سہ ماہی "کارواں‘‘ بہاول پور ۔۔۔۔۔اپریل مئی جون 2009ء

نوید صادق

محفلین
شمشیر حیدر

غزل

شوقِ جنوں میں طے یہ مراحل نہیں ہوئے
جیسے بھی خواب تھے ، مری منزل نہیں ہوئے

تجھ کو نہیں ملے ہیں تو اس پر گلہ نہ کر
ہم اپنے آپ کو بھی تو حاصل نہیں ہوئے

اک عمر تجھ سے بحث میں اپنی گزر گئی
پھر بھی تو حل ہمارے مسائل نہیں ہوئے

گھٹنوں کے بَل بھی ٹھیک سے چلنا نہ آ سکا
ہم لوگ تو ابھی کسی قابل نہیں ہوئے

تیرے سوا تو جتنے بھی چہرے تھے سب کے سب
آنکھوں نے دیکھے ، خون میں شامل نہیں ہوئے

شمشیر ایسا عشق نے آسان کر دیا
ہم تو کسی کے واسطے مشکل نہیں ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمشیر حیدر
 

نوید صادق

محفلین
افسانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
فرحت پروین


گولڈ فِش

وہ کسی بے روح لاشے کی طرح بالکل سیدھی لیٹی ہوتی۔ صرف وقفے وقفے سے جھپکتی پلکیں اس کے زندہ ہونے کا پتہ دیتیں ۔وہ شاذ ہی کروٹ کے بَل لیٹتی یا کروٹ بدلتی۔ کم از کم شازینہ نے اسے کبھی پہلو کے بل لیٹے نہیں دیکھا تھا۔ وہ جب بھی اس کے پاس گئی اُسے یونہی مردوں کی طرح بے حس و حرکت لیٹے ہوئے پایا۔
وہ ایک آرام دہ پرائیویٹ کمرے میں مقیم تھی۔ اُس کے کمرے میں ہر سہولت موجود ہونے کے علاوہ روزانہ تازہ پھولوں کا گل دستہ بھی پہنچایا جاتا تھا۔گل دستے کے پاس میز پر ایک بے حد خوبصورت جار میں ایک سنہری مچھلی بھی تھی جسے وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔وہ اکثر نظریں جمائے اسے دیکھتی رہتی۔ غالباً یہی اُس کی واحد تفریح تھی۔ وہ ایڈز کی مریضہ تھی اور اس کا نام ملیحہ تھا۔
ملیحہ پچھلے چھے ماہ سے اس ہسپتال میں زیرِ علاج تھی۔ اُس کی جسمانی حالت ابھی اتنی زوال پزیر نہیں ہوئی تھی جتنی کہ ذہنی حالت۔ اس لیے شازینہ کو جو ایک سائیکالوجسٹ تھی اُس کی سائیکو تھراپی کے لیے کہا گیا تھا۔ وہ روزانہ اُس کے پاس جاتی اور مختلف طریقے آزماتی۔ پانچ ماہ ہو گئے تھے اُسے اِس پتھر سے سر پھوڑ تے مگر اس کی عدم تعاون کی پالیسی برقرار تھی۔ وہ اس کے ساتھ ہر نشست کے بعد دل پر بوجھ لیے اٹھتی۔
شازینہ کو اس عجیب و غریب مریضہ سے ہمدردی بھی تھی مگر اُس کا اِس قدر شدید رویہ کوفت بھی پہنچاتا۔ ایک روز شازینہ نے یہ سوچ کر کہ ممکن ہے ہسپتال کی فضا اس کے ذہن پر برا اثر ڈال رہی ہو، اُس نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ اتنی بیمار ہرگز نہیں کہ اس کا ہسپتال میں رہنا ضروری ہو، وہ گھر رہ سکتی ہے ۔ علاج کے لیے ہسپتال آتی جاتی رہے ۔مگر وہ ہسپتال میں ہی رہنے پر مصر رہی۔ اُس کی طویل اور مدلل تقریر کے جواب میں اُس نے کہا تو اتنا کہ اگر کبھی کسی دوسرے مریض کے لیے کمرے کی ضرورت ہو تو وہ یہ کمرہ خالی کر سکتی ہے ورنہ وہ یہیں رہنا پسند کرے گی۔
وہ اسے سمجھاتی کہ وہ خوش قسمت ہے کہ اُس کے پاس دولت ہے اور اُسے وہ انتہائی مہنگی دوا دی جا رہی ہے جس سے اگرچہ وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکتی مگر اُس کی بیماری کے اثرات محدود ہو جائیں گے ، اُس کی حالت مزید نہیں بگڑ ے گی۔تحقیق جاری ہے ۔ عین ممکن ہے آئندہ کوئی ایسی دوا بھی نکل آئے جس سے مکمل طور پر صحت یاب ہوا جا سکے ۔ اُسے شکر کرنا چاہیے کہ وہ اس دوا کو خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے ۔
اُس کے پاس کافی پیسہ تھا جس کے لیے اُس نے وصیت کر دی تھی کہ اُس کی موت کے بعد ہسپتال کو عطیہ دے دیا جائے ۔ ملیحہ، شازینہ کی ساری باتیں سنتی رہتی مگر کوئی جواب نہ دیتی۔ اُسی طرح بے حس و حرکت پڑ ی رہتی۔ اتنے مہنگے علاج کے باوجود اُس کی صحت روز بہ روز گرتی جا رہی تھی اور اِ س کی وجہ اُس کا یہی رویہ تھا۔
ملیحہ کے دل میں جینے کی کوئی خواہش نہ تھی۔ شازینہ اُسے ترغیب دیتی کہ باہر موسم بہت اچھا ہے ۔ بہت خوب صورت پھول کِھلے ہیں ۔ لان میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو وہ ایک بے رُوح مسکراہٹ کے ساتھ کہتی۔ ’’شکریہ میں یہیں ٹھیک ہوں ۔‘‘
وہ بار بار اُسے اُس کے نام سے مخاطب کرتی تا کہ اُس میں اپنی شخصیت کا ، اپنی شناخت کا احساس اُجاگر ہو۔ وہ اُسے بتاتی۔ ’’ دیکھیں ملیحہ! آپ کو ہر وقت لیٹے رہنے کی، اتنے آرام کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ نارمل زندگی بسر کر سکتی ہیں ۔ اِ س سے پہلے آپ کی جو بھی سرگرمیاں رہی ہیں انھیں جاری رکھ سکتی ہیں ۔‘‘
مگر جواب میں وہی مسکراہٹ ہوتی۔
پیشہ ورانہ تربیت اور ضبط کے باوجود شازینہ کی آواز میں تھوڑ ا چڑ چڑ ا پن آ ہی گیا تھا۔
’’آپ سمجھتی کیوں نہیں ، اِس طرح لیٹے رہنے سے آپ کی ہڈیاں نرم پڑ جائیں گی، کمزور ہو جائیں گی، جوڑ جم جائیں گے ، پھر آپ سچ مچ نہیں چل پائیں گی۔ اِس طرح معذور ہونا آپ کو اچھا لگے گا؟‘‘
اور جواب میں پھر وہی مسکراہٹ تھی۔
شروع شروع میں ملیحہ سے ملنے کافی لوگ آئے ۔ لیکن اُس نے ملاقاتیوں سے ملنے سے انکار کر دیا بل کہ اُس نے آنے والوں کے نام تک بتانے سے روک دیا۔ صرف اُس کی ایک سہیلی جس کا نام سمن تھا، جو لڑ جھگڑ کر چلی آتی، اُس کے آنے پر ملیحہ معترض نہ ہوتی۔ مگر اُس کے ساتھ بھی اُس کا رویہ وہی رہتا۔
وہ کبھی پھول لاتی، کبھی کتابیں ، مگر وہ اُنھیں آنکھ بھر کر دیکھتی تک نہیں تھی۔ وہ بے چاری رو دھو کر لوٹ جاتی مگر آنا نہ چھوڑ ا۔ پھر اُس کے شوہر کا کہیں تبادلہ ہو گیا اور وہ چلی گئی۔ وہ وقتاً فوقتاً ملیحہ کا حال دریافت کرنے کے لیے شازینہ کو فون کرتی رہتی تھی۔
وہ تو چلی گئی مگر شازینہ نے اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔ صرف ایک بات تھی جس سے شازینہ کو لگتا تھا کہ اُس میں شاید زندگی سے کچھ دل چسپی باقی ہے ۔ وہ بہت سلیقے سے اچھا لباس پہنتی اور کنگھی چوٹی سے بھی حلیہ درست رکھتی۔۔۔
’’چلو ایک بات تو اچھی ہے کہ آپ خوش لباس ہیں اور خود پر توجہ دیتی ہیں ۔‘‘
وہ مسکرائی۔ ’’اچھا لباس تو میں اس لیے پہنتی ہوں کہ دیکھنے والے کی نظروں کو میرے اوٹ پٹانگ حلیے سے کوفت نہ ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ میری ذات سے کسی کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے ۔‘‘
سمن نے شازینہ کو بتایا تھا کہ ملیحہ کو مطالعے کا بے حد شوق تھا ۔ اُس کی ذاتی لائبریری میں بڑ ی نادر اور نایاب کتابیں تھیں اور گیتوں اور غزلوں کا کافی بڑ ا ذخیرہ بھی تھا۔ شازینہ نے سوچا، اگر وہ اِن مشاغل میں دوبارہ دل چسپی لینے لگے تو اُس کا دھیان بٹ سکتا ہے اور مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ بات چھڑ نے کی غرض سے اس نے ملیحہ سے کہا:
’’مجھے یقین ہے کہ آپ جیسی نفیس خاتون کو مطالعے اور موسیقی کا ذوق بھی ہو گا۔ میرے پاس، اِن چیزوں کا اچھا ذخیرہ ہے ۔ میں آپ کے ساتھ شیئر کر سکتی ہوں ۔ آپ بھی ان سے محظوظ ہو سکتی ہیں ۔‘‘
