹۱ء میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ،اٹک میر عبدالواحد کی سر پرستی میں شائع ہوتا تھا۔اس کے ایڈیٹر منشی جگت سنگھ تھے۔اس میں تعلیم سے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔جو طلبا اور والدین دونوں کے لیے مفید تھے۔ہندو اور مسلمان دونوں اس کے مضمون نگار ہیں۔نظم کا حصہ بھی اچھا ہے۔‘‘(۱)
مشعل:
گورنمنٹ کالج کیمبل پور(حال اٹک )کے اس ادبی رسالے کا اولین شمارہ دستیاب نہیں ،نہ ہی ایسے شواہد دستیاب ہیں جن سے اس کی اشاعت کے آغاز کی تاریخ متعین کی جا سکے۔ ’’گورنمنٹ کالج،کیمبل پور(حال اٹک)کی علمی ،ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے متعلق کالج کا مجلہ Torch،ابتدا میں صرف انگریزی زبان میں شائع ہوتا تھا اور اس پرچے کا نا’ اٹک میگزینتھا۔جب اس کے اردو سیکشن کا آغاز ہوا تو اس کے لییشعلہ کا عنوان تجویز کیا گیا۔اور(۶۳۔۳۳۹۱)اسی عنوان سے انور علی بخشی اور ضمیر جعفری کی ادارت میں دو ایک پرچے شائع بھی ہوئے۔لیکن ۹۳۔۷۳۹۱ء میں جب عبدالعلی ملک کا چنائو بحیثیت طالبِ العلم مدیرTorch،کے ہوا تو انھوں نے اردو سیکشن کا نام شعلہ سے مشعل کر دیا اور یوں اس مجلہ کا اردو سیکشن تا حال اسی نام سے چلا آ رہا ہے۔سوائے دو شماروں سبدِ گل جون ۵۶۹۱ء اور کلیاںجون ۹۶۹۱ء کے ،جب ڈکلیریشن کی پا بندیوں کے سبب مجلہ مشعل/Torch،کے نام سے شائع نہ ہو سکا۔مشعل کے ابتدائی شماروں کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس میں ہندی اور پنجابی کے گوشے بھی بنائے جاتے رہے۔(۲)‘‘ابتدا ئی چند سالوں میں یہ ۰۴،۲۴ صفحات پر مشتمل کتابچے کی صورت میں سہ ماہی رسالے کی حیثیت سے شائع ہوتا رہا۔۰۴۹۱ء میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق اس کے اردو حصے کے مدیر تھے۔۱۴۹۱ء میں برق صاحب کی ادارت میں ’’مشعل جنگ نمبر‘‘کی اشاعت ہوئی۷۹۹۱ء میں ڈاکٹر حامد بیگ کی ادارت میں ضخیم گولڈن جوبلی نمبر شائع کیا گیا۔یہ اشاعت مشعل۵۹۔۰۴۹۱ء کی مطبوعہ تخلیقات کا انتخاب ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ اس مدیر بدلتے رہے ۔برق صاحب اور حامد بیگ صاحب کے علاوہ رزمی صدیقی، پروفیسر محمد عثمان ،وقار بن الٰہی،ماجد صدیقی،ڈاکٹر اشرف الحسینی اور پروفیسر انور جلال اس کے مدیر رہ چکے ہیں جب کہ طالبِ علم مدیروں میںشفقت تنویر مرزا،منو بھائی،سبطِ حسن ،پروین ملک ،ڈاکٹرمحمد ایوب شاہد اورڈاکٹرعبدالعزیزساحرکے نام شامل ہیں۔ تا ہم معیاری تخلیقات سے مملویہ رسالہ اب بھی پوری شان سے ۰۵.۷×۰۱ کے سائز میںجلوہ افراز ہوتا ہے ۔اس میں اردو اور انگریزی زبان میں معیاری مواد ہوتا ہے۔
اذان:
مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی صاحب ضلع اٹک کے ایک نام ور عالم ِدین تھے ۔آپ نے ۳۵۹۱ء میں اٹک شہر سے ہفت روزہ اذانکا اجرا کیا۔اس رسالے میں دینی معاملات پر قابلِ توجہ مضامین اور دیگر تحریریںشائع ہوتی تھیں۔ہفت روزہ اذان’’۱۸۹۱ء تک خدمات سر انجام دیتا رہا۔‘‘(۳)
خورشید:
۶۶۹۱ء میں گورنمنٹ ہائی سکول فتح جنگ(حال گورنمنٹ ہائی سکول فتح جنگ نمبر 1)سے سید فیض الحسن شاہ کی سرپرستی اور خان اقبال خان کی ادارت میںخورشید کا آغاز ہوا۔کسی بھی سکول کی طرف سے ضلع اٹک میں یہ پہلا شمارہ تھا۔ابتدائی شمارے میں اساتذہ اور طلبہ کی تحریریں تھیں۔ اس کا دوسرا شمارہ ۱۷۹۱ء میں شائع ہوا۔اس کی تیسری اشاعت مشتاق عاجز کی منت پذیر ہے۔تین اشاعتوں کے بعد یہ حسین روایت بھی دم توڑ گئی۔
اسلوب:
مئی ۰۷۹۱ء میں اسلوب کا اجرا ہوا ۔اکبر یوسف زئی اس کے مدیرِ اعلیٰ جبکہ مشبر حسین سید اور پروفیسرپرویز قریشی اس کے مدیر تھے۔ابتدا میں یہ خالص ادبی رسالہ تھا،بعد میں اس میں سیاسی،ثقافتی اور معاشرتی مضامین بھی چھپنے لگے۔اسلوب اب بھی سال میں ایک آدھ بار شائع ہو جاتا ہے۔
