شیخ شرف الدین یحیی منیری اور علم حدیث

ابن جمال

محفلین
شیخ شرف الدین یحیی منیری اور علم حدیث
نام : احمد
لقب:شرف الدین
خطاب :مخدوم الملک
نسبت :منیری
نسب:آپ کا نسب زیبربن عبدالمطلب سے جاکر ملتاہے اس طرح آپ کا خاندان قریشی ہاشمی ہے۔آپ کے پردادا اپنے زمانہ کے بڑے عالم اورفقیہ تھے۔اور شام سے نقل مکانی کرکے بہار کے قصبہ منیر میں قیام پذیر ہوئے۔
ولادت:شعبان کے آخری جمعہ سنہ661ہجری مطابق 1263ء میں بہار شریف سے چند میل کے فاصلے پر منیر میں پیداہوئے۔شرف آگین تاریخ ولادت ہے۔
تعلیم:جب آپ کی عمر پڑھنے کے قابل ہوئی توآپ کو مکتب میں بٹھادیاگیا۔اس زمانہ میں مصادرمفتاح اللغات اوردوسری کتابیں درس میں رہیں۔ مفتاح اللغات آپ کو زبانی یاد تھی۔فرماتے ہیں۔
درایام خوردگی چندیں کتابہامارایادگردانید ۔چنانکہ مصادرومفتاح اللغات وجزاں درکتابہا ومفتاح اللغات جزوے بیستے خواہدبو،مقدار یک جلد یادگردانید وہربار یاد تمام می شنیدند۔بجائے آں قرآن یادمی گردانیدند(معدن المعانی ص24،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت 3/179)
سن شعور کو پہنچے تو والد بزرگوار نے ان کو مولانا شرف الدین ابوتوامہ کی معیب میں مزید تعلیم کیلئے سنارگائوں بھیجا(یہ سنار گائوں اب بنگلہ دیش میں ہے)مولانا ابوتوامہ اپنے وقت کے بڑے ممتاز عالم اورمحدث تھے۔ بعض اسباب کی بناء پر دہلی چھوڑکر بنگالہ کا رخ کیاتواثنائے سفرمنیر بھی قیام کیااوریہیں حضرت شیخ یحیی ان کے علمی تبحر سے متاثر ہوئے۔(بزم صوفیہ،سید صباح الدین عبدالرحمن ص400)
سید صباح الدین کی اس تحریر سے پتہ چلتاہے کہ سن شعور کے بعد ان کے والد نے انہیں تعلیم کیلئے شیخ شرف الدین ابوتوامہ کی معیت میں بھیج دیا جب کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تاریخ دعوت وعزیمت میں لکھتے ہیں۔
''راستہ میں بہار سے گزرتے ہوئے آپ نے(ابوتوامہ)چند روز منیر میں قیام کیا۔جوغالباًاس زمانہ میں دہلی سے سنارگائوں جاتے ہوئے ایک کاررواں سرائے اورآباد بستی تھی۔صاحب مناقب الاصفیاء کا بیان ہے کہ شیخ شرف الدین مولانا ابوتوامہ کے تبحرعلمی اورصلاح وتقوی سے بہت متاثر ہوئے اورفرمایا کہ علوم دین کی تعلیم ایسے ہی جامع علم وعمل شخص سے کرنی چاہئے۔ آپ نے اپنے والدین سے سنار گائوں جانے کی اجازت مانگی اوران کی اجازت سے مولانا شرف الدین کی ہمرکابی اختیار کی''۔(تاریخ دعوت وعزیمت3/180)
تاہم اس اختلاف سے قطع نظر کہ آپ کے والد نے آپ کو شیخ ابوتوامہ کے ساتھ بھیجا یاآپ کے دل میں موجزن شوق علم نے آپ کو شیخ ابوتوامہ کے ساتھ جانے کیلئے والد سے اجازت لینے پر مجبور کردیا۔آپ مولانا شرف الدین ابوتوامہ کے ہمراہ سنارگائوں پہنچے اورتحصیل علم مین مشغول ومنہمک ہوگئے۔
شوق علم:آپ کو اپنے اسباق اورمطالعہ میں اتناانہماک تھا کہ طلبہ اورحاضرین کے ساتھ دسترخوان پر سب کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا گوارہ نہ تھا ۔مولانا شرف الدین نے آپ کے انہماک اوردلچسپی کو دیکھ کر آپ کیلئے انتظام کیاکردیاکہ کھاناان کی خلوت گاہ میں پہنچ جایاکرے۔(مناقب الاصفیاء ص132/131)