’’آپ کی پیش کش کا شکریہ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔‘‘ وہ پھر پتھر کی ہو گئی۔
شازینہ کو اُس سے ایک انسیت سی پیدا ہو گئی تھی۔ اُس کا شائستہ و ملائم لہجہ، اُس کی اُداس مسکراہٹ اُسے اچھی لگتی۔ ویسے بھی وہ خوش شکل تو تھی ہی۔ مگر اُس کا عدم تعاون اُسے تکلیف دیتا، وہ اُسے یوں مرتے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اُس نے پہلے سے بھی زیادہ لگن سے اپنی کوششیں تیز تر کر دیں ۔ اِسی سلسلے میں اُس نے سمن سے کہا کہ چونکہ وہ ملیحہ کی بچپن کی دوست ہونے کے ناتے سب حالات جانتی ہے اگر وہ سب باتیں تفصیل سے اُسے لکھ دے تو شاید اُس سے ملیحہ کا رویہ جاننے اور اُس کا کوئی حل ڈھونڈنے میں کچھ مدد مل سکے ۔
شازینہ نے ہر وہ حربہ آزمانے کا فیصلہ کر رکھا تھا جس سے اُس کی سوچ میں تبدیلی ہو اور اُس کا رویہ بدلے ۔ آج کی نشست میں اُس نے اُسے جھنجھوڑ نے کے ارادے سے کہا۔
’’ملیحہ! آپ کے دل میں جینے کی خواہش موجود ضرور ہے مگر آپ نے اسے حزن کی تہوں میں دبا رکھا ہے ۔‘‘
’’یہ انداہ آپ کو کیسے ہوا؟‘‘ وہ مسکرائی۔ وہی دھیمی اُداس مسکراہٹ!
’’ہو سکتا ہے یہ بات آپ کے لاشعور میں ہو مگر ہے ضرور۔ یہ دیکھیے کہ آپ ہسپتال میں رہتی ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ علاج کے لیے کیوں آتیں ؟ ہسپتال میں کیوں رہتیں ؟ کہیں بھی رہ سکتی تھیں ۔‘‘
شازینہ کی توقع کے خلاف وہ ایک دم یوں اٹھ کر بیٹھ گئی جیسے سپرنگ کا کھلونا۔ اُس کا چہرہ کسی اندرونی کیفیت سے تمتما رہا تھا۔ وہ چند لمحے بیٹھی رہی پھر آہستہ آہستہ لیٹ گئی اور اُس کے چہرے کا وہی خالی تاثر لوٹ آیا۔
چند لمحوں بعد اُس کی مدھم، شائستہ مگر بے تاثر آواز اُبھری۔ ’’ آپ غلط سمجھ رہی ہیں شازینہ! ہسپتال تو میں اس لیے چلی آئی کہ کسی کے احسان کا بوجھ نہ اٹھانا پڑ ے اور سکون سے مر سکوں ۔ میری اذیت کو طویل بنانے کی کوشش نہ کریں ۔‘‘ اُس کے لہجے میں التجا تھی۔
شازینہ کا دل دُکھ سے بھر گیا۔ وہ کچھ بولی نہیں ۔ بس اُس کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور اُٹھ کھڑ ی ہوئی۔
شازینہ دو روز طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ہسپتال نہ جا سکی۔ تیسرے روز گئی تو پہلی اطلاع یہ تھی کہ ملیحہ کل صبح اپنے بستر پر مردہ پائی گئی۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے اُسے سائلنٹ ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
اور آج ہی اسے سمن کا خط ملا ہے ۔ ملیحہ کی داستان کا خلاصہ۔ اُس نے لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ملیحہ اُس کے بچپن کی دوست ہے ۔ وہ بچپن ہی سے بہت نرم خو اور صابر تھی۔ حالانکہایک دولت مند گھرانے سے تھی مگر اس میں امیروں والی کوئی خُو بُو نہیں تھی۔ اس کے برعکس وہ بڑ ی منکسرمزاج تھی۔
بڑ ے گھر کی بیٹی تھی، بڑ ے گھر کی بہو بنی۔اُس کے شوہر کا کاروبار کئی ملکوں میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ اکثر باہر دوروں پر رہتا۔ ملیحہ نے کبھی کسی کے سامنے اپنے شوہر کی سختی، سستی یا بے راہ روی کی شکایت نہیں کی تھی۔وہ ہمیشہ سے ہی بڑ ی گہری تھی۔ مگر مجھ سے اُس کی کوئی بات چھپی نہ تھی۔ وہ ایک عیاش شخص تھا اور اِس معاملے میں اسے ملیحہ کے جذبات کی کوئی پروا نہ تھی۔ابتدا میں اِس نے اُس کی بے راہ روی کا شکوہ کیا تو بجائے شرمندہ ہونے اور اپنی اصلاح کرنے کے اُس کے ساتھ سختی سے پیش آنے لگا۔دل شکستہ ہو کر اُس نے خاموشی اختیار کر لی اور اپنی واحد اولاد اپنے بیٹے کی خاطر حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ میں نے اُسے لاکھ سمجھایا کہ اُسے ایسے سمجھوتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ اپنی زندگی یوں تباہ نہ کرے مگر وہ اپنے والدین کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی اور اپنے بیٹے کو ایک ٹوٹے ہوئے گھر کے کرب اور احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اُس نے خود کو سماجی بہبود اور رضاکارانہ کاموں میں مصروف کر لیا۔ مطالعے میں دل لگا لیا۔ فالتو وقت میں موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتی۔ پیسے کی فراوانی تھی۔ آنے جانے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ یوں لوگوں کی نظر میں اُس کے حالات بہ ظاہر قابلِ رشک تھے ۔
اصل حالات کیا تھے ، یہ تو صرف وہ خود جانتی تھی اور جب کہ اُس کے والدین گزر گئے تھے ۔ بیٹا جوان ہو گیا تھا کہ اچانک ایک روز یہ دھماکہ خیز انکشاف ہوا کہ ملیحہ کو ایڈز ہو گئی ہے ۔ پھر تو گویا طوفان آ گیا۔ دوست احباب لعنت ملامت کرنے لگے ، رشتہ دار تھو تھو کرنے لگے اور اس کے شوہر نے آوارگی اور بدچلنی کے اس زندہ ثبوت کو گھر سے نکال دیا۔ اُس کی واحد اولاد اُس کے بیٹے نے بھی نفرت کا اظہار کیا۔ملیحہ کا دل ان حالات کی سفاکی سے اِس بری طرح ٹوٹا کہ نہ اُس نے کوئی احتجاج کیا اور نہ اپنے دفاع میں ایک لفظ تک بولی۔بس پتھر کی ہو گئی اور ہسپتال رہنے چلی آئی۔
میں تو صرف اُس کی دوست ہوں پھر بھی پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ نہ آوارہ ہے نہ بدچلن۔ اُس کے شوہر کو بھی چھوڑ یں ، کیا اُس کے بیٹے کو بھی کوئی اندازہ نہیں ماں کے کردار کا۔
میں ڈاکٹر تو نہیں ، مگر مجھے معلوم ہے ، مجھے یقین ہے کہ اُسے یہ بیماری اپنے شوہر سے ملی ہے ۔وہی کیرئیر ہے اس بیماری کا۔ یہ کمزور اور نازک تھی اِس پر اثرات جلد ظاہر ہو گئے ، اس پر چاہے بعد میں اثر ظاہر ہو مگر وہ مرے گا ایڈز سے ہی ۔۔۔۔ آوارہ، بدچلن، کمینہ!
اور شازینہ کو ملیحہ سے دو روز پہلے کی گفتگو یاد آئی جب اُس نے کہا تھا۔
’’ملیحہ پلیز! خود کو یوں پتھر نہ بناؤ، اپنا آپ کھولو۔ کہ دو ساری باتیں ۔ اتار دو یہ بے حسی کا خول۔ دوستی کے ناتے ہی اپنا بوجھ میرے ساتھ بانٹ لو۔‘‘
’’بہت شکریہ شازینہ! مگر میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں ۔ یہ گولڈ فِش دیکھ رہی ہو نا، اس کی یادداشت صرف تیس سیکنڈ ہوتی ہے ۔ ہر تیس سیکنڈ کے بعد اس کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے ۔ مجھے بھی اس گولڈ فِش کی طرح اپنی موجودہ اذیت اور کرب کے سوا کچھ یاد نہیں ۔ زندگی، زندگی کے احساس کے سوا اور کیا ہے میری دوست! اور جب یہ گولڈفِش مرے گی تو وہ آخری تیس سیکنڈ جو اِس کی یادداشت میں ہوں گے وہ موت کی اذیت ہو گی۔ گویا وہ اپنی پوری زندگی صرف مرتی رہی ہے ۔
آپ سمجھ رہی ہیں نا!‘‘
اُس نے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت پروین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
خالد علیم