نذرِ اقبال:
۷۷۹۱ء سالِ اقبال قرار دیا گیا۔ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے اسی جشنِ صد سالہ کے موقع پر گورنمنٹ ہائی سکول شمس آباد ،ضلع اٹک نے علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے۲۷ صفحات پرمشتمل نذرِ اقبال کے نام سے ایک رسالے کی اشاعت کا اہتمام کیا۔اس کا مدیر یا مجلسِ ادارت نہیں ۔ابتدائیہ شیخ عابد حسین صدیقی کا لکھا ہوا ہے۔اس وقت ناظم مدرسہ معروف محقق اور اقبال شناس حق نواز خاں صاحب تھے۔اور وہی اس رسالے کے اصل محرک تھے ۔مشمولات میں زیادی تر تحریریں طلبہ کی ہیں۔ اقبال سے متعلق چند مضامین دوسرے رسائل سے بھی مستعار لیے گئے ہیں۔ اس رسالے کی انفرادیت یہ ہے کہ سکول سطح پر اقبال کے جشنِ صد سالہ کے موقع پراقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی پاکستان بھر میں یہ واحد مثال ہے۔
حضرو گزٹ:
حضرو سے حکیم نور محمد ھانی کی ادارت میں ۳۰۴۱ھ بمطابق۲۸۹۱ء حضرو گزٹ کا اجرا ہوا۔۹×۱۱ سائز کایہ رسالہ علاقہ چھچھ کے حالات و واقعات کو مرتب شکل میں نسلِ نو کے سامنے لانے اور اپنے حسین اور پُر شکوہ ماضی کی جھلک دکھا کر نونہالانِ چمن میں روشن مستقبل کی فکر پیدا کرنے کے ارادے سے شائع کیا گیا تھا۔مقامی قلم کاروں نے اس کے اولین شمارے میں تاریخی نوعیت کے مضامین لکھے۔ علاقائی خبروں کے علاوہ ادب کے لیے بھی صفحات مختص تھے۔حضرو گزٹ ایک شمارہ ہی پیش کر سکا۔
سماج:
سماج ادبی سیریز کا آغاز حضرو سے ہوا۔اس کا سائز۰۵.۷×۰۵.۹تھا۔ا س کے ابتدائی شمارے پر سنِ اشاعت درج نہیں۔البتہ رسالے میں شامل حاجی عبدالقیوم کے انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ ۳۸۹۱ء کے کسی مہینے میں سماج جاری کیا گیا۔توقیر علی زئی سماج کے نگرانِ اعلیٰ تھے۔حاجی سکندر خان،آغا شہباز جعفری اور رشید اختر معاون تھے۔ اس رسالے میں مختلف موضوعات پر تحریریں ملتی ہیں۔تا ہم بعض شمارے خالص ادبی نوعیت کے بھی ہیں،جن میں رئیس امروہی ،ڈاکٹر شیر بہادر پنی ،ڈاکٹر طاہر تونسوی ،پروفیسر اشرف الحسینی،ایوب صابر اور مناظر عاشق ہرگانوی کی تحریریں شامل ہیں۔سماج نے ’’آشفتہ نمبر‘‘بھی شائع کیا جس میں لالہ موسیٰ کے قلم کار اسحاق آشفتہ کی شخصیت اور شاعری پر بحث کی گئی ہے۔ دو ایک شماروں کو چھوڑ کر ہر شمارے کے سرورق پر کوئی نہ کوئی شعر لکھاہوتا تھا۔ مارچ ۶۸۹۱ء تک نو شمارے دینے کے بعد سماج کا سفر بھی اختتام پذیر ہو گیا۔
فروغِ ادب:
حضرو کی ادبی تنظیم فروغِ ادب کی جانب سے اکتوبر ۵۸۹۱ء میں مجلہفروغ ادبکا اجرا کیا گیا۔اس کا سائز ۰۵.۷×۰۱تھا۔یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ’’ ماہ نامہ‘‘ہے یا’’ سہ ماہی‘‘کیونکہ اس پراس کا اندراج نہیں۔اس کے نگرانِ اعلیٰ محمد بشیر قریشی جب کہ مجلسِ ادارت میں رزاق عاصم،محمد فردوس اور توقیر علی زئی کے نام ہیں۔۲۷ صفحات پر مشتمل اس رسالے میں نظم و نثرکا معیاری مواد ہے۔یہ رسالہ بھی ایک بار ہی جلوہ دکھا نے تک محدود رہا۔
سخن ور:
دسمبر۶۸۹۱ء میںحضرو سے سخن ور کا آغاز ہوا۔اس کا سائز ۷×۰۱ تھا۔آغا شہباز علی خان جعفری اس کے نگرانِ اعلیٰ تھے۔اس رسالے کے صرف دو شمارے شائع ہوئے،جن میں منظومات کی تعداد زیادہ ہے۔موادِ نظم و نثر معیاری ہے۔
مفہوم:
ماہ نامہ مفہوم ادبی سیریز کا آغاز ۶۸۹۱ء میںحضرو سے ہوا۔۰۵.۷×۰۱ سائز کے ا س رسالے کے نگران اعلیٰ عبدالودود مخلص جب کہ پروفیسر وارث خان،عبدالحئی خاکی اور محمد روح اللہ خان مجلس ادارت میں شامل تھے۔اگرچہ مفہوم کا آغاز ادبی مجلے کی حیثیت سے کیا گیا تھا لیکن بعد میںاس میں خبریں،شو بز ، کھیل اور دیگر معاشرتی و سماجی موضوعات بھی شامل کر دیے گئے۔’’ماہ نامہ مفہوم دس سال تک شائع ہوتا رہا۔‘‘(۴) اس کے بعد اس کا سورج بھی غروب ہو گیا۔