شادی:مولاناشرف الدین ابوتوامہ نے اپنے ہونہار شاگرد کی پوری قدردانی کی اوراپنی صاحبزادی کا ان سے نکاح کردیا ۔سنارگائوں ہی کے زمانہ قیام میں بڑے صاحبزادے شیخ ذکی الدین پیداہوئے۔(تاریخ دعوت وعزیمت3/183)
بیعت وریاضت:تعلیم مکمل کرنے کے بعدآپ سنہ691ہجری مطابق1291ء میں دہلی گئے۔شیخ نظام الدین اولیاء سے ملاقات کے بعد ہلی سے لاہور گئے اورشیخ نجیب الدین فردوسی کے مرید ہوئے۔ااس کے بعد انہوں نے تیس سال بہیااورراج گیر کے جنگلوں مین گزارے اورقرب الہی کیلئے عبادت ومراقبات اورریاضت ومجاہدہ کرتے رہے۔(علم حدیث میں برصغیر ہندوپاک کا حصہ)
افادہ وارشاد:آپ نصف صدی سے زائد تک خلق خدا کی ہدایت اورارشاد اورطالبین کی تعلیم وتربیت فرماتے رہے۔ شیخ حسن معز شمس کے بقول کم از کم ایک لاکھ انسان آپ کے حلقہ ارادت وعقیدت میں داخل ہوئے اورتین سوآدمی عارف کامل اورواصل بحق ہوئے ۔سینکڑوں ہندوفقیروں اورجوگیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورولی کامل ہوئے۔
وفات حسرت آیات:آپ کی وفات بھی اس شان سے ہوئی جس سے اسلام کی حقانیت اورصداقت واضح ہوتی ہے ۔دورحاضر کے مشہور مصنف ومورخ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔
''حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحیی منیری کے حالات زندگی اوران کے کمالات ومقامات کے متعلق جوکچھ ان کے معاصر تذکرہ نویسوں نے آنے والی نسلوں کیلئے قلمبند کیاہے وہ اگرچہ خود بہت ناکافی اورتشنہ تفصیل ہے اوران متفرق اورمنتشر حالات سے ان کی عظمت کا صحیح تصور نہیں ہوسکتا۔لیکن یہ حالات بھی اگر خدانخواستہ مفقود ہوجاتے اورصرف ان کی وفات کا حال جو ان کے خلیفہ خاص اورواقعہ کے عینی شاہد شیخ زین الدین بدر عربی نے تفصیل کے ساتھ قلمبند کیاہے محفوظ رہ جاتاتو ان کی عظمت اورمرتبت کا اندازہ کرنے کیلئے کافی تھا۔(تاریخ دعوت وعزیمت3/252)
(نوٹ:ان کے انتقال کے حالات کو تفصیل کے ساتھ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے تاریخ دعوت وعزیمت میں قلمبند کیاہے ۔تفصیل کے خواہشمند وہاں رجوع کرین)
شب پنجشنبہ16شوال786ہجری کو بوقت نماز عشاء عالم جاودانی کی طرف آپ نے رحلت کی۔تاریخ وصال ''پرشرف''ہے۔ وصیت کی تھی کہ نماز جنازہ کوئی ایساشخص پڑھائے جو صحیح النسب سید ہو،تارک مملکت ہو،حافظ قرآت سبعہ ہو،جنازہ رکھاہواتھا کہ عین اسی وقت حضرت اشرف جہانگیر سمنانی کا ورود مسعود ہوا،یہ تینوں شرطیں ان میں پائی جاتی تھیں اس لئے جنازہ کی نماز پڑھانے کی سعادت ان کے حصہ میں آئی۔مزارپرنوربہار شریف میں مرجع خلائق ہے۔(بزم صوفیہ432)

علوئے مرتبت:بزم صوفیہ میں آپ مخدوم الملک،مخدوم عالم،سلطان العاشقین،سید المتکلمین،برہان المتقین الصالحین،تاج الاولیائ،سراج الاولایاء اوریکتائے روزگار جیسے گرانقدر خطاب سے یاد کئے جاتے ہیں۔