ایک کہانی نئی پرانی

تو کیا تم سمجھتے ہو کہ تم نے کہانیاں لکھنی سیکھ لی ہیں ۔بہت خوب!۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمھاری اکثر کہانیوں میں تمھاری اپنی ہی دہرائی ہوئی باتیں ہوتی ہیں ۔ تھوڑ ا سا مرچ مصالحہ ڈال لیا ۔ کچھ نئے معنی پر لفظوں کی نئی ترتیب کا رنگ روغن چڑ ھا لیا اور سمجھ لیا کہ تم نے کہانی لکھ لی۔
تم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ تم خود بھی ایک کہانی ہو۔ ایسی کہانی کہ اگر لکھی جائے ‘ بالفرض تم خود ہی لکھو تو تمھاری دوسری کہانیوں کی نسبت بہت مربوط اور دل چسپ ہو گی۔ تمھاری اپنی کہانی تمھارے لیے شرمندگی کا باعث ہی سہی لیکن دوسرے اسے پڑ ھ کر بہت محظوظ ہوں گے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تم پہلے اپنی کہانی لکھو پھر دوسروں کے بارے میں موشگافیاں کرنا۔ ٹھیک ہی تو ہے ۔ تمھاری کہانیاں موشگافیاں نہیں تو اور کیا ہیں ۔اس عمر میں جب کہ میں تم سے عمر میں تقریباً دوگنا ہوں ‘ مجھے تمھاری یہ موشگافیاں ذرا اچھی نہیں لگتیں ۔ تمھیں اس کا بالکل احساس نہیں لیکن میں تمھیں بڑ ی گہرائی کے ساتھ پڑ ھتا ہوں ۔ اس لیے جانتا ہوں کہ پہلے تم نے کیا لکھا اور اب کیا لکھ رہے ہو۔ اب دیکھو نا!۔۔۔ تم نے پچھلے دنوں ستارہ والی کہانی لکھی اور خواہ مخواہ ستارہ کے کردار کو اس طرح پیش کر دیا جیسے وہ کوئی طوائف ہو۔ جب کہ تم یہ بھی جانتے تھے کہ ستارہ ماسٹر رحمت دین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بہت ہی معصوم اور پاک باز۔بالکل اپنی سادہ لوح ماں کی طرح۔ حالانکہ اس سے پہلے تم کئی دوسری کہانیوں میں ناموں اور مقامات کی معمولی تبدیلی کے ساتھ ستارہ ہی کے کردار کو پیش کر چکے ہو ۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ ان کہانیوں میں تمھارا اپنا کردار بھی ہے جو ایک دھندلا سا خاکہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ۔۔ اور ستارہ ۔۔۔ جو پہلے دو بیٹیوں کی ماں بنی‘ پھر ایک بیٹے کو جنم دے کر مر گئی تھی‘ طوائف کیسے ہو سکتی ہے ۔۔۔ہاں البتہ اس میں تمھارا اپنا کردار کسی حد تک نمایاں ہو جاتا ہے ۔ وہ بھی صرف مجھ پر ۔ کسی اور کو اس کا احساس نہیں ہو سکتا۔ کاش تم اپنی لکھی ہوئی کہانیاں خود بھی غور سے پڑ ھ لیتے ۔
مجھے یقین ہے کہ تمکہانی لکھتے وقت کسی لاشعور کی زد میں آ جاتے ہو۔۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم اپنی کہانی پوری ترتیب کے ساتھ کبھی نہیں لکھو گے ۔ اس لیے کہ تم اپنے لاشعور سے ڈرتے بھی بہت ہو۔ خوابوں پر تمھارا یقین نہیں ہے ورنہ تم کب کے مر چکے ہوتے ۔ خواب تو دن بھر کی خوشیوں اور دُکھوں کا عکس ہوتے ہیں ‘ لیکن میرا خیال ہے کہ تمھارا دماغ بہت کمزور ہو گیا ہے ۔تم خواب دیکھتے ضرور ہو لیکن صبح اُٹھتے ہی تمھیں خواب بھول جاتے ہیں ‘یوں ۔۔۔ جیسے کوئی اپنے آپ کو بھول جائے ۔ اسی لیے تم اپنی کہانیوں میں موجود ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کئی جگہ بھول گئے ہو۔ اسی لیے مزے میں ہو‘ ورنہ تم سارا دن اپنے اور خوابوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ‘ یا اُن کی تعبیریں ڈھونڈتے پھرتے ۔ یہ بہت بری بات ہے کہ آدمی خواب دیکھے اور بھول جائے ۔ خوابوں کو بھولنے کا مطلب ہے ‘ آدمی اپنے اندر ہی اندرمرتا جا رہا ہے ‘ لیکن اسے احساس نہیں ہوتا کہ وہ مرتا جا رہا ہے ۔ اس لیے کہ اندر ہی اندر مرنے سے احساس بھی مرتا چلا جا تا ہے ۔
تم نے کبھی آسمان کی طرف دیکھا ہے ۔ ہاں ! دیکھا ہو گا۔سب ہی دیکھتے ہیں ۔ دن میں بھی‘ رات کو بھی۔ لیکن تم یہنہیں جانتے کہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بھی تم یہ نہیں دیکھ سکے کہ زمین پر نازل ہونے والی تباہیوں کے منظر کتنے گھناؤنے ہیں ۔تم اگر دیکھ سکتے تو تمھیں آسمان میں زمین ایک سیاہ دھبے کی طرح دکھائی دیتی۔۔۔ آسمان میں بہت سی کہانیاں بکھری پڑ ی ہیں ۔ تمھاری اپنی کہانی بھی پورے حرفوں اور لفظوں کے ساتھ موجود ہے ۔ تم نے دیکھا نہیں ‘ اس لیے تمھارے احساس سے دور ہے ۔ تاہم مجھے معلوم ہے کہ اگر تم دیکھ بھی لیتے تو کترا جاتے ۔ تم اپنی کہانی جان کر بھی کیوں لکھو گے ۔ یہ نہیں کہ تمھیں اس کی فرصت نہیں ۔ تمھیں تو بس خوف ہے کہ اگر لوگوں نے مکمل ترتیب کے ساتھ تمھاری اپنی کہانی پڑ ھ لی تو پھر وہ تمھاری اور کوئی کہانی نہیں پڑ ھیں گے ۔۔۔پتہ نہیں ‘ تم جانتے ہو یا نہیں ‘ مجھے تمھاری بہت سی کہانیوں سے کتنا قریبی تعلق رہا ہے ۔ ایک ایسا تعلق جسے ابھی تم پوری طرح سمجھ نہیں سکتے ۔ لیکن مجھے تمھاری دوسری کہانیوں سے کوئی دل چسپی نہیں ۔ میں صرف ان کہانیوں کی بات کر رہا ہوں جن میں کسی نہ کسی طرح تم خود آ نکلے ہو۔ غیر مربوط ہی سہی‘ ایک کہانی بن گئے ہو۔
جانتے ہو تمھاری کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے ؟ تمھیں شاید یاد ہے کہ نہیں ؟ جب تم پیدا ہوئے تھے وہ برسات کی رات تھی۔ بادلوں کی گڑ گڑ اہٹ میں تم نے جب آنکھ کھولی تو تمھیں رات کے اندھیرے میں بجلی کی روشنی اور پھر اس کی کڑ ک نے بے ہوش کر دیا تھا۔ تمھاری دایا اماں نے سمجھا کہ تم پیدا ہوتے ہی مر چکے ہو۔ تمھاری ماں نے ہمت کر کے تمھیں دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی۔ تمھارے چہرے پر ٹھوڑ ی کے عین وسط میں ایک سیاہ دھبا تھا۔ رات کی تاریکی میں آسمان کے سائبان تلے وہ سیاہ دھبا بجلی کی چمک میں نظر آیا تو تمھاری ماں بے ہوش ہو گئی۔ دایا اماں ‘ جس جگہ تم پیدا ہوئے تھے ‘ نشیبی بستی سے اچانک آ نکلی تھی۔ تمھاری ماں کو تڑ پتا دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی۔ وقت بہت کم تھا اور پھر دایا اماں اتنی طاقت بھی نہیں رکھتی تھی کہ تمھاری ماں کو اپنے گھر تک لے جائے یا کسی کو مدد کے لیے پکار سکے ۔ تمھاری ماں بھی بے ہوش تھی اور تم بھی بے ہوش تھے ۔ لیکن دایا اماں تمھیں اپنی چادر میں لپیٹ کر نشیب میں اتر گئی۔ پھر وہاں سے دو آدمی آئے اور تمھاری ماں کو مردہ پا کر لوٹ گئے ۔ ساری رات تمھاری ماں کی لاش وہیں پڑ ی رہی۔ صبح انھی دو آدمیوں نے تمھاری ماں کو اسی جگہ دفن کر دیا۔
تمھاری ماں کا اتا پتا معلوم کرنے کے لیے دایا اماں کو زیادہ تردّد سے کام نہیں لینا پڑ ا۔ اسے پتہ تھا کہ انھی دو آدمیوں نے تمھاری ماں کو موت کے سپرد کیا تھا۔ ایک سال پہلے ہی انھوں نے اس کو مار دیا تھا۔ پھر وہ ایک زندہ لاش کی طرح یہاں آ گئی تھی‘ لیکن بادلوں کی گڑ گڑ اہٹ سے لرز کر وہ نشیب میں نہیں اُتر سکی تھی۔ بادلوں کی خوف ناک گڑ گڑ اہٹ کے باوجود تم نہ جانے کیسے زندہ رہ گئے ۔ دایا اماں کی لپٹی چادر میں تم نشیب میں ایسے اترے کہ پھر کبھی نہ ابھر سکے ‘ حالانکہ بعد میں تم نے زندگی کے اُفق پر ابھرنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے ۔ تمھیں جب معلوم ہوا کہ تمھاری پرورش کرنے والے تمھاری ماں کے قاتل ہیں ‘ تم ان کے سامنے تن کر کھڑ ے ہو گئے ۔ انھوں نے تمھاری ایسی پٹائی کی کہ تمھاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ ایک پاؤں بھی ٹوٹ گیا۔ پھر نہ جانے تم وہاں سے کیسے بھاگے ‘ ایک دُور دراز کی بستی میں جا کر پناہ لے لی۔ مائی سرداراں نے تمھاری کہانی سنی تو تمھارے سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھ دیا۔ پھر تمھیں وہاں کی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس پڑ ھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ مولوی صاحب جو تمھیں پڑ ھاتے تھے ‘ دینی کتابوں کے ساتھ ہر قسم کی بڑ ی بڑ ی کتابیں پڑ ھنے کا شوق رکھتے تھے ۔ پھر تم نے بھی وہ ساری کتابیں پڑ ھ لیں اور یوں تمھیں احساس ہوا کہ تم اچھے خاصے پڑ ھے لکھے ہو گئے ہو۔ تم نے لکھنے کی مشق شروع کر دی اور کچھ اور لکھنے کے بجاے کہانیاں لکھنے لگے ۔ مولوی صاحب کو پتہ چلا تو انھوں نے تمھیں بہت سمجھایا۔ کہا کہ تم جھوٹے قصے لکھنے لگے ہو لیکن تم نہ مانے ۔ آخر انھوں نے مائی سرداراں کو کہہ دیا کہ یہ لڑ کا پڑ ھ لکھ نہیں سکتا۔ حالانکہ تم اپنی نظر میں اس وقت بھی بہت اچھی کہانیاں لکھنے لگے تھے ۔پھر تمھاری کہانیاں رسائل میں چھپنے لگیں ۔
