جون ایلیا سلامتی - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اب ہمارا ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، ہاں، اور کیا ہوا ہے۔ یہی تو ہوا ہے کہ جو ہمارا دکھ ہے، اب وہ تمہارا دکھ نہیں ہے اور جو تمہارا دکھ ہے، اب وہ ہمارا دکھ نہیں ہے۔ سارے رشتے ٹوٹ گئے ہیں۔ بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ توڑ دیے گئے ہیں۔ ہمیں بانٹ دیا گیا ہے اور بری طرح بانٹ دیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کی طرف تپاک سے بڑھنے والے ہاتھوں کو بڑی چابک دستی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ وہ بات ہے جس پر میں بھی غصے سے پیچ و تاب کھاتا ہوں اور تم بھی غصے سے پیچ و تاب کھاؤ۔

پیشہ ور سیاست دانو! تمہارا ستیاناس جائے۔ ہاں، پیشہ ور سیاست دانوں کا ستیاناس جائے۔ یہ نفاق میں سانس لیتے ہیں اور افتراق میں پھیلتے پھولتے ہیں۔ یہ ایک زمانے سے ہاتھ دھو کر ہمارے اور تمہارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

اب تو کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم ایک دوسرے کی صورت تک نہیں پہچانتے اور ایک دوسرے کا نام تک نہیں جانتے۔۔۔ اب اگر ہمیں کبھی ایک دوسرے کے نام یاد بھی آتے ہیں تو گالیاں دینے کے لیے۔ چلو گالیاں ہی دو، پر ایک دوسرے کے نام تو یاد رکھو، آخر کوئی تو رشتہ باقی رہے۔

اس شہر میں رہنے والے قبیلوں کے تیور دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے جیسے یہ جدا جدا سیاروں میں رہنے والی مخلوق ہوں۔ اردو بولنے والے مشتری کے باشندے ہوں۔ پنجابی بولنے والے مریخ کے، سندھی بولنے والے عطارد کے اور پشتو بولنے والے زہرہ کے اور پھر کچھ ایسا ہوا جیسے انہیں زبردستی کرۂ ارض کے اس حصے میں اکٹھا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک دوسرے سے عاجز آ گئے ہیں۔ ہاں، ہم ایک دوسرے سے عاجز ہی تو آ گئے ہیں۔

ایسی بیزاری! ایسی دشمنی! ہم ہر لمحہ خوف میں رہتے ہیں۔ ہم وحشت میں سوتے ہیں اور وحشت میں جاگتے ہیں کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے! نہ جانے کن نامعلوم سنگ دلوں‌ کے سر پر خون سوار ہو جائے اور اپنی اپنی پریشانیوں میں الجھے ہوئے معصوم راہ گیر خون میں لت پت ہو جائیں۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ میدان صاف ہے، بڑھو اور جو بھی سامنے آئے اُسے خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بے ساختہ کارگزاری دکھاؤ۔ نہ مقتول کوئی غیر ہے اور نہ قاتل۔ لاشے گراؤ اور لاشے اٹھاؤ۔ جشن کے ساتھ سوگ اور سوگ کے ساتھ جشن مناؤ۔ گلیاں گِلے کرتی ہیں اور پھاٹک پھٹکارتے ہیں کہ ہم میں سے ہو کر گزرنے والے اب حد سے گزر گئے ہیں۔ جو بھی گھر سے نکلتا ہے، وہ اس طرح نکلتا ہے جس طرح تلوار نیام سے نکلتی ہے۔ دریچے اور دروازے سہمے ہوئے رہتے ہیں‌کہ یہ جو اٹھ کر ابھی ابھی چار دیواری سے باہر گئے ہیں، کہیں ان کے لاشے اٹھا کر نہ لائے جائیں۔ کچھ دن سے خیریت ہے، پر کیا خبر کل کیا ہو جائے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ فضا کن پیشہ ور مجرموں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ یہ اُن مجرموں کی پیدا کی ہوئی ہے جنہیں خوں ریز حادثے ہی پناہ دے سکتے ہیں اور جو اِن حادثوں ہی کی گرم بازاری میں اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں۔ واویلا! کہ جو بھی گھر سے باہر ہے، وہ سرخ موت کے منہ میں ہے۔

وہ شہر جو روشنیوں کا شہر تھا، اب ویران سا ہو گیا ہے۔ اس کی بستیاں آپس میں ایک دوسرے کو ہلاکت کے دھماکوں‌اور دہاکوں کی سوغاتیں بھیجتی رہی ہیں۔ بستیوں کی رونق تباہ کی جاتی رہی ہے اور تباہ کرنے والے کسی غنیم کے آدمی نہیں ہیں بلکہ ان بستیوں ہی کے نوخیز فرزند ہیں۔ اپنے اپنے گروہوں کے دلبند اور اور اپنے اپنے قبیلوں کے ارجمند ہیں۔ اطمینان اور سکون کا سانس لیا جائے کہ بچے بڑے نہیں ہوئے بلکہ وقت کے بھیانک فتنوں کی مسیں بھیگی ہیں۔ سلامتی ہو، سلامتی ہو کہ قوم کے نوجوان ایک دوسرے کو خون میں نہلاتے ہیں اور خود بھی خون میں نہلائے جاتے ہیں۔ تمہاری عمر دراز ہو کہ تمہیں پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تمہارے نام روشن ہوں کہ تمہارے نام ہی نہیں رکھے جانے چاہیے تھے۔ ان بستیوں کو آباد دیکھنا ہے تو دعا کرو کہ بچے پیدا ہوتے ہی بوڑھے ہو جایا کریں‌ کہ ان بستیوں کو اپنے بچوں کی جوانی راس نہیں آئی۔

(سسپنس ڈائجسٹ، اکتوبر ۱۹۸۹)
 
Top