نوٹ :اس موقعہ پر ضروری تھا کہ ان کے مکاتیب جو مکتوبات صدی ،دوصدی اورسہ صدی کے نام سے مشہور ہیں اس سے ان کی نادرتحقیقات اورعلمی معراج کے کچھ نمونے دکھائے جاتے اورپیش کئے جاتے اوربطور خاص ان کے مکتوبات جودرحقیقت علم ومعارف کا گنجینہ اورعلمی مکتوبات کی دنیا میں صرف مکتوبات شیخ مجدد الف ثانی ہی اس کی ہمسری کرسکتاہے۔میں انہوں نے انسان کی بلندی شان اورآدمیت کی معراج کے بارے میں جوگراں قدر تحقیقات پیش کی ہیں۔ کچھ سامنے رکھے جاتے لیکن موضوع دوسرا ہونے کی وجہ سے ہم اسے پیش نہیں کرسکتے۔ قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ مکتوبات کی جانب رجوع کریں۔ اب بحمداللہ اس کا اردو ترجمہ بھی آگیا ہے جس سے فارسی سے ناواقف حضرات بھی ان کے علمی خرمن سے خوشہ چینی کرسکتے ہیں)
مخدوم الملک شیخ شرف الدین بحیثیت محدث:صوفیائے کرام عام طورپر احادیث سے اشتغال نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر صوفیاء کرام انتہائی ضعیف اوربسااوقات موضوع حدیث سے استشہاد واستدلال کرتے ہیں۔لیکن یہ امر باعث دلچسپی اورتعجب ہے کہ بزم صوفیہ میں شیخ شرف الدین یحیی منیری کو حدیث اورعلوم حدیث سے اچھااشتغال بلکہ اس پر عبور حاصل تھا۔مکتوبات میں آپ نے بکثرت حدیثیں نقل کی ہین اوربسااوقات حدیث کی فنی حیثیت پر گفتگو بھی کی ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ علوم حدیث پر آپ کی گہری نظرتھی۔حضرت مخدوم الملک کی محدثانہ حیثیت کے متعلق ڈاکٹر اسحاق ڈار نے اختصار کے ساتھ اچھاتبصرہ کیاہے۔مناسب ہوگاکہ اسے یہاں نقل کردیاجائے۔
''شرف الدین منیری علاقہ بہار کے ایک ممتاز محدث تھے۔ وہ حدیث سے متعلق تمام علوم مثلاًتاویل الحدیث،علم رجال الحدیث،اورعلم مصطلحات الحدیث پر پورا عبور رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے مکتوبات اورتصوف کی کتابوں میں احادیث کثرت سے نقل کی ہیں۔اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ بہت سے موقعوں پر انہوں نے علم حدیث کے مختلف پہلوئوں مثلاًروایت بالمعنی اورشرط الراوی وغیرہ پر اپنی تصانیف میں طویل بحثیں کی ہیں اورصحیحین ،مسند ابویعلی الموصلی ،شرح المصابیح اورمشارق الانور کے حوالے بھی دیئے ہیں۔قیاس کیاجاتاہے کہ امام نووی (متوفی672)کی شرح صحیح مسلم کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا اورانہوں نے اس کاغائر مطالعہ کیاتھا۔انہیں احادیث نہ صرف زبانی یاد تھیں بلکہ وہ ان کے مطابق عمل بھی کرتے تھے ۔چنانچہ انوہں نے محض اس وجہ سے خرپزہ کبھی نہ کھایا کہ انہیںیہ معلوم نہ ہوسکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خرپزہ کس طرح کھایاتھا۔ان اوصاف کے علاوہ شرف الدین منیری قرآن وحدیث دونوں کی متصوفانہ تعلیم پر بھی سند مانے جاتے تھے''۔(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کا حصہ)
حضرت مخدوم الملک چونکہ حضرت نظام الدین اولیاء کے ہمعصر ہیں اس لئے مناسب ہے کہ دونوں کی محدثانہ حیثیت کا تقابلی جائزہ لیاجائے۔