تم سمجھتے ہو کہ تم نے پچھلی بار جو کہانی لکھی تھی‘ لوگ پڑ ھ کر بھول چکے ہوں گے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ تمھارے نقاد جانتے ہیں کہ تمھارا قلم تمھارے لاشعور سے ‘ جس پر تمھیں یقین نہیں ‘ تمھاری اپنی ہی زندگی کی سیاہی کاغذ پر بکھیر دیتا ہے ۔سو اصل بات یہ ہے کہ تمھارے ہر کردار میں معنی کی تکرار ہوتی ہے ۔پھر ادب کے نقاد تو تمھاری کہانیوں کے رنگ رنگ سے واقف ہیں ‘ وہ ہر بار تمھاری کہانیوں میں در آنے والے سیاہ دھبے کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔وہ سیاہ دھبا‘ جس سے تم نے کاغذ کا سینہ سیاہ کر دیا ہے ۔ وہ تمھیں کبھی معاف نہیں کر سکتے ۔
تم نے جو پہلی کہانی لکھی تھی‘ وہ مجھے اب بھی یاد ہے ۔ تم نے کہانی یوں شروع کی تھی۔۔۔ ’’کریموکی ماں پتہ نہیں پہاڑ ی گھاٹیوں کے درمیان کیوں مر گئی تھی۔ وہ نشیب میں اُتر کر بھی مر سکتی تھی۔ ‘‘۔۔۔ لیکن تم یہ نہیں لکھ سکے کہ بادلوں کی گڑ گڑ اہٹ میں وہ نشیب میں نہیں اتر سکی تھی۔ اگر وہ نشیب میں اُتر جاتی تو اس کی زندگی کا دردناک سفر ایک بار پھر شروع ہو جاتا۔ اچھا ہوا کہ وہ مر گئی۔ ۔۔پھر تم نے کریمو کی ماں کی سابقہ زندگی کا وہ روپ دکھا دیا جو تمھاری اپنی ماں کا تھا۔ لیکن تم کہانی کار ہو نا۔۔۔ بڑ ی خوب صورتی سے تم نے خود کو کہانی سے نکال لیا اور کہانی تمھارے بجاے کریمو کی ماں کی زندگی کا بے رحم عکس دکھاتی رہی۔ تم نے اس کہانی کو جو ایک سچی کہانی تھی‘ بدلنے کے لیے بہت رنگ بھرے ۔ پھر تم نے ایک اور کہانی لکھی۔ ۔۔ شگفتہ جو ایک بیٹے کو جنم دے کر بھی ماں نہ بن سکی۔ اس لیے کہ شگفتہ آخری بار بیٹی کو جنم نہ دے سکی تھی‘ حالانکہ بیٹوں کو جنم دینی والی مائیں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔۔۔اور زیادہ بیٹیاں پیدا کرنے والی مائیں مر جاتی ہیں ۔ ۔۔۔ اور تم نے لکھا۔۔۔ شگفتہ مر گئی۔۔۔کیوں کہ اس کی بیٹیاں صرف دو تھیں جنھیں وہ نشیبی بستی میں چھوڑ کر آ چکی تھی۔
تمھاری ستارہ والی کہانی تو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ستارہ جو ایک زمانے میں کتنی ہی آنکھوں کے لیے سرشاری کا استعارہ تھی۔ تم نے لکھا۔۔۔۔لیکن وہ پہلے ایسی نہ تھی۔ وہ ماسٹر رحمت دین کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔اُس کی لاڈلی بیٹی۔۔بیٹیاں تو ہوتی ہی لاڈلی ہیں ۔ وہ بھولے سے ایک دن گنجان جنگل میں نکل آئی اور اس کو بھیڑ یے لے گئے ۔بھیڑ یوں نے اس کی تکا بوٹی کرنا چاہی لیکن تجارت پیشہ صداقت علی کے دوبیٹے وہاں اچانک آ نکلے اور انھوں نے بڑ ی بہادری سے اُسے بھیڑ یوں سے چھڑ ا لیا۔ پھر خود بھیڑ یے بن گئے ۔ بچی کھچی ستارہ کسی طرح واپس شہر پہنچ گئی۔ لیکن وہ اپنے گھر نہ جا سکی۔ شہر میں درندگی کے اس کوچے میں چلی گئی جہاں ستارہ جیسی کتنی ہی کرنیں اپنی سانسوں میں رات کی سیاہی انڈیلتی رہتی ہیں ۔ تمھاری کہانی کی ستارہ اس کوچے میں پہنچی تو واقعی ستارہ بن کر چمکی‘ اور پھر ستارہ پرستوں کی بھیڑ لگ گئی۔ تمھیں ستارہ کی اتنی چمک دمک منظور نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ ستارہ ماہتاب بن کر چمکتی تم نے ستارہ کو وہاں سے نکال دیا اور اس نے ساجد کے ہاں پناہ لے لی۔ساجد بہت نیک آدمی تھا لیکن وہ اس سے شادی نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ وہ خود شادی شدہ تھا۔ اس کی بیوی نے جب دیکھا کہ ستارہ ماہتاب بنتی جا رہی ہے تو اس نے ساجد کے گھر آنے سے پہلے اسے دھکے دے کر نکال دیا اور پھر وہ کتنے ہی دھکے کھاتی ہوئی پہاڑ وں کے نشیب میں ایک بستی کی طرف جا نکلی۔ وہاں بھی رہتے تو انسان ہی تھے لیکن انسانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔ تم نے اپنی کہانی میں اس زندگی کا ایسا نقشہ کھینچا جسے دیکھ کر آدمی کو زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔ یہاں مجھے تم سے اختلاف ہے ۔ میں ہرگز تمھاری یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی ایسی بستی بھی ہے جہاں کے لوگ اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی بیٹیاں بھی بیچ دیتے ہیں ۔ بیٹیاں تو ہر سانس زندگی کا احساس دلاتی ہیں ۔تم نے تو زندگی ہی کو مار دیا۔ ستارہ کو بھی مار دیا۔ حالانکہ ستارہ کو نہیں مرنا چاہیے تھا۔ تم نے یہ عجیب بات لکھ دی کہ ستارہ اس بستی میں پہنچ کر خورشید بی بی کی بیٹی بن گئی اور پھر اس کے دونوں چاند سے بیٹوں سے بیاہ دی گئی تاکہ بیٹیاں پیدا کر سکے ۔ بھلا ایک بیٹی دو بیٹوں کے ساتھ بیاہی جائے ؟ ستاروں کے جھرمٹ میں ایک چاند تو ہو سکتا ہے لیکن ایک ستارہ کے لیے دو چاند۔ اندھیر خدا کا۔ بھلا ایسے بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو خورشید بی بی اس بستی میں لوٹ کر آنے والی ستارہ کے بیٹے کو اپنے گھر میں پناہ نہ دیتی۔ پھر بیٹا بھی ایسا‘ جس کی ٹھوڑ ی کے وسط میں ایک سیاہ دھبا تھا۔ ہاں البتہ یہ سیاہ دھبا دیکھ کر ستارہ کو مر ہی جانا چاہیے تھا۔
خیر یہ بھی اچھا ہوا کہ تم نے اپنی کہانی خود نہیں لکھی۔ اگر لکھتے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بالکل ادھوری لکھتے ۔۔۔ اور پھرتم سوچ رہے ہو گے کہ میں نے تمھاری لکھی ہوئی کہانیوں میں سے تمھاری اپنی کہانی کس طرح تلاش کی تو یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ۔ ستارہ ماسٹر رحمت دین کے گھر سے مجھے ہی تلاش کرتے ہوئے جنگل میں بھٹک گئی تھی۔۔۔ اور یہی اس کی غلطی تھی۔ کیوں کہ ایک چھوٹا سا سیاہ دھبا اس کی قسمت کی سیاہی بن کر اس کی اپنی بھی ٹھوڑ ی کے وسط میں نقش تھا۔ اس کے باوجود وہ بہت حسین تھی‘ بہت معصوم تھی۔ اُسے میں نے بہت تلاش کیا۔ پھر میری شادی ہو گئی تو وہ مجھے ستارہ بن کر مل گئی لیکن میری بیوی نے میری غیرموجودگی میں اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔
میں اب تک تمھاری سب کہانیاں پڑ ھ چکا ہوں ۔ تمھاری ہر کہانی نئی کہانی ہونے کے باوجود پرانی لگتی ہے اس لیے کہ تم کسی بھی کہانی میں اس سیاہ دھبے کو نہیں بھول سکے ‘ جسے تمھاری اپنی ٹھوڑ ی کے وسط میں دیکھ کر ستارہ مر گئی تھی۔۔۔اور اب تمھاری تازہ ترین کہانی میں یہ سیاہ دھبا اتنا پھیل گیا ہے کہ کہیں بھی روشنی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔۔۔ تم نے آخر میں لکھا ہے کہ۔۔۔ انسان کے کرموں کی سیاہی نے پہاڑ وں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔ زمین کا سینہ شق ہو گیا ۔۔۔ پہاڑ وں کی چٹانیں خوف ناک لرزش سے پاش پاش ہو گئیں اور ۔۔۔ وہ نشیبی بستی پوری کی پوری زمین میں غرق ہو گئی۔ لیکن پتہ نہیں تم جانتے ہو یا نہیں ‘ مجھے معلوم ہے کہ تمھاری کہانی والی ستارہ آج بھی زندہ ہے ۔۔۔ وہ ایک اور خورشید بی بی کی نوآباد نشیبی بستی میں اترچکی ہے ۔
اگر تمھیں پورا یقین ہے کہ نشیبی بستی کے مکین اب بھی اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی بیٹیاں فروخت کر دیتے ہیں تو پھر مجھے تمھاری اس نئی کہانی کا انتظار ہے جس میں تم اس بستی کی فروخت کی جانے والی بیٹیوں کی خاموش سسکیوں کی آواز یں بھی مجھے سنا سکو۔ شاید اس طرح میں ستارہ کی بیٹیوں کی آوازیں بھی سن سکوں ۔ میں ان آوازوں کو بہت قریب سے سُننا چاہتا ہوں ۔ اتنا قریب سے کہ ستارہ کو یہ آوازیں سنائی نہ دیں ۔۔۔ کیوں کہ اگر ستارہ نے یہ آوازیں سُن لیں تو ماسٹر رحمت دین کی پرُسکون ابدی نیند میں خلل آ جائے گا اور پہاڑ وں کی چٹانیں ایک بار پھر خوف ناک لرزش سے پاش پاش ہو جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد علیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
محمد جواد