کالا چٹا:
ستمبر ۰۹۹۱ء کو کالا چٹا کا پہلا شمارہ وجود میں آیا۔اس کا سائز۸×۱۱تھا۔رسالے کا یہ نام ضلع اٹک کے مشہور و معروف پہاڑ کالا چٹا کی یاد دلاتا ہے۔اٹک شہر سے شائع ہونے والے اس رسالے کے چیف ایڈیٹر ملک محمد سلیم ہیں۔ایڈیٹر اعزازی معروف صحافی محمد اسماعیل خاں مرحوم تھے۔اس رسالے کی مجلسِ مشاورت بہت وقیع تھی۔ڈاکٹر سعداللہ کلیم،ڈاکٹر محمد اشرف،ابرار شاکر(شارالقادری) اور ملک نواب مجلسِ مشاورت کے رکن تھے ۔اس پہلے شمارے میں کثرت سے ضلعی سیاست پر مضامین تھے۔البتہ ڈاکٹر محمد اشرف کا مضمون’’اٹک کا خواجہ‘‘ادبی چاشنی سے مملو تھا۔موجودہ قومی اسمبلی کے ممبر شیخ آفتاب احمد کا انٹرویو بھی تھوڑی بہت کشش رکھتا ہے۔کالاچٹا میںسیاسی،مذہبی ،اور معاشرتی موضوعات پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔یہ رسالہ سال دو سال میں ایک باراب بھی شائع ہوتا ہے۔
پابہ جولاں:
۱۹۹۱ء میں اٹک شہر سے پندرہ روزہ پابہ جولاں کا پہلا شمارہ۸×۱۱ کے سائز میں منظرِ عام پر آیا۔رانا افسر علی خان ایڈوکیٹ اس کے ایڈیٹر تھے۔مجلسِ ادارت میں احسن شیخ ایڈوکیٹ ،پرویز اختر ملک اور محمد یحییٰ کے نام ہیں۔دو شماروں کے بعد رانا افسر علی خان چیف ایڈیٹر بن گئے اورپرویز اختر ملک کے پاس ایڈیٹر کا عہدہ آ گیا۔پابجولاں کے ہر شمارے کے سر ورق پرپر اس کا مونو گرام بنا ہاتا تھا۔مونو گرام میں پا بہ زنجیر دو قیدی پا بندِ سلاسل دکھائی دیتے تھے،جس سے اس رسالے کے مقاصد اور رجحان کا اندازہ ہوتا ہے۔اگرچہ بہ ظاہرنظر نہیںہوتا تا ہم مشمولات سے معلوم ہوتا ہے کہ بین السطور کیمونزم کی تبلیغ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مفادات کا تحفظ اس رسالے کے خاص مقاصد تھے۔یوں یہ رسالہ ضلع اٹک کا پہلا سیاسی اور نظریاتی رسالہ ہے اور اس لحاظ سے اس کی حیثیت سب سے الگ ہے۔اس رسالے کے اکابرین نے اچھے لکھاریوں تک رسائی کی کامیاب کوشش کی ۔مضامین میں سنجیدگی ،وقار اور فکر بہت نمایاں ہے چونکہ رانا افسر علی خان خود شاعر تھے اس لیے اس میں شامل ادبی تحریریں معیاری اور قابلِ توجہ ہوتی تھیں۔اس رسالے نے پیپلز پارٹی کے مخلص اورسرگرم کار کن سینیٹر احمد وحید اختر کانمبر نکالنے کا اعلان کیا تھالیکن احمد وحید نمبر شرمندۂ اشاعت نہ ہو سکا۔۹۹۹۱ء تک یہ رسالہ شائع ہوتا رہا۔
اٹک نامہ:
اٹک شہر سے محمد تحسین حسین کی ادارت میں مارچ ۳۹۹۱ء کوماہ نامہ اٹک نامہ کا اجراء ہوا۔اس رسالے میں ملکی اور علاقائی مسائل پر مضامین لکھے جاتے تھے۔ساتھ ساتھ مقامی خبروں کے لیے بھی صفحات مختص تھے۔ اس کے موضوعات میں اخلاص ،درد مندی اور حب الوطنی کا احساس بہت نمایاں ہے۔پہلے شمارے میں ادبی تحریریں بہت کم ہیں تاہم بعدمیں اضافہ کر دیاگیا۔ادبی مضامین اور منظومات معیاری اور فنی طور پر پختہ ہیں،مکالمات ،گردشِ ایام،اٹکتے کھٹکتے اور یادوں کے سائے اس کے مستقل سلسلے تھے ۔’’مکالمات ‘‘ڈاکٹرسعداللہ کلیم لکھتے تھے ،’’گردشِ ایام‘‘کی ذمہ داری شاکر القادری کے سپرد تھی،’’اٹکتے کھٹکتے ‘‘کے عنوان سے میجر یسین لکھا کرتے تھے جبکہ ’’یادوں کے سائے‘‘تحریر کرنے والے کا نام پوشیدہ رکھا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف شماروں میںنذر صابری، ڈاکٹر عبدالعزیزساحر اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد جیسے وقیع قلم کاروں کے مضامین ملتے ہیں۔کچھ عرصہ کامیابی سے سفر کرنے کے بعد اس کی اشاعت بھی اختتام پذیر ہو گئی۔
چاک:
توقیر علی زئی مرحوم کی ادارت میں ستمبر۴ ۹۹۱ء میں حضرو سے شائع ہوا۔نواز شاہد کے ذمہ معاون مدیر کے فرائض تھے۔معاونین میں راشد علی زئی اور ڈاکٹر محمد نعیم اعوان کے نام ہیں۔خاور چودھری کو ناظم کا عہدہ دیا گیا۔اس رسالے کا صرف ایک شمارہ نکالا جا سکا ۔اس کے صفحہ نمبر ۱ پر’’تیسری سہ ماہی۴۹ئ‘‘کے اندراج سے پہلی نظر میںیہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ شایدیہ اس ادبی سلسلہ ٔ اشاعت کا تیسرا شمارہ ہے۔یہ خالص ادبی نوعیت کا پرچہ تھا،جس میں اداریہ (آخری بات ) اور دیگر تخلیقات کے علاوہ احمد ندیم قاسمی،ڈاکٹر مقبول فاروقی ،پروفیسر احسان اکبر ،سلطان جمیل نسیم اور پروین شاکر کی تحریریں ہیں۔چاک کا یہ ۸۴ صفحات پر مشتمل شمارہ بڑا جاذبِ نظر اور وقیع ہے۔
صدف:
راشد علی زئی کی ادارت میں جنوری ۵۹۹۱ء میںماہ نامہ صدفکا آغاز ہوا۔اس کا سائز ۷×۰۱ تھا ۔مجلسِ ادارت میں نواز شاہد اور سکندر خان کے نام بھی شامل ہیں۔عمدہ شکل و صورت کے ۸۶ صفحات پر مشتمل اس رسالے میں نا م ور ادیبوں کی تخلیقات شامل ہیں۔جس سے صدف کی انتظامیہ کی رسالے کے لیے کی جانے والی محنت کا سراغ ملتا ہے۔احمد ندیم قاسمی کی نعت کے علاوہ ڈاکٹر محمد ایوب قادری ،پریشان خٹک،نذر صابری،توقیر چغتائی،عذرا اصغر اور ارشد محمود ناشاد کی وقیع تحریریں شامل ہیں۔صدف کی اگرچہ دو اشاعتیں ہی منظرِ عام پر آ سکیں لیکن ان دو اشاعتوں میںقابلِ توجہ مواد محفوظ کر دیا گیا۔
سحاب:
۶۹۹۱ء میں ایم آر ایف ڈگری سائنس کالج،کامرہ سے کالج میگزین سحابکا اجرا ہوا۔اس کے نگران اعلیٰ کالج کے پرنسپل کرنل(ریٹائرڈ)ہدایت اللہ سکندر ی ہیں۔یہ رسالہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔اردو حصے کے مدیران میں مس شمیم ملک ،مسز نجمہ آفتاب،مسز نزہت ضیا بابر کے نام ہیں۔مسز لبنٰی،اور ہارون مسعود انگریزی حصے کے مدیر تھے،رسالے کا آغاز اس بے وزن اوربے سرو پا شعر سے ہوتا ہے۔
میرے خدا!میری ہستی کو قرار آ جائے
سحابِ نور سے ہر شے پہ نکھار آ جائے
بچوں کی تحریریں تو خیرایسی ہی ہیں جیسی بچوں کی ہوتی ہیں۔خودمدیرہ نزہت ضیا کی نظم بھی بے وزن ہے۔باقی دو مدیران نے پورے رسالے میں ایک دو سطریں بھی لکھنا گوارا نہیں کیا۔مجموعی طور پر رسالہ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کالج نے رسالہ نکالنے کا شوق پورا کیا ہے۔سحاب کا صرف ایک شمارہ ہی منظر ِ عام پر آ سکا۔
ہرو ٹائم:
ماہ نامہ ہرو ٹائم کا آغاز ۴۱/اگست ۸۹۹۱ء میں اٹک شہر سے ہوا۔اس کا سائز ۱۱×۵۱ تھا۔سائز کے لحاظ سے یہ رسالہ سب پر سبقت لے گیا۔سید اظہر عباس اس کے چیف ایڈیٹر تھے۔اس رسالے میں قومی اور علاقائی نوعیت کے مضامین اور خبریں شائع ہوتی تھیں۔ایک دو صفحات ادبی تحریروں کے لیے بھی مخصوص ہوتے تھے۔چند سال کے بعد یہ رسالہ بھی غروب ہو گیا۔
انیلہ:
مارچ ۹۹۹۱ء میں حضرو سے ماہ نامہ انیلہ کا آغاز ہوا۔اس کا سائز ۹×۱۱ تھا۔توقیر علی زئی اس رسالے کے نگرانِ اعلیٰ تھے۔ایڈیٹر کی ذمہ داریاں ممتاز خان علی زئی سے سپرد تھیں۔سماجی،سیاسی ،معاشرتی ،مقامی اور ملکی مسائل اس کے خاص موضوعات تھے ۔انیلہ کے منتظمین صرف ایک شمارہ ہی پیش کر سکے۔
سحر تاب:
جنوری ۰۰۰۲ء میں حضرو شہر سے خالص ادبی رسالے ماہ نامہ سحر تاب کا اجرا ہوا۔اس کا سائز ۸×۱۱ تھا۔مدیر ڈاکٹر مسعود اختر ہیں۔فقیر حسین معاون مدیر تھے۔مندرجات میںڈاکٹر فرمان فتح پوری ،پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسر عبدالغنی اور سیدمشکور حسین یاد کے مضامین ہیں۔وزیر آغا ،بشیر سیفی اورسلطان سکون کی غزلوں کے علاوہ نظمیں،افسانے اور ہائیکو بھی ہیں۔مجموعی لحاظ سے رسالہ وقیع اور معیاری تھا۔اکثر رسائل کی طرح سحر تاببھی صرف دو شماروں تک محدود رہا۔اس رسالے کے آغاز سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ رسالہ جاری رہتا تو کئی مرحلے سر کرتا۔
