یہ تمام کتابین عربی زبان میں تھیں،فارسی میں اسوقت تک ترجمے کے سوا کوئی مستقل تصنیف نہیں لکہی گئی تھی، غالباََ سب سے پہلی کتاب جو تاریخ ایران پر لکہی گئی وہ ابو علی محمد بن احمد البلخی کی تصنیف تہی جس ک نام اُس نے شاہنامہ رکھا تھا، اسی بنا پر کشف الظنون میں اُسکو شاہنامۂ قدیم لکہا ہے:
ابو ریحان بیرونی نے آثار الباٖقیہ میں لکہا ہے کہ مصنف نے دیباچہ میں لکہا ہے کہ میں نے اِس کتاب کا سرمایہ کتب مندرجۂ ذیل سے فراہم کیا۔ سیر الملوک عبداللہ۔بن المقنع۔سیرالملوک محمد بن جہم اکبر مکی۔ سیر الملوک ہشام بن القاسم۔ سیر الملوک بہرام شاہ بن مروان شاہ سیرالملوک بہرام اصفہانی۔ تصانیف بہرام مجوسی۔
غرض جب دقیقی نے شاہ نامہ لکہنے کا ارادہ کیا تاریخ عجم کا بہت بڑا ذخیرہ عربی و فارسی میں تیار ہو چکا تھا ۔ دقیقی نے سامانیوں کی فرمائش سے یہ کام شروع کیا تھا، سامانیوں کا کتب خانہ اُس زمانہ میں تمام عالم میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔شیخ بو علی سینا جب اول اول اس کتب خانہ میں داخل ہوا تو اس پر حیرت چھا گئی۔ چناچہ اس نے اقرار کیا ہے۔ کہ میں نے اتنا نادر اور عظیم الشان کتب خانہ اِس سے پہلے کبہی دیکہا تھا۔ نہ اس کے بعد دیکہا ،، دقیقی کےلئے یہ تمام تاریخی ذخیرہ مہیا کیا گیا ہو گا اور چونکہ سلطان محمود غزنوی،سامانیون ہی کا دست پرور اور اُن کو مٹا کر اُنکا جانشین بنا تھا۔ اِس لئے ہر طرح قرین قیاس ہے کہ وہ سب سامان محمود کو ہاتھ آیا ہوگا۔ اور فردوسی کو اِس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع یاد ہو گا ۔ یہ محض قیاس نہیں بلکہ مورخین کی تصریح سے اِس بات کی تائید ہوتی ہے کشف الظنون میں ہے
تاریخ الفرس لبعض قل ما ء اصل ، تاریخ ایران بعض قدمائے فارس و قد کا معظما عند العجم لما فیہ ا یران کی تصنیف ہے عجمی اس کتاب کی اسلئیے بہت عزت کرتے تھے کہ اسمیں انکے آباء اجداد اور سلاطین کے حالات تھے اور یہی کتاب شاہنامہ وغیرہ کا ماخذ ہے ابن امقنع نے اسکو پہلوی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1دیکہو کتاب مذکور مطبوعہ یورپ صفحہ 99۔