اچھے لوگ برے لوگ​

یقین کیجیے کرائے کے مکانوں میں دھکے کھانے والوں کی بھی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے یایوں کہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بن جاتی ہے ۔پکاکوٹھاڈال کر رہنے والے کچھ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔وہ اضطراب ، وہ خانہ بدوشانہ قسم کامزاج اور وہ عجیب طرح کا عدم تحفظ بس وہی لوگ بھگتتے ہیں جوان تجربات سے گزرتے ہیں ۔میں یہ سب باتیں آپ سے اس لیے shareکر رہا ہوں کہ دوماہ قبل میں نے اپنی بیوی اور دوبچوں سمیت پھرنقل مکانی کی ہے اوراب کی بار ایک بہت عجیب سے معاملے سے واسطہ پڑ ا ہے ۔ابھی دوہفتے پہلے میں سٹور سے لینے کچھ گیاتودالیں وغیرہ پیک کرتے دکان دار نے مجھ سے پوچھاکہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔جب میں نے گھرکاپتہ بتایاتو اس کے چہرے پربڑ ی پراسرار مسکراہٹ سی آ گئی۔گھرواپس آ کر میں نے یہ بات اپنی بیوی کوبتائی توکہنے لگی ’’جاوید صاحب !اس گھرکوتولوگ کتوں والاگھرکہتے ہیں ‘‘۔
’’ہیں !کیامطلب ؟‘‘
سنا ہے ، ہم سے پہلے کرایہ دار وں نے بڑ ے بڑ ے دوکتے رکھے ہوئے تھے ‘‘۔
’’کوئی بات نہیں ، ان کواچھے لگتے ہونگے ۔ ‘‘
’’مگر مجھے اچھانھیں لگتاکہ لوگ ہمارے گھرکوکتوں والاگھرکہیں ۔ ‘‘
’’یاسمین !میرے تمھارے کہے یہ دنیاچلتی ہے ؟
’’یہ زندگی میری تمھاری پسند یاناپسند سے بے پروا چلی جا رہی ہے ۔ ‘‘
میری بیوی خاموش رہی مگراگلے کچھ دنوں میں اس کی پریشانی بڑ ھتی ہی چلی گئی۔
ہماری سوسائٹی میں ا س کی ایک دورکی رشتے دار خاتون بھی رہتی تھیں ۔انھوں نے بھی بڑ ے دل خراش واقعات کاذکر کیا۔
’’ایک بڑ ھیارہتی تھی۔یہ بڑ اگلاپہنتی تھی۔‘‘
خالہ نے بہت بڑ اساگلابتایا۔
’’ایک بیٹے کی تو شادی کر رکھی تھی۔اب ایک جوان عورت اور تین تین مرد گھرمیں ۔ایک توخاوند ہے ، دو تو نامحرم ہیں مگر جب دیکھوبغیر دپٹے کے اِدھر اُدھر گھوم رہی ہے ‘‘
’’اور ایک باباجی بھی تو تھے ۔ان لڑ کوں کے ابا۔کیابتاؤں ۔نہ کبھی بال کٹواتے تھے نہ ہی کبھی نہاتے ہوں گے ۔گرمیوں میں کبھی اوپر سے ننگے توکبھی نیچے سے ۔ ‘‘
’’نیچے سے ؟‘‘
میری بیوی نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
’’بس وہی لڑ کوں والانیکر ساپہنے رہتے تھے ۔‘‘
’’آدھی آدھی رات کولوگ آتے تھے ۔میں نے ایک دفعہ کہہ ہی دیاکہ جناب گھرآ کر ڈور بیل بجایا کریں ، آپ تو گاڑ ی کے ہارن پرہاتھ رکھ کے بھول جاتے ہیں کہ وقت کیا ہوا ہے ‘‘
’’پھر کیاکہا انھوں نے ؟ ‘‘میری بیوی بولی۔
’’کہنے لگے ہمارا ہوٹل کابزنس ہے ، جلدی گھرنہیں آ سکتے ۔ ‘‘
یہ سب باتیں میری بیوی نے مجھے آ کربتائیں ۔
’’ویسے لوگوں کودوسروں کے معاملات میں بڑ اتجسس ہوتا ہے ۔الٹی پلٹی بات نہ بھی ہوتوبنالیتے ہیں ۔اپناذہن جھٹکو!‘‘ میں نے اکتاہٹ سے کہا۔
’’خودتوآپ ساراسارا دن گھرسے باہر ہوتے ہیں ۔میں نے گھرسنبھالنا ہوتا ہے ۔بچوں کودیکھنا ہوتا ہے ۔کئی بار سوداسلف لینے کے لیے گھرسے نکلنابھی پڑ تا ہے ۔لوگ مجھے دیکھ کرایک دوسرے سے کھسر پھسر شروع کر دیتے ہیں ۔ ‘‘
’’یاسمین !انسان کواپناپتہ ہوناچاہیے اور اپنے اوپراعتماد ہوناچاہیے ۔ ‘‘
’’ میں کوشش بہت کرتی ہوں کہ ذہن جھٹکوں ، آپ کے قیمتی مشوروں پر عمل کروں مگر میں ابھی اس پریشانی سے نکل نہیں سکی۔‘‘ میری بیوی نے کچھ طنز سے کہا۔
’’ ویسے ایک بات بتاؤں تمھیں ۔بعض اوقات ہم اپنی آنکھوں پر نیلے پیلے رنگوں کی عینک لگا لیتے ہیں تو جس رنگ کی عینک ہو ویسا ہی نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔‘‘
’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں بل کہ کہہ رہا ہوں کہ جوان عورت کو دیکھ کر کھسر پھسر کرنا، اُسے گھورنا، تنگ کرنا تو ہمارا قومی کھیل ہے ۔‘‘
میری بیوی کو ہنسی آ گئی۔ وہ ہنستے ہوئے بہت اچھی لگ رہی تھی۔مجھے اچانک ایک خیال آیا۔
’’ اور تمھیں بھی چاہیے کہ گھر سے نکل کر کہیں بھی جاؤ، کم بولا کرو، کم ہنسا کرو، دانت کم نکالا کرو۔‘‘
’’بس وہی مردوں کی اصل فطرت! گھوم پھر کر قصور عورت کا نکال دیتے ہیں ۔جناب یہ کہ بہت اہم معاملہ ہے ۔ ان لوگوں کی وجہ سے لوگ آپ کو اور مجھے ٹیڑ ھی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔‘‘
’’توکیا کروں ۔اخبار میں لکھوادوں کہ وہ خراب لوگ اپنایہ گھرچھوڑ کرچلے گئے ہیں اور ان کی جگہ دنیاکے اچھے ترین لوگ آ گئے ہیں ۔ ‘‘
’’پھرطنزشروع کر دی آپ نے ، آپ سے بات کرنابالکل فضول ہے ‘‘۔میری بیوی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
