سوانح عمری فردوسی صفحہ 39

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نایاب

20axl61.jpg
 

نایاب

لائبریرین
(39)

یہ تمام باتیں شاہنامہ سے بہ تفصیل معلوم ہوتی ہیں ۔ نمونہ کے طور پر ہم چند مثالیں نقل کرتے ہیں ۔
(1) بثیرن کی مہم میں کیخسرو نے رستم کو زابل سے بلایا ہے ۔ اور اس کے لیئے باغ میں دربار کیا ہے ۔ دربار میں تخت زرین بچھایا گیا ہے ۔ اس پر ایک مصنوعی درخت نصب ہے ۔ جس کا سایہ بادشاہ پر پڑتا ہے ۔ درخت چاندی کا ہے ۔ یاقوت کی شاخیں ہیں ۔ موتیوں کے خوشے دانے ہیں ۔ زرین ترنج اور سیب پھیلے ہوئے ہیں ۔ جو مجوف ہیں اور ان کے اندر مشک کا برادہ ہے ۔ ہوا جب چلتی ہے تو مشک جھڑتی ہے ۔ اس کے قریب قریب وہ فرش تھا جو حضرت عمرکے زمانہ میں ایران کی فتح میں آیا تھا ۔ ان تمام باتوں کو فردوسی نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔
در باغ بکشادہ سالار بار
نشستگے ساخت بس شاہوار
بفر مودتا تاج زرین و تخت
نہاد نذر پر گل افشاں درخت
درختے ز ؟ نداز برگاہ شاہ
کجا سایہ گسترو برتاج و گاہ
تنش سیم و شاخس ز یاقوت (تخت )و زر
برو گو نہ گون خوشہ ہائے گہر
عقیق و زبرجد ہمہ برگ و بار
فرو ہشتہ از شاخ چوں گوشوار
ہمہ بار زرین ترنج و بہی
میان ترنج و بہی بدتہی
بدو اندروں مشک سودہ بہ مے
ہمہ پیکرش سفتہ برسان نے
کرا شاہ برگاہ بنشا ندے
براو باد ازان مشک بفشاندے
بیا مد نشست او بہ زرینہ تخت
یسر برش ریزندہ مشک از درخت
ہمہ مے گساران بہ پیش اندرا
ہمہ بر سراں افسر از گوہرا
ہمہ طوق بر سینہ و گوشوار
بہ بر ہمہ جامہ زرنگار،
(2) افراسیاب نے جب اپنی بیٹی فرنگیس کی شادی سیاؤش سے کی ہے اور فرنگیس سیاؤش کے گھر آئی ہے تو اس کی مہمانی اور عروسی کے سازوسامان کو اس طرح بیان کیا ہے ۔
بہ گنج انچہ بد اندرون نامدار
گزیدنذزربفت چینی ہزار
زبرجد طبقہا و فیروزہ جام
پر از نافہ مشک و پر عود خام
دو افسر پر از گوہر و گوشوار
دو یارہ یکی طوق و دو گوشوار
 

حسان خان

لائبریرین
(۳۹)

یہ تمام باتیں شاہنامہ سے بہ تفصیل معلوم ہوتی ہیں ۔ نمونہ کے طور پر ہم چند مثالیں نقل کرتے ہیں ۔
(۱) بیژن کی مہم میں کیخسرو نے رستم کو زابل سے بلایا ہے اور اُس کے لئے باغ میں دربار کیا ہے، دربار میں تخت زرین بچھایا گیا ہے، اُس پر ایک مصنوعی درخت نصب ہے، جس کا سایہ بادشاہ پر پڑتا ہے، درخت چاندی کا ہے، یاقوت کی شاخیں ہیں، موتیوں کے خوشے دانے ہیں، زرین ترنج اور سیب پھیلے ہوئے ہیں، جو مجوّف ہیں اور ان کے اندر مشک کا برادہ ہے۔ ہوا جب چلتی ہے تو مشک جھڑتی ہے۔ اسی کے قریب قریب وہ فرش تھا جو حضرت عمرکے زمانہ میں ایران کی فتح میں آیا تھا۔ ان تمام باتوں کو فردوسی نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
در باغ بکشادہ سالار بار
نشستگے ساخت بس شاہوار
بفر مودتا تاج زرین و تخت
نہادند زیر گل افشاں درخت
درختے زدند از بر گاہ (تخت) شاہ
کجا سایہ گسترد برتاج و گاہ
تنش سیم و شاخش ز یاقوت و زر
برو گونہ گون خوشہ ہائے گہر
عقیق و زبرجد ہمہ برگ و بار
فروہشتہ از شاخ چوں گوشوار
ہمہ بار زرین ترنج و بہی
میان ترنج و بہی بُد تہی
بدو اندروں مشک سودہ بہ مے
ہمہ پیکرش سفتہ بر سان نے
کرا شاہ بر گاہ بنشا ندے
براو باد ازان مشک بفشاندے
بیامد نشست او بہ زرینہ تخت
بسر برش ریزندہ مشک از درخت
ہمہ مے گساران بہ پیش اندرا
ہمہ بر سراں افسر از گوہرا
ہمہ طوق بر سینہ و گوشوار
بہ بربر ہمہ جامۂ زرنگار،
(۲) افراسیاب نے جب اپنی بیٹی فرنگیس کی شادی سیاؤش سے کی ہے اور فرنگیس سیاؤش کے گھر آئی ہے تو اُس کی مہمانی اور عروسی کے ساز و سامان کو اس طرح بیان کیا ہے ۔
بہ گنج انچہ بد اندرون نامدار
گزیدند زربفت چینی ہزار
زبرجد طبقہا و فیروزہ جام
پر از نافۂ مشک و پر عود خام
دو افسر پر از گوہر گوشوار
دو یارہ یکی طوق و دو گوشوار


تصریح:
"نشستگے ساخت بس شاہوار"
شاہنامہ کے متن کے مطابق یہاں 'نشستنگہے (نشستنگہے) ساخت بس شاہوار' آنا چاہیے۔ مصرعے کو وزن میں لانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ اب دیکھ لیجیے گا کہ یہاں تصحیح کرنی ہے یا کتابی متن برقرار رکھنا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top