ن والقلم:
ن والقلم کا پہلا شمارہ جون ۰۰۰۲ء کو ا ٹک شہر سے شائع ہوا ۔مدیراعلیٰ شاکر القادری اور مدیر طاہر اسیر تھے ۔اس کے علاوہ حاجی ملک ممتاز خاں،محسن عباس ملک،ثقلین عباس انجم اور مسز یاسمین جمیل بھی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ نادر وحید،نصرت بخاری،الحاج ذوالفقار علی،مطلوب حسین طالب اور نزاکت علی نازک معاونت کرتے رہے۔یہ راسالہ خالصتاََ تعلیمی پرچہ تھا۔اس میں بچوں کی تعلم وتربیت،امتحانی نتائج اور دیگر تعلیمی خبریں شائع ہوتی تھیں۔اس شمارے کے سرورق پر ’’اٹک سے شائع ہونے والا پہلا تعلیمی مجلہ ‘‘کی سرخی سجی تھی ۔ن والقلم میں چند ایک ادب پارے بھی تھے جو مدیرِ اعلیٰ کے ادیب ہونے کی وجہ سے معیاری تھے۔چند ایک شماروں کے بعد اس تعلیمی جریدے کی اشاعت روک دی گئی۔
ریاض العلم:
ریاض العلم کی باقاعدہ اشاعت ۱۰۰۲ء کو صاحب زادہ ابوالحسن واحد رضوی کی ادارت میں ماہ نامہ کی حیثیت سے اٹک شہرسے ہوئی ۔اس رسالے میں اسلامیات سے متعلق معیاری ، معلوماتی اور وقیع مضامین ہوتے ہیں۔اور یہی اس رسالے کی بنیادی پالیسی اور نصب العین ہے ۔تاہم صاحب زادہ ابوالحسن واحد رضوی کے ادیب ہونے کی وجہ سے قابلِ توجہ منظومات اور نثری تخلیقات بھی باقاعدگی سے شاملِ اشاعت ہوتی ہیں۔عربی و فارسی کتب و رسائل کے تراجم کی قسط وار اشاعت بھی اس رسالے کا خاصہ ہے۔ریاض الملت ،واماندگی شوق، اسلام اور مسائلِ حاضرہ اور محفل شعرو ادب کے متعلق خصوصی اشاعتیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔اگرچہ اس رسالے کا آغاز ماہ نامہ کے طور پر ہوا تھا لیکن اب یہ سہ ماہی حیثیت سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
انضباط:
سال ۲۰۰۲۔۱۰۰۲ء میں پاکستان ائر فورس کامرہ منہاس بیس کے کالج’’فالکنز کالج‘‘سے انضباط کا اجرا ہوا۔انگریزی ،اردو دو حصوں پر مشتمل یہ جریدہ قیمتی کاغذ پر چھاپا گیا۔ ۷×۹ کے سائز کے اس شمارے کے مدیر اعلیٰ کالج کے پرنسپل ونگ کمانڈر(ر) عبدالجبار تھے۔اردو سیکشن کی مدیرہ ثمرہ یاسین جبکہ انگریزی سیکشن کی مدیرہ مس مصباح نورین تھیں۔اداریہ انگریزی میں مدیرہ اعلیٰ کا لکھا ہوا ہے۔اس میں کالج کے اساتذہ اور طلبہ کی عام سی تحریریں ہیں۔اب تک اس کے دو شمارے شائع ہو چکے ہیں۔
حروف:
جولائی۳۰۰۲ء میںاٹک شہر سے سہ ماہی حروف کا اجرا ہوا۔ادبی تنظیم ’’کاروانِ قلم۔۔ ‘‘کے بانی اور روح و رواں نزاکت علی نازک اس کے مدیر تھے۔ ۰۸ صفحات پر مشتمل اس رسالے میں نظم و نثر کا وقیع مواد موجود تھا۔مقامی شعرا و ادبا کو زیادہ جگہ دی گئی۔مضامین ،غزلیات اورافسانوں کے علاوہ ’’ایک شاعر ۔ایک مطالعہ ‘‘کے نام سے ارشد محمود ناشاد صاحب کی دس غزلوں پر مشتمل ایک گوشہ بھی شاملِ رسالہ ہے ۔اگرچہ حروف پھلنے پھولنے کا ارادہ لے کر شائع ہوا تھا لیکن اس کا سفر بھی ایک شمارے سے آگے نہ بڑھ سکا۔
قندیل:
قندیلِ ادب اٹک کی ایک فعال ادبی تنظیم ہے۔اس کے پہلے شمارے کا سائز بڑا تھا ،تاہم اب یہ ۰۵.۷×۰۱کے سائز میں نکلتا ہے ۔رستم شاذ مرحوم جو نوجوانی میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ،اس تنظیم کے بانیوں میں سے تھے ۔ان ہی کی یاد میں اِسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے سہ ماہی مجلہ قندیلکا آغاز ہوا۔یہ خالص ادبی رسالہ ہے ۔پہلے شمارے میں اس کی اشاعت کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا،کیونکہ اس پر سنِ اشاعت درج نہیں ۔۔تاہم دوسرے شمارے کے اداریے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ابتدائی شمارے کی سنِ اشاعت اگست ۳۰۰۲ء ہے۔مدیر اور مدیرِ اعلیٰ دونوں اس کا اداریہ لکھتے ہیں۔اس رسالے نے بہت جلد نام ور قلم کاروں کی توجہ حاصل کر لی۔ اب تک کی اشاعتوں میںکسی نہ کسی شخصیت پر گوشہ ضرور ہوتا ہے۔ وقار احمد آس مدیرِ اعلیٰ اور محمد ارشد ملک اس کے مدیر ہیں۔رسالے میںشامل تحاریر معیاری اور قابلِ توجہ ہوتی ہیں۔تا دمِ تحریر یہ رسالہ معیار کو برقرا رکھتے ہوئے اپنا سفرجاری رکھے ہوئے ہے۔