چند د ن بعد مجھے میری بیوی نے بتایاکہ وہ اپنے ایک دُورکے رشتے دار بزرگ سے جوبہت پہنچے ہوئے ہیں ، اس گھرکے بارے میں ’پتہ ‘کروا رہی ہے ۔ایک روز شام کے وقت ہم چائے پی رہے تھے کہ شاہ صاحب سے میں نے سارامسئلہ ڈسکس کیا تھا۔مجھے تو اس مکان میں بڑ ی بے برکتی بھی محسوس ہوتی ہے ۔ابھی دو دن پہلے میراہاتھ بھی جل گیا ہے ۔آمدنی بھی ہمارے یہاں آ کر کم ہوگئی ہے ۔آپ سے بات کاچوں کہ فایدہ نہیں تھا اس لیے میں نے شاہ صاحب سے مشورہ کرنامناسب سمجھا۔‘‘
’’پھرکیاکہاشاہ صاحب نے ؟ ‘‘
’’کہہ رہے تھے کہ جولوگ تم لوگوں سے پہلے یہاں رہتے تھے وہ بے حد نجس افراد تھے ۔انھی کی وجہ سے یہ بے برکتی اور نحوست ہے ۔گھراچھی طرح دھوکر صاف کرو اور اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کانام دیواروں پرٹانکو۔۔۔‘‘
میں کچھ سو چ میں پڑ گیا۔
کچھ سوچتے ہوئے میں نے کہا’’یاسمین !کیاہمیں یہ حق حاصل ہے کہ کسی کونجس یاناپاک کہیں ؟‘‘
’’مجھے آپ سے پوری امید تھی کہ آپ شاہ صاحب سے بھی اختلاف کریں گے ۔پرابلم یہ ہے کہ آپ نے بہت ساری کتابیں پڑ ھ رکھی ہیں ۔ ‘‘، یاسمین نے کچھ نخوت سے کہا۔
’’کتابیں کہاں سے آ گئیں ، یہ توایک سامنے کی عام اختلاف کی بات ہے ۔ ‘‘
اگلے کچھ دنوں میں میری بیوی نے خوب مانجھ مانجھ کرگھرصاف کیا اور چاروں قل اور آئتہ الکرسی گھرکے مین کمرے میں دیواروں پرلٹکائیں ۔
یہ سب کرنے کے بعد یاسمین خاصی مطمئن ہوگئی مگر جب بھی اس کی خالہ ان لوگوں کے بارے میں ہوش رباقسم کی باتیں بتاتیں وہ تھوڑ ی دیر کے لیے پریشان ہوجاتی۔
میں جب سے اس مکان میں شفٹ ہوا تھامسلسل پچھلے لوگوں کے قصے سن رہا تھا۔ خالہ، سٹوروالا، سبزی بیچنے والا، مالی اور بغل والے گھر کاڈرائیور، جسے دیکھوان لوگوں کے بارے میں بہت عجیب و غریب قسم کی باتیں سناتا۔
مگرابھی کل ایک عجیب واقعہ ہوا۔میں آفس کے لیے گھرسے نکلاتوایک ڈاڑ ھی والے نوجوان نے مجھے مین گیٹ پر رکنے کا اشارہ کیا۔میرے گاڑ ی روکنے کے بعد وہ میرے پاس آیا اور بولا: ’’میں نے کیمپس پل تک جانا ہے ۔کیامیں آپ کے ساتھ گاڑ ی میں سفرکرسکتا ہوں ؟ ‘‘
’’جی آئیے ، میں ادھرہی جا رہا ہوں ۔ ‘‘
’’آپ اسی سوسائٹی میں رہتے ہیں ؟‘‘
’’ابھی دوماہ قبل شفٹ ہوئے ہیں ہم۔ ‘‘
’’کون ساہاؤس نمبرہے آپ کا؟‘‘
’’جی! B-450۔‘‘
’’اچھاوہ فیضان لوگوں والاگھر۔‘‘
میں چونکا’’آپ ان لوگوں کوجانتے ہیں ؟ ‘‘
’’جی! ان کے دولڑ کے تھے فیضان اور سادان ۔وہ روزہمارے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے ۔ ‘‘
’’کیسے لڑ کے تھے وہ؟ ‘‘
’’بہت کم لوگ ایسے پیار کرنے والے اور دل کے صاف ہوتے ہیں ۔ ‘‘
’’آپ کتنی دیر ان لوگوں کے ساتھ اس سوسائٹی میں رہے ؟ ‘‘
’’کوئی دوسال جناب !‘‘
’’دونوں بھائی بڑ ے وقت پرگراؤنڈ میں آ جاتے ، ہنستے مسکراتے ، بہت امیرلوگوں کے بچے تھے ۔وقتی طورپریہاں رہتے تھے ۔اب انھوں نے جوہرٹاؤن میں اپنامکان بنالیا ہے ۔ ‘‘
’’مجھے اور کچھ بتائیے ان کے بارے میں ، اصل میں محلے والے بڑ ی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں ان کے بارے میں ۔ ‘‘
’’جناب دنیاکی تویہی ریت ہے ۔وہ لوگ تھوڑ ا الگ الگ رہتے تھے شاید اس لیے ۔اپنی ہی الگ دنیاتھی ان کی۔ایک مرتبہ کھیلتے ہوئے میری ٹانگ فریکچرہوگئی۔دونوں نے فوراًگاڑ ی نکالی، مجھے ہسپتال لے کرگئے ۔میرے گھروالوں کواطلاع دی اور رات تک وہیں ہسپتال میں ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہے ۔ ‘‘
میں بالکل خاموش ہوکر ڈرائیو نگ کرتا رہا، جب کیمپس پُل آ گیاتونوجوان نے میراشکریہ ادا کرناچاہا۔
’’شکریہ تومجھے آپ کا ادا کرناچاہیے ۔ ‘‘
’’کیوں جناب؟ ‘‘
’’کیوں کہ آپ نے میرا ایک مسئلہ حل کر دیا۔‘‘
’’یہ سب اﷲکی طرف سے ہے ۔آپ چاہتے تھے کہ مسئلہ حل ہوتواﷲنے کر دیا۔جناب نظروہی کچھ آتا ہے جوہم دیکھناچاہتے ہیں ۔مجھے اور آپ کو بھی شاید وہی دکھائی دے رہا ہے جوہم دیکھناچاہ رہے ہیں ۔ ‘‘
’’تو جناب یہ Mysteryہمیشہ قائم رہے گی کہ وہ لوگ کیسے تھے ۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بے شک ، آخری علم اﷲہی کے پاس ہے ۔ ‘‘
اشارے سے خداحافظ کہہ کروہ چلا گیا۔
میں نے آفس سے گھرآ کربھی اپنی بیوی سے کوئی بات نہیں کی۔وہ ویسے بھی گھرکی صفائی اور قرآنی آیات کودیواروں پرآویزاں کرنے کے بعد خاصی مطمئن ہو چکی ہے ۔خالہ، مالی، ہمسایوں کاڈرائیور ، سٹوروالالڑ کا، یہ سب بھی ان لوگوں کو ماضی کاحصہ سمجھتے ہوئے بھولتے جا رہے ہیں ۔پہلے پہل میرادل چاہتا تھاکہ اس نوجوان سے مل کرمیں ان کا ایڈریس حاصل کروں گا۔ان لوگوں کو ایک نظر دیکھوں مگر اب مجھے یہ بات بھی بڑ ی غیر ضروری محسوس ہوتی ہے کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ وہاں جا کر بھی میں وہی کچھ دیکھوں گاجومیں اصل میں دیکھناچاہتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
اشتہارات

