سعودی عرب: وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ- 2012 سے 2014

140428011205_mers_saudi_304x171_afp_nocredit.jpg

سعودی عرب میں کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے
سعودی عرب نے کہا ہے کہ سنہ 2012 سے اب تک کم از کم سو سے زیادہ مریض مرس نامی کرونا وائرس کی زد میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب کے محکمۂ صحت نے کہا ہے کہ اتوار کو اس وائرس سے مزید آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس طرح اب اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 102 ہوگئی ہے۔
وزیر صحت نے کہا کہ ریاض، جدّہ اور دمام کے تین ہسپتالوں میں مرس کے علاج کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مرس نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے بخار، سرسام یا نمونیا اور گردے ناکارہ ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے انفیکشن کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے سعودی عرب سے انفیکشن کی جانچ میں امداد کی پیش کش کی ہے۔
سعودی عرب کے محکمۂ صحت نے ان اموات کی معلومات اتوار کو دیر سے فراہم کی۔
اس وائرس کے تازہ ترین شکار افراد میں ایک بچہ شامل ہے جو دارالحکومت ریاض میں چل بسا جبکہ تین افراد مغربی جدّہ شہر میں اس کا شکار ہوئے۔
وزارت صحت نے کہا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں مرس کے 16 نئے معاملے سامنے آئے ہیں۔

140422114735_saudi_health_minister_304x171_reuters.jpg

وزیر صحت عبداللہ الربیعہ کو پیر کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گيا
واضح رہے کہ مرس یا ’مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم‘ مشرق وسطی کے تنفس کے مسائل کا مخفف ہے یعنی یہ مرض اس علاقے سے مخصوص ہے۔
سنیچر کو مصر میں ایسا پہلا کیس درج کیا گیا جب ایک 27 سالہ شخص میں اس بیماری کی تشخیص ہوئي جو حال ہی میں سعودی عرب سے وہاں پہنچا تھا۔
وزیر صحت عادل فقیہ نے کہا کہ اس بیماری کے علاج کے لیے تین ہسپتالوں میں سپیشلسٹ سہولیات فراہم کی گئی ہیں جہاں 146 مریضوں کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا جا سکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی باشندوں نے سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں حکومت کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مرس سے مرنے والوں کی تعداد میں آئے دن اضافے کے دوران گذشتہ پیر کو سعودی عرب کے وزیر صحت عبداللہ الربیعہ کو بغیر کسی وضاحت کے ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گيا ہے۔
 
Transmission[edit]
On 13 February 2013, WHO stated "the risk of sustained person-to-person transmission appears to be very low."[19] The cells MERS-CoV infects in the lungs only account for 20% of respiratory epithelial cells, so a large number of virions are likely needed to be inhaled to cause infection.[17]

As of 29 May 2013, the World Health Organization is now warning that the MERS-CoV virus is a "threat to entire world."[20] However, Dr. Anthony Fauci of the National Institutes of Health in Bethesda, Maryland, stated that as of now MERS-CoV "does not spread in a sustained person to person way at all." Dr. Fauci stated that there is potential danger in that it is possible for the virus to mutate into a strain that does transmit from person to person.[21]
The infection of healthcare workers (HCW) leads to concerns of human to human transmission.[22]
 
http://mag.dunya.com.pk/index.php/special-report/605/2013-07-21
نوول کرونا وائرس

605_50733202.jpg

حجاج کرام ... نئی بیماری سے خبردار رہیں *** عرب ممالک کو دہشت زدہ کرنے والا مہلک جرثومہ