تیسرا رخ:
تیسرا رُخ بنیادی طورپرحضرو سے شائع ہونے والا ہفت روزہ اخبار ہے۔خاور چودھری اس کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔اخبار کی حیثیت سے ۴۱/اگست۰۰۰۲ء کو اس کا اجرا ہوا۔دسمبر ۴۰۰۲ء میں خاور چودھری ہی کی ادارت میںاس نے ہفت روزہ مجلے کی شکل اختیار کر لی اور ۶۱صفحات کا پہلا شمارہ منصۂ شہود پر نمودار ہوا۔اس کا سائز ۸x۱۱ تھا۔معاشرت ،سیاست اور ادب اس کے موضوعات تھے۔ابتدا میں اس کے چند شمارے ہی منظرعام پر آ سکے ۔دو سال کے طویل وقفے کے بعداکتوبر ۷۰۰۲ء میں تیسرا رخ نے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نمبر۰۵.۵×۰۵.۸ کے سائز میں شائع کیا۔اس خاص نمبر میںڈاکٹرراشد حمید،نذر صابری،مشتاق عاجز،پروفیسر اعظم خالد،ڈاکٹر محمد حسین تسبیحی،محمد عظیم بھٹی،مختار علی نیر،محسن احسان، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، شاکر القادری ،خاور چودھری،احسان بن مجید،راشد علی زئی نصرت بخاری اور دیگر اہلِ قلم نے ڈاکٹرارشد محمود ناشاد کے لیے توصیفی کلمات لکھے ہیں۔تیسرا رُخ نے ’’انٹرویو نمبر‘‘کی اشاعت کا اعلان کر رکھا ہے۔مشاہیرِ ادب کے یہ انٹرویو تیسرا رُخ اخبار کے ادبی صفحے میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
من و توانٹرنیشنل:۔
اٹک شہر سے اکتوبر ۴۰۰۲ء کو ۸×۰۱ کے سائز میںمن و تو انٹرنیشنل کا اجرا ہوا ۔اس کے چیف ایڈیٹر محمد تاج رفعت تھے۔جوائنٹ ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سہیل احمد کے سپرد تھیں۔مجلس مشاورت میں پروفیسر اعظم خالد اور مشتاق عاجز کے نام ہیں۔ صفحات کی تعداد کبھی ۰۳کبھی ۲۳،کبھی ۶۳کبھی ۰۴ تھی ۔عجلت یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے اکثر شمارے فہرست سے عاری ہیں۔اس کے موضوعات معاشرتی مسائل پرمبنی تھے۔کچھ صفحات انگریزی میں بھی لکھے جاتے تھے۔ کھیل کے لیے بھی صفحات مخصوص تھے۔کبھی کبھی غزلیں اور نظمیں بھی چھپ جایا کرتی تھیں۔یہ رسالہ بھی دہرے عدد تک نہ پہنچ سکا اور ایک سال کے اندر اندر اس کا سفر بھی اختتام پذیرہوا۔
کہکشاں:
ہوا۔ ۴۰۰۲ میں فضائیہ ڈگری کالج ایف سکس آر ایف کامرہ سے مجلہ کہکشاںکی پہلی اشاعت ہوئی۔اس کو دو حصوں(اردو،انگریزی) میںتقسیم کیا گیا۔اس ابتدائی شمارے کے اردو حصے کی مدیرِ اعلیٰ مسز سیدہ مسرت ناصر تھیں۔انگریزی حصے کے مدیرِاعلیٰ یونس مغل تھے۔ابتدائی شمارہ ۰۷ صفحات پر مشتمل تھااور اس کا سائز۸×۰۱ تھا۔چونکہ زیادہ تر تحریریں کالج کے اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی تھیں،اس لیے فنی طور پر یہ شمارہ کمزور ہے۔ بعد ازاں اس کے دو شمارے شوکت محمود شوکت (اردو)اوریونس مغل (انگریزی)کی ادارت میں شائع ہوئے لیکن اس باراس کے صفحات کی تعداد انتہائی کم ہو کر۲۱ رہ گئی جب کہ سائز ۸×۱۱ہو گیا۔۸۰۰۲ کے بعد تا دمِ تحریرکہکشاں کا کوئی شمارہ منظرِ عام پر نہ آ سکا
ویژن/سنگم:
ویژن آرمی پبلک سکول و کالج اٹک کا مجلہ ہے۔ ۵۰۰۲ء میں اس رسالے کا اجرا ہوا۔ولی محمد اس کے ایڈیٹر ہیں۔ اس کے لکھنے والوں میں زیادہ تر اساتذہ اور طلبہ و طالبات ہیں۔اس وقت تک اس کے دو شمارے منصہ شہود پر نمودار ہو چکے ہیں۔تیسرے شمارے پر کام جاری ہے ۔اب اس کا نام نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ تیسرا شمارہ سنگم کے نام سے اشاعت آشنا ہو گا۔
حرف و ندا:
مارچ ۵۰۰۲ء میںشین باغ سے عظمت عاصی کی ادارت میں حرف وندا کا آغاز ہوا۔پہلا شمارہ ۸۱ صفحات پر مشتمل تھا جبکہ دوسرے شمارے کے ۲۳ صفحات ہیں۔اس کا سائز ۵×۰۵.۷ ہے۔یہ رسالہ قد و قامت کے لحاظ سے مختصر تھا لیکن شامل مواد معیاری ہے۔اس کے دو شمارے ہی سامنے آ سکے۔دونوں شماروں کے اداریوں میں مدیر کا اضطراب نمایاں ہے۔
تاجِ شجاع:
تاجِ شجاع گورنمنٹ کالج برائے خواتین حضرو کا رسالہ ہے۔اس پر سنِ اشاعت کا اندراج نہیں ،تاہم اس کا آغاز ۶۰۰۲ء میںہوا۔اس کا سائز ۰۵.۷×۰۵.۹ تھا۔سرپرستِ اعلیٰ کالج کی پرنسپل مسز شمیم نیاز ہیں۔شائستہ زمان اس کی مدیرِ اعلیٰ ہیں۔رسالے کا نام علاقے کے دو معروف سیاست دانوں تاج خان زادہ مرحوم اور شجاع خان زادہ کے اسمائے گرامی سے ماخوذ ہے۔رسالہ دو حصوں(اردو،انگریزی)میں منقسم ہے۔نظم کا حصہ بہت کمزور ہے حالانکہ شمیم نیاز صاحبہ خود شاعرہ اور صاحبِ کتاب ہیں۔ نثر ی مواد بھی قابلِ توجہ نہیں۔مجموعی طور پر یہ رسالہ علمی و ادبی تقاضے پورے نہیں کرتا ۔اس وقت تک اس کا ایک ہی شمارہ نکالا جا سکا۔
تنویر الایمان:
ماہ نامہ تنویر الایمان مارچ ۷۰۰۲ء میں حسن ابدال سے جاری ہوا۔اس کا سائز۰۵.۸×۱۱ ہے۔مدیر اعلیٰ مولانا اورنگ زیب علی جب کہ مدیر احمد ضیغم ہیں۔ تنویر الایمان عام طور پر ۲۳ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے۔موضوعات میں تنوع ہے۔معاشرتی،سیاسی ،ادبی اور مذہب سے متعلق مضامین اس میں درج ہوتے ہیں،جن میں مقامیت کا غالب رنگ ہوتا ہے۔درس قرآن،درسِ حدیث اور درسِ فقہ اس کے مستقل سلسلے ہیں۔درسِ قرآن مفتی سید حامد شاہ تحریر کرتے ہیں ۔درسِ حدیث اور درسِ فقہ لکھنے والے مضمون نگار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ تنویر الایمان اب بھی شائع ہو رہا ہے۔
امکان:
۷۰۰۲ء میںگورنمنٹ کالج آف کامرس ،اٹک سے اس علمی و ادبی مجلے کا آغاز ہوا۔اس کا سائز ۷×۰۱ تھا۔اس کے سرپرست محمد امیرخان جبکہ مدیرِ اعلیٰ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد تھے۔اس کی فہرست کو قابلِ تقلید انداز میں مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ہر باب کے موضوعات سے مناسبت رکھتا ہوامصرعہ داد کا طالب ہے۔مثلاََ
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔۔۔۔۔۔۔اسلامیات
دل دل پاکستان جان جان پاکستان۔۔۔۔۔۔۔پاکستانیات
اس رسالے میں کالج کے اساتذہ کے علاوہ طلبہ کی تحریریں بھی شامل ہیں،نیز اٹک کے پختہ قلم کاروں کی کہکشاں بھی ضوفشاں نظر آتی ہے۔امکانکا زیادہ حصہ اردو میں ہے تا ہم ۰۲ صفحات پر مشتمل انگریزی حصہ بھی شامل ہے۔معیاری مضامین ،خوب صورت غزلیات،نظموں اور افسانوں سے مزین اس رسالے کی تا دمِ تحریر ایک ہی اشاعت ممکن ہو سکی۔
عکسِ خیال:
۱۰۰۲ء میں حکومتِ پنجاب نے ’’کمیونٹی پبلک پارٹنر پراجیکٹ ‘‘کے نام سے ایک منصوبے کاآغاز کیا ،جس کا مقصد شام کے اوقات میںسرکاری سکولوں کی عمارات پرائیویٹ طرز کے سکولوںکو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔’’کمیونٹی گرلز کالج کھوڑ‘‘کے نام سے ایسا ہی ایک کالج کھوڑ میں بھی کھولا گیا۔اس کالج نے جون ۷۰۰۲ء میں مجلے عکسِ خیال کی اشاعت کا آغاز کیا۔اس کا سائز ۰۵.۸×۱۱ تھا۔کالج اور رسالے کے سرپرست قاضی امجد حسین قریشی ہیں اورچیف ایڈیٹراسد علی ملک ہیں۔عکسِ خیال میںکالج کے اساتذہ اور طلبہ کی تحریریں ہیں۔کاغذ بہت قیمتی ہے۔ رسالے میں نظم و نثر کا معیار کمزور ہے۔تاہم کھوڑجیسے علاقے سے ایک پرائیویٹ کالج سے ایک علمی رسالے کا اجرا قابلِ تحسین ہے۔اس وقت تک عکسِ خیال کے تین شمارے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔
سنگم:
سنگمگورنمنٹ ڈگری کالج حضرو کا مجلہ ہے۔سنگم کو اردو اور انگریزی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔’’پنجاب رنگ‘‘کا باب قائم کر کے پنجابی زبان میں نظم و نثر کو جگہ دی گئی ہے۔ اس رسالے کے سرپرستِ اعلیٰ قائم مقام پرنسپل سید محمد ظاہر شاہ ،سرپرست پروفیسر اعظم خالد اور مدیرِ اعلیٰ پروفیسر محمد عثمان صدیقی ہیں۔معیاری مضامین ،افسانے اور منظومات سے مملویہ رسالہ۸۰۰۲ء کو ۰۵.۷×۰۱ کے سائز میں منصۂ شہود پر ہوا۔پختہ اور ثقہ ادیبوں کے علاوہ طالبِ علموں اور کالج کے ملازمین نے بھی اپنا زورِ قلم آزمایا ۔تا دمِ تحریر اس کا ایک ہی شمارہ منظر عام پر آ سکا۔
کاوش:
سہ ماہی کاوش کا پہلا شمارہ فروری تا اپریل ۸۰۰۲ء کا ہے ۔سنجوال کینٹ سے اس کی اشاعت ہوئی۔یہ رسالہ اپنی جلو میںسرپرستِ اعلیٰ محمد ذکی شیخ کے علاوہ نوجوان اراکین کی ایک پوری کھیپ لے کے آیا۔چیف ایڈیٹر فیصل شہزاد ،ایڈیٹر عبدلحفیظ ، کے علاوہ نصف درجن کی مجلس ادارت ومشاورت بھی ہے۔ننانوے فی صد مضامین اراکین ِ مجلس کے قلم کے منت پذیر ہیں۔اراکین کے لشکر اوربد سلیقہ فہرست کو دیکھ کر جس بے ترتیبی اور غیر سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے ،کچی اور خام تحریریں پڑھ کر اس پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ دو شماروں کے سفر کے بعد یہ رسالہ ہانپنے لگا۔اس کی یہی واحد خوبی ہے کہ اس گئے گزرے ادب نا آشنا دور میں نوجوانوں کے ایک گروہ نے بغیر کسی ادبی راہ نما کے اپنے طور پرادب سے وابستگی کا اظہار کیا۔
جمالیات:
سہ ماہی جمالیات کا آغاز اٹک شہر سے طاہر اسیر اور عرفان محمود عرفی کی ادارت میںہوا۔یہ خالص ادبی مجلہ ہے ۔اس کے پہلے شمارے میں سنِ اشاعت درج نہیں۔تاہم مارچ ۸۰۰۲ء میں اس کا پہلا شمارہ۵×۸ کے سائز میں منظرِ عام پر آیا۔اس رسالے نے بڑے اعتماد سے اپنے سفر کا آغاز کیااور ادب کے بڑے دھارے میںشامل ہونے کی کوشش کی،اور قرب و جوار کے اہم لکھنے والوںکو اپنے قافلے میں شامل کر لیا۔دوسرے شمارے سے عرفان عرفی کی بجائے حسین امجد طاہر اسیر کے ساتھ مجلسِ ادارت میں شامل ہیں۔طاہر اسیر اور حسین امجد بہترین غزلوں،نظموں عمدہ افسانوں اور تحقیقی مضامین سے مزین خوب صورت گٹ اپ کا یہ شمار ہ تا دمِ تحریر با قاعدگی سے شائع کر رہے ہیں۔دمِ تحریر اس کا غزل نمبر شائع کرنے کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔مدیران کی رسالے اور ادب سے لگن سے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ رسالہ ابھی کئی اور مرحلے سر کرے گا۔
شناشا:
اس کا پہلا شمارہ جون ۹۰۰۲ء میں حسن ابدال سے ۸×۰۱ کے سائز میںشائع ہوا۔چیف ایڈیٹر قیصر دلاور جدون ہیں ۔مضامین میں تنوع ہے۔اسلامیات ،طب،ادب اور معاشرتی مسائل پر تحریریں ہیں ۔مضامین ناپختہ ،تحریریں خام اور بے جان ہیں۔ناتجربہ کاری جگہ جگہ ماتم کناں ہے۔ اس لیے شمارے کو دیکھ کر کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ابھی تک ایک شمارہ شائع ہوا۔



حواشی
(۱)ڈاکٹر معین الدین عقیل ،منتخبات اخبارِ اردو،ص۶۴،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۸۸۹۱ئ
(۲)ڈاکٹر مرزا حامد بیگ،مشعل گولڈن جوبلی نمبر،ص۹۲،گورنمنٹ کالج اٹک،۸۹۹۱ئ
(۳)محمد نذیر رانجھا،تذکرہ علمائے چھچھ،ص۵۹۲،جمعیت پبلی کیشنز،وحدت روڈ،لاہور،اگست ۷۰۰۲ئ
(۴)تاجِ شجاع،تقویم اختر(مضمون):حضرو تاریخ و ادب کے آئینے میں،ص۵۴،۶۰۰۲

--------------------------------------------------------------------------------
 

الف عین

لائبریرین
معلوماتی مضمون تو ہے، لیکن ان پیج سے تبدیلی میں در آئی اغلاط کو سدھارنا ضروری تھا، جیسے اعداد کا الٹا ہو جانا، سن کے لئے ء کا استعمال، نہ جانے لوگ اب تک ایسا نا اہل کنورٹر کیوں استعمال کرتے ہیں۔
 
Top