صریرِ خامہ(1964ء)، بارِ حروف (2000ء) کے بعد

منفرد طرزِ نگارش کے حامل اور بلند فکر ممتاز شاعر
سیّد آلِ احمد کا تیسرا خوب صورت شعری مجموعہ
میں اجنبی سہی​

شاید میں تیرے دھیان میں پھر سے اُبھر سکوں
میں اجنبی سہی، مجھے پہچان کے تو دیکھ​

الاشراق، اردو بازار، لا ہور
042-7068762 +92-321-4722964
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’خواب میرا لباس‘‘، ’’ تحیّر‘‘اور’’ وابستہ‘‘ جیسے خوب صورت شعری مجموعوں کے خالق

منفرد لب و لہجہ کے شاعر شاہین عباس کا چوتھا شعری مجموعہ
خدا کے دن

ایک لکیر شام کی ----- کہتی تھی درمیاں کی بات
خلقِ خدا کا ایک دن ‘ باقی ہیں سب خدا کے دن​

پبلشر:
کاغزی پیراہن، عظیم مینشن، رائل پارک، لا ہور، پاکستان
تقسیم کار: کتاب سراے ، الحمد مارکیٹ، فرسٹ فلور، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لا ہور .+92-42-7320318
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نوید صادق

محفلین
شاہین عباس

اے تصویر انسان​

(۱)

کوئی کوئی دن
سمے کی دھار پہ ایسا بھی آ جاتا ہے
اچھی بھلی نبضوں پر چلتی گھڑ یاں کام نہیں کرتیں
کبھی کبھی کا جھونکا سا دن
کئی کئی دن چلتا ہے
سِن اندرسِن
سال اندرسال
قرنوں اندر قرن الٹتا
قرن پلٹتا
بارہ گھنٹوں کے چکر میں ، چلتا اور چکراتا گولا
جسم ہیولوں سا اک چولا
دانہ چگتا دن ، جب گنبد گنبد چکر کاٹتا ہے ،
تو جیسے دنیا کے نقشے پر
گندم کی سب بالیاں گھیرے میں لے لیتا ہے
دن جیسے ، دن کم ہو، اور انسان زیادہ
کبھی کبھی گھڑ یوں کا گھیرا

سوئیوں اور سلاخوں کی
تاریخ بدل کر رکھ دیتا ہے
کبھی کبھی انسان کا پھیرا
تیرے تصویرِ انسان کا پھیرا
ایک گزر گزران سے آگے بڑ ھ جاتا ہے
شام کو جب یہ پھیرا رکتا ہے
اور گھیرا ٹوٹتا ہے
تو دانہ چونچ میں ہوتا ہے
چونچ دبا کر، دن واپس اڑ جاتا ہے
قبلہ کی چوکور ہو
یا گنبد کی گولائی
سب خالی رہ جاتا ہے

