صدا بہ صحرا ہوئی ہر صدا تو ہم سمجھے - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
صدا بہ صحرا ہوئی ہر صدا تو ہم سمجھے
چراغ جلنے سے پہلے بجھا تو ہم سمجھے
رِدا میں اور حیا میں ہے ربطِ باہم کیا
چھنی جو سر سے ہمارے ردا تو ہم سمجھے
دعا میں بے اثری کا ہے اور کیا مفہوم
چھڑا کے ہاتھ وہ ہم سے چلا تو ہم سمجھے
حباب کیوں کہا جاتا ہے زندگانی کو
شجر سے ٹوٹ کے پتہ گرا تو ہم سمجھے
نصیب کیسے بگڑتا ہے ایک لمحے میں
ذرا چلی جو مخالف ہوا تو ہم سمجھے
دو روزہ زیست حیاتِ دوام کیا شے ہے
نظر گئی جو سرِ کربلا تو ہم سمجھے
قصوروار تو ہم ہیں برا نہیں پتھر
اُسے تراش کے اپنا خدا تو ہم سمجھے
ہنسی اڑاتے تھے پہلے پہل معالج کی
وہ زخمِ عشق ہوا لادوا تو ہم سمجھے
کوئی تو ہے جو تنفس بحال رکھتا ہے
ہوئے بلند جو دستِ دعا تو ہم سمجھے
وجودِ کاتبِ تقدیر کے تھے منکر ہم
پڑھا نصیب کا اپنے لکھا تو ہم سمجھے
ریحان حلقۂ یارا‌ں میں ہیں عدو کتنے
منافقون کا سورہ پڑھا تو ہم سمجھے
(ریحان اعظمی)
 
Top