بناگوش تابندہ خورشید دار فردہشتہ زو حلقۂ گوشوار
لبان ازطبر زد زبان از شکر دہانش مکلّل بہ درد گہر
ان سادہ اور فطری مبالغون کو دیکھو "لبان ازطبر زد زبان از شکر"
لیکن یہ نہ سمجھنا کہ وہ مضمون آفرینی اور خیال بندی کے تکلّفات سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا اس انداز میں بھی وہ کسی سے کم نہیں۔
بہ دنباں چشمش یکے خال بود کہ چشم خودش ہم بہ دنبال بود
سہراب نے جب ایران کی سرحد میں پہنچ کر قلعہ سپید کا محاصرہ کیا ہے تو قلعہ سے ایک عورت مردانہ لباس پہن کر نکلی ہے اور سہراب سے جنگ آزما ہوئی ہے، دیر تک ردوبدل کے بعد سہراب نے اس کو گرفتار کیا۔ جہلم چہرے سے ہٹی تو معلوم ہوا کہ عورت ہے، سہراب فریفتہ ہوگیا۔لیکن عورت فریب دے کر نکل گئی۔ سہراب اب سپہگری چھوڑ کر عشق کا دم بھرنے لگا، دیکھو دیکھو فردوسی اس کے نالہ و زاری کو کس طرح ادا کرتا ہے،
ہمی گفت ازان پس دریغا دریغ کہ شد ماہ تابندہ در زیر تیغ
غریب آہوئے آمدم درکمند کہ از بند جَست و مراکردبند
عجب ہرن میں کمند میں آیا کہ خود چھوٹ کر نکل گیا اور مجھکو قید میں ڈال گیا
زہی چشم بندے کہ آن پرفسون بہ تیغم نہ خست و مراریخت خون
اس شعبدہ کو دیکھو کہ اس جادوگر نے مجھکو تلوار نہیں ماری لیکن میں قتل ہوگیا
ندانم چہ کرد آن فسون گربہ سن کناگہ مرا بست راہ سخن
بہ زاری مرا خود بیاید گریست کہ دلدار خود رانہ دانم کہ کیست
ہمی گفت و میسوخت ازغم بسے نمی خواست رازش بداند کسے
ولے عشق پنہان نماند کہ راز بمردم نماید ہمی اشک باز
غم جان برآردخروش ازدرون اگر چند عاشق بودذوفنون
اِن شعروں میں عشقیہ شاعری کی تمام ادائیں موجود ہیں۔ استعارات اور تشبیہات کا ہلکا سا رنگ ہے، شاعرانہ ترکیبیں بھی ہیں۔ ع کہ از بند جست و مراکرد بند۔