2003ء میں عالمی ادارہ صحت نے ایک وائرس کا پتہ چلایا تھا جسے سارس(Sars) کا نام دیاگیا ۔اس وائرس نے ساری دنیا کو پریشان کر دیا تھا۔ اس سال ایک اور وائرس تباہی کا منہ کھولے بیٹھا ہے۔ حج اور عمرہ کے لیے سعودی عرب جانے والے عازمین کیلئے احتیاطی تدابیر میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ایک نئے وائرس سے ہر ممکن بچا جائے اور اس وائرس کا نام ہے نوول کرونا وائرس یا Mers۔ یہ وائرس بھی سارس کی طرح بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس سال سارس نے تقریباً 800 سے زائد لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق مارس اور سارس ایک ہی فیملی سے تعلق رکھنے والے وائرس ہیں اور یہ اس قدر تیزی سے پھیلتے ہیں کہ بچائو کی تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لوگ اس کا نشانہ بنتے ہیں یہاں تک کہ ہسپتال کا عملہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہتا۔ اس سے بہت سے مریض موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور بہت سے متاثرہ افراد زندگی اور موت کے بیچ لٹکے ہوئے ہیں۔ عالمی ادارے اور صحت کے ماہرین اس کی کھوج میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگ رہا۔ ابتدائی علامات کے مطابق یہ مرض بنیادی طور پر مشرقی وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہے اور آج کل سعودی عرب کی سرزمین کے لوگ اس کی خوراک بن رہے ہیں۔ اس نئی بیماری کو بائیولاجیکل سائنس دانوں نے Middle East Respiratory syndrome کا نام دیا جس کا مختصر Mers بنتا ہے۔ اسی وائرس کہ نوول کرونا وائرس بھی کہا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں mers یا نوول کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 60 تک پہنچ چکی ہے جن میں 38 اموات واقع ہوئی ہیں۔ گزشتہ تلخ تجربے کی بنا پر عالمی ادارہ صحت نے جلد ہی اس پر کام شروع کردیا۔ یاد رہے کہ 2003ء میں سارس کے پہلے مریض کا پتہ چلا تھا اور یہ اتنی تیزی سے پھیلا کہ پوری دنیا میں پریشانی کا باعث بنا۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ دونوں وائرس جانوروں سے جیسے بکری، اونٹ اور بلیوں سے پھیلتے ہیں۔ اس مرض میں سب سے پہلے مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے والے اس کا نشانہ بنتے ہیں اور اس کے بعد یہ دوسروں تک پھیلتا ہے۔ جون ہوپ کنز میڈیسن کے ڈاکٹر ٹیرش پرل کے مطابق Mers کا وائرس سارس سے ملتا جلتا ہے۔ ڈاکٹر پرل کے مطابق یہ کھوج لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آخر یہ مرض اتنی تیزی سے کیسے پھیلتا ہے۔ اس کے پھیلائو کی شرح 52 فیصد جبکہ مرنے والوں کی شرح 8 فیصد ہے۔ نوول کرونا وائرس یاMers نے عرب ممالک کو دہشت زدہ کردیا ہے۔ کویت عراق یمن اور متحدہ عرب امارات اس کی زد میں آنے والے عرب ممالک ہیں اور سعودی عرب میں تو ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حاجی اور کارکن آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کو اس مرض سے نبٹنے کے لیے خصوصی انتظامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس کی تحقیق کے لیے خصوصی فنڈز کا اجراء بھی کیا گیا ہے اور ایئر پورٹس سے لیکر ہوٹلوں اور گھروں تک تمام افراد کو خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ایک اور یورپی ڈاکٹر کیمرون جو کہ سعودی عرب میں تعینات ہیں نے بتایا کہ ایک مریض ہسپتال آیا فوراً ہی اس کی موت واقع ہوگئی حالانکہ اس کی جان بچانے کے لیے فوری طور پر ممکنہ اداروں کا استعمال دوائوں کا استعمال کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔اس مرض کی بھینٹ چڑھنے والوں میں بڑی تعداد حاجیوں کی ہوسکتی ہے۔ لوگ پوری دنیا سے حج کی سعادت اور خدا کے گھر کی زیارت کے لیے سعودی عرب آتے ہیں۔ اس عالمی اجتماع کو یہ مرض متاثر کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے لہٰذا حاجیوں کو از خود ہی حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہونگی۔ سعودی عرب کی حکومت اس ضمن میں کسی قسم کی لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ یہاں آنے کے لے پولیو کے قطرے بھی پینے پڑتے ہیں حالانکہ سعودی عرب کے اس اقدام پر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ اب نوول کرونا وائرس یا Mers سعودی عرب کے لیے ایک چیلنج ہے اور اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے ساری دنیا کے عازمین کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔ ماہرین کو اس بات کی فکر کھائی جارہی ہے کہ رمضان کے موقع پر عمرے کے لیے آنے والے زائرین اس کی لپیٹ میں نہ آجائیں اور یوں یہ مرض سعودی عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل جائیگا۔ پہلی رپورٹ نوول کرونا وائرس یا Mers کے حوالے سے پہلی رپورٹ 24 ستمبر 2012 میں ماہر وائرس ڈاکٹر علی محمد ذکی نے جدہ میں چھاپی۔ اس مصری ڈاکٹر نے 60 سالہ مریض جو کہ نمونیہ کے مرض میں مبتلا ہوکر ڈاکٹرز کے پاس آیا تھا۔ ڈاکٹر ذکی نے اس کی تشخیص کرکے اپنے تمام مشاہدات کو پرومیڈمیل میں بھجوائے۔ مارس کی علامات میں شدید نوعیت کا نمونیہ اور کھانسی شامل ہے۔ مارس کے پہلے مریض کو 7 دن بخار رہا اس دوران اسے شدید کھانسی کا دورہ پڑتا اور سانس لینا مشکل ہوجاتا تھا۔ مارس کا دورانیہ تقریباً 12 دن کا ہے۔ سعودی عرب میں نوول کرونا وائرس سعودی عرب کی وزارت صحت کے حکام نے سعودی عرب آنیوالے زائرین کو ہدایت کی ہے کہ وہ کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ماسک کا استعمال کریں۔برطانوی نشریاتی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق وزارت صحت نے بڑی عمر کے زائرین کیلئے ضروری اشیاء کی ایک طویل فہرست جاری کی ہے اور شدید بیمار مریضوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سعودی عرب زیارت کیلئے آنے کا اپنا پروگرام ملتوی کر دیں۔ امسال ماہ اکتوبر میں دنیا بھر سے لاکھوں افراد سعودی عرب حج کرنے کیلئے آئیں گے جبکہ رمضان میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد عمرے کے لئے بھی یہاں آتی ہیں۔ یہ لوگ حجاج کرام حج کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ دیگر مقامات کی زیارت اور خصوصاً مسجد نبوی میں 40 نمازوں کی ادائیگی کیلئے مدینہ منورہ بھی جائیں گے۔ وزارت صحت نے زائرین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی ذاتی صحت و صفائی کا معیار برقرار رکھیں اور چھینک اور کھانسی آنے کی صورت میں ٹشو پیپر استعمال کریں اور ضروری ویکسینیشن کرائیں۔ اردن میں نوول کرونا وائرس اپریل 2012ء کو اردن کے ایک ہسپتال میں چھ کارکنوں کی سانس بغیر کسی کسی وجہ کے بند ہوئی تو تشخیص کرنے پر بات سامنے آئی کہ یہ لوگ نوول کرونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ چھ میں سے دو مریض موت کا شکار ہوئے۔ ان مریضوںکی تشخیص پر مبنی رپورٹ یورپین سنٹر کو بھجوا دی گئی۔ یہاں کی لیبارٹری میں مرنے والے مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا گیا تو نوول کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی۔ انگلینڈ میںنوول کرونا وائرس فروری 2013ء کو انگلینڈ میں نوول کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا۔ ایک ادھیڑ عمر کا مریض جس نے حال ہی میں پاکستان اور سعوی عرب کا دورہ کیا تھا اس مرض کا شکار ہوا۔ عالمی سطح پر اس مرض کا یہ دسواں کیس تھا۔ اس مریض کی موت 19 فروری 2013ء کو ہوگئی۔ انگلینڈ کا ایک اور شہری جو 49 سال کا تھا اور سعودی عرب کے دورے پر تھا تو اسے سانس کی بیماری کا مسئلہ درپیش آیا۔ اسے فوری طور پر ایئر ایمبولینس کے ذریعے دوہا سے لندن شفٹ کیا گیا جہاں اسے سینٹ میری ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔ مختلف ٹیسٹوں کے بعد یہ شخص بھی نوول کرونا وائرس کا شکار ثابت ہوا۔ اس طرح کا ایک اور مریض جو مڈل ایسٹ سے انگلینڈ لوٹا تھا 28 جون 2013ء کو موت کا شکار ہوا۔ فرانس میں نوول کرونا وائرس 7 مئی 2013 کو ایک شخص جو دبئی اور متحدہ عرب امارات سے فرانس لوٹا تو اسے سانس کی بیماری کا عارضہ ہوا۔ فرانسیی منسٹری آف سوشل افیئرز اینڈ ہیلتھ نے اس شخص کو بھی اس وائرس کا شکار قرار دیا۔ فرانس کی سرکار نے نوول کرونا وائرس کے پہلے اس مریض کی موت کی تصدیق کردی۔ یہ شخص 28 مئی 2013ء کو موت کی وادی میں اتر گیا۔ تنونس میں نوول کرونا وائرس 20مئی 2013ء کو اس وائرس سے متاثرہ ایک شخص زندگی کی بازی ہار گیا۔ تیونس دنیا کا آٹھواں ملک ہے جہاں اس وائرس سے اموات واقع ہوئیں۔ تیونس کے علاوہ اردن، سعودی عرب، قطر، انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور متحدہ عرب امارات میں یہ وائرس اپنے شکاروں کی تلاش میں دھاک لگائے بیٹھا ہے۔ نئے وائرس کا نام جراثیم اور وائرس کے ناموں کی اپنی تاریخ ہوتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں لوگوں کو ہلاک کرنے والے اس نئے وائرس کو طرح طرح کے ناموں سے پکارا جارہا ہے۔ جب گزشتہ سال پہلی مرتبہ اسے دریافت کیا گیا تو اس ’’ ہیومن بیٹا کرونا وائرس ٹو سی ای ایم سی ‘‘کہا گیا۔ اس میں ٹو سی انگلینڈ اور قطر کیلئے تھا پھر اردن میں دریافت کے بعد اسے اردن این تھری کہا گیا۔ آخر میں ماہرین نے اسے ‘ نوول کرونا وائرس’ کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے تاج کی شکل جیسا وائرس۔ لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق جس انداز سے اموات ہورہی ہیں وہ بہت تشویشناک ہیں۔اسے ماہرین نے ایک اور نام دیا ہے اور وہ ہے’’ ایم ای آر ایس‘‘ یعنی مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم۔ اقوامِ متحدہ کی وارننگ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کسی نئے وائرس کی وبا سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ چین میں نئے برڈ فلو وائرس H7N9 اور مشرقِ وسطیٰ میں نوول کرونا وائرس نمودار ہونے کے تناظر میں یہ بات کہی گئی ہے۔اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ دنیا تیزی سے پھیلنے والی وائرسی وبا کا مقابلہ اس لئے نہیں کرسکتا کہ فوری ردِ عمل اور روک تھام کا کوئی نظام سامنے نہیں آ سکا۔جبکہ ان وائرس کے بارے میں ابھی ہماری معلومات بھی ناکافی ہیں۔ جب لوگ نئی نمودار ہونے والی بیماریوں سے متاثرہ ہوتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آپ کوئی کتاب دیکھیں اور اس سے علاج کریں۔’ عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ماہر کائجی فوکوڈا نے کہاکہ اگر دونوں وائرس ( کرونا اور ایووین) بڑے پیمانے پر امراض پھیلاتے ہیں تو دنیا ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔سارس کی طرح کے نئے نوول کرونا وائرس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا تیزی سے پھیلنا ایک غیر معمولی عالمی واقعہ ہے۔فوکوڈا نے کہا کہ شاید ہمارے سامنے 2003 جیسی صورتحال ہے جب دو سارس وائرس نمودار ہوئے تھے۔آج ہمیںاس وائرس کو ختم کرنے کے لئے دنیا کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ٭٭
 
صحت کے حکام (MERS) coronavirus نے 25 نئے انفیکشن کیس رپورٹ کیے اور مملکت میں مرنے والوں کی تعداد 111 ہو گئی ہے
جمعہ اور ہفتہ کو25 نئے مریضوں کی تصدیق کی - نئی بیماریوں کے لگنے میںاب تک کا سب سے بڑا روزانہ اضافہ ہے
جب ستمبر 2012 مین وائرس دریافت کیا گیا تھا سے لے کر اب تک مملکت میں مریضوں کی کل تعداد 396 ہو گئی ہے
ربط
 

طالوت

محفلین
دن بدن بڑھتے ہوئے واقعات اور اب رمضان کی بھی آمد آمد ہے اور اس کے بعد حج کا سلسلہ ۔ ویکسین کی دریافت میں بھی ناکامی کا سامنا ہے ۔میں تو آئندہ جمعہ کے اجتماعات میں شرکت سے بھی گریز کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ عرصے کے لیے گوشت کھانے سے پرہیز کریں، خاص کر اونٹ کے گوشت سے۔

ویسے یہ بیماری مصر اور امریکہ پہنچ چکی ہے۔
 
Top