آتش سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

یہ غزل پہلے فرخ منظور محفل پر شریک کر چکے ہیں
مکمل غزل ہاتھ لگی سو یہ غزل فرخ منظور کے نام کرتا ہوں

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

کیا کیا الجھتا ہے تیری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا

زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز بکف
قاعدوں نے راستہ میں لٹایا خزانہ کیا

اڑتا ہے شوقِ راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا

زینہ صبا کو ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

صیاد اسیرِ دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

ہوتا ہے زر و سن کے جو نا مرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

بے یار ساز گار نہ ہو گا وہ گوش کو
مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا

صیاد گل غدار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

ترچھی نظر سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا

بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں، سرائے جسم کا ہو گا ردانہ کیا

یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
 
Top