(۲)

بادشہوں کی مہروں والی ڈاک سے مشکل کم نہیں ہوتی
بڑ ھ جاتی ہے
چلتے چلتے

ایک لہو سے اگلے لہو کی آبادی میں
میں نے گھر اور گلیاں دیکھیں
ایک عبارت کا غوغا تھا
میں نے گھروں کی محکومی میں
صدی صدی کا ہجر گزارا
سونا چاندی اور کرنسی کے گھاٹے میں
نیکی بدی کا بھاؤ بدلا
ڈاک اُٹھاتی آنکھوں میں چھپ چھپ کر رویا
مجھے عبارت کا غوغا تسلیم نہیں تھا
بادشہوں کی مہروں
اور مرادوں والی ڈاک کو میں نے
سیدھے ہاتھ کے سچ میں پرکھا
جھوٹ کا جالا
جھوٹ کا نالہ
سطروں کی معیاد میں شامل
نقطہ نقطہ زہر بھرا تھا
سوئیوں اور سلاخوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی تو
تصویرِ انساں
زنجیر سمے کی تال دھمال میں گردن گردن
ڈوب چکا تھا
پہلے پیار کے پہلے نور کا رقصِ مسلسل
پہلا پرسہ
پہلا دلاسہ سب طرفوں کا


آخری حرفوں کا پہرہ ، تصویرِ انساں
اے تصویر انساں
تیرے پروں کے رنگ اجازت دیں تو میں بھی
تیرے گنبد کے گھیرے میں آؤں
اپنی سزا کا فیصلہ سننے
تیرے پاؤں پڑ جاؤں

(۳)

سجدہ سجدہ زہر کی چھاؤں پھیل گئی ہے
قبلہ کی چوکور میں کتنے نور انوار شہید ہوئے ہیں ؟
کس کس گھر پر تالا پڑ ا ہے ؟
کسے پتہ ہے
صبحِ شہادت گزرے تو اندازہ ہو
یہ سورج کتنا سرخ ہے ؟
کتنا کالا ہے ؟
دُنیا دارو!
نیکی کس دُنیا داری کی نذر ہوئی؟
کون شکاری
اندر باہر
باری لینے آیا ہے ؟
حاضری اور حضوری والی لڑ یاں ٹوٹ گریں
اور، دُولہا دُلہن



پہلی رات اور پہلی بات کی دُوری پر
صدی صدی کے کاٹھ کباڑ میں
نیکی بدی کی گانٹھیں ڈھوتے
سارے مشرق
سارے مغرب
گھوم آئے ہیں
پہلی رات اور پہلی بات کی خونیں گرہیں
کس کس اُنگلی کے ناخن سے کھلیں گی
کون بتائے
دُولہا کن کن حرفوں سے
دُلہن کے پہلو میں آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہین عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
سعید دوشی

کوکھ جلا سیارہ

یہ سیارہ جو بالکل بیضوی کشکول جیسا ہے
گلوبی گردشیں ساری
ہمیشہ سے اسی کے گرد گھومی ہیں
جو مقناطیس، مقناطیسیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں
تو پھر کمپاس کیا سمتیں بتائیں
یہاں دل ہی نہیں گھٹتا
بدن کا وزن بھی
تفریق در تفریق ہوتا
مثبتوں سے منفیوں کے دائروں میں گھومتا محسوس ہوتا ہے
مسلسل گردشوں پر
گر کوئی نظریں جمائے گا
تو پھر چکر تو آئیں گے
یہاں املی نہیں ملتی
فقط ناپید جیون ہی کے کچھ آثار ملتے ہیں
گہر ہونے کی خواہش میں
برسنے والی بوندیں
شیش ناگوں کے دہن میں جا ٹپکتی ہیں
جہاں سیپوں کی ناکوں میں
نکیلیں ڈال رکھی ہوں
وہاں پر زندگی کیسے نمو پائے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید دوشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
بازگشت

راجندرمنچندا بانی​

پیدائش : ۱۲۔ نومبر ۱۹۳۲ء (ملتان) وفات: ۱۱ ۔اکتوبر۱۹۸۱ء (دہلی)
کتابیں : حرفِ معتبر (۱۹۷۲ء)۔ حساب رنگ (۱۹۷۶ء)۔ شفق شجر (۱۹۸۳ء)


غزل​

نہ حریفانہ مرے سامنے آ، میں کیا ہوں
تیرا ہی جھونکا ہوں اے تیز ہوا ! میں کیا ہوں

رقص یک قطرۂ خوں ، آپ کشش، آپ جنوں
اے کہ صد تشنگیِ حرف و صدا !میں کیا ہوں

ایک ٹہنی کا یہاں اپنا مقدر کیسا
پیڑ کا پیڑ ہی گرتا ہے جُدا، میں کیا ہوں

اک بکھرتی ہوئی ترتیبِ بدن ہو تم بھی
راکھ ہوتے ہوئے منظر کے سوا میں کیا ہوں

تو بھی زنجیر بہ زنجیر بڑ ھا ہے مری سمت
ساتھ میرے بھی روایت ہے ، نیا میں کیا ہوں

کون ہے جس کے سبب تجھ میں محبت جاگی؟
مجھ میں کیا تجھ کو نظر آیا، بتا ! میں کیا ہوں

ابھی ہونا ہے مجھے اور کہیں جا کے طلوع
ڈوبتے مہر کے ہم راہ بجھا، میں کیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بانی)​
 

نوید صادق

محفلین
آخری صفحہ


سیّد آلِ احمد

غزل

نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں
میں خواب خواب بھنور آئنوں کو تکتا ہوں

نہ کوئی رنگِ توقع‘ نہ نقشِ پائندہ
کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں

کسے دکھاؤں وہ آنکھیں جو جیت بھی نہ سکا
کسے بتاؤں کہ کن آنسوؤں کا سپنا ہوں

نہ تازگی ہی بدن میں ، نہ پُرسکون تھکن
میں شاخِ عمر کا وہ زرد و سبز پتا ہوں

جہاں یقین کے تلو وں میں آبلے پڑ جائیں
میں حادثات کی ان گھاٹیوں میں اُترا ہوں

وہ نغمگی جسے سازِ سلیقگی نہ ملا
میں تشنہ رنج اُسی کا سراب پیما ہوں

یہ اور بات قرینے کی موت بھی نہ ملی
مگر یہ دیکھ کہ کس تمکنت سے زندہ ہوں

جو پڑ ھ سکے تو بہت ہے یہ ملگجی صورت
میں تیرے دُکھ کا بدن ہوں ، میں تیرا سایہ ہوں

ورق ورق ہوں مگر صحنِ زیست میں احمد
مشاہدات کے جوہر کا اک ذخیرہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید آلِ احمد​
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب شمارہ تھا، بعد میں تفصیل سے پڑھتا ہوں۔ اگر اس کی واحد فائل ہو تو ای بک بنائی جا سکتی ہے۔ اور وہ ’بیاض‘ کا بھی تم نے وعدہ کیا تھا نا، کیا ہوا۔
 

نایاب

لائبریرین
اب احباب چاہیں تو اس شمارے پر تبصرہ کریں

السلام علیکم
محترم نوید صادق بھائی
کیا اس شمارے کا ٹائٹل بھی پوسٹ کر سکتے ہیں آپ ۔؟
اور کیا اس کے پچھلے شمارے بھی آپ نے محفل پر پوسٹ کیئے ہیں ۔
اگر ان کے ربط عطا کر سکیں تو ۔
مہربانی
نایاب
 

فرخ منظور

لائبریرین
ارے واہ! یار نوید صادق صاحب!
بھائی آپ نے کبھی اس تاگے کا ذکر ہی نہیں کیا! نہ فون پر، نہ خط میں، نہ کسی ای میسیج میں! وہ تو میں آج اتفاق سے ادھر آ نکلا۔
اس کو جاری رہنا چاہئے تھا، جناب! روک کیوں دیا!؟

محمد وارث ، مغزل ، محمد خلیل الرحمٰن ،@الف عین ، مدیحہ گیلانی ، گل بانو ، فرخ منظور

جی نوید صادق صاحب منظر سے ہی غائب ہیں۔ ایک آدھ بار فون پر رابطہ ہوا ہے وہ بھی کافی مشکل سے۔ :)
 
Top