حضرت نظام الدین اولیاء شروع میں ہندوستان کے مخصوص تعلیمی نظام اورماحول کی وجہ سے بہت حد تک علم حدیث سے ناآشنااوربیگانہ تھے۔ جب آپ منصب ارشاد وتربیت پر متمکن ہوئے اورولی وبزرگ کی حیثت سے دور دور آپ کا شہرہ ہوچکااس وقت آپ نے حدیث کی طرف توجہ کی اوراپنے زمانہ کے مشہور محدث شیخ محمد بن احمد الماریکلی المعروف کمال الدین زاہد سے مشارق الانوار کادرس لیا اورحدیث کی اجازت حاصل کی۔ اس کے باوجود شیخ نظام الدین اولیاء کو علم حدیث سے مکمل واقفیت نہ تھی اوراحادیث کاذخیرہ ان کے پاس مشارق الانوار کی حد تک محدود تھا۔علاوہ ازیں صحیح اورضعیف حدیث سے واقفیت اور اورمصطلحات الحدیث سے ان کو لگائو نہ تھا چنانچہ جب بادشاہ کے سامنے قرات خلف الامام کے مسئلہ پر علماء دہلی سے مناظرہ ہواتوانہوں نے اپنے استدلال میں جو حدیث پیش کی وہ محدثین کے نزدیک موضوع حدیث سمجھی جاتی ہے۔اس کے برخلاف شیخ مخدوم الملک شروع سے ہی ایک جید محدیث اورحنبلی عالم ابوتوامہ سے درس حدیث لیااوران کے زیر تربیت علوم حدیث پڑھین۔ اس وجہ کرآپ کو حدیث پرعبور اورعلوم حدیث سے واقفیت تھی۔ شیخ ابوتوامہ چونکہ باہر سے آئے تھے اس لئے ان کے پاس صحیحین اورحدیث کی دیگر کتابیں موجود تھیں جو اس وقت کے ہندوستان میں معدوم تھیں ۔اس سے بھی شیخ شرف الدین نے پورااستفادہ کیا ۔
ڈاکٹر اسحاق دونوں کی محدثانہ حیثیت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''یہ دونوں بزرگ اسلام علوم کے جید عالم تھے۔علم حدیث کے مطالعہ میں شیخ شرف الدین نے سبقت حاصل کرلی تھی اوراس کا سبب یہ ہے کہ شیخ نظام الدین نے حدیث کامطالعہ بڑی عمر مین شروع کیا اوراس وقت اس موضوع پر صغانی کی مشارق الانوار کے علاوہ کوئی اورمستند مجموعہ ان کے زیر مطالعہ نہیں رہا۔لیکن شیخ شرف الدین کی تعلیم ایک حنبلی عالم ابوتوامہ کی نگرانی میں ہوئی تھی اورانہوں نے قدرتی طورپر حدیث کی تعلیم کو بہت اہمیت دی۔چنانچہ شیخ شرف الدین نے علم حدیث پر زیادہ عبور حاصل کرلیا۔اس کے علاوہ شیخ نظام الدین کے برعکس شیخ شرف الدین کوکافی تعددمین علم حدیث کی مستند کتابوں کا مطالعہ کرنے کا بھی موقعہ ملا۔جوغالباًانہوں نے اپنے استاد اوردوستوں سے حاصل کی تھیں۔ اس قیاس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ شیخ زین الدین ساکن دیوہ نے ان کو مسلم شریف کاایک نسخہ بطورہدیہ دیاتھا''۔(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کاحصہ ص96)
یہ بات بہت ہی حیرت انگیز اوردلچسپ ہے کہ جب کہ گجرات کوچھوڑ کر سارے ہندوستان میں کیاعالم اورکیاجاہل اورکیاعوام اورکیاخواص۔سبھوں کا تکیہ اوربھروسہ صغانی کی مشارق الانور تھی ایسے ماحول میں بہار کے ایک دورافتادہ قصبہ منیر کے خانقاہ میں صحیحین کی موجودگی ایک راز اورمعمہ ہے اورشاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ شیخ ابوتوامہ نے اپنی کتابیں شیخ شرف الدین کو ہدیہ کردی ہوں۔ جیساکہ بہت سے استاد اپنی کتابیں اپنی لائق اورجانشیں طالب کو کو دے دیتے ہیں۔
یہ بھی لائق ذکر ہے کہ انہوں نے صحیحین کی اپنے شاگردوں اومریدوںکو درس بھی دیاتھاچنانچہ ان کے کئی شاگرد اورمرید کے نام ہمیں تاریخ کی کتابوںمیں ملتے ہیں جنہوں نے ان سے صحیحین کی سند حاصل کی تھی۔یہ چیز بہار کیلئے سرمایہ امتیاز اورلائق فخر ہے اوریہ کہاجائے توبیجانہ ہوگا کہ سارے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم سب سے پہلے بہار کے ایک خانقاہ میں دی گئی ۔ہوسکتاہے کہ اس میں گجرات کا استثناء کردیاجائے۔کیونکہ وہاں ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے فضلاء اورعلماء عرب جاتے رہتے تھے اور اورعلم حدیث سے بھی اس خطہ کو اشتغال زیادہ تھا۔چنانچہ علی متقی کی کنزالعمال اورطاہر فتنی کی لغت حدیث پر لکھی گئی کتابیں ہندوستان میں علم حدیث کی خدمت کا ایک شاندار باب ہیں۔
