شوریٰ کونسل کی اراکین ‘طوائف’ ہیں: سعودی عالم

صرف علی

محفلین
شوریٰ کونسل کی اراکین ‘طوائف’ ہیں: سعودی عالم سعودی عرب میں ایک متنازعہ مذہبی عالم نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پرحال ہی میں سعودی شوریٰ کونسل کی رکنیت کا حلف اُٹھانے والی خواتین کے لیے کھلے عام توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ معاشرے کی ایسی معزز ترین خواتین جو تعلیمی و فنی ماہرین ہیں اور جنہوں نے چند دن پہلے ہی شاہ عبداللہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک انتہائی حوصلہ افزا شاہی فرمان کے تحت سعودی شوریٰ کونسل کا حلف اُٹھایا ہے، کے لیے “طوائفیں” اور “معاشرے کی غلاظت” جیسے اہانت آمیز الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ سعودی مذہبی عالم کا یہ ٹوئیٹ بہت تیزی سے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے پھیلتا چلا گیا، اور اس کا اپنا ہیش ٹیگ بھی بن گیا جو ٹوئیٹ کیے گئے کسی خاص موضوع کے لیے بنایا جاتا ہے۔ تاہم سعودی عرب میں ٹوئٹر کے صارفین کی بڑی تعداد نے شوریٰ کونسل کی خواتین اراکین پر کیے گئے اس حملے کی شدید مذمّت کی ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ ایسی شخصیات سے صبر و ضبط، رحم دلی اور احترام کی تبلیغ کی توقع رکھتے ہیں۔ العربیہ نیوز چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق رہنمائی اور امور اوقاف سے متعلق اسلامی وزارت برائے دعوۃ کے رکن احمد العابد القدر نے شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت اختیار کرنے اور ان کے کردار کے حوالے سے اپنے اعتراضات کا اظہار اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا۔ “یہ سوچتے ہیں کہ وہ ان “طوائفوں”کو اقتدار میں شریک کرنے کے لیے قانونی جواز فراہم کرکے مفتی کا مذاق اُڑا سکتے ہیں، میں ایک فریبی نہیں ہوں اور یہ فریبی مجھے بےوقوف نہیں بناسکتے۔ آخر کس قدر وقت رہ گیا ہے کہ اخلاقی اقدار کا قلعہ تند آندھیوں سے ڈھے جائے۔” جب ٹوئیٹر استعمال کرنے والے افراد نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا تو عابدالقدر نے کہا “ہم نے سنا اور پڑھا ہے کہ بہت سے لوگ خدا کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے ہیں، اور جو لوگ خواتین اراکین کا دفاع کررہے ہیں، کیا انہوں نے اس وقت اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔” اسی طرح کنگ سعود یونیورسٹی میں سابق ٹیچنگ اسسٹنٹ ڈاکٹر صالح الصغیر نے خواتین اراکین کی شوریٰ کونسل میں شمولیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر میسج میں لکھا کہ “یہ گستاخ (خواتین) میک اپ کرکے شوریٰ کونسل میں کیا معاشرے کی نمائندگی کریں گی؟ او میرے خدا، نہیں۔ یہ سب معاشرے کی نجاست ہیں۔” خیال رہے کہ الصغیر کی جانب سے یہ پہلا متنازعہ بیان نہیں ہے، وہ مذہبی عالم نہیں اور ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں لیکن اپنے انتہا پسند مذہبی خیالات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال انہوں نے میڈیکل کالجوں میں طلبا اور طالبات کے درمیان مکمل طور علیحدہ علیحدہ تدریس پر زور دیا تھا۔ انہوں نے ایک مذہبی پروگرام میں شرکت کے دوران کہا تھا کہ“آخر خواتین کو ملازمتیں کیوں دی جائیں، جبکہ ہم مرد ملازمت کرکے اپنے خاندان کی کفالت کررہے ہیں۔ ” صغیر کے ٹوئٹر پر چالیس ہزار فالوورز ہیں اور وہ خواتین کی ملازمت، خواتین کی ڈرائیونگ اور خواتین کی مرد مریضوں کی دیکھ بھال کے مخالفت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی کچھ دن پہلے، ایک اور متنازعہ سعودی مذہبی عالم نے خواتین کی شوریٰ کونسل میں شمولیت کے فیصلے کی شدید مذمّت کی تھی۔ انہوں نے یہ بیان شوریٰ کونسل کی دو اراکین کے مقامی سعودی روزنامے میں شایع ہونے والے ایک انٹرویو کے جواب میں دیا تھا، جس میں ان دونوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کو زیر بحث لانا چاہتی ہیں۔ شیخ النصیر العمر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سعودی معاشرے میں “مغربی اقدار”کے غلبے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ“بگاڑ سے کسی چیز کی شروعات ہوگی تو نتیجہ بھی بگاڑ کی صورت میں ہی نکلے گا۔” شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت کے مخالف بیان پر بہت سے لوگوں نے سخت ردّعمل کا اظہار کیا ۔ مثلاً: ماہا الشہری جو مصنفہ ہیں، نے ٹوئٹر پر لکھا:“اس طرح کے بیانات ایک طرح سے اخلاقی جرم ہیں۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ ایسے قوانین وضع کرے تاکہ ایسے لوگوں کی تربیت ہوسکے اور جو انہیں پسند کرتے ہیں ان کو اخلاق کی تمیز ہوسکے۔” ایک اور ٹوئٹر کے صارف عبدالرحمان الصوبیہی نے ٹوئیٹ کیا: “ہر طرح کی بیماریوں کا علاج دواؤں سے کیا جاسکتا ہے، سوائے حماقت کے۔” ایک صارف علی عبدالرحمان نے ٹوئٹرپر لکھا:“یہ جہالت ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق اسلام سے نہیں۔” “مسئلہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں خدا کی طرف سے استثنا حاصل ہے۔” ایک اور ٹوئٹر کے صارف نے کہا۔ ایک شاہی حکم کے تحت گزشتہ ماہ کونسل کے تحریری قانون کے اندر دو آرٹیکلز میں ترمیم کی گئی اور شوری کونسل میں خواتین کے لیے بیس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ اور شاہ عبداللہ نے تیس خواتین کو منتخب کرکے مشاورتی اسمبلی میں شامل کیا تھا۔ اس کونسل کے اراکین نے پچھلے ہفتے ہی حلف اُٹھایا تھا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کے حالیہ احکامات، جن میں خواتین کی شوریٰ کونسل میں شمولیت اور خواتین کی سماجی ترقی کے لیے پہلی مرتبہ اس قدر بڑا اقدام اُٹھانے پر یورپی یونین نے خیر مقدم کیا تھا۔

http://urdu.dawn.com/2013/03/06/saudi-cleric-insults-recently-appointed-female-shura-members/
 
Top