سوانح عمری فردوسی صفحہ 10

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
10


2iifrba.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از سیدہ شگفتہ

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-3#post-1540296

پے افگندم از نظم کاخ بلند

کہ از باد و باراں نیابد گزند

بسے رنج بردم دریں سال سی

عجم زندہ کردم بدین پارسی

چو برباد دادند گنج مرا

نہ بُد حاصلے سی و پنج مرا

اگر شاہ را شاہ بودے پدر

بسر بر نہادے مرا تاج زر

و گر مادرِ شاہ بانو بُدے،

مرا سیم و زر تا بزانو بُدے،

پرستارِ زادہ نیابد بکار

و گر چند وارد پدر شہریار

سر ناسزایان برافراشتن

و زیشان امید بہی داشتن

سر رشتہ خویش گم کردن است

بہ جیب اندرون مادر پروردن است

درختے کہ تلخ است ویراسرشت

گرش بر نشانی بہ باغ بہشت

دراز جوی خلدش بہ ہنگام آب

بہ بیخ انگبین ریزی و شہد ناب

سر انجام گوہر بہ کار آورد،

ہمان میوہ تلخ یار آورد،

ز بد اصل چشم بہی داشتن

بود خاک دردیدہ اپناشتن

ازان گفتم این بیتہائے بلند

کہ تا شاہ گیرد ازین کارپند

کہ شاعر چو رنجد بگوید ہجا

بماند ہجا تا قیامت بجا


کلام کی جہانگیری دیکہو محمود نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں مٹا دین ملک کے ملک غارت کر دیئے، عالم کو زیر و زبر کر دیا، لیکن فردوسی کی زبان سے جو بول نکل گئے آج تک قائم ہیں اور قیامت تک نہیں مٹ سکتے۔


فردوسی غزنین سے نکلا تو اس بے سر و سامانی سے نکل کر ایک چادر اور عصا کے سوا کچھ پاس نہ تھا، احباب اور ودردانوں کی کمی نہ تھی لیکن معتوب شاہی کو کون پناہ دے سکتا تھا تاہم ایاز نے یہ جرات کی کہ جب فردوسی شہر سے باہر نکل گیا تو مخفی طور پر کچھ نقدی اور سامان سفر بھجوا دیا۔ فردوسی ہرات میں آیا اور اسمٰعیل کے ہان مہمان ہوا۔ چونکہ سلطان محمود نے ہر طرف فرمان بھیجدیئے تھے کہ فردوسی جہاں ہاتھ آئے گرفتار کر کے بھیجدیا جائے، چہہ مہینہ تک روپوش رہا۔ شاہی جلوس ہرات میں آئے لیکن فردوسی
 

حسان خان

لائبریرین
پے افگندم از نظم کاخ بلند
کہ از باد و باران نیابد گزند

بسے رنج بردم دریں سال سی
عجم زندہ کردم بدین پارسی

چو برباد دادند گنج مرا
نہ بُد حاصلے سی و پنج مرا

اگر شاہ را شاہ بودے پدر
بسر بر نہادے مرا تاج زر

و گر مادرِ شاہ بانو بُدے،
مرا سیم و زر تا بزانو بُدے،

پرستار زادہ نیاید بکار
وگر چند وارد پدر شہریار

سر ناسزایان برافراشتن
و زیشان امید بہی داشتن

سر رشتۂ خویش گم کردن است
بہ جیب اندرون مار پروردن است

درختے کہ تلخ است ویرا سرشت
گرش بر نشانی بہ باغ بہشت

ور از جوی خلدش بہ ہنگام آب
بہ بیخ انگبین ریزی و شہد ناب

سر انجام گوہر بہ کار آورد،
ہمان میوۂ تلخ بار آورد،

ز بداصل چشم بہی داشتن
بود خاک در دیدہ انپاشتن

ازان گفتم این بیتہائے بلند
کہ تا شاہ گیرد ازین کار پند

کہ شاعر چو رنجد بگوید ہجا
بماند ہجا تا قیامت بجا

کلام کی جہانگیری دیکہو محمود نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں مٹا دین ملک کے ملک غارت کر دیئے، عالم کو زیر و زبر کر دیا، لیکن فردوسی کی زبان سے جو بول نکل گئے آج تک قائم ہیں اور قیامت تک نہیں مٹ سکتے۔

فردوسی غزنین سے نکلا تو اِس بے سر و سامانی سے نکل کر کہ ایک چادر اور عصا کے سوا کچھ پاس نہ تھا، احباب اور قدردانوں کی کمی نہ تھی لیکن معتوب شاہی کو کون پناہ دے سکتا تھا تاہم ایاز نے یہ جرأت کی کہ جب فردوسی شہر سے باہر نکل گیا تو مخفی طور پر کچھ نقدی اور سامان سفر بھجوا دیا۔ فردوسی ہرات میں آیا اور اسمٰعیل وراق کے ہان مہمان ہوا۔ چونکہ سلطان محمود نے ہر طرف فرمان بھیجدیئے تھے کہ فردوسی جہاں ہاتھ آئے گرفتار کر کے بھیجدیا جائے، چہہ مہینہ تک روپوش رہا۔ شاہی جلوس ہرات میں آئے لیکن فردوسی
 
Top