ڈاکٹر اسحاق بجاطورپر لکھتے ہیں کہ
''کہاجاتاہے کہ ان کو نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم شروع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔''(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کاحصہ)
والسلام
 
اگر کوئی شخص اسلامی تصوف کی روح سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو محض 'مکتوباتِ صدی' پڑھ لے،جو شیخ شرف الدّین یحیی منیری رحمتہ اللہ علیہ کے 100 خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے ایک مرید کے نام وقتاّ فوقتاّ لکھ کر بھیجے۔ نہایت قابلِ قدر کتاب ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
اس ضمن مین یہ بات دلچسپ ہے کہ وحدت الوجود کا جونظریہ ابن عربی نے پوری آب وتاب کے ساتھ پیش کیا۔یہ نظریہ کچھ اتنے زوروشور اورطاقتور طریقہ سے پیش کیاگیاتھاکہ تقریباسبھی صوفی حضرات اس سے متاثر تھے۔لیکن ہندوستان میں اس کی مخالفت میں سب سے پہلی جو آواز بلند ہوئی وہ شیخ شرف الدین یحیی منیری کی تھی انہوں نے دلنشیں اسلوب اورمضبوط استدلال کے ساتھ بتایاکہ یہ سالک کے مقامات میں سے ایک مقام ہے یہ آخری حقیقت نہیں ہے یہ درحقیقت ایک غلط فہمی اور لغزش ہے جو اس راہ کے سالکین کوپیش آیاکرتی ہے۔انہوں نے وحدت الوجود کے مقابلہ میں وحدت الشہود کانظریہ پیش کیا۔پھراسی نظریہ کو شیخ مجددالف ثانی نے پوری طاقت کے ساتھ پیش کیا۔اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی وحدت الشہود نظریہ کے ہی قائل ہیں۔اس طرح کہاجاسکتاہے کہ ہندوستان کی حد تک وحدت الشہود کانظریہ پیش کرنے میں سبقت اوراولیت کاسہراحضرت شیخ شرف الدین یحیی منیریٌ کو جاتاہے۔
اگرکسی کوفارسی کاذوق ہوتوبلابلامبالغہ ان کے مکتوبات کو پڑھکر اندازہ کرسکتاہے کہ وہ فارسی کے کتنے بڑے ادیب ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالحسن علی ندویٌ نے بھی تاریخ دعوت وعزیمت میں ان کے فارسی پر قدرت کلام اور مکتوبات کے کچھ حصے ادب فارسی کے شہکار ہونے کااعتراف کیاہے۔والسلام
 
ٌٌمیں بحث نہیں شروع کرنا چاہتا لیکن اتنی عرض کروں گا کہ یہ کہنا قطعاّ غلط ہے کہ شاہ ولی اللہ وحدت الوجود کے قائل نہیں تھے۔ جس شخص نے بھی انکی کتب مثلاّ القول الجلی، سطعات، الخیر کثیر، ہمعات اور انفاس العارفین وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے اس پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شاہ صاحب وحدت الوجود کے دل و جان سے قائل تھے۔ انہوں نے ایک مکتوب مدنی بھی لکھا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ مجدد الف ثانی کا شیخ اکبر ابن عربی سے اختلاف محض نزاع لفظی تھا اور مجدد صاحب نے کو ابن عربی کی کتب کا مطالعہ میسر نہیں ہوا ورنہ وہ انکی مخالفت کبھی نہ کرتے۔:)
 
Top